• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عقیدہ ختم نبوت اور ابن عربیؒ و شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ

محمد دانش

رکن ختم نبوت فورم
ایک قادیانی گروپ میں جہاں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول سے اجرائے نبوت کا دھوکہ دیا ہوا تھا اس پر میری ایک صاحب سے گفتگو ہوئی یہاں پاسٹ کر رہا ہوں:

راقم:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمه اللہ کا عقیدہ ختم نبوت اگر یہاں لکھ دیا جائے تو احمدی حضرات نے سب سے پہلے ان کے حجت نہ ماننے کا فیصلہ دینا ہے۔ یہ صرف کٹ پیس لگا کر اور ان میں بھی ذاتی تشریحات ڈال کر منصوب ان کی طرف کرنا یہ دجل ہے۔
مربی صاحب:
یہ لو, یہ حوالہ اصل کتاب سے ہے

راقم:
جی جناب بتلائیں یہاں سے کیسے "قادیانی نبوت" کا راستہ کھلا ہونے کا ثبوت ملتا ہے؟
مربی صاحب:
اگر آپ کو نظر نہیں آتا تو آپ ترجمہ کریں, ابھی پتہ چل جائے گا۔
راقم:
جناب مجھے نظر آتا ہے اسی لئے پوچھا ہے۔ ترجمہ آپ ہی کریں اور ساتھ یہ وضاحت بھی کریں کس طرح شاہ صاحب کی اس سٹیٹمنٹ سے وہ نبوت جس کو قادیانی حضرات مانتے ہیں کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
مربی صاحب:
یہاں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع فرماتے ہیں کہ
آنحضرت ﷺ پر نبی اس طرح ختم کیے گئے ہیں کہ ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں پر نئی شریعت دے کر معمور کرے۔
راقم:
جناب امت مسلمہ کے نزدیک اور ان کے لٹریچر میں ہر نبی/رسول کی نبوت تشریعی ہوتی ہے۔ چاہے وہ الگ شریعت لائے یہ سابقہ شریعت کے احکام پر عمل کرے یا ان کو منسوخ کرے اگر ثانی الذکر کرے تو سابقہ نبی کی شریعت اس کی شریعت ہو گی۔ یعنی جو نبی بھی ہو گا وہ صاحب شریعت ہو گا اور اس کی نبوت ہمیشہ تشریعی ہی ہو گی۔
اور غیر تشریعی سے مراد ولایت ہوتی ہے جس میں اولیا کے کشوف وغیرہ داخل ہیں۔ جو واجب الاطاعت نہیں ہیں۔
جب کہ قادیانی حضرات کی نزدیک ان اصطلاحات کی معانی دیگر ہیں۔ وہ غیر تشریعی نبوت سے مراد انبیاء کرام میں سے وہ انبیاء جو سابق شریعت کی پیروی کرتے ہیں ان کی نبوت کو لیتے ہیں۔
اس لئے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر
ختم به النبيون ايی لا يوجد بعده من يامره الله سبحانه بالتشريح علی الناس یعنی نبیوں کو ان پر ایسے ختم کر دیا گیا کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے۔
کا مطلب یہ ہو گا کہ نبوت جو انبیاء سے خاص ہے وہ بند ہو چکی ہے اور یہی امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ اس لئے یہ تحریر ہمیں مفید ہے نہ کہ آپ کو۔
مربی صاحب:
جناب پہلی بات تو یہ کہ یہ امت مسلمہ کا عقیدہ نہیں بلکہ آپ کا عقیدہ ہے اس لئے ایسی باتیں لکھ کر بلاوجہ وقت ضائع نا کریں
دوسری بات یہ بتائیں کہ اگر کوئی نبی پہلی شریعت پر ہی عمل کرے اور اپنی الگ سے کوئی شریعت نہ لائے اور نہ ہی پہلی شریعت کو منسوخ کرے تو وہ صاحب شریعت کیسے کہلائے گا؟
راقم:
جناب یہ امت مسلمہ کا ہی عقیدہ ہے اور اس پر تصریحات موجود ہیں۔ ہاں قادیانی حضرات کا یہ عقیدہ نہیں جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا۔ چونکہ ہر نبی مطاع ہوتا ہے اور کسی کا مطاع ہونا تب ہے جب اس کی کوئی تعلیم ہو۔ اگر وہ جدید شریعت نہ لائے تو بھی اس کا مطاع ہونا لازم ہے اس لئے سابق شریعت اسی کی شریعت تصور کی جائے گی اور اسی لحاظ سے اس کو صاحب شریعت کہا جائے گا۔
مربی صاحب:
جناب جماعت احمدیہ کے علاوہ بھی بہت سے فرقے ہیں جو پاکستان کے قانون کے مطابق مسلمان ہیں مگر ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے, اس لئے آپ اپنی یہ خوش فہمی دور کر دیں
دوسری بات, کیا آپ کے خیال میں تمام نبی صاحب شریعت ہوتے ہیں؟
راقم:
جناب اس بات کو تو ایک وقت تک مرزا صاحب بھی مانتے تھے...."نبی غیر شرعی نبی نہیں ہوتا؟" میں اوپر اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔
مربی صاحب:
جناب باقی دلائل تو میں کچھ دیر کے بعد دوں گا, آپ ابھی اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیں کہ یہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے



اگر آپ کے خیال میں تمام انبیاء صاحبِ شریعت ہوتے ہیں تو پھر اس اصطلاح "صاحب شریعت" کا کیا مطلب ہے؟ نیز اس حوالہ میں اس "بالتشریع" کی تصریح کی کیا ضرورت تھی
پھر تو صاف یہی کہنا چاہیے تھا کہ "کوئی نبی نہیں ہو گا"
اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ نبی تو ہو گا مگر اس کی نئی شریعت نہیں ہو گی اور ایسے نبی کے وجود کو آپ بھی مانتے ہیں خواہ نام کچھ بھی دیں۔

راقم:
غامدی صاحب سے مجھے بری رکھیں....رہی بات صاحب شریعت ہونے کی تو میں س کی وضاحت اوپر کر چکا ہوں، ابن عربیؒ کی ایک تحریر پیش کرتا ہوں امید ہی آپ کو کافی ہو گی۔

مربی صاحب:
میں نے غامدی صاحب کو آپ پر حجت کے لئے نہیں بلکہ آپ کی غلط فہمی کہ یہ امت مسلمہ کا عقیدہ ہے, دور کرنے کے لئے یہ حوالہ دیا ہے۔
مجھے ابنِ عربی رع کے اس حوالے کا علم ہے بلکہ اس موضوع پر تو حدیث بھی ہے, لیکن ابھی آپ حضرت شاہ ولی اللہ رع کے حوالے کا جواب دیں۔

راقم:
جناب من میں نے اگر ابن عربیؒ کا عقیدہ پیش کیا ہے تو وہ بھی اسی لئے کہ امت مسلمہ کا عقیدہ یہ ہے۔ نہ کہ آپ پر ابن عربیؒ کو حجت کرنے کو۔
مربی صاحب:
میرے لئے حضرت ابنِ عربی رع کا اس مقام سے بہت بہت بڑا ہے جو آپ کے لئے غامدی صاحب کا ہوگا
اس لئے اب بات کو چھوڑ دیں, میری بات کا مطلب تو یہ تھا کہ اس موضوع پر تو آپ بخاری کی حدیث بھی پیش کر سکتے تھے جس کا مقام اس سے بھی بڑا ہے, لیکن پہلے اگر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع کے پیش کردہ حوالہ پر بات مکمل ہو جاتی تو بہتر تھا
لیکن آپ نے اس پر دوسری بار جواب نہ دے کر اپنا مطلب بتا دیا ہے
بحرحال مجھے ابھی کچھ دیر کے لئے جانا ہے, آکر مزید بات ہو گی

راقم:
جناب میں نے "صاحب شریعت" کی وضاحت اوپر کی ہے ابن عربیؒ کے حوالے سے اور میرا تو یہی ماننا ہے کہ یہی امت کا عقیدہ ہے۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تو اسی چیز کو بیان کر رہے ہہیں، اب کسی کو شریعت کے ساتھ بھیجا نہیں جائے گا۔ شاہ صاحب اس وجہ سے دیگر مقامات پر صرف نبوت کا لفظ استعمال فرما کر فرماتے ہیں یہ ختم ہو چکی، جو میں پیش کرو گا۔ آپ اپنا وقت لیں، شاید کل آپ سے بات ہو۔
مربی صاحب:
آپ کی "صاحب شریعت" کی وضاحت میں دیکھ چکا ہوں, اگر آپ کے مطابق کوئی نبی ایسا ہوتا ہی نہیں جو صاحبِ شریعت نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس اصطلاح سے ہی منکر ہوئے
اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ اگر رات کا وجود نہ ہوتا تو "دن" کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوتی اور اس کا بھی کوئی نام نہ ہوتا
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رع نے خاتم النبیین کی وضاحت میں "بالتشريع" کا لفظ استعمال کر کے واضح کر دیا ہے کہ صرف وہ نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لے کر آتا ہے, اگر اُن کے عقیدے کے مطابق نئی شریعت کے بنا آنے والا نبی بھی نہ آنا ہوتا تو وہ ہرگز "بالتشريع" کا لفظ اپنی وضاحت میں نہ لیکھتے
میری اس دلیل کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا, اور دوسرے حوالے آپ جب پیش کریں گے تو اُس پر بھی بات کر لیں گے۔
ایک حوالہ یہ بھی پڑھ لیں, نیچے اصل کتاب کا صفحہ بھی موجود ہے
حضرت امام محی الدین ابن عربی رح فرماتے ہیں کہ جو نبوت اور رسالت شریعت والی ہوتی ہے پس وہ تو آنحضرت ﷺ پر ختم ہو گئی ہے پس آپ کے بعد شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا
پھر آگے فرماتے ہیں
ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی کر کے ان میں عام نبوت جس میں شریعت نہ ہو باقی رہنے دی ہے


راقم:
آپ میری بات کو یا سمجھے نہیں یا سمجھ کر اس سے پرے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ میں اصطلاح "غیر شریعی" کا منکر نہیں اسلئے یہ بات بے جا میری طرف منصوب کی گئی۔ جناب من میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ تشریحی نبوت سے ہمیشہ انبیاء اور مرسلین کی نبوت مراد لی جاتی تھی اور غیر تشریحی سے اولیاء عزام کے کشوف وغیرہ۔ المختصر "نبی" اور "صاحب شریعت" یک معنی ہوئے۔ جیسا کہ اوپر ابن عربی ؒ نے بھی اس کی وضاحت کی۔ اور یہی بات شاہ صاحب نے لکھی کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے، جو عین عقیدہ مسلمہ کے مطابق ہے۔
(فصوص الحکم کے حوالہ کے جواب میں)
مجھے علم نہیں کہ آپ نے کیوں یہ حوالہ پیش کیا مگر یہ حوالہ تو میری دلیل ہوا نہ کہ آپ کی، وہی مفہوم جو میں یہاں بیان کر رہا ہوں ابن عربیؒ نے بیان فرمایا ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں: ”جہاں تک تشریعی نبوت اور رسالت کا تعلق ہے تو وہ منقطع ہو چکی ہے۔ محمد ﷺ کے بعد یہ منقطع ہو گئی کہ اب آپ کے بعد کوئی صاحب تشریح یا آپ کی شریعت کا تابع( مشرعا أو مشرعا له ) نبی نہیں اور نہ ہی رسول جو صاحب شریعت ہوتا ہے.....ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر لطف کرتے ہوئے ان کے لئے نبوتِ عام(ولایت) باقی رکھی وہ جس میں تشریح نہیں۔

مربی صاحب:
آپ بات ہی ایسی اُلٹی کر رہے ہیں کہ جو ہضم ہونے والی نہیں
آپ "غیر تشریعی نبوت" کے منکر ہیں اور درحقیقت نبوت کی صرف ایک ہی قسم کو مانتے ہیں
"غیر تشریعی" اپنے آپ میں بے معنی لفظ ہے,دراصل نبوت کی دو اقسام میں سے ایک قسم "تشریعی" اور دوسری "غیر تشریعی" ہے ورنہ ان الفاظ کا تو کوئی معنی ہی نہیں بنتا
یہی وجہ ہے کہ آپ حضرت ابنِ عربی رح کے حوالے کو بھی اپنا مطلب چڑھا رہے ہیں کیوں کہ انھوں نہ پہلے (زیرِ بحث) فقرے میں واضح طور پر صرف تشریعی نبوت کے جاری رہنے کی نفی کی ہے جبکہ آخری میں غیر تشریعی کو النبوۃالعامۃ کہا ہے یعنی اسے بھی نبوت کی ہی قسم قرار دیا ہے, ولایت کو آپ نے خود وضاحت میں شامل کی ہے ورنہ اُنھوں نے ایسا نہیں لکھا
مشرعا أو مشرعا له کا مطلب بھی آپ اپنے اس عقیدے کے مطابق کر رہے ہیں حلانکہ اس کا مطلب ہے نئی شریعت لانے والا یا پہلی شریعت میں کمی بیشی کرنے والا ہے کیوں کہ یہ پہلے فقرے کی وضاحت میں لکھا گیا ہے جہاں صرف "تشریعی نبی" کا ذکر ہے, لیکن چونکہ آپ شریعت نا لانے والے کو بھی تشریعی نبی مانتے ہیں اس لئے یہاں بھی اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں
بحرحال وہ نبوت کی اقسام کے قائل ہیں جو اس تحریر سے واضح ہے مگر آپ نبوت کی صرف ایک ہی قسم کو مانتے ہیں
یہ بات ایسے ہی ہے کہ اگر انسان کو جنس کے لحاظ سے دو اقسام مرد اور عورت میں تقسیم کیا جائے اور پھر کوئی کہے کہ مرد تو انسان ہے مگر عورت انسان نہیں ہے
جب "تشریعی" اور "غیر تشریعی" نبوت کی اقسام ہیں تو یہ کہنا کہ غیر تشریعی نبی نہیں ہوتا, بلکل بے وقوفی ہے
(فصوص الحکم کے حوالہ کے جواب میں)
براہ مہربانی مین پوسٹ پر ہی بات کریں تاکہ بات کا تسلسل رہے اور پڑھنے والوں کو بھی آسانی ہو اس کا جواب بھی مین پوسٹ پر دیا

راقم:
مجھے نہیں معلوم تھا کہ جناب کے عقیدہ کے مطابق شریعت کی تنسیح یا کمی و بیشی ہونے پر بھی وہ شریعت سابقہ ہی رہتی ہے؟ اگر میں غلط نہ سمجھا ہوں تو۔ جناب انہوں نے واضح فرمایا ہے کہ یہاں صرف تشریعی نبوت بند ہے بالکل صحیح، کیونکہ تشریعی نبوت جس میں انبیاء و رسل کی نبوت ہوتی ہے وہ بند ہو چکی۔
مشرعا کا معنی اگر صاحب شریعت ہو گا تو مشرعا لہ کا معنی صاحب شریعت کا تابع ہی ہو گا۔
جناب نے مجھے الزام دیا کہ میں غیر تشریعی نبوت کو نہیں مانتا اور میرے نزدیک یہ بے معنی لفظ ہے، تو عرض ہے کہ اگر آپ اس سے مراد انبیاء عزام کی نبوت مراد لیں گے تو میرے نزدیک یہ حقیقتاً بے معنی بن جاتا ہے۔ میرے نزدیک نبوت(اصطلاحی معنوں میں) ایک ہی ہے شریعت والی جس کے مطابق انبیاء مطاع ہوتے ہیں۔ نبوت(لغوی کے اعتبار سے) ولایت کی وحی کو نبوت جانا ہے اور اس کو صوفیاء عزام نے غیر تشریعی نبوت کہا ہے۔ نہ اس کے آپ پر نزول سے آپ مطاع بن جاتے ہیں اور نہ آپ کے کشوف و الہامات کو امت کے لئے ماننا لازم آتا ہے۔
پھر آپ کا یہ کہنا بے جا ہے کہ ولایت کا رنگ اس کو میں دے رہا ہوں، میں اوپر ایک حوالہ دیا تھا جس میں ابن عربیؒ نے واضح الفاظ میں فرما دیا کہ نبوت تشریح یعنی انبیاء کی نبوت بند ہو چکی ہے اور رویا باقی ہیں جس پر آپ نے کہا تھا کہ اب کسی کو بھی نبی کہنا جائز نہیں اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہاں تشریحی نبوت سے مراد انبیاء کی نبوت ہے۔ نیز یہ کہ اسی عبارت کی تشریح فرما کر ابن عربی ؒ نے کچھ الفاظ ذکر کیے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ "ولایت نبوت سے افضل ہے تو انہیں معانی میں ہو گی جن میں ذکر کر چکا ہوں"، پس یہ جاری ہونا وحی ولایت کا ہے نہ کہ وحی نبوت جس کو تشریعی کہا جاتا ہے۔


مربی صاحب:
فتوحاتِ مکیہ کا یہ حوالہ بھی دیکھ لیں
یہاں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ ﷺ کی شریعت کے مخالف ہو بلکہ جب بھی ہو گا آپ ﷺ کی شریعت کے ماتحت ہو گا


وپر جو حوالہ آپ نے پیش کیا ہے اس کے جواب میں مَیں جس حدیث کا ذکر کر رہا تھا وہ یہ ہے
صحیح البخاری
«6990» حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري حدثني سعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((لم يبق من النبوة إلا المبشرات)). قالوا وما المبشرات قال: ((الرؤيا الصالحة))

راقم:
جناب اگر تھوڑی زحمت فرما کر میرا وہ حوالہ بھی دیکھ لیتے جو میں نے ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا دیا تھا تو یہ آپ کو یہ تکلف نہ اٹھانا پڑھتا۔ نیچا ایک حوالہ دہ رہا ہوں اس کا ترجمہ یہ ہے:
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر(وحی لے کر)نازل ہوتا تھا وہ بند ہو چکی ہے اور اب کسی کو نبی یا رسول نام دینا ممنوع ہو گیا"۔
اب اس سے واضح تحریر کیا ہو سکتی ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام کا وحی کو لانا ابن عربیؒ نے ممنوع کر دیا، حالانکہ مرزا صاحب نے جابجا دعوی کیا کہ ان پر جبرئیل وحی لائے۔ اور عرض ہے کہ الہام و کشوف اولیاء کا جائز ہونا عین شریعت محمدیہ ﷺ کے ماتحت ہے۔


اس حدیث رسول ﷺ کی تشریح ابن عربیؒ نے یوں فرما دی:

مربی صاحب:
تنے بھی حوالے پیش کیے گئے ہیں ان میں نبوت لغوی معنوں میں مراد نہیں ہے, خاص طور پر جہاں "تشریعی نبوت" کی بات ہو رہی ہے کم از کم وہاں تو آپ بھی مانتے ہیں, اس لئے آپ اگر کہیں کہ ایک جگہ تو نبوت سے مراد لغوی معنوں میں نبوت ہے اور دوسری جگہ اصطلاحی معنوں میں, تو یہ صرف آپ کی توجیحات ہیں, اس تحریر میں ایسا ثابت نہیں
پھر اگر آپ کے خیال میں اصطلاح میں نبوت صرف تشریعی نبوت ہے تو پھر اسے "تشریعی نبوت" کہنے کا کوئی مقصد ہی نہیں بنتا, پھر تو وہاں صرف نبوت کا لفظ ہی استعمال کیا جانا چاہیے تھا اور جہاں آپ کے خیال میں "النبوۃ العامہ" (جسے آپ صرف لغوی معنوں میں نبوت کہہ رہے ہیں) وہاں ولایت کا لفظ ہونا چاہیے تھا مگر جیسا کہ میں نے پہلے کہا, یہ صرف آپ کی اِن تحریرات سے بھاگنے کے لئے توجیحات ہیں
یہ منطق بہت سیدھی سی ہے کہ جو انسان اصطلاح میں تشریعی نبوت کو مانتا ہے وہ غیر تشریعی نبوت کو بھی اصطلاحاً نبوت مانے گا جیسا کہ حضرت ابنِ عربی رح کے حوالے میں لکھا گیا ہے
اب چونکہ آپ کے پاس اس بنیادی دلیل کا ہی کوئی جواب نہیں, اس لئے آپ کو کتنے بھی حوالے پیش کیے جائیں, آپ نے ان سے ایسی ہی توجیحات نکالنی ہیں۔
آپ کا کہنا ہے کہ اب کسی بھی قسم کے فرشتے وحی کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے تو ایسا کہنے سے پہلے ذرا اس آیت کو ہی غور سے پڑھ لیتے جس کے مطابق نہ صرف فرشتے نازل ہوتے ہیں بلکہ وہ کلام بھی کرتے ہیں
( إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ )[Surat Fussilat 30]
فرشتوں کے نزول نہ ہونے کا مطلب صرف وحیِ شریعت لے کر نازل ہونا ہے کہ فرشتہ نئی شریعت یا پہلی شریعت میں ردوبدل کے احکام کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے ورنہ تو ایسی بات قرآن ہی کے خلاف ہے۔

راقم:
سلطان صاحب آپ نے تو میری بقول آپ کے "توجیحات" کا جواب دینا ہی گوارہ نہ کیا چلیں جیسے آپ کی مرضی۔ یہ تشریحی و غیر تشریحی شاید آپ کچھ بھاری ہے اس لئے اتنی تفصیل میں جائے بغیر سادہ الفاظ میں لکھتا ہوں، تشریحی نبوت کے ذیل انبیاء اور رسل، غیر تشریحی عوام الناس صوفیاء عزام و الیاء عزام۔ تو جناب فرمائیں کیسے ثابت ہوا کہ غیر تشریحی نبوت جائز ہونے پر نبی آ سکتے ہیں؟
اوپر جو آپ نے ایک عبارت پیش کی وہ میری تحقیق کے مطابق یہ امام شعرانی کی الیواقیت کی ہے، اگر آپ فتوحات سے لنک کر دیں تو مہربانی۔
آپ بھی فرماتے ہیں منطق بہت سیدھی ہے کہ تشریحی و غیر تشریحی کو مانا جائے تو میں کہتا ہوں جناب میں نے کب انکار کیا؟ ہاں نبوت غیر تشریحی سے آپ اپنے مرضی کا مطلب نکال کر صاحب کتاب کے خلاف جائیں تو اس پر میں تو ملزم نہیں۔
پھر جناب نے ایک دعوی میری جانب منصوب کیا"کہ اب کسی بھی قسم کے فرشتے وحی کے ساتھ نازل نہیں ہو سکتے"، حالانکہ میں نے تو دعوی کوئی بھی نہ کیا۔ جناب نے تو ایک آیتِ قرآن مجید لکھ کر ابن عربیؒ کو خلاف قرآن ہونے بھی بتلا دیا۔ مگر جھٹ سے ایک اور بات بھی کر ڈالی کہ جناب یہاں فرشتوں کے نزول نہ ہونے کا مطلب صرف وحی شریعت(ان کے عقیدہ کے مطابق) لے کر نازل ہے۔ بہت خوب جناب آپ یعنی مطلب تحریر تو سمجھ چکے ہیں مگر اپنا عقیدہ بھی تو ثابت کرنا ہے۔ سنیئے اس عبارت کو مکمل پڑھ تو لیں تاکہ آپ کو علم حاصل ہو کہ یہاں کس فرشتہ کا ذکر ہے جس کے متعلق فرمان ہے کہ اس کا نازل ہونا بند ہے، وہ فرشتہ جو انبیاء علیہم السلام پر وحی لاتا ہے یعنی کہ جبرئیل علیہ السلام۔ میں نے تو کمنٹ میں لکھا بھی تھا کہ جناب مرزا صاحب اپنے اوپر جبرئیل علیہ السلام کے نزول کے دعویدار ہیں تو پتا نہیں سلطان صاحب نے کس بات کو ہر یک فرشتے کے انکار نزول پر ڈال دیا۔

مربی صاحب:
(ابن عربیؒ کے حوالہ کہ انبیاء و رسل والی وحی بند ہو چکی کے جواب میں)
یہاں جبرائیل علیہ السلام کے نہ آنے کا کہاں لکھا ہے؟
جوابِ راقم:جناب انبیاء عزام اور رسل پر وحی کون لاتا ہے؟ ہمارے نزدیک تو جبرئیل لاتے ہیں آپ کا علم نہیں، مرزا صاحب نے اپنے فرشتوں کے متعدد نام بتلائے۔
مربی صاحب: میں نے کہاں انکار کیا ہے یہاں تو خاص وحی کی بات کی گئی ہے جو شریعت والی ہے صرف وہ نہیں آنی جبرائیل علیہ السلام کے نہ آنے کا تو کہیں ذکر نہیں۔
جوابِ راقم:تحریر دوبارہ پڑھ لیں۔ آپ کا معنی شاید آپ کے علاوہ اور کسی نے سمجھ میں آئے۔ جب فرشتہ وحی و نبوت جو نبی اور رسول سے خاص ہے وہ بند ہو چکا ہے تو آپ کی تاویل بے کار ہوئی۔ کیونکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق جبرئیل کا غیر تشریحی نبوت کا لانا لازم ہے۔
مربی صاحب:یہ مطلب میرا نہیں بلکہ اوپر میرا والا حوالہ پڑھیں, وہاں شریعت کے تابع نبی کے آنے کا لکھا موجود ہے آپ اس نبی کے لفظ کی تاویلیں کریں تو آپ کی مرضی۔
راقم:جناب تاویل آپ کی غلط ہے۔ شیخ ابن عربیؒ کی اس تحریر کے بعد اب حضور ﷺ کے بعد کسی کا نبی بننا ہی محال ہو چکا ہے۔
مربی صاحب: یہ آپ کا عقیدہ ہے مگر بنا دلیل کے ورنہ اوپر جو حوالہ دیا ہے اس میں تو لکھا ہے کہ
إذ كان يكون تحت حكم شريعتي
یعنی شریعت کے تحت نبی
اور حضرت ہارون علیہ السلام بھی شریعت کے تحت نبی تھے۔
راقم:جناب اس حوالہ کا میں نے آپ سے سکین مانگا تھا۔ ثانیاً ابن عربی ؒ کا قول:
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر(وحی لے کر)نازل ہوتا تھا وہ بند ہو چکی ہے اور اب کسی کو نبی یا رسول نام دینا ممنوع ہو گیا" یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں
انہوں نے لفظ نبی لغوی اعتبار سے لیا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ولی کا آنا جائز ہوا اور نبی و رسل جن پر وحی شریعت ہوتی ہے وہ نہ رہی۔ ابن عربیؒ کی تو کئی اور تحاریر اسی بات پر شاہد ہیں الحمد اللہ
مربی صاحب:میں نے آپ سے کہا نا کہ آپ کی پہلی منطق ہی غلط ہے تو اگے کیا بات آپ کو سمجھ آئے گی
ایک طرف آپ کہتے ہیں "غیر تشریعی نبی" اور دوسری طرف کہتے ہیں وہ نبی نہیں ہے
خود ہی اسے نبی کہتے ہیں اور پھر خود ہی اسکی نبوت کا انکار کرتے ہیں
پہلے اپنی اس بات کو تو معقول ثابت کر دیں پھر اگلی باتیں خود ہی حل ہو جائیں۔

راقم:
جناب میں نے اوپر واضح الفاظ میں لکھ دیا کہ "غیر تشریعی نبوت" سے کیا مراد ہے۔ آپ کو پتا نہیں سمجھنے میں کیا دشواری ہے۔ انبیاء و رسل کی وحی کو تشریحی کہا جاتا ہے اور جس پر یہ وحی ہو وہ صاحب تشریح اور عرف عام میں اسے نبی کہا جاتا ہے جیسا کہ اوہر میں کہہ چکا۔ دوسری غیر تشریحی جس میں اولیاء و صوفیاء اور مومنین کی وحی(الہام و کشوف وغیرہ) جس پر یہ ہو وہ عرف عام میں مذکورہ طبقات میں سے ہوتا ہے اور اسکو غیر تشریحی وحی/نبوت کو وحی ولایت یا ولایت کہا جاتا ہے۔ امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ ثانی الذکر امت میں عام ہے جبکہ اول الذکر بند ہو چکی ہے۔ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی لکھا کہ"کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو(بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے"۔ جناب فرمائیں گے کہ یہ کیسے غیر معقول ہے؟ جناب یہی کہنا ہے ابن عربیؒ کا کہ انبیاء کے ساتھ خاص نبوت بند ہو چکی ہے۔ جیسا کہ اوپر حوالہ مذکور ہے۔
مربی صاحب:
جناب آپ کو میں حوالے کے ساتھ ثابت کر چکا ہوں کہ یہ عقیدہ اُمت مسلمہ کا نہیں ہے, بہت سے ایسے لوگ ہیں جو آپ کے قانون کے مطابق مسلمان ہیں مگر اُن کا "غیر تشریعی نبی" کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں ہے پھر بھی اگر آپ یہی لیکھیں گے تو یہ بات جھوٹ ثابت ہو چکی ہے اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہے
پھر آپ سے میں نے اب یہ نہیں پوچھا کہ "غیر تشریعی نبوت" سے آپ کیا مراد لیتے ہیں, میں اب اچھی طرح آپ کا عقیدہ سمجھ چکا ہوں
میں نے یہ کہا ہے کہ ایک طرف آپ اس کے لئے (غیر تشریعی) نبی کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس کو نبی نہیں کہا جا سکتا؟
یہ بات بلکل خود اپنے آپ کو جھٹلا رہی ہے
مثلاً ایک آدمی ہاتھ میں آم پکڑ کر کہے کہ یہ "لنگڑا آم" ہے اور ساتھ ہی کہے کہ اسے "آم" نہیں کہا جا سکتا
پھر آپ یہ بھی بتا دیں کہ "تشریعی نبی" کی کیا تعریف کرتے ہیں اور وہ تعریف کہاں سے لی ہے۔

راقم:
جناب والا یہی میں نے جتنی تفصیل سے اس کو بیان کیا پھر بھی آپ لنگڑے آم میں پھنسے ہیں میری طرف سے معذرت۔ "دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس کو نبی نہیں کہا جا سکتا؟" جناب اوپر میں نے عرف عام بھی لکھا۔ کیونکہ عرف عام نبی سے مراد صاحب تشریح کو ہی لیا جاتا ہے۔ تشریعی نبی کی آپ نے تعریف کہاں سے لی تو جناب اوپر کئی حوالاجات سے میں یہ بات بتلا چکا ہوں کہ یہ بات کدھر سے لی گئی۔
مربی صاحب:
اگر ہر نبی کو تشریعی نبی کہیں گے تو پھر تشریعی نبی کی کوئی تعریف کی ہی نہیں جا سکتی, پھر تو صرف نبی کی تعریف کی جائے گی
اوپر کس حوالے میں تشریعی نبی کی تعریف لکھی ہوئی ہے؟ وہاں تو صرف تشریعی نبی کے نہ آنے کا ذکر ہے اور ایسی نبوت کے جاری ہونے کا جو حضور ﷺ کے تابع ہو (آپ خواہ اسے جو بھی نام دیں) اور پہلے نبیوں میں حضرت ہارون علیہ السلام بھی ایک نبی کے تابع تھے, ان پر بھی کوئی شریعت والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی لیکن وہ نبی تھے۔

راقم:
جناب میرے یہ دو کمنٹ دیکھ لیں۔

مربی صاحب:
پڑھنے کے بعد ہی پوچھا تھا کہ حضرت ہارون علیہ السلام بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی جو تورات سے فیصلے کرتے تھے, حضرت موسیٰ کی شریعت کے تابع تھے اور ان پر کوئی شریعت والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ان کو کہاں لے جائیں گے؟وہ بھی پھر آپ کی تعریف کے مطابق نبی نہیں ٹھہرتے۔
راقم:
اگر پڑھ کر سمجھ بھی لیتے تو آپ کا سوال کرنا فضول تصور ہوتا۔ پس ان کی شریعت تورات ہی ہے اور وہ اسی کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے حکم ہیں۔
مربی صاحب:
بلکل ان کی شریعت تورات تھی مگر صاحب شریعت وہی ہوتا ہے جسے شریعت دی جاتی ہے, اور شریعت صرف اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے, ایک نبی دوسرے کو صاحب شریعت نہیں بنا سکتا ورنہ تو بہت سے لوگ شریعت کا علم حاصل کرتے ہیں, کیا وہ بھی صاحبِ شریعت ہوں گے۔
راقم:
تو جناب کیا وہ علم خدا کی طرف سے حاصل کرتے ہیں؟ ان کا علم قطعی ہوتا ہے؟ وہ مامور من اللہ ہوتے اور مطاع ہوتے ہیں؟ آپ کہ کیا کہنے آپ کے نزدیک پھر ان میں فرق نہ ہوا۔ ایک نبی نے دوسرے کو کب صاحب شریعت بنایا؟ صاحب شریعت تو اللہ ہی بناتا ہے، چاہے نئی شریعت دے یا پرانی۔
مربی صاحب:
چلیں قرآن سے حوالہ دیں کہ کس نبی کو پرانی شریعت دے کر صاحبِ شریعت بنایا گیا ۔
راقم:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّه...الخ (النساء 4:62)
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
آپ کو مسلم ہے ہارون علیہ السلام کو الگ کتاب شریعت نہ ملی، اب اگر ان کی کوئی شریعت ہی نہ ہو تو وہ مطاع کیسے ہوئے؟ الغرض شریعت موسوی کو ان کی شریعت ہی کہا جائے گا اس وقت کے لئے اور یہی تعلیم ان کی ہو گی جس کی اطاعت کرنی ہو گی اور یہی تعلیم ان کی شریعت ہو گی اور امر و نہی بذریعہ جبرئیل ان پر نازل ہو گی۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی تک یہ گفتگو ہوئی باقی گفتگو اگر ہوئی تو یہاں انشاء اللہ اپڈیٹ کر دی جائے گی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ماشااللہ ۔۔۔ بہت اچھے سے آپ نے مناظرہ کیا ہے۔ اس پر طالب علم مختصر سی وضاحت کرنا چاہتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کے لیے کافی کارآمد ہو گی۔ انشااللہ۔
پہلی بات:
اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ مرزا قادیانی خود کو صاحب شریعت نبی ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے ۔۔۔ جبکہ مربی جی کو اپنے عقائد کا ہی علم نہیں ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں مرزا قادیانی خود کو صاحب شریعت نبی بھی کہتے ہیں۔
Ruhani-Khazain-Vol-17_Page_470.png
دوسری بات:
قرآن کریم کہتا ہے کہ " ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین "آئیں آپ کو اس کا ترجمہ مرزا قادیانی کی زبانی دکھاتے ہیں۔ آج کل قادیانی یہاں پر خاتم النبیین کے معنوں میں تحریف کرتے ہیں۔ جبکہ مرزا جی کے مطابق یہاں پر آپ ﷺ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ختم کرنے والے ہیں نبیوں کے ۔ اور یہاں تک مرزا صاحب اس آیت کے ضمن میں لکھ رہے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر صاف دلالت کرتی ہے کہ بعد نبی کریمﷺ کے کوئی رسول نہیں آئے گا۔۔۔۔
(نوٹ: یہ ان آیات کا تسلسل ہے جن میں مرزا صاحب وفات مسیحؑ کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرا قادیانیوں سے سوال ہے کہ جب وفات مسیح کی باری آئے تو کیا یہ ترجمعہ کرنا جائز ہو جاتا ہے؟؟؟ اور جب اجرائے نبوت کی باری آتی ہے تو اسی ترجمعے پر قادیانی جماعت کو موت کیوں پڑ جاتی ہے؟؟؟)
خاتم النبیین.png
تیسری بات:اگر فرضی طور پر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ نبی آسکتے ہیں تو پھر اب جو نبوت کے یا مہدی ہونے کے یا مسیح ہونے کے لوگ دعوے دار ہیں ان کو نبی کیوں نہیں مانتے قادیانی حضرات؟؟؟
کیا جو اب نبوت کا دعوی کرے گا قادیانی جماعت کو نبی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے؟؟ اگر تیار ہے تو تب اجرائے نبوت پر دلائل دے اور بات کرے ، اگر اب کسی نبی کو قادیانی جماعت ماننے کے لیے تیار نہیں تو پھر اجرائے نبوت کے دلائل کیسے؟؟؟

نسیم احمد طاھر (اگر نبوت جاری ہے تو اس مدعی نبوت کو قادیانی جماعت کیوں جھٹلاتی ہے؟؟)
Naeem Ahmad Tahir.jpg
اسد السلام شاہ (یہ بھی ایک نیا مدعی نبوت ہے اگر نبوت جاری ہے تو قادیانی جماعت ان کو کیوں نہیں مانتی؟؟)
Asad ul islam shah.jpg
 

محمد دانش

رکن ختم نبوت فورم
مربی صاحب:
کچھ مصروفیت کی وجہ سے پہلے جواب نہیں دے سکا
مجھے بہت حیرت ہوئی آپ کی اس دلیل پر, کیا آپ کے خیال میں اطاعت صرف تشریعی نبی کے ضروری ہے؟
حضور ﷺ نے تو امیر کی اطاعت بھی اس قدر ضروری قرار دی ہے کہ امیر کی نافرمانی آپ ﷺ کی نافرمانی اور پھر اللہ کی نافرمانی کے مترادف ہے جیسا کہ فرمایا
7137 - حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي -[ 62]- فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي»
البخاري
اسی طرح کیا آپ کے خیال میں امام مہدی کو ماننا اور اُس کی اطاعت کرنا ضروری نہیں, اگر ضروری ہے تو آپ کی اس دلیل سے تو لازماً اسے بھی نبی ہی ماننا ہو گا

راقم:
جناب آیت میں لفظ رسول آیا ہے اور امام مہدی یعنی محمد بن عبداللہ ہمارے نزدیک نبی نہیں ان کی اطاعت جیسا آپ نے فرمایا امیر کی اطاعت لازم ہے اسی لحاظ سے، اس لئے اس آیت کا مصداق غیر نبی نہیں۔ دوسری بات آپ نے پوچھی کہ میرے خیال میں اطاعت صرف تشریعی نبی کی لازم ہے؟ تو جناب اطاعت کس چیز کی کی جائے؟ کسی تعلیم کہ نہ؟ میں کہتا ہوں کہ وہی تعلیم جو ایک نبی بمنصب نبوت لوگوں کو دیتا وہ اس کی شریعت ہے۔
کچھ دنوں تک شاید آپ کو جواب نہ دے سکوں، کچھ مصروفیات کے سلسلہ میں شہر سے باہر جانا ہے۔ پھر بھی اگر موقع ملا تو انشاء اللہ بروقت جواب دینا کی کوشش کروں گا۔

مربی صاحب:
جناب ذرا اپنی اصل دلیل کو دوبارہ پڑھیں
آپ کا کہنا تھا کہ اگر نبی کی شریعت نہ ہو تو اس کی اطاعت کیسے ہو گی تو اس کے جواب میں میں نے کہا ہے کہ امیر کی کوئی شریعت نہیں ہوتی پھر بھی اس کی اطاعت لازمی ہے یہاں آیت کے مصداق ہونے سے تو کوئی تعلق ہی نہیں کیوں کہ نبی کی اطاعت کے لئے آپ نے صاحبِ شریعت ہونے کو لازمی قرار دیا ہے ورنہ آیت میں اس بات کا ذکر نہیں اگر ایک امیر کی اطاعت (جو شریعت کے تابع تو ہو سکتا ہے مگر ہرگز اس کے لئے صاحب شریعت کا لفظ نہیں بولا جا سکتا) بنا شریعت کے لازمی ہے تو نبی کی اطاعت بنا صاحب شریعت ہونے کے کیوں لازمی نہیں ہو سکتی

راقم:
آپ کے پاس چونکہ اب دلیل کچھ بچی نہیں اس لئے ایسی غیر ضروری باتوں کو پیش کر رہے ہیں۔ بہر حل سنیں، امیر کی تعلیم اللہ کی طرف سے نہیں جو جبرئیل علیہ السلام اسے پر نازل ہو کر اسے فلاں بات کرنے کو بطرف خدا کہیں، نہ اس پر امر و نہی نازل ہوتی ہے، نہ اس کی تعلیم حرف آخری ہوتی ہے۔ نہ اس کی تعلیم کو شریعت کہا جاتا ہے بلکہ شریعت کے خلاف اگر امیر کچھ کہے تو اس کی اطاعت نہ کی جائے گی۔ آپ کا بار بار ایک عام شخص کو ایک نبی اللہ کے ساتھ ملانا کسی طرح سے معقول نہیں۔
مربی صاحب:
میری دلیل کا آپ کے پاس جواب نہیں اس لئے اب آپ ایسی باتیں کر رہے ہیں کیونکہ اس آیت سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ نبی کی اطاعت اس لئے کی جائی کہ اسے صاحب شریعت کہا جاتا ہو بلکہ ایسا نبی جس کی اپنی کوئی شریعت نہ ہو بلکہ وہ کسی اور نبی کی شریعت کا تابع ہو اور اُس کی شریعت کے احکامات کی طرف بلاتا ہو اس کی اطاعت اسی طرح واجب ہے جس طرح ایسے نبی کی اطاعت جس کی اپنی شریعت ہو اسی لئے ایمانیات میں کتابوں پر ایمان الگ ہے اور رسولوں پر الگ ورنہ آپ کے عقیدہ کے مطابق اِن کا الگ کرنا ممکن نہیں, اسی طرح قرآن اللہ کی اطاعت کا الگ حکم دیتا ہے, رسول کی اطاعت کا الگ اور أُولِي الْأَمْر کی اطاعت کا الگ
اور پھر قرآن نے اسے ایک ساتھ بیان کیا ہے تو اس پر بھی آپ کو اعتراض ہونا چاہیے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کو أُولِي الْأَمْر کی اطاعت کے ساتھ ملایا گیا ہے
اسی طرح قرآن کے مطابق تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی گئی مگر بعد کے بنی اسرائیلی انبیاء جو اس سے فیصلے کرتے تھے اُن کو سیکھائی گئی اور یہ بات بھی آپ کے عقیدے کو رد کرتی ہے

راقم:
جناب آپ اللہ پر جو دل چاہے اعتراض کریں ہمیں اس سے غرض نہیں۔ رہی بات یہ کہ اس آیت سے مذکورہ بات ہرگز نہیں ثابت ہوتی تو جناب والا وہ تو میں بتلا چکا کہ اس سے یہ بات ثابت ہے۔ جناب والا "ایسا نبی جس کی اپنی کوئی شریعت نہ ہو بلکہ وہ کسی اور نبی کی شریعت کا تابع ہو اور اُس کی شریعت کے احکامات کی طرف بلاتا ہو اس کی اطاعت اسی طرح واجب ہے جس طرح ایسے نبی کی اطاعت جس کی اپنی شریعت ہو" تو ہمارا مدعا تو آپ کو سمجھ نہ آیا۔ جب وہ نبی سابقہ نبی کی شریعت کی تبلیغ کرے گا تو بھی اس پر امر و نہی تو اتریں گے، وہی شریعت اب اس کی کہلائے گی اور یہ اس کی تعلیم بن جاتی ہے اور یہی میرا کہنا ہے اور اسی لحاظ سے تمام انبیاء بن جاتے ہیں صاحب شریعت کیوں اب سابقہ شریعت پر ان کا اختیار بحکم الہیٰ ہوتا ہے۔
مربی صاحب:
بات دلیل سے کریں جس طرح میں نے اوپر دلیل دی ہے,
لیکن لگتا ہے کہ نہ تو آپ کو قرآن سے دلیل دینے کا طریقہ آتا ہے اور نہ ہی آپ کو میری دلیل سمجھ آتی ہے کیونکہ ان دلائل کو سمجھنے یا ایسے دلائل دینے کے لئے منطق (لوجک) کے اصول سمجھ آنے چاہیں چونکہ ہم دونوں اپنی بحث میں اس بات پر متفق ہیں کہ نہ تو قرآن پر کوئی اعتراض جائز ہے اور نہ ہی اللہ اور اُس کے رسول ﷺ پر اس لئے ہمارے عقیدے کی کوئی ایسی بات جس سے ایسے اعتراض آتے ہوں تو دراصل وہ عقیدہ غلط ہے نہ کہ قرآن یا اللہ تعالیٰ اب اگر آپ مجھے یہ کہیں کہ میں اللہ تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہوں تو اس کا مطلب ہوا کہ آپ نے میری دلیل کو ہی یا تو سمجھا نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے یا پھر سمجھنے کے باوجود اسے ماننا نہیں چاہتے
میں نے اپنی دلیل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ اگر آپ کی بات کہ "امیر کی اطاعت کو نبی کی اطاعت کے ساتھ ملانا ناجائز ہے" تو پھر آپ کی اس دلیل سے قرآن پر اعتراض جاتا ہے جہاں اللہ اور رسول کی اطاعت کو أُولِي الْأَمْر کی اطاعت کے ساتھ ملایا گیا ہے, لیکن چونکہ قرآن پر اعتراض ممکن نہیں اس لئے آپ کی یہ دلیل غلط ہےاور اسی کو منطق (لوجک) کہا جاتا ہے اگلی بات, آپ کا کہنا ہے کہ سابقہ نبی کی شریعت کے امرونہی اگلے تابع نبی پر نازل ہونے سے وہ شریعت اس کی کہلائے گی, تو اس میں تو کوئی اختلاف نہیں لیکن ایسا ہونے سے وہ نبی "تشریعی نبی" ہرگز نہیں کہلا سکتا بلکہ تشریعی نبی تو صرف وہی ہوا جس پر دراصل وہ شریعت پہلی بار نازل ہوئی اور اسی لئے قرآن میں تورات کا صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا جانا ثابت ہے, بعد کے انبیاء کو پھر تورات سیکھائی گئی, دی نہیں کی گئی, اسی لئے قرآن میں حضور ﷺ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیع دی گئی ہے کیوں کہ یہ دونوں تشریعی انبیاء تھے ورنہ تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر بعد کے تمام انبیاء بھی تشریعی تھے تو حضور ﷺ کو ان تمام انبیاء کو چھوڑ کر ایک پرانے نبی سے تشبیع دی جاتی

راقم:
اگر میں نے کہا تھا آپ خدا پر اعتراض کرنا چاہے تو کریں تو میں فالحمد للہ ثابت بھی کیا تھا آپ دو مختلف مطاع کو یک کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک امیر جن کو آپ اولی الامر لے رہے ہیں پر نہی و امر اترتے ہیں تو میں کیا کہہ سکتا ہوں سوائے اس کے کہ یہ بات لغو ہے۔ قرآن پر اعتراض تو آپ خود کر رہے ہیں، میرے مطابق تو کوئی اعتراض نہیں۔ "سابقہ نبی کی شریعت کے امرونہی اگلے تابع نبی پر نازل ہونے سے وہ شریعت اس کی کہلائے گی, تو اس میں تو کوئی اختلاف نہیں" شکرا جناب نے کچھ تو مانا۔ تو جناب فرمائیں کیوں اب اس نبی کو صاحب شریعت نہ کہا جا سکتا ہے؟ جب گذشتہ نبی کی تعلیم جس میں وہ نبی بحکم خدا حلال و حرام کر سکتا ہے تو وہ شریعت بذات خود اسی کی بن جاتی ہے۔ پھر جناب جو وحی اس نبی پر اترتی ہے وہ اس کی تعلیم ہوتی ہے جس کو اس نے لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے اور لوگوں نے اس کی اتباع کرنی ہوتی ہے۔ اور وہ نبی اسی وحی کے لحاظ سے مطاع بنتا ہے، یعنی وہ وحی اس کی شریعت ہوتی ہے اور اسی وحی کے لحاظ سے اسکو صاحب شریعت کہتے ہیں، چاہے اس وحی میں تعلیم سابق ہو یا نہیں۔
امام رازیؒ فرماتے ہیں:
"احتج أكثر العلماء بهذه الآية على أن شرع من قبلنا لا يلزمنا ، لأن قوله { لكل جعلنا منكم شرعة ومنهاجا } يدل على أنه يجب أن يكون كل رسول مستقلا بشريعة خاصة ، وذلك ينفي كون أمة أحد الرسل مكلفة بشريعة الرسول الآخر"(تفسیر رازی جلد 6 صفحہ 74)
"اس آیت کے زیر اکثر علماء نے کہا ہے کہ ہمیں سابقہ شریعت کی(اطاعت کی) ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ کا یہ قول "لكل جعلنامنكم شرعة ومنهاجا" بتاتا ہے کہ ہر رسول کی مستقل، خاص شریعت ہوتی ہے۔ اور یہ بات انہیں ایک رسول کی اطاعت کرتے ہوئے بھی اس کی امت بننے سے روکے رکھتی ہے"۔
الحمد اللہ یہ عقیدہ سلف کا ہے نہ صرف میرا۔ اور مزید ایک بات شاہ صاحب ایک نبی کی تعریف کیا کرتے ہیں اور وہ کیا چیز ہے جو ان کے نزدیک عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ہے ملاحظہ فرمائیں:
"ولما افقت عرفت ان الامام عندهم هو المعصوم المفترض طاعته الموحى اليه وحيا باطنيا وهذا هو معنى النبى فمذهبهم يستلزم انكار ختم نبوة قبحهم اللّه تعالى"(تفہیمات جلد 2 صفحہ 250)
"اور جب میں اس حالت سے باہر آیا تو میں جان چکا تھا ان کے نزدیک امام معصوم ہوتا، اس کی اطاعت فرض ہوتی ہے، وحی باطنیہ کا حامل ہوتا ہے اور نبی کا معنی بھی یہی ہوتا ہے اس وجہ سے انکار ختم نبوت لازم آتا ہے"۔
آپ ان تینوں باتوں کا حامل مرزا صاحب کو مانتے ہیں۔ آپ کے نزدیک مرزا صاحب معصوم بھی ہیں اور ان کی اطاعت لازم بھی ہے اور ان پر وحی باطنیہ بھی آپ کے نزدیک آتی تھی۔ اور شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اسے ہماری طرح خلاف عقیدہ ختم نبوت مانتے ہیں۔
مزید شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"وصار خاتم هذه الدورة فلذلك لا يمكن ان يوجد بعده نبی الصلوات الله عليه و سلامه"(تفہیمات جلد 2 صفحہ 137)
"اور آپ اس سلسلہ(یعنی نبیوں کے سلسلہ) کے خاتم ہو گئے اور آپ کے بعد کسی نبی کا وجود میں آنا ممکن نہیں"
یہاں وجود میں آنے کی ہی نفی فرما دی۔ چاہے تشریعی/غیر تشریعی(آپ کے نزدیک)۔
آپ نے جو حوالہ دیا اس کو بھی یہیں رکھیں:
"ختم به النبيون ايی لا يوجد بعده من يامره الله سبحانه بالتشريح علی الناس"
نبیوں کو ان پر ایسے ختم کر دیا گیا کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کو اللہ سبحانہ شریعت کا حکم دے کر لوگوں کی طرف بھیجے۔
اب اس حوالے کو اس سے ملا کر سمجھیں:
"النبي رجل بعثه الله تعالیٰ الی الخلق مبلغا لھم احکام الشرع و ملزما عليهم طاعة و الاقرا بنبوة"(تفہیمات جلد 2 صفحہ 136)
"نبی وہ شخص ہوتا ہے جسے اللہ اپنی مخلوق کی طرف بھیجتا ہے، ان کی طرف احکام شرع بھیجتا ہے اور ان پر لازم کرتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں اور ان اپنی نبوت کا اقرار کریں"۔
غور فرمائے آپ کے دیئے حوالہ میں "نئی شریعت" کا لفظ نہیں بلکہ لفظ صرف شریعت کا ہے، اور شاہ صاحب فرماتے ہیں نبی کے لئے احکام شرع لانا لازم ہیں، جناب بھی مانتے ہیں "امرونہی اگلے تابع نبی پر نازل ہونے سے وہ شریعت اس کی کہلائے گی, تو اس میں تو کوئی اختلاف نہیں" تو فرمائیں شاہ صاحب تو آپ کے عقیدہ کی دھجیاں اڑا چکے ہیں۔

مربی صاحب:
جناب میں نے قرآن پر کون سا اعتراض کیا تھا جسے آپ نے ثابت کیا, اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ
لعنة الله على الكاذبين میری دلیل اولی الامر کی اطاعت پر تھی (امر و نہی کے نزول پر نہیں) جس کا قرآن نے اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا اور آپ نے خود ہی یہ بات کر کے کہ "اُن پر وحی نازل ہونا ضروری نہیں" یہ مان لیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تو ایسوں کی اطاعت کا بھی ہے جو صاحب وحی نہیں, کجا اطاعت کے لئے صاحبِ شریعت کی شرطخود ہی اپنی بات سے اپنی دلیل کو رد کر دیا میرا یہاں بھی قرآن پر اعتراض نہیں بلکہ آپ کے بے بنیاد عقیدے پر ہے جو اوپر پھر ثابت ہو گیا شریعت جس سے قانون بنائے جاتے ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے جو صاحبِ شریعت نبی کو دی جاتی ہے اور اُس نبی کے تابع ہر انسان کی شریعت وہی ہوتی ہے خواہ وہ ایک عام انسان ہو, کوئی ولی ہو یا نبی ہو آج اگر کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ وہ کس شریعت کو مانتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ قرآن کو اور اسی شریعت کو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ مانتے تھے مگر آپ ﷺ کے علاوہ کوئی صاحبِ شریعت نہیں اسی طرح تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی گئی جسے بعد کے تمام بنی اسرائیلی انبیاء مانتے تھے اور پھر اُن کا کام اُس شریعت کے تحت فیصلے کرنا بھی تھا لیکن یہ بات کس نے کہہ دی کہ اُن پر پوری تورات نازل بھی ہوئی تھی, قرآن یا کسی بھی اور حوالے سے یہ بات ثابت نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے نبی پر تورات نازل ہوئی ہو بلکہ قرآن تو بعد کے انبیاء کے لئے تورات کے بارے میں "یعلم" کا لفظ استعمال کرتا ہے جبکہ حضرت موسیٰ کے لئے "اتینا" کا۔ پس صاحبِ شریعت صرف وہی ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ صاحبِ شریعت بنائے اپنی شریعت عطا فرما کر, پرانی شریعت سیکھ کر کوئی صاحب شریعت نہیں بنتا, شریعت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے اور نبی کی شریعت ہونے کا مطلب اس نبی کا اس شریعت کے تابع ہونا ہے نہ کہ مالک ہونا اب چونکہ آپ کے بنیادی عقائد ہی غلط ہیں جو آپ نبی کو شریعت کا مالک بنائے بیٹھے ہیں تو کوئی بھی حوالہ بے معنی ہو گا اسی لئے میں نے کوئی حوالہ پیش کرنے کی بجائے اب صرف بنیادی بات پیش کی ہے اور اسی لئے آپ کے پیش کردہ یہ حوالے بھی آپ کے کسی عقیدہ کی تائید نہیں کرتے کیوں کہ شریعت اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے, انسان کی ہوتی ہی نہیں, انسان خواہ وہ نبی ہی ہو, صرف اُس کا تابع ہوتا ہے دوسری بات آپ کے بعد کے حوالے تو "ختم نبوت" کی بحث پر ہیں جو ہمارا موضوع ہی نہیں بنتا کیوں کہ جب تک یہ فیصلہ نہ ہو کہ "غیر تشریعی نبی" بھی نبی ہی ہوتا ہے اور صاحبِ شریعت نبی کسے کہتے ہیں، دوسری تمام بحثیں بے معنی ہیں
اب ذرا اس آیت پر غور کریں جو آپ کے اس عقیدے کا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑتی اور یہ بتائیں کہ یہاں "کلم اللہ" سے آپ کیا مراد لیتے ہیں اور َرَفَعَ بَعْضَهُم دَرَجَاتٍ کا کیا مطلب لیتے ہیں؟
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ

راقم:
جناب کے پاس حوالوں پر کچھ کہنے کو رہتا تو وہ کہتے نا؟ خود شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ کے صریح حوالے آپ کے سامنے ہیں، آپ تو زور لگائیں پھر بھی اس کے رد ممکن نہیں، ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ صاف فرما رہے ہیں کہ نبی کے لفظ اور وہ وحی جو انبیاء اور رسل کے متعلق ہے وہ منقطع ہوئی، تو اس کے بعد آپ چاہے صاحب شریعت کا رونہ رو لیں یا تابع کا آپ کے پاس کچھ بجتا ہی نہیں، ہاں کج بحثی کے علاوہ۔
آپ نے پھر وہی بات کی ایک عام مسلمان کو آپ نبی سے ملا رہے ہیں، جو معقول ہے نہیں، "میری دلیل اولی الامر کی اطاعت پر تھی (امر و نہی کے نزول پر نہیں)" تو جناب اولی الامر میں اور ان میں فرق ہی امر و نہی کا ہے جس پر آپ کی کوئی دلیل ہی نہیں۔ باقی آپ کی سارے دلائل کے جواب میں میں صرف یہ کہہ رہا ہوں:
"النبي رجل بعثه الله تعالیٰ الی الخلق مبلغا لھم احکام الشرع و ملزما عليهم طاعة و الاقرا بنبوة"(تفہیمات جلد 2 صفحہ 136)
"نبی وہ شخص ہوتا ہے جسے اللہ اپنی مخلوق کی طرف بھیجتا ہے، ان کی طرف احکام شرع بھیجتا ہے اور ان پر لازم کرتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں اور ان اپنی نبوت کا اقرار کریں"۔
احکام شرع چاہے پرانی شریعت کے ہوں یا نئی، کسی کے تابع ہو یا نئی وہ احکام شرح اس کی شریعت ہوتی ہے۔

مربی صاحب:
میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ سو حوالے بھی دے دیے جائیں تو بھی جب تک آپ کا بنیادی عقیدہ درست نہیں ہو گا, ان کا کوئی فائدہ نہیں آپ کا اپنا ماننا ہے کہ "غیر تشریعی نبوت" جاری ہے تو پھر ان حوالوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں مسئلہ تو یہ ہے کہ "غیر تشریعی نبی" کس کو کہا جاتا ہے؟ ہر نبی عام انسانوں میں سے ہی ہوتے ہیں جن پر وحی نازل ہوتی ہے مگر آپ شاید نبی کو انسان ہی نہیں سمجھتے اس لئے میری دلیل آپ کی سمجھ سے باہر ہے جب اللہ تعالیٰ نے نبی اور رسول کی اطاعت کے ساتھ اولی الامر کی اطاعت کو لیکھا ہے تو آپ کو اس پر اعتراض کا کس نے حق دے دیا میری دلیل تو صاف ہے کہ اولی امر کی اطاعت اس کی کسی شریعت کی وجہ سے نہیں کی جاتی تو نبی کی اطاعت کے لئے اس کا تشریعی نبی ہونا کیسے ضروری ہے؟ اگر اس بات میں آپ کو دلیل نظر نہیں آتی تو اس کا جواب میں پہلے ہی دے چکا ہوں کہ پہلے منطق پڑھ کر آئیں پھر سمجھ آئے گی اور سب سے اہم بات, میں نے ایک آیت اوپر پیش کی تھی جس میں واضح طور پر انبیاء کی دو اقسام بیان کی گئیں ہیں, مگر آپ کو اس پر ایک لفظ لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی کیوں کہ اس کے بعد آپ کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بچتا دوبارہ اسے کاپی کرتا ہوں
یہ بتائیں کہ یہاں "کلم اللہ" سے آپ کیا مراد لیتے ہیں اور َرَفَعَ بَعْضَهُم دَرَجَاتٍ کا کیا مطلب لیتے ہیں؟
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ

راقم:
جناب ہم سلف پر بات کر رہے ہیں، اور میں اوپر ابن عربیؒ کا حوالہ میں نقل کر چکا ہوں۔ آپ کا دل آئے مانیں یہ کہہ دیں انہوں نے غلط کہا تو بات ہی ختم۔ یا تو آپ کہیں ان کا عقیدہ ہی غلط تھا جسے اب آپ قرآن سے غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں، پھر تو بات بنتی ہے۔
مربی صاحب:
جناب جب آپ خود مان چکے ہیں کہ غیر تشریعی نبی آ سکتے ہیں تو پھر اس بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی بحث تو یہ ہے کہ تشریعی اور غیر تشریعی نبی کسے کہتے ہیں اور اس کا ثبوت آپ کے حوالوں میں نہیں ہے اور اس کے جواب میں آپ قرآن سے بھاگنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں پھر قرآن کا حوالہ تو آپ بھی پیش کر چکے ہیں جس پر میں نے اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ اس پر اپنی دلیل دی تھی تو میرے پیش کردہ قرآن کے حوالے پر آپ کیوں نہیں آتے اب تیسری اور آخری بار پوچھ رہا ہوں
یہ بتائیں کہ نیچے دی گئی آیت میں آپ "کلم اللہ" سے کیا مراد لیتے ہیں اور َرَفَعَ بَعْضَهُم دَرَجَاتٍ کا کیا مطلب لیتے ہیں؟
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ
اگر اب بھی جواب نہ آیا تو میں اپنی اس آیت پر دلیل دے کر اپنی بات مکمل کر دوں گا

راقم:
غیر تشریعی نبی کیسے کہتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے نبوت کی قسم جس کو عرف عام میں ولایت کہتے ہیں، صوفیاء کے نزدیک اس کو نبوت کے لفظ سے بھی بولا جاتا ہے، چونکہ لغوی معنی میں یہ نبوت ہے۔ آپ کی مذکورہ آیت کا آپ ہمارے ٹاپک سے واسطے بتلائیں میں بتلائے دیتا ہوں، جو آپ نے پوچھا۔
مربی صاحب:
لغوی معنوں سے تو انکار ہی نہیں, لیکن جہاں بھی صوفیاء نے نبوت کی تقسیم کی ہے وہ اصطلاحی معنوں میں ہے (کیونکہ انھوں نے اصطلاحی اور لغوی کی بات ہی نہیں کی) مگر جو آیت میں نے پیش کی ہے اس میں تو بحرحال اصطلاحی معنوں میں انبیاء کی بات ہو رہی ہے اس لئے یہاں آپ کا یہ بہانہ نہیں چل سکتا۔
اب اس آیت پر غور کرنے سے ہر عقلمند کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا چاہیے کہ یہاں "منهم من كلم الله" سے کیا مراد ہے کیونکہ ہر نبی سے اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا لازمی ہے تو پھر یہاں کس کلام کی بات ہو رہی ہے جو ہر نبی سے نہیں ہوا اور اس میں کون سے انبیاء شامل ہیں۔ اور پھر "و رفع بعضهم درجات" سے کون سے انبیاء مراد ہیں آپ چاہیں تو تسلی سے اس پر غور کر کے جواب دے دیں

راقم:
تفسیر قرطبی اٹھائیں اس کے مطابق کلم اللہ سے مراد موسی علیہ السلام کا کلام کوہ طور پر، بعض سے مراد حضورﷺ کو لیا گیا ہے۔ آپ کی اس پر کیا دلیل ہے؟
مربی صاحب:
یہ دونوں باتیں درست ہیں مگر یہاں جو سوال میں نے کیا تھا, اُس کا جواب دیں اگر سمجھ آتا ہے تو کہ تمام انبیاء سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تو پھر یہاں کون سا کلام ہے جو صرف بعض انبیاء سے کیا گیا؟یہ یاد رہے کہ یہاں عربی کے لحاظ سے نہ تو صرف ایک یا دو انبیاء مراد ہو سکتے ہیں اور نہ ہی تمام انبیاء, پھر یہ بعض انبیاء کون سے ہیں؟اور ساتھ ہی وہ بعض انبیاء کون اور کیوں ہیں جن کی نبوت صرف درجات کی بلندی ہے؟
راقم:
کیا تمام انبیاء سے کلام کوہ طور پر جیسے موسی علیہ السلام سے کلام ہوئے ویسے کلام کیا گیا؟ جناب یہاں فضیلت موسیٰ علیہ السلام بیان ہے ان کے کلام طور کی بنا پر۔ جناب کو میں نے ایک عربی دان کی تفسیر کا حوالہ دیا ہے جو شاید آپ اور مجھ سے کئی درجے بہتر عربی جانتے تھے۔ "قَالَ النَّحَّاسُ: بَعْضَهُمْ هُنَا عَلَى قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالشَّعْبِيِّ وَمُجَاهِدٍ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"(قرطبی جلد 3 صفحہ 254)
نحاس نے کہا ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت شعبیؒ اور حضرت مجاہدؒ کے قول کے مطابق یہاں ’’ بعضھم ‘‘ سے مراد حضور نبی رحمت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔
فرمائیں؟

مربی صاحب:
جناب بعض میں یہ دو انبیاء شامل ہیں اس سے میں نے کہاں انکار کیا ہے
مگر نہ تو اس حوالے سے یہ ثابت ہے کہ یہاں صرف یہی دو انبیاء شامل ہیں اور نہ ہی عربی الفاظ سے یہ بات ثابت ہے
پھر اگر فرض کیا کہ کسی ایک مفسر کے خیال میں صرف کوہ طور کا کلام مراد ہے اور دوسرے کے خیال میں صرف حضور ﷺ کا تو یہیں تفاسیر میں اختلاف آ گیا, اور پھر اس کا حل کرنا آپ کے لئے ضروری ہو گا پھر اگر صرف ایک ہی نبی مراد ہوتے تو اُن کا نام آتا جیسا کہ آگے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں ہے, لیکن بعض سے کبھی بھی ایک یا دو انبیاء مراد نہیں ہوتے یہاں کلام سے مراد کلامِ شریعت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا اور حضور ﷺ کو بھی عطا ہوا مگر تمام انبیاء کو نہیں بلکہ صرف صاحبِ شریعت کو ورنہ آپ اس اشکال کا کوئی حل پیش نہیں کر سکیں گے کہ کلام تو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے کیا پھر یہ کون سا کلام ہے جو تمام انبیاء سے نہ ہوا بلکہ صرف بعض انبیاء سے ہوا آیت کے اگلے حصہ یعنی "و رفع بعضهم درجات" میں اللہ تعالیٰ دوسری قسم کے انبیاء کا ذکر فرماتا ہے کہ پہلی قسم تو وہ تھی جن کی نبوت میں کلامِ شریعت شامل تھا اور اُن کو تشریعی نبی بنایا گیا لیکن بعض انبیاء ایسے تھے جن کی نبوت صرف درجات کی بلندی کی وجہ سے تھی, اُن کو کلامِ شریعت نہیں دیا گیا اور وہ غیر تشریعی نبی تھےاور اسی قسم کے کلام اللہ کا دروازہ اب بند ہو چکا ہے جس کے ثبوت میں آپ نے مختلف مفسرین و محدثین کے حوالے پیش کیے ہیںمگر درجات کی بلندی کی وجہ سے جو نبوت پہلے انبیاء کو ملی تھی اُس کا دروازہ آج بھی کھلا ہے

راقم:
یار آپ خواہ مخواہ ایک بعث کے طویل دے رہے ہو۔
"کسی ایک مفسر کے خیال میں صرف کوہ طور کا کلام مراد ہے اور دوسرے کے خیال میں صرف حضور ﷺ کا تو یہیں تفاسیر میں اختلاف آ گیا"
میں نے تفسیر قرطبی سے بات لکھی کہ منھم من کلم اللہ سے مراد موسی علیہ السلام ہیں یعنی کلام طور۔۔۔ ورفع بعضھم درجت سے میں بعضهم سے مراد حضورﷺ۔ پتا نہیں اس میں اختلاف کیسے آ نکلا؟
پھر آپ نے جو حاشیہ چڑھایا وہ میرے نزدیک بے معنی ہے۔

مربی صاحب:
واہ یہ کونسی عربی ہے جس میں "بعض" میں صرف ایک ہی نبی شامل ہے قرآن کے منکر ہو کر آپ جو چاہے کہے جائیں, کس نے روکا ہے۔
راقم:
یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دو معتبر تابعین کا قول ہے، جو امام قرطبیؒ نے نقل کیا جو بذات خود عرب دان تھے۔ آپ کے نزدیک یہ افراد منکرین قرآن ہیں تو میری جانب سے اللہ حافظ سمجھیں۔
مربی صاحب:
دوسرے مفسرین نے یہاں کسی اور نبی کا نام لکھا ہو گا تو اُن کے بارے میں بھی یہی کہو گے جو مجھے کہا ہے کیوں اپنا جھوٹا عقیدہ ان بزرگوں کے سر تھوپ رہے ہو بھائی, کوئی بھی مفسر یہاں "بعض" سے صرف ایک نبی مراد نہیں لیتا تم مجھے صرف اس بات کا جواب دے دو کہ قرآن میں "بعض" صرف ایک ہی کے لیے بولا جاتا ہے اور اگر جواب نہیں ہے تو پھر اپنے دل سے اپنے عقیدے کے بارے میں فیصلہ پوچھنا, شاید سچا جواب مل جائے۔
راقم:
آپ کا کیا کہنا ہے "جو "بعضهم" سے اییک رسول/نبی مراد لے تو وہ عربی سے بھی ناواقف ہے؟ انڈائریکٹلی ہی صحیح؟
مربی صاحب:
یہاں عربی سے واقفیت یا ناواقفیت کی تو میں نے کوئی بات کی ہی نہیں میں نے تو آپ کو بتا دیا ہے کہ کوئی مفسر یہاں بعض سے ایک نبی مراد نہیں لیتا, اگر ہمت ہو تو جن دوسرے مفسرین کو مانتے ہیں ان کی تفاسیر بھی پڑھ لینا, بلاوجہ مفسرین میں اختلاف ثابت کر کے ان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہو مگر میں نے اپنی دلیل صاف اور واضح دے دی ہے, اب اپنے دل سے فتویٰ پوچھو, شاید صحیح جواب مل جائے
راقم:
سلطان صاحب میں نے ایک مفسر کی تفسیر پیش کی جو غالباً آپ کے نزدیک اپنے وقت کے مجدد بھی تھے۔ وہاں انہوں نے ابن عباسؓ اور تو تابعینؒ کا قول نقل کیا ہے جس کے مطابق بعضهم سے مراد حضور ﷺ کی ذات ہے یہ صاحب رفع درجات یہاں حضورﷺ ہیں۔ آپ کو یہ بات چونکہ اپنی دلیل کے مناسب نہیں لگی اس لئے مجھے ہی الٹا کہہ رہے ہیں آپ مفسرین میں اختلاف ثابت کر رہے ہیں۔ پھر آپ کی دلیل ہی پکڑ لیں:
"آیت کے اگلے حصہ یعنی "و رفع بعضهم درجات" میں اللہ تعالیٰ دوسری قسم کے انبیاء کا ذکر فرماتا ہے کہ پہلی قسم تو وہ تھی جن کی نبوت میں کلامِ شریعت شامل تھا اور اُن کو تشریعی نبی بنایا گیا لیکن بعض انبیاء ایسے تھے جن کی نبوت صرف درجات کی بلندی کی وجہ سے تھی, اُن کو کلامِ شریعت نہیں دیا گیا اور وہ غیر تشریعی نبی تھے"
جناب آپ کے نزدیک حضور ﷺ غیر شریعی نبی تھے؟

مربی صاحب:
جناب میرے لئے قرآن اور صحیح احادیث حجت ہیں, پھر ان مفسرین نے ایسا کہیں نہیں لکھا کہ ان کی تفاسیر کو اس لئے مانا جائے کہ وہ مجدد ہیں بلکہ انھوں نے اپنی تفسیر کی جہاں تک ممکن ہو دلیل دی ہے, اگر کوئی اس دلیل کو قرآن یا حدیث سے رد کر دے تو وہ تفسیر بھی رد ہو جائے گی,پھر دوسرے مجدین و مفسرین نے ان کے خلاف لکھا ہے تو پھر کیا کریں گے اور کس کو مانیں گے؟ اس لئے تفسیر میں ہمیشہ دلیل کو دیکھا جاتا ہے نام کو نہیں۔میرا آپ کے سوال میں سیدھا سا جواب یہ ہے کہ کیا آپ کے خیال میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا کلام زیادہ تھا یا حضور ﷺ کا؟
اگر حضور ﷺ کا زیادہ تھا تو پھر "کلم اللہ" میں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضور ﷺ سے بڑھ کر کیوں شامل کیا جائے گا؟
پھر "رفع بعضهم درجات" کا مطلب درجات کی بلندی ہے, نبیوں کی ایک دوسرے سے افضلیت نہیں, نبیوں کی افضلیت کا ذکر تو اسی آیت کے شروع میں آ چکا ہے۔

راقم:
جناب من آپ کو مفسرین نے اس کے خلاف لکھا ہے ثابت کرنے کے لئے کچھ دلائل کی بھی شاید ضرورت تھی مگر چونکہ آپ مانتے ہیں جو آپ نے کہہ دیا بس وہ پتھر پر لکیر کسی نے کہا ہو یا نہیں وہ کہا ہی ہو گا۔ پھر آپ حضرت ابن عباسؓ کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ "کلم اللہ" سے مراد موسی علیہ السلام کی فضیلت ثابت کرنا ہے جو انہوں براہ راست کوہ طور پر کلام کیا خدا سے جبرئیل امین کے واسطے کے بغیر۔ اب آپ فرمائیں کیا کوہ طور پر حضور ﷺ نے اللہ سے کلام کیا؟ آپ کہیں نہیں۔ لیکن ہم کہتے ہیں یہ بات حضرت موسی علیہ السلام کی حضور ﷺ سے فضیلت ثابت نہیں کرتی، بلکہ دیگر انبیاء سے اس لحاظ سے ثابت کرتی ہے۔ ورنہ ہمارے نزدیک تو خدا تعالیٰ سے حضور ﷺ نے کلام کیا سدرۃ المنتہی سے آگے جا کر جہاں کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔ اب کیوں اس جگہ حضرت موسی علیہ السلام مراد لئے جائیں اور حضور ﷺ نہ لئے جائیں؟ کیوں جناب اگلے حصہ آیت میں حضور ﷺ کا ذکر ابن عباس ؓ کی تفسیر سے واضح ہو گیا۔ پھر یہاں پر کئی مفسرین نے ایک لطیف بحث کی ہے جس سے ثابت کیا ہے کہ یہ بات حضور ﷺ کو تمام انبیاء سے افضل بناتی ہے۔ صرف ایک روایت سے ایک فضیلت نقل کرتا ہوں:
عَن مُجَاهِد فِي قَوْله {مِنْهُم من كلم الله وَرفع بَعضهم دَرَجَات} قَالَ: كلم الله مُوسَى وَأرْسل مُحَمَّدًا إِلَى النَّاس كَافَّة(الدر منثور جلد2 صفحہ 3)
مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ’’ منہم من کلمہ اللہ ورفع بعضہم درجت ‘‘ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (قیامت تک) تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
پھر آپ اگر "کلم اللہ" سے موسی علیہ السلام اور حضور ﷺ کو بھی مراد لے لیں تو بھی جناب مجھے یہ بات غیر مفید نہیں۔ کیوںکہ صاحب رفع الدرجات حضورﷺ کی ذات ہیں۔ اور اس بنا پر آپ کی دلیل غلط قرار پاتی ہے۔
 
آخری تدوین :

محمد دانش

رکن ختم نبوت فورم
مربی صاحب:
لگتا ہے آپ کو بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ آپ تو بہت بڑے عالم ہیں اور ہم لوگ کوئی تفسیر پڑھتے ہی نہیں
صرف آپ کی تسلی کے لئے تفسیر ابنِ کثیر کا حوالہ نیچے کاپی کر رہا ہوں جو ان تفاسیر کے اختلاف کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے
اس لئے آپ کسی بھی تفسیر سے مدد لیں مگر دلائل صرف قرآن یا حدیث سے پیش کریں


پھر آپ کا کہنا ہے کہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے واسطے کے بغیر کلام کیا تو یہ بات قرآن کی آیت (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ)[Surat Ash-Shura 51]کے خلاف ہے اس لئے یہ تفسیر تو قرآن کے مخالف ہونے کی وجہ سے رد ہو گئی اور اس کی تفصیل میں آپ کی کسی بات کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی پھر در منثور کا جو حوالہ آپ نے دیا یہ صرف ایک زوقی ترجمہ تو ہو سکتا مگر آیت کے حقیقی معنوں کے خلاف ہے کیوں کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ "و رفع بعضهم درجات" کا مطلب صرف درجات کی بلندی ہے نہ کہ اس سے مراد نبیوں کا ایک دوسرے سے افضل ہونا نبیوں کی افضلیت کا ذکر تو اسی آیت میں پہلے ہی آچکا ہے جیسا کہ فرمایا "فضلنا بعضهم على بعض" اور یہاں حضور ﷺ کی وہ فضیلت بھی مراد ہے جس کا آپ نے ذکر کیا پس "رفع بعضهم درجات" کا مطلب "بعض کو درجات میں بلند کیا" اب جس طرح "کلم اللہ" کے لئے سوال تھا کہ کیا صرف بعض سے کلام کیا اسی طرح اس پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف بعض انبیاء کو درجات میں بلند کیا گیا؟ تو اس کا جواب بھی اسی طرح ہے کہ بعض انبیاء کی نبوت کلام اللہ (یعنی کلامِ شریعت) کے ساتھ تھی اور بعض کی صرف درجات کی بلندی کی وجہ سے یہاں ہرگز انبیاء کا آپس میں مقابلہ نہیں کیا جارہا کہ کوئی یہاں حضور ﷺ کی افضلیت کی بات کرے, بلکہ اس کا ذکر آیت کے پہلے حصہ میں گزر چکا ہے اس لئے یہاں اس کی ضرورت ہی نہیں پس یہ آیت صاف طور پر ثابت کر رہی ہے کہ نبوت دو قسم کی ہےپہلی میں کلام اللہ یعنی کلامِ شریعت عطا ہوتا ہے جو تشریعی انبیاء کو ملتا ہے اور بعض کو صرف درجات کی مقامِ نبوت تک بلندی عطا ہوتی ہے یعنی غیر تشریعی نبوت
راقم:
تفسیر ابن کثیر کے حوالہ کو ہی پڑھ لیں، وہاں جو حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر ہے، اس پر میرا مدعا وہی تفسیر قرطبی والا ہے، کہ انہیں نے صرف آدم علیہ السلام کا ذکر فرمایا تو جناب وہ جنت کا کلام ہے، نہ کے زمین پھر بھی یہاں ایک خاصیت تو موسی علیہ السلام کے پاس رہی۔ وَقَدْ تَأَوَّلَ بَعْضُ النَّاسِ أَنَّ تَكْلِيمَ آدَمَ كَانَ فِي الْجَنَّةِ، فَعَلَى هَذَا تَبْقَى خَاصِّيَّةُ مُوسَى۔
پھر یہاں ابن کثیر رحمۃ اللہ نے بھی تین انبیاء کا نام لیا آپ کے نزدیک نا کے علاوہ کوئی نبی صاحب شریعت نہیں؟
سورہ شوری کی آیت میں موسی علیہ السلام کے کلام کا نعوذ باللہ ابطال کیسے ثابت ہو گیا؟
"أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ" كَمَا كَلَّمَ مُوسَى(قرطبی)
یہ تو میرے حق میں ہے۔ فرشتے کو واسطے تو جناب نہ ہوا بلکہ حجاب کے پیچھے ہوا۔ پتا نہیں آپ نے کیسے اس سے میری دلیل غلط قرار دے دی؟
جناب میری دلیل حضور ﷺ کی فضیلتِ خاص آیت کے حصہ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ سے ہے۔ نہ کے پہلے۔ اور کلم اللہ سے جنہوں نے کلام کیا ان کی دیگر سے، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کی آگے بیان ہے۔ اس لئے پہلے میری آرگومنٹ کو سمجھئے پھر جواب دیں۔ آپ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ سے لے رہے ہیں غیر شریعی نبی جو کسی پیرایہ میں درست نہیں۔ یہاں مفسرین نے پیغمبر ﷺ کو مراد لئے ہے۔
مربی صاحب:
جناب اب آپ صرف ادھر ادھر بھاگنے کا راستے تلاش کر رہے ہیں آپ نے پہلے کہا کہ "کلم اللہ" میں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد ہیں اور دوسرا کوئی نہیں, پھر میری دلیل کے بعد حضور ﷺ کو بھی اس میں شامل مان لیا اور اب حضرت آدم علیہ السلام کو بھی شامل مان رہے ہیں آپ کے طریق کے مطابق تو یہ تفاسیر کا اختلاف بنتا ہے مگر میرے خیال میں مفسرین نے محتاط مثالیں بیان کی ہیں لیکن بحرحال قرآن میں جن انبیاء کا ذکر ہے اُن میں سے یہی وہ تین انبیاء ہیں جن کے بارے میں واضح طور پر صاحب شریعت ہونا ثابت ہے, ان کے علاوہ حضرت نوح علیہ السلام (جو آدمِ ثانی بھی کہلاتے ہیں) کے صاحبِ شریعت ہونے کا ایک اشارہ ملتا ہے مگر بحرحال آپ تین مشہور صاحبِ شریعت انبیاء کو "کلم اللہ" میں مراد مان چکے ہیں اور میرے خیال میں اِن تین کے علاوہ قرآن میں مذکور انبیاء میں سے کوئی بھی قطعی طور پر صاحبِ شریعت نبی نہیں ہیں دوسری بات کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے تین طریقوں میں سے پہلے دونوں طریق میں فرشتے کا واسطہ نہیں ہے, یعنی وحی جو دل میں ڈالی جاتی ہے یا "وراء حجاب" تو اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کیا خصوصیت ہے پھر "وراء حجاب" کا تو مطلب ہے پردے کے پیچھے یعنی استعارہ کے رنگ میں اور اس کی تو لاتعداد مثالیں ہیں مثلاً حضور ﷺ کا دو جھوٹے نبیوں کا کڑوں کی شکل میں دیکھنا یا گائیں ذبح ہوتے دیکھنا یا دجال کا دیکھنا وغیرہ پھر قرطبی کا حوالہ جو آپ دے رہے ہیں وہاں "کما کلم موسیٰ" کہا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ صرف حضرت موسیٰ ہی اس میں شامل ہیں اور تفسیر ابنِ کثیر کے حوالے کے بعد آپ خود اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ یہاں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد نہیں بلکہ کم از کم تین انبیاء مراد ہیں۔ پھر "رفع بعضهم درجات" میں آپ نے دلیل نہیں دی بلکہ صرف ایک تفسیر کا حوالہ دیا ہے جو دلیل نہیں ہے دلیل تو میں نے اس پر دی ہے کہ یہاں انبیاء کے درمیان مقابلہ نہیں کیا جارہا بلکہ مقابلہ تو اس سے پہلے کیا گیا ہے جہاں فرمایا کہ "بعض کو بعض پر فضیلت بخشی" مگر یہاں تو صرف اتنا کہا گیا ہے کہ "بعض کے درجات بلند کیے" یعنی نبوت کا ملنا ہی صرف درجات کی بلندی کی وجہ سے ہے انبیاء کی فضیلت دوسرے انبیاء پر اور خصوصاً حضور ﷺ کی فضیلت تو "فضلنا بعضهم على بعض" میں بیان ہے, تو یہاں وہی بات دہرانے کا کوئی مقصد ہی نہیں بنتا یہاں صرف انبیاء کی فضیلت دوسرے انسانوں پر مراد ہے یعنی وہ درجات جن میں سب سے پہلے صالح ,پھر شہید, پھر صدیق اور پھر نبی کے درجات آتے ہیں پس یہ بات صاف اور ثابت ہو چکی ہے کہ "کلم اللہ" میں صرف تشریعی نبی مراد ہیں, دوسرا کوئی نہیں جن میں تین مشہور تشریعی نبی بحرحال شامل ہیں, جبکہ "رفع بعضهم درجات" کے ذریعہ مقامِ نبوت پانے والے انبیاء ان تین کے علاوہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کلامِ شریعت سے نہیں نوازا اور اس قسم کی نبوت آج بھی جاری ہے۔

راقم:
جناب آپ نے کج بحثی کے علاوہ کچھ کرنا نہیں، آپ چونکہ نہ ماننے کا عزم کئے ہوئے ہیں اس لئے فائدہ بحث نہیں۔ جن لوگوں نے اس بحث سے کچھ مقصد پانا ہو گا وہ کی گئی سے نکال لیں گے۔ میں اس بحث کو اپنی طرف سے اس کمنٹ پر ختم کر رہا ہوں۔ آپ کی اس آیت پر تمام بحث آپ کے نقطہ "رفع بعضهم درجات" پر لگی ہے کے یہاں سے مراد غیر شریعی نبی ہیں جس کی بنا پر آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دو تابعین و مجددین کی بات کے منکر ہوئے۔ خیر آپ بھی کہتے ہیں آپ کے لئے یہ کوئی ضروری بات نہیں آپ ان کی مانیں۔ میں کہتا ہوں چھوڑیں ان کو مرزا صاحب کی مان لیں۔ خود مرزا صاحب یہاں حضور ﷺ کو مراد لے کر ایک صاحب شریعت نبی کا بتلا رہے ہیں، آپ چاہیں مانیں یا نہیں، یہ آپ تک ہے یا اس صاحب عقل پر ہے جس نے یہ بحث پڑھی۔
والسلام علی من اتبع الهدی
" وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ اس جگہ صاحب درجات رفیعہ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم مراد ہیں"(روحانی خزائن جلد 2 سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 234)

 

محمد دانش

رکن ختم نبوت فورم
ماشااللہ ۔۔۔ بہت اچھے سے آپ نے مناظرہ کیا ہے۔ اس پر طالب علم مختصر سی وضاحت کرنا چاہتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کے لیے کافی کارآمد ہو گی۔ انشااللہ۔
پہلی بات:
اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ مرزا قادیانی خود کو صاحب شریعت نبی ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے ۔۔۔ جبکہ مربی جی کو اپنے عقائد کا ہی علم نہیں ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں مرزا قادیانی خود کو صاحب شریعت نبی بھی کہتے ہیں۔
View attachment 2561
دوسری بات:
قرآن کریم کہتا ہے کہ " ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین "آئیں آپ کو اس کا ترجمہ مرزا قادیانی کی زبانی دکھاتے ہیں۔ آج کل قادیانی یہاں پر خاتم النبیین کے معنوں میں تحریف کرتے ہیں۔ جبکہ مرزا جی کے مطابق یہاں پر آپ ﷺ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ختم کرنے والے ہیں نبیوں کے ۔ اور یہاں تک مرزا صاحب اس آیت کے ضمن میں لکھ رہے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر صاف دلالت کرتی ہے کہ بعد نبی کریمﷺ کے کوئی رسول نہیں آئے گا۔۔۔۔
(نوٹ: یہ ان آیات کا تسلسل ہے جن میں مرزا صاحب وفات مسیحؑ کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرا قادیانیوں سے سوال ہے کہ جب وفات مسیح کی باری آئے تو کیا یہ ترجمعہ کرنا جائز ہو جاتا ہے؟؟؟ اور جب اجرائے نبوت کی باری آتی ہے تو اسی ترجمعے پر قادیانی جماعت کو موت کیوں پڑ جاتی ہے؟؟؟)
View attachment 2562
تیسری بات:اگر فرضی طور پر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ نبی آسکتے ہیں تو پھر اب جو نبوت کے یا مہدی ہونے کے یا مسیح ہونے کے لوگ دعوے دار ہیں ان کو نبی کیوں نہیں مانتے قادیانی حضرات؟؟؟
کیا جو اب نبوت کا دعوی کرے گا قادیانی جماعت کو نبی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے؟؟ اگر تیار ہے تو تب اجرائے نبوت پر دلائل دے اور بات کرے ، اگر اب کسی نبی کو قادیانی جماعت ماننے کے لیے تیار نہیں تو پھر اجرائے نبوت کے دلائل کیسے؟؟؟

نسیم احمد طاھر (اگر نبوت جاری ہے تو اس مدعی نبوت کو قادیانی جماعت کیوں جھٹلاتی ہے؟؟)
View attachment 2563
اسد السلام شاہ (یہ بھی ایک نیا مدعی نبوت ہے اگر نبوت جاری ہے تو قادیانی جماعت ان کو کیوں نہیں مانتی؟؟)
View attachment 2564

جزاک اللہ
مرزا غلام قادیانی کا حوالہ اس لئے نہیں دیا کہ وہاں قادیانی اس کی تاویل کرتے ہیں اور اس سے بحث ایک اور رخ اختیار کر جاتی۔ آیت خاتم النبین بھی اسی وجہ سے نہیں پیش کی اورمدعیان پر بات الاخر ہوتی، مگر میرے نزدیک اس کی ضرورت نہیں بچی تھی۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
ماشا اللہ
دانش بھائی فورم پر خصوصی توجہ دیں اور کوئی نہ کوئی پوسٹ ضرور کیا کریں
 
Top