• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(علماء کے فتوؤں پر اعتراض کی وضاحت)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(علماء کے فتوؤں پر اعتراض کی وضاحت)
علماء کے فتوے کے سلسلے میں مشترکہ بیان میں کچھ وضاحت آگئی ہے۔ لیکن ایک بنیادی فرق کی طرف میں آپ کے توسط سے ایوان کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ علمائے کرام جو فتوے دیتے ہیں، وہ اپنے علم کی بنیاد پر دیتے ہیں، دلائل شرعی کی بنیاد پر دیتے ہیں، اور اکثر فتوے جو ممتاز مفتی صاحبان دیتے ہیں، اس میں دلیل رکھ دیتے ہیں کہ قرآن کی فلاں آیت یا فلاں حدیث یا فلاں امام کا حکم ہے۔ اسی طرح سے وہ دیتے ہیں۔ یعنی وہ ان کے علم پر مبنی ہوتا ہے، جس قدر کسی کا علم ہو۔ اس میں کوئی الہامی کیفیت نہیں ہوتی۔ یعنی اس میں یہ دعویٰ نہیں ہوتا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ بہت سی مثالیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک عالم فتویٰ دیتا ہے۔ کچھ دن کے بعد اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بات رہ گئی تھی یا کسی حدیث پر اس کی نظر نہیں پڑی تھی، تو وہ خود اس فتوے کو واپس لیتا ہے۔ اس دور کے ایک بہت معروف عالم مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کوئی پونے دو سو صفحے کی کتاب ہے۔ پوری کتاب جس میں انہوں نے ان تمام فتوؤں کو جمع کیا ہے۔ جس میں انہوں نے ترمیم کی یا جن کو واپس لیا ہے۔ یہ کوئی اس طرح کا دعویٰ نہیں ہوتا۔ کہ یہ کوئی خطاؤں سے پاک ہے۔ پھر ایک مفتی نے فتویٰ دیا، اسی ملک کے دوسرے لوگ اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ اس لئے علماء کا فتویٰ اور مرزاصاحب یا ان کے صاحبزادے نے جو فتویٰ دیا ہے یا اب جو دے رہے ہیں، ان دونوں میں بہت اختلاف ہے۔
3051عالم اسلام کے سلسلے میں بہت سی چیزیں جناب اٹارنی جنرل صاحب نے فرمادی ہیں، اس لئے ان پر مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال ایک دو چیزیںہیں جن کی طرف میں خاص طور پر آپ کی توجہ دلاؤں گا۔ پہلے وہ اقتباس آچکا ہے کہ ترکوں سے مذہباً ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پورے مسلمانان ہند نے ترکوں کی حمایت میں جس وقت ان پر حملہ ہوا۔ جنگ ہورہی تھی، ان کو مٹایا جارہا تھا تو شاید کم سے کم میری عمر کے لوگوں کی یاد میں اتنا زیادہ جوش وخروش مسلمانوں میں کبھی پیدا نہیں ہوا جتنا خلافت کی تحریک میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد فلسطین کا قصہ ہے، اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسلم لیگ کا کوئی اجلاس ایسا نہیں ہوتا تھا، ہم بڑی دشواریوں سے گزر رہے تھے، لیکن کوئی اجلاس ایسا نہ ہوتا تھا کونسل کا، کہ جہاں فلسطین کے لئے ہم نے ریزولیوشن پاس نہ کئے ہوں اور اس وقت سے لے کر اب تک یعنی حکومت بن جانے کے بعد بھی، اس سے پہلے بھی، فلسطین کے مسئلے میں ہم سو فیصدی پوری طرح عربوں کے حامی رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ لیکن ان کا قول میں آپ کو سناتا ہوں جس میں انہوں نے یہ لکھا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’عرب فلسطین کے حکمران ہونے کے مستحق نہیں ہیں۔‘‘ یعنی ہمیشہ کے لئے ان کا استحقاق ہی ختم کر دیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ وہاں کے مسلمان ایک نئے نبی کے منکر ہیں تو جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نبی ہونے کے بعد یہودیوں سے وہ جگہ چھین لی گئی تو اب جو ایک نیا نبی آیا ہے اس کے چونکہ منکر ہیں اس لئے یہ اس کی تولیت کے، اس کے مالک ہونے کے، اس کے حکمران ہونے کے مستحق ہی نہیں ہیں۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ویسے بھی اور اب اس اسلامی کانفرنس کے انعقاد کے بعد بہرحال ہمیں اپنی قومی اور اجتماعی زندگی میں ان تمام چیزوں کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ دنیا کے کون سے ممالک نہ صرف مذہبی حیثیت سے بلکہ اور حیثیتوں سے ہمارے ساتھ ہیں تو اس سلسلے میں بھی ان کا مؤقف ہم سے کس قدر مختلف ہے وہ میں نے واضح کیا ہے۔
 
Top