(عدالت میں کوئی معاہدہ ہوا کہ کوئی اپنا الہام شائع نہ کرے؟)
جناب یحییٰ بختیار: یہ گورداسپور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا کورٹ تھا۔
مرزا ناصر احمد: …بتاریخ ۲۴؍فروری۱۸۹۹ء بروز جمعہ، اس طرح پر اس کا فیصلہ ہوا کہ: ’’فریقین سے اس مضمون کے نوٹسوں پر دستخط کرائے گئے کہ آئندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ، دِل آزار مضمون کی پیش گوئی نہ کرے، شائع نہ کرے۔‘‘
یہ ۲۴؍فروری۱۸۹۹ء ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے چھ سال قبل ہی اعلان خود اپنے طور پر بانیٔ سلسلۂ احمدیہ کرچکے تھے۔ ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء کو یہ اعلان ہوا ہے، ۲۰؍فروری۱۸۸۶ئ: ’’اس عاجز نے اِشتہار ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء میں اندرمن مرادآبادی اور لیکھ رام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہش مند ہوں تو ان کی قضاوقدر کی نسبت بعض پیش گوئیاں شائع کی جائیں۔ سو اس اِشتہار کے بعد اندرمن نے تو اِعتراض کیا (اس واسطے اس کے متعلق پیش گوئی شائع نہیں کی گئی۔ یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں۔ الفاظ یہ ہیں کہ) اس اِشتہار کے بعد اندرمن نے تو اِعتراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہوگیا۔ لیکن لیکھ رام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیش گوئی چاہو شائع کردو، میری طرف سے اِجازت ہے۔‘‘
اسی طرح اس فیصلے سے قبل آپ نے ایک اِشتہار میں یہ اِعلان کیا، اس فیصلے سے قبل: ’’میرا اِبتدا سے ہی یہ طریق ہے کہ میں نے کبھی کوئی اِنذاری پیش گوئی بغیر رضامندی مصداق پیش گوئی کے شائع نہیں کی۔‘‘
1350تو عدالت اس کی Bound (پابند) نہیں ہے، بلکہ جو پہلے اپنے آپ کو جس چیز میں باندھا ہوا تھا، عدالت کا چونکہ وہی فیصلہ تھا آپ نے اس پر دستخط کردئیے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس پر مرزا صاحب! ایک سوال آتا ہے کہ یہ جو انہوں نے پہلے اِشتہار دیا تھا کہ: ’’میں نے اپنے آپ کو پابند کیا تھا ۱۸۸۶ء میں‘‘ ___ ۱۸۸۶ء میں تو انہوں نے نبوّت کا دعویٰ نہیں تھا کیا۔
مرزا ناصر احمد: جی؟
جناب یحییٰ بختیار: ۱۸۸۶ء میں تو مرزا صاحب نے نبوّت کا دعویٰ نہیں تھا کیا۔
مرزا ناصر احمد: ۱۸۸۶ء میں نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا، ملہم ہونے کا دعویٰ کیا۔