• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عنوان :۔ دعوی ہائے مرزا غلام احمد قادیانی ( پارٹ4)

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
تحریر :۔ عبیداللہ لطیف
عنوان :۔ دعوی ہائے مرزا غلام احمد قادیانی ( پارٹ4)

یک اور حدیث مبارکہ میں نبی کریم dنے فرمایا:
((اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ))
(جامع ترمذی کتاب الرویا رواہ انس بن مالک 2198)
رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔
اس حدیث مبارکہ میں نبی اور رسول دونوں کی نبی آخر الزمان aکے بعد آنے کی نفی کی گئی ہے۔ آئیے ذرا اس بات پر غور کریں کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہوتا ہے۔
اس ضمن میں اس دور کے سب سے بڑے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کا اپنا بیان قابل توجہ ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جواس پر بذریعہ جبرائیل نازل ہوتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 576، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 411)
قادیانی دجال نبی کی تعریف میں یوں رقم طراز ہے کہ
’’ نبی کے معنٰی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو، شریعت کا لاناس کے لیے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 306)
محترم قارئین ! قادیانی دجال کے مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول صاحب شریعت کا متبع ہوتا ہے ا ور نہ ہی وہ نئی شریعت اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیث کے الفاظ پر توجہ دیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نبی کریم dکے بعد نہ صاحب شریعت نبی آ سکتا ہے اور نہ ہی صاحب شریعت رسول ‘رسول اور نبی دونوں کے آنے کی نفی کی ہے۔ جب کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ صاحب شریعت ہونے کا بھی مدعی ہے۔ جس کی تفصیل مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میں موجود ہے۔
محترم قارئین ! ان تمام احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم dآخری نبی ہیں ۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ بمطابق فرمان نبوی کذاب و دجال ہوگا (اسی لیے ہم بھی آئندہ صفحات میں مرزا قادیانی کو قادیانی کذاب اور قادیانی دجال کے نام سے لکھیں اور پکاریں گے)۔ اگر کوئی انسان اتنے واضح اور بین دلائل کے باوجود عقیدہ ختم نبوت کا منکر ہوتا ہے اور نبی رحمت dکے بعد کسی اور کو شریعتی یا غیر شریعتی ، ظلی یا بروزی نبی مانتاہے تو وہ نہ صرف کھلم کھلا قرآن و حدیث کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ دائرہ اسلام سے ہی خارج ہے، کیونکہ اس پر اجماع صحابہ اور اجماع امت ہے، جس کی واضح دلیل تو یہ ہے کہ دور نبوی میں ہی جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اورنبی کریم dکے پاس پیغام بھیجا کہ میں آپ کو نبی مانتا ہوں لیکن اس نبوت میں میں بھی حصہ دار ہوں ۔ آدھی زمین نبوت کے لیے میری ہے اور آدھی آپ کی تو نبی کریم dنے جواب میں اسے کذاب کے لقب سے پکارا اور پھر طلیحہ اسدی جس نے کلمہ بھی پڑھا تھا اور شرف صحابیت بھی حاصل ہوا لیکن بعد میں مرتد ہو کردعویٰ نبوت کردیا تو دور صدیقی میں ان کے خلاف کھلا اعلان جنگ کیا گیا اور ان مرتدین سے کئی جنگیں ہوئیں ۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں صحابہ کرام اور امت مسلمہ کے جرنیل صحابہ شہید ہوئے۔ مسیلمہ کذاب کو وحشی بن حرب hنے واصل جہنم کیا اور طلیحہ اسدی سچی توبہ کرکے دوبارہ مسلمان ہوگیا۔الغرض یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اب جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ دجال اور کذاب ہوگا وہ اوراس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہوں گے اور ایسے لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو حضرت ابوبکر صدیق hنے اپنے دور خلافت میں کیا۔
محمدرسول اﷲ ہونے کا دعویٰ اور قادیانی کلمہ کی حقیقت:۔
محترم قارئین! قادیانی دجال نے جس دور میں نبوت کا دعویٰ کیا ،اسی دور میں محمدرسول اﷲ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھا :
’’پھراسی کتاب میںیہ وحی ہے: مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ‘ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ‘‘ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا ہے اور رسول بھی۔ پھر یہ وحی اﷲ ہے جو 557براہین میں درج ہے۔‘‘ دنیا میں ایک نذیر آیا‘‘ اس کی دوسری قراء ت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد18صفحہ 207)
مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت aکے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت a کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت aکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد aہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد aکی نبوت محمدہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد aہی نبی رہے اور نہ اور کوئی۔یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت aہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
ایک اور مقام پر قادیانی دجال اپنے دعویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ
’’عقیدہ کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد a اس کانبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگرجس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔ کیونکہ خاتم اپنے مخدوم سے جدا نہیں او نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے۔ پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں۔ جیسا کہ جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے۔ بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘
(کشی نوح صفحہ 18، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ16)
اور ایک اور جگہ یہ کذاب قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گوبروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد(ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اوراسی کانام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3تا5مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 1صفحہ207 تا209)
محترم قارئین! آپ نے قادیانی دجال کی مندرجہ بالاتحریریں پڑھ لیں کہ کس طرح اس نے ظلی اور بروزی کا ڈھونگ رچا کر اپنے آپ کو معاذ اﷲ محمدرسول اﷲ aثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ اگر ہم اس قادیانی کی ظلی اور بروزی کی تعریف کو مدنظر رکھیں تو (’’جیسا کہ تم جب آئینہ اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو ، اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص 18، خزائن ج19 ص 16))ثابت ہوتاہے کہ محمد ی نبوت اور وحی نبوت میں شاعری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ قرآنی آیات پر جب مشرکین نے الزام لگایا کہ یہ اﷲ کا کلام نہیں بلکہ کسی کا ہن کا قول اور کسی شاعر کی شاعری ہے تو فوری طور پر رب کائنات نے اس کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:
(وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ط قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ O وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ O تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ )
یہ کسی شاعر کا قول نہیں(افسوس) تمھیں بہت کم یقین ہے اور نہ کسی کاہن کا قول ہے(افسوس) تم بہت کم نصیحت لے رہے ہو۔ یہ تو رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔
(سورۃالحاقۃ:42تا44)
وَ مَاعَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَوَمَایَنْبَغِیْ لَہُ
یعنی اورہم نے اسے (محمدرسول اﷲﷺکو)شعرکہنانہیں سکھایااورنہ یہ کام اس کی شان کے مطابق تھا۔
(سورہ یسین:70تفسیرصغیرازمیاں محمودبشیرالدین ابن مرزاقادیانی)
محترم قارئین ! اس کے برعکس قادیانی کذاب جو ظلی اور بروزی نبی ہونے کا دعوے دار ہے اس کی کتب شاعری سے بھری پڑی ہیں۔ نہ صرف شاعری سے بلکہ بعض جگہ تو نیچے نوٹ دیا ہو اہے کہ یہ مصرع اس شعرمیں الہامی ہے۔ تو پھر کس طرح قادیانی دجال نبی کریم aکا ظل ہو سکتا ہے جب کہ اس ظل میں تو نبی کریم aکیعملی تصویرکے بالکل برعکس نہ صرف شاعری ہے بلکہ نبی آخر الزمان علیہ السلام تو امی یعنی ان پڑھ تھے جب کہ مرزا قادیانی نے باقاعدہ تعلیم حاصل کی، جس کی تفصیل اسی کتاب کے باب اوّل میں آ چکی ہے۔ اور مزید یہ کہ مرزا قادیانی نے مختاری کا امتحان بھی دیا لیکن فیل ہوا۔
(بحوالہ سیرۃ المہدی جلداوّل روایت150)
محترم قارئین!معروف قادیانی عالم ملک عبدالّرحمن خادم اپنی کتاب ’’پاکٹ بک ‘‘میں اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’بے شک قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرتﷺشاعرنہ تھے اورقرآن مجیدنے شاعرکی تعریف بھی کردی ہے فرمایا
اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍیَّھِیْمُوْنَo وَاَنَّھُمْ ےَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَo
(سورۃ الشعراء:226‘227)
کیاتونہیں دیکھتاکہ شاعرہروادی میں سرگرداں پھرتے ہیںیعنی ہوائی گھوڑے دوڑاتے ہیں اورجوکچھ وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔
گویاشاعروہ ہے ۔
1۔ جوہوائی گھوڑے دوڑائے ۔
2۔ اس کے قول اور فعل میں مطابقت نہ ہو۔
فرمایاعلمنٰہ الشّعر(ےٰسین:70)ہم نے آنحضرتﷺکوہوائی گھوڑے دوڑانااور محض باتیں بنانانہیں سکھایاحضرت مسیح موعودمیں بھی یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تھیں۔‘‘
(پاکٹ بک ازملک عبدالرحمٰن خادم قادیانی صفحہ515)
اس کے بعد ملک عبدالرحمٰن خادم لغت کی کتابوں سے شاعر کے معنی اورمفہوم بیان کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذکرتاہے کہ
’’پس ثابت ہواکہ شعرسے مرادجھوٹ ہی ہے پس نفس شعربلحاظ کلام موزوں کوئی بری چیزنہیں۔‘‘
(پاکٹ بک ازملک عبدالرحمان خادم صفحہ516)
نبی آخر الزمان dتوغیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے جب عورتیں بیعت کے لیے آتیں تو نبی کریم d پردے کے پیچھے سے بیعت لیتے تھے جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں تک دبوایا کرتا تھا اور وہ بھی سردیوں کی راتوں میں جس کی تفصیل ان شاء اﷲ اسی کتاب کے باب نمبر 5 ’’مرزا قادیانی اپنے کردار کے آئینے میں‘‘ آئے گی۔ الغرض بے شمار ایسی باتیں ہیں جو قادیانی دجال کے ظلی نبی ہونے کے دعویٰ کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں۔
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول اﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد نبی آخر الزمان d نہیں ہوتا بلکہ مرزا قادیانی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! قادیانی کلمہ کی حقیقت مزید جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل عبارت کو بھی ملاحظہ کریں:
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ اوریہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتاتو ضرور پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ158، مندرجہ ریویو آف ریلیجنز جلد 14 صفحہ 158 نمبر4)
قارئین محترم ! آخر میں مرزا قادیانی دجال کے الفاظ بھی ملاحظہ فرما لیں کہ وہ کس طرح شان رسالت میں گستاخی کا ارتکاب کرتا ہے۔ چنانچہ قادیانی کذاب رقمطراز ہے:
’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچاناہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)
-7سلطان القلم ہونے کا دعویٰ:۔
مرزا قادیانی سلطان القلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’اﷲ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘
(تذکرہ صفحہ 58طبع چہارم)
محترم قارئین ! سلطان القلم کے چند ایک قلمی نمونے بھی ملاحظہ فرما لیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ مرزا قادیانی کیسا سلطان القلم تھا:
1۔ ’’اب عبدالحق کو ضرور پوچھنا چاہیے کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کالڑکا کہاں گیا۔ اندر ہی اندر پیٹ میں تحلیل پاگیا یا پھر رجعت قہقہری کرکے نطفہ بن گیا۔۔۔۔۔۔اور اب تک اس کی عورت کے پیٹ میں ایک چوہا بھی پیدا نہ ہوا۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 317,311)
2۔ ’’خدا تعالیٰ نے اس کی بیوی کے رحم پر مہر لگا دی۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 444، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 444)
3۔ ’’پرمیشر (ہندوؤں کا خدا) ناف سے دس انگلی نیچے ہے (سمجھنے والے سمجھ لیں)‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ106 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23، صفحہ 114)

چپکے چپکے حرام کرانا

آریوں کا اصول بھاری ہے
زن بیگانہ پر یہ شیدا ہیں

جن کو دیکھو وہی شکاری ہے
غیر مردوں سے مانگنا نطفہ

سخت خبث اور نابکاری ہے
غیر کے ساتھ جو کہ سوتی ہے

وہ نہ بیوی زن بزاری ہے
نام اولاد کے حصول کا ہے

ساری شہوت کی بے قراری ہے
بیٹا بیٹا پکارتی ہے غلط

یارکی اس کو آہ و زاری ہے
دس سے کروا چکی زنا لیکن

پاکدامن ابھی بچاری ہے
لالہ صاحب بھی کیسے احمق ہیں

ان کی لالی نے عقل ماری ہے
گھر میں لاتے ہیں اس کے یاروں کو

ایسی جورو کی پاسداری ہے
اس کے یاروں کو دیکھنے کے لیے

سربازار ان کی باری ہے
شرم وغیرت ذرا نہیں باقی

کس قدر ان میں بردباری ہے
ہے قوی مرد کی تلاش انھیں

خوف جورو کی حق گزاری ہے
(آریہ دھرم صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 75,76)
5۔ ’’اور میرے مضامین نازک اندام عورتوں کی طرح تھے، پس حسن کے ساتھ، پھر اس آواز کے ساتھ جو بطور قبا کے تھی ، دل اس کی طرف جھک گئے، اور میرے کلمے آئینہ کی طرح صاف کیے گئے ہیں۔ پس تعجب کرنے والے کی نظر اس کو ٹکٹکی لگا کر دیکھتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ نرم اندام عورتیں اسراء کی ہمارے لیے ننگی ہو گئیں اور غیروں سے وہ چھپنے والیوں کی طرح دو ر ہو گئیں۔ اور جب کہ وہ ہودہ سے زینت کے ساتھ نکلیں ۔ پس ان کا حسن اندام دیکھنے والوں کا دل لے گیا۔ اور جب ان کا حسن اپنے نور کے ساتھ چمکا پس اندھیرا یوں چلا گیا جیسا کہ وہ لوگ جوا پنے گھروں سے آوارہ پھرتے ہیں اور معشوقوں میں سے بہت کم ہوگا جس کا حسن ہمارے ان باکرہ مضامین کی طرح ہوگا اور رخسار روشن ہوں گے اور جب میں نے خدا سے کلمات فصاحت طلب کیے پس میں اپنے رب سے گونا گوں فصاحت کلام دیا گیا۔‘‘
(حجۃ اللہ صفحہ 99,90 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 247,238)
6۔ ’’جس طرح کھانگڑ بھینس کا دودھ نکالنا بہت مشکل ہے اسی طرح سے خدا کے نشان بھی سخت تکلیف کی حالت میں اترا کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 428 طبع چہارم )
7۔ ’’مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ مثلاً اگر مرد کی بیوی بغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہو جائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کارروائی کا ہے، بیکار اور معطل ہو جاتی ہے لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کارروائی کی کل مرد کو دے دی گئی ہے اور عورت کا تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں اگر مرد اپنی قوت مردمی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کی رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے اوراگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کر سکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے۔ کیونکہ مرد کی ہرروزہ حاجتوں کی عورت ذمہ داراور کاربرار نہیں ہو سکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کے لیے قائم رہتا ہے۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 282 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 282)
8۔ اور ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا محمدحسین (مولانا محمد حسین بٹالوی) کے مکان پر گیا ہوں اور میرے ساتھ ایک جماعت ہے اور ہم نے وہیں نماز پڑھی اور میں نے امامت کروائی اور مجھے خیال گزرا کہ مجھ سے نماز میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ میں نے ظہر یا عصر میں سورہ فاتحہ کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا تھا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ میں نے سورہ فاتحہ بلند آواز سے نہیں پڑھی بلکہ صرف تکبیر بلند آواز سے کہی ۔ پھر جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تومیں کیا دیکھتا ہوں کہ محمد حسین ہمارے مقابل پر بیٹھا ہے اوراس وقت مجھے اس کا سیاہ رنگ معلوم ہوتا ہے اور بالکل برہنہ ہے۔ پس مجھے شرم آئی کہ میں اس کی طرف نظر کروں ۔ پس اس حال میں وہ میرے پاس آ گیا ۔ میں نے اس سے کہا کہ وقت نہیں آیا کہ صلح کرے اور کیا تو چاہتا ہے کہ تجھ سے صلح کی جائے۔ اس نے کہاں ہاں۔ پس وہ بہت نزدیک آیا اور بغلگیر ہوا۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 78 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 80)
9۔ ’’25جولائی 1892ء اور25جولائی 1892 مطابق 20ذی الحجہ 1309ھ روز دوشنبہ’’آج میں نے بوقت صبح صادق ساڑھے چار بجے دن کے خواب میں دیکھا کہ ایک حویلی ہے۔ اس میں میری بیوی والدہ محمود اور ایک عورت بیٹھی ہے۔ تب میں نے ایک مشک سفید رنگ میں پانی بھرا ہے اور اس مشک کو اٹھا کر لایا ہوں۔ اور وہ پانی لا کر اپنے گھڑے میں ڈال دیا ہے۔ میں پانی کو ڈال چکا تھا کہ عورت جو بیٹھی ہوئی تھی یکا یک سرخ اور خوش رنگ لباس پہنے ہوئے میرے پاس آ گئی ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جوان عورت ہے۔ پیروں سے سر تک سرخ لباس پہنے ہوئے ۔ شاید جالی کا کپڑا ہے۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ وہی عورت ہے جس کے لیے اشتہار دیے تھے۔ لیکن اس کی صورت میری بیوی کی صورت میں معلوم ہوئی۔گویا اس نے دل میں کہا کہ میں آ گئی ہوں۔ میں نے کہا: یااﷲ آجاوے اور پھر وہ عورت مجھ سے بغلگیر ہوئی ۔ اس کے بغلگیر ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.
ا س سے دو چار روز پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ روشن بی بی میرے دالان کے دروازے پر آکھڑی ہوئی ہے اور میں دالان کے اندر بیٹھا ہوا ہوں۔ تب میں نے کہا: آ روشن بی بی اندر آجا۔ ‘‘
(رجسٹر متفرق یادداشتیں حضرت مسیح موعود صفحہ 33مندرجہ تذکرہ صفحہ 159طبع چہارم )
محترم قارئین ! اس سے قبل میں ظلی اور بروزی کی بحث میں ثابت کر چکا ہوں کہ شاعری وحی اور الہام کا حصہ نہیں اور نہ ہی نبوت محمدی علیہ السلام سے شاعری کا کوئی تعلق ہے۔ کیونکہ اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہ‘ (یٰسٓ : 69)
ترجمہ: اور نہیں سکھایا ہم نے اپنے نبی کو شعر اور نہ یہ ان کے شایان شان ہے۔
جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی کی کتابوں میں بہت زیادہ شاعری ہے اورآپ اس شاعری کا نمونہ آریوں کے اصول نیوگ کے متعلق مرزا کے اشعار میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔ آئیے ذرا اب قادیانی سلطان القلم کی عشقیہ شاعری کے نمونے بھی ملاحظہ کرلیں۔
’’ خاکسارعرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے۔ غالباً نوجوانی کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کے اپنے خط میں جسے میں پہچانتا ہوں بعض شعر بطور نمونہ درج ہیں:‘‘
عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے
تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے
:: :: :: ::
ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے
مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے
اس کے جانے سے صبر دل سے گیا
ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے
:: :: :: ::
سبب کوئی خداوند! بنا دے
کسی صورت سے وہ صورت دکھا دے
کرم فرما کے آ، او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسادے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر
دلا اک بار شوروغل مچادے
:: :: :: ::
نہ سر کی ہوش ہے تم کو ، نہ پاکی
سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی
مرے بت ! رب سے پردہ میں رہو تم
کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی
:: :: :: ::
نہیں منظور تھی گر تم کو الفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
میری دلسوزیوں سے بے خبر ہو
میرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جان
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں۔ یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے،مگر پہلا ندارد ، بعض جگہ اشعار نظر ثانی کے لیے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 214-213 طبع چہارم)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے جہاں اتنے بڑے بڑے دعوے کیے ہیں کہ خود ہی محمدرسول اﷲ a بن گیا اور پھر خود ہی اﷲ تعالیٰ بن گیا جس کی تفصیل دعویٰ الوہیت میں آئے گی، ان شاء اﷲ، وہیں پر قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ نے اپنے آپ کو اس حد تک پستی میں بھی گرایا ہے کہ نہ صرف وہ اپنے آپ کوانسان کاتخم اوربندے کاپترنہیں سمجھتابلکہ خود کو بشرکی جائے نفرت اورانسانوں کی عار قرار دیتاہے۔ لہٰذا قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ کے قلم کا یہ نادر نمونہ بھی ملاحظہ کریں۔
’’کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی کی کتب میں بے شمار گندی گالیاں موجود ہیں جو امت مسلمہ کے جید علماء کو دی گئی ہیں۔ اور اسی طرح عیسائیوں اور آریاؤں الغرض اپنے تمام مخالفوں پر دشنام طرازیاں کی گئی ہیں۔ جب مرزا قادیانی کی زندگی میں ہی لوگوں نے اعتراض کیا کہ مرزا قادیانی نے عیسائیوں اور آریاؤں کے بارے میں نہ صرف سخت زبان استعمال کی ہے۔ بلکہ اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جس کی وجہ سے ان غیر مسلموں کی طرف سے نبی کریم a اور اﷲ تعالیٰ کی ذات مقد س پر کیچڑاچھالا گیا جب کہ قرآن مقدس کی تعلیم تو یہ ہے کہ ان کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا نہ کہو مبادا وہ تمھارے سچے خدا کو برا کہنا شروع کر دی۔ تواس کے جواب میں مرزا قادیانی نے اپنے دفاع میں جو تحریر کیا اس سے نہ صرف توہین قرآن کا ارتکاب ہوا بلکہ غیر مسلموں (ہندوؤں ، عیسائیوں اور آریاؤں) کو قرآن مقدس پر کیچڑ اچھالنے کا خوب موقع ملا۔ ذرا قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ کا توہین قرآن پر مبنی جواب ملاحظہ ہو:
’’قرآن شریف جس آواز بلند سے سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے ۔ ایک نہایت درجہ کا غبی اور سخت درجہ کا نادان بھی اس سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ مثلاً زمانہ حال کے مہذبین کے نزدیک کسی پرلعنت بھیجنا ایک سخت گالی ہے۔ لیکن قران شریف سنا سنا کر ان پر لعنت بھیجتا ہے۔۔۔۔۔۔ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی انسان کو حیوان کہنا بھی ایک قسم کی گالی ہے، لیکن قرآن شریف نہ صرف حیوان بلکہ کفار اور منکرین کو دنیا کے تمام حیوانات سے بدتر قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے :
اِنَّ شَرَّ الدَّوَابِ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی خاص آدمی کا نام لے کریا اشارہ کے طور پر اس کو نشانہ بنا کر گالی دینا زمانہ حال کی تہذیب کے برخلاف ہے۔ لیکن خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض کا نام ابولہب اور بعض کا نام کلب اور خنزیر رکھااور ابوجہل تو خود مشہور ہے۔ ایسا ہی ولید بن مغیرہ کی نسبت نہایت درجہ سخت الفاظ جو بصورت ظاہر گندی گالیاں معلوم ہوتی ہیں ، استعما ل کیے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 27,26 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 حاشیہ صفحہ 116,115)
محترم قارئین ! آئیے اب مرزا قادیانی کی گالیوں کے نمونے بھی ملاحظہ کرلیں:
-13 ’’ جو ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔‘‘
(انوار الاسلام صفحہ 30، مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 31)
ان العدا صاروا خنازیر الفلا
ونساءھم من دونھم الاکلب
ترجمہ: دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں۔
(نجم الہدیٰ صفحہ 53 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 53)
-15 ’’اے بدذات فرقہ مولویو!تم کب تک حق کو چھپاؤ گے ۔ کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑو گے۔ اے ظالم مولویو! تم پر افسوس ! کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالانعام کو بھی پلایا۔‘‘
(انجام آتھم حاشیہ صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 حاشیہ صفحہ 21)
-16 ’’اگر عبدالحق اس بات پر اصرار کرتا ہے۔ تو وہی قسم کھاوے اور اگر محمد حسین بٹالوی اس خیال پر زور دے رہا ہے تو وہی میدان میں آوے اور اگر مولوی احمداﷲ امرتسری یا ثناء اﷲ امرتسری ایسا ہی سمجھ رہا ہے توانھیں پر فرض ہے کہ قسم کھانے سے اپنا تقویٰ دکھلاویں۔۔۔۔۔۔۔مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ ہر گز نہیں کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ صفحہ 25 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11حاشیہ صفحہ 309)
-17 ’’دنیا میں سب جانداروں سے زیادہ پلید اور کراہت کے لائق خنزیر ہے مگر خنزیر سے زیادہ پلید وہ لوگ ہیں جو اپنے نفسانی جوش کے لیے حق اور دیانت کی گواہی کو چھپاتے ہیں۔ اے مردارخورمولویو!اورگندی روحوتم پرافسوس کہ تم نے میری عداوت کے لیے اسلام کی سچی گواہی کوچھپایا۔اے اندھیرے کے کیڑو۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد11صفحہ 305)
-18 ’’ تلک الکتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ و ینفع من معارفھا ویقبل ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا۔‘‘
یعنی میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے، مگر کنجریوں یعنی بدکار عورتوں کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔
(آئینہ کمالات اسلام ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 548-547)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی کی اصل عبارت عربی میں ہے اور مرزا قادیانی نے لفظ بغایا کا ترجمہ انجام آتھم ص 282 مندرجہ روحانی خزائن ج 11 ص 282 پر ’’نسل بدکاراں ‘‘ کیا ہے۔ اور اسی طرح اپنی کتاب خطبہ الہامیہ ص69 مندرجہ روحانی خزائن ج16 ص 49 پر عربی عبارات (وَالتَّشَوُّقَ اِلٰی رَقْصِ الْبَغَایَا) کاترجمہ (اور شوق کرنا بازاری عورتوں کی طرف ) کیا ہے۔ اور مرزا قادیانی اپنی کتاب ’’نور الحق‘‘ حصہ اول صفحہ123مندرجہ روحانی خزائن جلد8صفحہ163 پر رقم طراز ہے:
’’واعلم ان کل من ھو من ولد الحلال ولیس من ذریۃ البغایا ونسل الدجال فیفعل امراً من امرین اما کف اللسان بعد وترک الافتراء والمین واما تالیف الرسالۃ کرسالتنا۔‘‘
ترجمہ: اور جاننا چاہیے کہ ہر ایک شخص جو ولد الحلال ہے، اور خراب عورتوں کی اولاداور دجال کی نسل میں سے نہیں ہے وہ دو باتوں میں سے ایک بات ضروراختیار کرے گا یا تو بعد اس کے دروغ گوئی اور افترا سے باز آجائے یا ہمارے اس رسالہ جیسا رسالہ بنا کر پیش کرے گا۔‘‘
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے مندرجہ بالا عبارت میں بھی لفظ بغایا کا ترجمہ خراب عورتیں کیا ہے۔ ا س سے آپ قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ کے قلم سے نکلے ہوئے نادر نمونے ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ جن کی عزت مآب مائیں اپنی عفت و عصمت کی محافظ ہیں اور ان کے چہرے کو بھی کسی غیر محرم نے نہیں دیکھا، قادیانی دجال کی کتابوں کو محبت کی نظر سے نہ دیکھنے اور قادیانی دجال کی دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ سے بدکار اور کنجریاں کہلائی گئی ہیں۔
ایک طرف یہ بدزبانی اور دوسری طرف مرزا قادیانی کے یہ بیانات بھی ملاحظہ کر کے فیصلہ کریں کہ مرزا قادیانی کون تھا اور کیا تھا؟
’’میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔‘‘
(آسمانی فیصلہ صفحہ 10، مندرجہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 320)
’’مخالف جو گالیاں دیتے ہیں ا ور گندے اور ناپاک اشتہار شائع کرتے ہیں ہم کو ان کا جواب گالیوں سے کبھی نہیں دینا چاہیے۔ ہم کو سخت زبانی کی ضرورت نہیں کیونکہ سخت زبانی سے برکت جاتی رہتی ہے۔ اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ اپنی برکت کم کریں۔‘‘
(ملفوظات جلد2صفحہ 161 طبع چہارم)
’’ ناحق گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کاکام ہے۔‘‘
(ست بچن صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10صفحہ133)
’’بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے، جس کے دل میں یہ نجاست ہے، بیت الخلاء وہی ہے۔‘‘
(قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ 42 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 458)(جاری ہے)
 
Top