• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ

ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے، جس پر پورے دین کا انحصار ہے، اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو پورا دین محفوظ ہے، اگر یہ عقیدہ محفوظ نہیں تو دین محفوظ نہیں۔ لہٰذا عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ پورے دین کا تحفظ ہے۔ اس لئے کہ اگر حضور تاجدار انبیاءمحمدﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا مان لیا جائے تو خدا کی خدائی باقی رہتی ہے نہ حضورﷺ کی ختم نبوت باقی رہتی ہے۔ قرآن کریم میں ایک سو سے زائد آیات اور ذخیرہ احادیث میں دو صد سے زائد احادیث نبوی اس عقیدے کا اثبات کر رہی ہیں۔ جن میں پوری تفصیل سے ختم نبوت کے ہر پہلو کو اجاگر کیاگیا ہے۔ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور اکرمﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے ،بلکہ امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیاءﷺ کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مدعی نبوت پر ایمان لانا تو کجا اس سے دلیل طلب کرنا کفر قرار دیا جس طرح خدا نے اپنی خدائی اپنے آپ پر ختم کردی اسی طرح نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم کردیا اور جس طرح کوئی انسان خدا نہیں بن سکتا اسی طرح حضرت محمدﷺ کے بعد کوئی آدمی نبی، رسول بھی نہیں ہوسکتا۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے جو عظیم قربانی دی وہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظر میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جو اہمیت تھی اس کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے جو معرکہ ہوا اس میں بائیس ہزار مرتدین قتل ہوئے اور 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش فرمایا جس میں600 کے قریب تو حفاظ اور قراءتھے حتیٰ کہ اس معرکہ میں بدری صحابہ کرام کی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کردیا مگر اس عقیدہ پر آنچ نہ آنے دی۔

حضورﷺ کی حیات طیبہ میں دین اسلام کے لئے شہید ہونے والے مردوں، عورتوں، بچوں و بوڑھوں اور نوجوانوں کی تعداد 259 ہے اور اس دوران قتل ہونے والے کفار کی کل تعداد 759 ہے جو کہ کل تعداد 1018 بنتی ہے۔ جبکہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے لڑی جانے والی صرف ایک جنگ میں شہداءو مقتولین کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
دین کی تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین اب قیامت تک باقی رہے گا، اب اس میں کسی تبدیلی، کسی اضافہ، کسی ترمیم کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا جب دین مکمل ہوچکا ہے تو انبیاءکرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد بھی مکمل ہوچکا، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداب نہ کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ کسی نبی کی گنجائش۔ لہٰذا آپ کی رسالت کے ساتھ ساتھ آپ کی ختم نبوت کا بھی اعلان کردیا گیا اور نبوت و انبیاءکا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا، وہ سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ حضرت محمد مصطفی ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں، آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ پر جو کتاب نازل ہوئی قرآن کریم وہ اللہ کی آخری کتاب ہے اس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہو گی اور آپ کی امت آخری امت ہے جس کے بعد کوئی امت نہیں۔
قرآن کریم نے بھی بہت وضاحت اور صفائی کے ساتھ بتایا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور احادیث مقدسہ نے بھی اس کی تصریح کی ہے، بلکہ قرآن کریم و احادیث میں جس کثرت اور تواتر و قطعیت کے ساتھ عقیدئہ ختم نبوت کو بیان کیا گیا ہے، اس کی نظیر بہت کم ملے گی۔ قرآن و احادیث کے علاوہ امت کا روز اول سے اجماع چلا آرہا ہے۔خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری دور میں سب سے پہلے جھوٹے مدعیان نبوت کا خاتمہ کرکے امت کے سامنے اس کام کا عملی نمونہ پیش کیا، چنانچہ یمن میں عبہلہ نامی ایک شخص جس کو اسود عنسی کہاجاتا تھا، نے سب سے پہلے ختم نبوت سے بغاوت کرکے اپنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو اس سے قتال وجہاد کا باقاعدہ تحریری حکم صادر فرمایا اور بالآخر حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خنجر نے نبوت کے اس جھوٹے دعویداری کا آخری فیصلہ سنادیا۔
انیسویں صدی کے آخر میںبے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک جھوٹی اور خود ساختہ نبوت قادیانیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جس کی تمام تر وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لئے وقف ہوگئیں، انگریز کو بھی ایسے ہی خاردار خود کاشتہ پودے کی ضرورت تھی جس میں الجھ کر مسلمانوں کا دامن اتحاد تار تار ہوجائے اس لئے انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کی خوب آبیاری کی۔ اس فرقہ کے مفادات کی حفاظت بھی انگریزی حکومت سے وابستہ تھی۔ اس لئے اس نے تاج برطانیہ کی بھر پور انداز میں حمایت کی، ملکہ برطانیہ کو خوشامدی خطوط لکھے، حکومت برطانیہ کے عوام میں راہ ہموار کرنے کے لئے حرمت جہاد کا فتویٰ دیا، چاپلوسی کے گھٹیا اور پست طریقے اختیار کئے، علماءکرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلہ میں میدان عمل میں نکلے ،بلکہ خدا کی قدرت دیکھئے کہ اس فتنہ کی پیدائش سے قبل ہی دارالعلوم دیوبند کے مورث اعلیٰ سیّد الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی پر اللہ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا تھا کہ ہندوستان میں ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے، چنانچہ مکہ مکرمہ میں ایک دن انہوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ سے فرمایا: ”ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا“ تم ضرور اپنے وطن واپس چلے جاﺅ، اگر بالفرض تم ہندوستان میں خاموش بھی بیٹھے رہے تو وہ فتنہ ترقی نہ کرسکے گا اور ملک میں سکون ہوگا، پیر مہر علی گولڑویؒ فرماتے ہیں کہ :”میرے نزدیک حاجی صاحبؒ کی فتنہ سے مراد فتنہ قادیانیت تھی“۔ (آئینہ قادیانیت، صفحہ118)
علامہ سیّد انور شاہ کشمیریؒ گویا کہ اس فتنہ کے خاتمہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے، اس فتنے کے لئے وہ ہمیشہ بے چین و بے قرار رہتے۔ امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابین تصنیف کیں ،بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا، جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ ، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ؒ، مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ، مولانا محمد منظور نعمانی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔
امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں سے عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لئے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ”جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہے وہ قادیانی درندوں سے ناموس رسالت کو بچائے۔“
حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حضرت مولانا سیّد عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علماءو صلحا موجود تھے، ان سب نے حضرت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔حضرت مولانا سیّد انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ تو ختم نبوت کے کام کو اپنی مغفرت کا سبب بتایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ”اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا ہم سے بہتر ہے۔“
حضرت علامہ شمس الحق افغانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کا آخری وقت تھا کمزوری بہت زیادہ تھی ، چلنے کی طاقت بالکل نہ تھی ، فرمایا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچا دیں ، اس وقت کاروں کا زمانہ نہ تھا ایک پالکی لائی گئی ،پالکی میں بٹھا کر حضرت شاہ صاحب کو دارالعلوم کی مسجد میں پہنچا دیا گیا ، محراب میں حضرت کی جگہ بنائی گئی تھی وہاں پر بٹھا دیا گیا تھا ، حضرت کی آواز ضعف کی وجہ سے انتہائی ضعیف اور دھیمی تھی ۔ تمام اجل شاگرد حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کے اردگرد ہمہ تن گوش بیٹھے تھے۔ آپ نے صرف دو باتیں فرمائیں ، پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تاریخ اسلام کا مَیں نے جس قدر مطالعہ کیا ہے۔ اسلام میں چودہ سو سال کے اندر جس قدر فتنے پیدا ہوئے ہیں ، قادیانی فتنہ سے بڑا فتنہ اور سنگین فتنہ کوئی بھی پیدا نہیں ہوا ۔
دوسری بات یہ فرمائی حضور ﷺ کو جتنی خوشی اس شخص سے ہو گی جو اس کے استیصال کے لئے اپنے آپ کو وقف کرے گا تو رسول اکرم ﷺ اس کے دوسرے اعمال کی نسبت اس کے اس عمل سے زیادہ خوش ہوں گے اور پھر آخر میں جوش میں آکر فرمایا ! کہ جو کوئی اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے اپنے آپ کو لگا دے گا ، اس کی جنت کا میں ضامن ہوں ۔
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کا قیام قادیانی فتنہ کا لندن سمیت پوری دینا میں تعاقب کرتے ہوئے امت مسلمہ پر ان کے کفر کو بے نقاب کرتے ہوئے نسل نو کے ایمان کی حفاظت کرنا ہے۔ آمین


تحریر: مجیب الرحمن انقلابی
سورس: [Link]
 
Top