• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عقیدہ ختم نبوت اور قرآن مجید کا اسلوب بیان نمبر۳

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ ختم نبوت اور قرآن مجید کا اسلوب بیان نمبر۳
قرآن مجید کا نقشہ ئ نبوت حضرات ناظرین کرام ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
کہ جب دنیا پیدا ہوئی تو اس وقت حکم خدا وندی حضرت آدم صفی اللہ کو بدیں الفاط پہنچایا گیا۔
قلنا اھبطوا منہا جمیعاً فاما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلاخوف علیھم ولا ھم یحزنون ۰
بقرہ 38
(ہم نے حکم دیا نیچے جاؤ یہاں سے تم سب۔ پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر‘ نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔)
قال اھبطا منہا جمیعا بعضکم لبعض عدو فاما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ھدٰیی فلا یضل ولا یشقی ۰
طہ 123
(فرمایا اترو یہاں سے دونوں اکٹھے رہو ایک دوسرے کے دشمن۔ پھر اگر پہنچے تم کو میری طرف سے ہدایت پھر جو چلا میری بتلائی راہ پر سو نہ وہ بہکے گا اور نہ وہ تکلیف میں پڑے گا۔)
اسی مضمون کو الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ دوسری جگہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ جس کو آج کل مرزائی آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کو جاری ثابت کرنے کے لئے بالکل بے محل پیش کردیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت کا تعلق حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
یا بنی آدم امایأتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقی واصلح فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون ۰
اعراف 35
(اے اولاد آدم کی اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں کے۔ کہ سنائیں تم کو آیتیں میری۔ تو جو کوئی ڈرے اور نیکی پکڑے تو نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔)
ان دونوں آیتوں میں ابتداء آفرینش کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ اور دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل اور نوع انسان کو حکم دیاکہ میں حضرت آدم سے نبوت کا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہوں اور حضرت آدم کے بعد انبیاء ورسل بکثرت ہوں گے اور لوگوں کے لئے ان کی اتباع کرنا ضروری ہوگا۔ اس جگہ رسل جمع کے صیغہ سے بیان فرمایا ہے اور انبیاء کی تحدیدو تعین نہیں کی۔ جس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم صفی اللہ کے بعد کافی تعداد میں انبیاء کرام مبعوث ہوں گے۔
بعد ازاں حضرت نوح وابراھیم علیہما الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آیا تو اس میں بھی یہی اعلان ہوا کہ ان کے بعد بھی بکثرت انبیاء ہوں گے۔
ولقد ارسلنا نوحاً وابراھیم وجعلنا فی ذریتہما النبوۃ والکتاب منہم مھتد وکثیر منہم فاسقون ثم قفینا علیٰ آثارھم رسلنا ۰
حدید 26‘27
(اور ہم نے بھیجانوح کو اور ابراھیم کو اور ٹھہرادی دونوں کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب پھر کوئی ان میں راہ پر ہے اور بہت ان میں نافرمان ہیں۔ پھر پیچھے بھیجیان کے قدموں پر اپنے رسول۔)
اس آیت کریمہ میں صاف فرمایا کہ حضرت نوح اور حضرت ابراھیم علیہم السلام پر نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوگیا تھا۔ بلکہ ان کے بعد بھی کافی تعداد میں انبیاء کرام تشریف لائے اور یہاں بھی ”رسل“ کا لفظ فرمایا کوئی تحدیدو تعین نہیں فرمائی۔ علی ہذاالقیاس یہی سنت اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی رہی اور بعینہ یہی مضمون ذیل کی آیت میں صادر ہوا۔
ولقد آتینا موسیٰ الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل ۰
بقرہ 87
(اور بیشک دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور پے درپے بھیجے اس کے پیچھے رسول۔)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی باب نبوت بند نہیں ہوا تھا اور ان کے بعد انبیاء کرام بکثرت آتے رہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے بالرسل کہہ کر ارشاد فرمایا۔
صرف یہ تین آیتیں اس لئے ذکر کی گئیں کہ معلوم ہوجائے کہ اولوالعزم انبیاء کرام کے بعد سنت خدا وندی کیا کچھ چلتی رہی؟۔
لیکن جب حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کی باری آئی تو اس مبشر”احمد“ نے آکر دنیا کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے بعد سلسلہ نبوت اس کثرت سے اور غیر محدود نہیں جیسے پہلے انبیاء کرام کے بعد ہوتا چلا آیا ہے۔ بلکہ میرے زمانہ میں نبوت میں ایک نوع کا انقلاب ہوگیا ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ الرسل کے لفظ سے انبیاء کرام کی آمد کو بیان کیا جاتا تھا اب واحد کا لفظ ”برسول“ کہہ کر ارشاد کیا اور بجائے اس کے کہ حسب سابق غیر محدود اور غیر معین رسولوں کے آنے کا ذکر کیا جاتا۔ طریق بیان کو بدل کر صرف ایک رسول کے آنے کی اطلاع دی اور اس کے اسم مبارک (احمد) کی بھی تعین فرمادی کہ کوئی شقی ازلی یہ دعویٰ نہ کرنے لگے کہ اس کا مصداق میں ہوں۔(جیسے آج کل مرزا قادیانی کی امت یہ ہانک دیا کرتی ہے کہ بشارت احمد کا مصداق مرزا قادیانی ہے۔)
ارشاد ہوا ہے:
اذ قال عیسیٰ بن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التوراۃ ومبشراً برسول یاء تی من بعدہ اسمہ احمد ۰
صف ۶
(اور جب کہا عیسیٰ مریم کے بیٹے نے اے بنی اسرائیل میں بھیجا ہوا آیا ہوں اللہ کا تمہارے پاس۔ یقین کرنے والا اس پر جو مجھ سے آگے ہے توریت‘ اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد اس کا نام ہے احمد۔)
آنے والے نبی کریم ﷺ کا نام بتاکر تعین بھی کردی اور کہا کہ اب میرے بعد ایک ا ور صرف ایک رسول آئے گا۔ جس کا نام گرامی احمد ہوگا۔ انبیاء وسابقین نے تو اپنے بعد کے زمانہ میں بصیغہ جمع کئی رسولوں کی آمد کی خوشخبری دی تھی۔ مگر حضرت مسیح نے صرف ایک رسول احمد کی ہی بشارت وخوشخبری دی اورجب وہ رسول خاتم الانبیاء والمرسلین‘ آخر آمدبودفخر الاولین‘ تشریف فرماہوئے۔تو خدا نے ساری دنیا کے سامنے اعلان فرمادیا کہ اب وہ رسول کریمﷺ جس کی طرف نگاہیں تاک رہی تھیں۔ وہ تشریف فرماہوگیا ہے۔ وہ خاتم النبیین ہے اور اس کے بعد کوئی نیا شخص نبوت کے اعزاز سے نہیں نوازا جائے گا۔ بلکہ وہ نبوت کی ایسی اینٹ ہے جس کے بعد نبوت کے دروازہ کو بند فرمادیا گیا ہے۔ ارشاد ملاحظہ ہو:
ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین ۰
احزاب 40
(محمدؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر۔)
یعنی آنحضرت ﷺ جن کی آمد کی اطلاع حضرت مسیح نے دی تھی وہ آچکے اور آکر نبوت پر مہر کردی۔ اب آپ ﷺ کے بعد دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہوگی۔ جس کو نبوت کے خطاب سے نوازا جائے اور انبیاء کرام کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ قرآن کا یہ طریق بیان نبوت کے سلسلہ کی ان کڑیوں کا اجمالی نقشہ تھا کہ جو حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوکر حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوگیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
Top