• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عنوان :۔ دعوی ہائے مرزا غلام احمد قادیانی ( پارٹ5) آخری

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
تحریر :۔ عبیداللہ لطیف
عنوان :۔ دعوی ہائے مرزا غلام احمد قادیانی ( پارٹ5)آخری
محترم قارئین ! اب میں جو مرزا قادیانی کی عبارت تحریر کرنے لگا ہوں ایسی فحش ہے کہ دل نہیں مانتا لیکن اصل حقائق منظر عام پرلانے کی خاطر لکھ رہا ہوں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ کیا ایسا انداز تحریر کسی عام شریف آدمی کا بھی ہو سکتا ہے؟
’’ایک معزز آریہ کے گھر میں اولاد نہیں ہوتی، دوسری شادی کر نہیں سکتا کہ وید کی رو سے حرام ہے۔ آخر نیوگ کی ٹھہرتی ہے۔ یار دوست مشورہ دیتے ہیں کہ لالہ صاحب نیوگ کروایے اولاد بہت ہو جائے گی ۔ ایک بول اٹھتا ہے کہ مہر سنگھ جو اسی محلہ میں رہتا ہے اس کا م کے بہت لائق ہے۔ لالہ بہاری لال نے اس سے نیوگ کرایا تھا لڑکا پیدا ہوگیا۔یہ لالہ لڑکا پیدا ہونے کا نام سن کر باغ باغ ہو گیا ہے۔ بولا مہارج آپ ہی نے سب کام کرنے ہیں ،میں تو مہر سنگھ کا واقف بھی نہیں۔ مہاراج شریر النفس بولے کہ ہاں ہم سمجھا دیں گے ۔ رات کو آجائے گا۔مہرسنگھ کو خبردی گئی۔ وہ محلہ میں ایک مشہور قمار باز اول نمبر کا بدمعاش تھا۔ سنتے ہی بہت خوش ہو گیا اور انھیں کاموں کو وہ چاہتا تھا۔ پھر اس سے زیادہ اس کو کیا چاہیے تھا کہ ایک نوجوان عورت اور پھر خوبصورت ‘شام ہوتے ہی آموجود ہوا۔ لالہ صاحب نے پہلے ہی دلالہ عورتوں کی طرح ایک کوٹھڑی میں نرم بستر بچھوارکھا تھا اور کچھ دودھ اور حلوا بھی دو برتنوں میں سرہانے کی طاق میں رکھوا دیا تھا تاکہ اگر بیر جدا تا کو ضعف ہو تو کھاپی لیوے۔ پھر کیا تھا آتے ہی بیرج داتا نے لالہ دیوث کے نام و ناموس کا شیشہ توڑ دیا اور وہ بدبخت عورت تمام رات اس سے منہ کالا کراتی رہی اور اس پلید نے جو شہرت کا مارا تھا نہایت قابل شرم اس سے حرکتیں کیں اور لالہ باہر کے دالان میں سوئے اور تمام رات اپنے کانوں سے بے حیائی کی باتیں سنتے رہے۔ بلکہ تختوں کی دراڑوں سے مشاہدہ بھی کرتے رہے۔ صبح وہ خبیث اچھی طرح لالہ کی ناک کاٹ کر کوٹھڑی سے باہر نکلا لالہ منتظر ہی تھے۔ دیکھ کراُ س کی طرف دوڑے اور بڑے ادب سے اس پلید بدمعاش کو کہا: سردار صاحب! رات کیا کیفیت گزری اوراس نے مسکرا کر مبارک باد دی اور اشاروں میں جتا دیا کہ حمل ٹھہر گیا۔ دیوث سن کر بہت خوش ہوئے۔ مجھے تواس دن سے آپ پر یقین ہو گیا تھا جب کہ میں نے مہاری لال کے گھر کی کیفیت سنی تھی۔ اور پھر کہا کہ وید حقیقت میں ودیا سے بھرا ہوا ہے ۔ کیا عمدہ تدبیر لکھی ہے جو خطا نہ گئی۔ مہر سنگھ نے کہا کہ ہاں لالہ صاحب سب سچ ہے کہ وید کی آگیا کبھی خطا بھی جاتی ہے۔ میں تو انہی باتوں کے خیال سے وید کو ست ودیاؤں کا پستک مانتا ہوں اور دراصل مہرسنگھ ایک شہوت پرست آدمی تھا۔ اس کو کسی وید شاستر اور شرتی سلوک کی پروا کی پروا نہ تھی۔ اور نہ ان پر کچھ اعتماد رکھتا تھا۔ اس نے صرف لالہ دیوث کی باتیں سن کر اس کے خوش کرنے کے لیے ہاں میں ہاں ملا دی لیکن اپنے دل میں بہت ہنسا کہ اس دیوث کی پتر لینے کے لیے کہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ پھر اس کے بعد مہر سنگھ تو رخصت ہوا اور لالہ گھر کی طرف خوش خوش آیا اور اسے یقین تھا کہ اس کی استری رام دئی بہت ہی خوش حالت میں ہوگی، کیونکہ مراد پوری ہوئی۔ لیکن اس نے اپنے گمان کے برخلاف اپنی عورت کو روتے پایا۔ اوراس کو دیکھ کر تو بہت روئی،یہاں تک کہ چیخیں نکل گئیں اور ہچکی آنی شروع ہو گئی۔ لالہ نے حیران سا ہو کر اپنی عورت کو کہا: ’’ہے بھاگوان آج تو خوشی کادن ہے کہ دل کی مرادیں پوری ہوئیں اور بیج ٹھہر گیا ۔ پھر روتی کیوں ہے؟ وہ بولی میں کیوں نہ روؤں؟ تو نے سارے کنبے میں میری مٹی پلید کی اور اپنی ناک کاٹ ڈالی اور ساتھ ہی میری بھی۔ اس سے بہتر تھا کہ میں پہلے ہی مر جاتی۔ لالہ دیوث بولا کہ یہ سب کچھ ہوا مگر اب بچہ ہونے کی بھی کس قدر خوشی ہوگی۔ وہ خوشیاں بھی تو تو ہی کرے گی ۔ مگر رام دئی شاید کوئی نیک اصل کی تھی۔ اس نے ترت جواب دیا کہ حرام کے بچہ پر کوئی حرامی کا ہو تو خوشی مناوے۔ لالہ تیز ہو کر بولا کہ ہے ہے کیا کہہ دیا یہ تو ویدآگیا ہے۔ عورت کو یہ بات سن کر آگ لگ گئی ۔ بولی میں نہیں سمجھ سکتی کہ یہ کیسا ویدہے جو بدکاری سکھلاتا ہے اور زناکاری کی تعلیم دیتا ہے۔ یوں تو دنیا کے مذاہب ہزاروں باتوں میں اختلاف رکھتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں سنا کہ کسی مذہب نے وید کے سوا یہ تعلیم دی ہو کہ اپنی پاکدامن عورتوں کو دوسروں سے ہم بستر کراؤ۔ آخر مذہب پاکیزگی سکھانے کے لیے ہوتا ہے ، نہ کہ حرامکاری اور بدکاری میں ترقی دینے کے لیے ۔ جب رام دئی یہ سب باتیں کہہ چکی تو لالہ نے کہا کہ چپ رہو۔ اب جو ہوا سو ہوا۔ ایسا نہ ہو کہ شریک سنیں اور میرا ناک کاٹیں۔ رام دئی نے کہا: اے بے حیا ابھی تک تیرا ناک تیرے منہ پر باقی ہے۔ ساری رات تیرے شریک نے جو تیرا ہمسایہ اور تیرا پکا دشمن ہے ۔ تیری سہروں کی بیاہتا اور عزت کے خاندان والی سے تیرے ہی بستر پر چڑھ کر تیرے ہی گھر میں خرابی کی اور ہر ایک ناپاک حرکت کے وقت جتا بھی دیا کہ میں نے خوب بدلا لیا ۔ سو کیا اس بے غیرتی کے بعد تو جیتا ہے۔ کاش ! تواس سے پہلے مرا ہوتا۔ اب وہ شریک اور پھر دشمن باتیں بنانے اور ٹھٹھا کرنے سے کب باز رہے گا۔ بلکہ وہ تو کہہ گیا ہے کہ میں اس فتح عظیم کو چھپا نہیں سکتا کہ آج جو وساوامل کے مقابل پر مجھے حاصل وئی۔ میں ضرور رام دئی کا سارا نقشہ محلے پر ظاہر کروں گا۔ سو یاد رکھ کہ وہ ہر ایک مجلس میں تیرا ناک کاٹے گا اور ہر ایک لڑائی میں یہ قصہ تجھے جتائے گا اور اس سے کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعویٰ کرے کہ رام دئی میری ہی عورت ہے۔ کیونکہ وہ اشارۃًیہ کہہ بھی گیا ہے کہ آئندہ بھی میں تجھے کبھی نہ چھوڑوں گا۔ لالہ دیوث نے کہا کہ نکاح کا دعویٰ ثابت ہونا تو مشکل ہے البتہ یارانہ کا اظہار کرے تو کرے تاہماری اور بھی رسوائی ہو تو بہتر تویہ ہے کہ ہم دیش ہی چھوڑ دیں۔ بیٹا ہونے کا خیال تھا وہ تو ایشر نے دے ہی دیا ۔ بیٹے کا نام سن کر عورت زہر خندہ ہنسی اور کہا کہ تجھے کس طرح اور کیوں کر یقین ہو اکہ ضرور بیٹا ہوگا اوّل تو پیٹ ہونے میں ہی شک ہے اور پھر اگر ہو بھی تواس پر کوئی دلیل نہیں کہ لڑکا ہی ہوگا ۔ کیا بیٹاہونا کسی کے اختیار میں رکھا ہے ۔ کیا ممکن نہیں کہ حمل ہی خطا ہو جائے یا لڑکی پیدا ہو ۔ لالہ دیوث بولے کہ اگر حمل خطا گیا تو میں کہڑک سنگھ کو جو اسی محلہ میں رہتا ہے نیوگ کے لیے بلا لاؤں گا۔ عورت نہایت غصہ سے بولی کہ اگر کہڑک سنگھ بھی کچھ نہ کر سکا تو پھر کیا کرے گا۔ لالہ بولا کہ تو جانتی ہے کہ نرائن سنگھ بھی ان دونوں سے کم نہیں، اس کو بلالاؤں گا۔ پھر اگر ضرورت پڑی تو جمیل سنگھ، لہنگا سنگھ، بوڑ سنگھ ، جیون سنگھ ، دیال سنگھ سب اسی محلہ میں رہتے ہیں اور زور وقوت میں ایک دوسرے سے بڑھ کرہیں۔ میرے کہنے پر سب حاضر ہو سکتے ہیں۔ عورت بولی کہ اس سے بہتر تجھے صلاح دیتی ہوں کہ مجھے بازار میں ہی بٹھا دے تب دس بیس کیا ہزاروں لاکھوں آ سکتے ہیں۔ منہ کالا جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا مگر یاد رکھ کہ بیٹا ہونا پھر بھی اپنے بس میں نہیں۔ اور اگر ہوا بھی تو تجھے اس سے کیا جس کا نطفہ ہے وہ اسی کا ہوگا اور اسی کی خو بو لائے گا۔ کیونکہ درحقیقت وہ اسی کا بیٹا ہے۔ اس کے بعد رامدئی نے کچھ سوچ کر پھر رونا شروع کر دیا اور دور دور تک آواز گئی۔ آواز سن کر ایک پنڈت نہال چند نام دوڑا آیا اور آتے ہی کہا کہ لالہ سکھ تو ہے ۔ یہ کیسی رونے کی آواز آئی۔ لالہ ناک کٹا چاہتاتو نہیں تھا کہ نہال چند کے آگے قصہ بیان کرے مگراس خوف سے کہ رام دئی اس وقت غصہ میں ہے۔ اگر میں بیان نہ کروں تو وہ ضرور بیان کر دے گی ۔ کچھ کھسیانا سا ہو کر زبان دبا کر کہنے لگا کہ مہاراج آپ جانتے ہیں کہ وید میں وقت ضرورت نیوگ کے لیے آ گیا ہے۔ سو میں نے بہت دنوں سوچ کر رات کو نیوگ کرایا تھا ۔ مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے نیوگ کے لیے مہرسنگھ کو بلا لیا ۔ پیچھے معلوم ہوا کہ وہ میرے دشمن کرم سنگھ کا بیٹا اور نہایت شریر آدمی ہے۔ وہ مجھے اور میری استری کو ضرور خراب کرے گا اور وعدہ کر گیا ہے کہ میں یہ ساری کیفیت خوب شائع کروں گا۔ نہال چند بولا کہ بڑی غلطی ہوئی اور پھر بولا کہ و ساوامل تیری سمجھ پر نہایت ہی افسوس ہے ۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ نیوگ کے لیے پہلا حق برہمنوں کا ہے اور غالباً یہ بھی تجھ پر پوشیدہ نہیں ہوگا کہ اس محلہ کی تمام کھترانی عورتیں مجھ سے ہی نیوگ کراتی ہیں۔ اور میں دن رات اسی سیوا میں لگا ہوا ہوں۔ پھر اگر تجھے نیوگ کی ضرورت تھی تو مجھے بلا لیا ہوتا۔ سب کام سِدّہ ہو جاتا اور کوئی بات نہ نکلتی۔ اس محلہ میں اب تک تین ہزار کے قریب ہندو عورتوں نے نیوگ کرایا ہے مگر کیا کبھی کسی کا ذکر بھی سنا ۔ یہ پردہ کی باتیں ہیں۔ سب کچھ ہوتا ہے پھر ذکر نہیں کیا جاتا۔ لیکن مہر سنگھ توا یسانہیں کرے گا۔ ذرہ دو چار گھنٹوں تک دیکھنا کہ سارے شہر میں رام دئی کے نیوگ کا شور وغوغا ہوگا۔ لالہ دیوث بولاکہ مجھ سے سخت غلطی ہوئی۔ اب کیا کروں۔ اس وقت شریر پنڈت نے جو بباعث نہ ہونے رسم پردہ کے رام دئی کو دیکھ چکا تھا کہ جوان اور خوش شکل ہے۔ نہایت بے حیائی کا جواب دیا کہ اگر اسی وقت رام دئی مجھ سے نیوگ کرے تو میں ذمہ دار ہوتا ہوں کہ مہرسنگھ کے فتنہ کو میں سنبھال لوں گا۔ پہلا حمل تو ایک شکی بات ہے اب بہرحال یقینی ہو جائے گا۔ تب وساوامل دیوث تواس بات پر بھی راضی ہو گیا۔ مگر رام دئی نے سنکر سخت گالیاں اس کو نکالیں۔ تب وساوامل نے پنڈت کو کہا کہ مہاراج اس کا یہی حال ہے ہرگز نیوگ کرنا نہیں چاہتی۔ پہلے بھی مشکل سے کرایا تھا جس کو یاد کرکے اب تک رورہی ہے کہ میرا منہ کالا کیا۔ اسی سے تو اس نے چیخیں ماری تھیں۔ جس کو آپ سن کر دوڑے آئے ۔ تب وہ شہوت پرست پنڈت وساوامل کی یہ بات سن کر رام دئی کی طرف متوجہ ہوا اور کہا نہیں بھاگوان نیوگ کو برا نہیں ماننا چاہیے۔ یہ وید آگیا ہے۔ مسلمان بھی تو عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اور وہ عورتیں دوسرے سے نکاح کر لیتی ہیں۔ سو جیسے طلاق جیسے نیوگ۔ ایک ہی بات ہے۔ اگر کوئی مسلمان نیوگ کا طعنہ دے تو تم طلاق کا طعنہ دے دیا کرو ۔ مگر نیوگ سے انکار مت کرو کہ اس میں کچھ بھی دوش نہیں۔ بے شک مزہ سے نیوگ کرو۔ اگر ہم سے ناراض ہو تو خیر کسی اور سے ، ایک سے نہیں تو دوسرے سے، دوسرے سے نہیں تو تیسرے سے۔آخر ضرور مطلب حاصل ہوگا۔تمھاری پڑوسن بردئی نے پندرہ برس تک مجھ سے ہی نیوگ کرایا تھا۔ ایشر کی کرپا سے دش پتر ہوئے، جو اب تک زندہ موجود ہیں۔ اور ایک مدرسہ میں پڑھتا ہے۔اب تک رلیا رام ہر دئی کا شوہر ہمارا احسان مند ہے اور بہت کچھ سیوا کرتا ہے۔ اور ہمارا گن گاتا ہے کہ تم نے ہی مجھے پتر دیے ۔ تم بھی اگر چاہو تو ہم حاضر ہیں۔ اور تمھاری ابھی وستھا کیا ہے؟ تیرا چودہ سال کی عمر ہوگی۔ برابر نیوگ کراتی رہو ۔ ہاں یہ مشورہ ضرور دیتا ہوں کہ برہمن کا بیج چاہیے، موتی جیسے پتر ہوں گے اور کیا چاہتی ہو؟‘‘
(آریہ دھرم صفحہ 35-31 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 35-31)
محترم قارئین! یہ فحش قصہ درج کرتے وقت مرزا قادیانی نے حاشیہ میں لکھا کہ ’’یہ قصہ جو ہم نے لکھا ہے فرضی نہیں مگر ہم نہیں چاہتے کہ کسی کی پردہ دری کریں۔ اس لیے ہم نے ناموں کو کسی قدر بدلا کر لکھ دیا۔ جب کہ اس فحش قصہ کے جھوٹ کا پول فقط اس بات سے ہی کھل جاتا ہے کہ لا لہ وساوامل کو اپنے ہمسائے اور دشمن کے بیٹے مہر سنگھ کے بارے میں بھی پتا نہ چل سکا کہ یہ کیسی فریب کاری اور دھوکا دہی ہے۔
محترم قارئین ! یہ تو تھے مرزا قادیانی کذاب کے قلمی نمونے جن کی بنا پر قادیانی گروہ اس دجال و کذاب کو سلطان القلم کہتا اور لکھتا ہے۔ اب ذرا ایک اور طرز سے اس کذاب کے قلمی نمونے کو بھی ملاحظہ کیجیے۔
-21 مرزا قادیانی اپنی کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم ص 356 مندرجہ روحانی خزائن ج 3 ص 456پر رقم طراز ہے کہ
’’لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔ مومن لعان نہیں ہوتا۔‘‘
اس کے برعکس ہم مرزا قادیانی کے اپنے عمل کو دیکھتے ہیں تو کسی پر دس ہزار بار لعنت کرتا ہے تو کسی پرایک ہزار بار۔ اب دیکھیے کہ معمولی شعور کا حامل شخص بھی کسی پر ایک ہزار بار لعنت کرناچاہے تویہی کہے گا کہ تم پر ایک ہزار بار لعنت۔ جبکہ قادیانی سلطان القلم کا کردار اس کے برعکس ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’پس ان پر خدا کی طرف سے ہزار بار لعنت ہے۔ پس چاہئے کہ تمام قوم کہے آمین ۔۔۔۔۔-1لعنت ، -2لعنت ،-3لعنت ۔۔۔۔۔999لعنت ،1000 لعنت۔‘‘
(نور الحق ص 122-118 مندرجہ روحانی خزائن ج 8 ص 162-158)
پس ثابت ہوا کہ مرزا اپنے دعوے کے مطابق نہ مومن تھا اور نہ ہی صادق۔
اسمہ احمد کے مصداق ہونے کا دعویٰ:
محترم قارئین!نبی آخرالزماں جناب محمدرسول اللہﷺکے متعلق سابقہ کتب سماویہ میں پیشگوئیاں موجودہیں اورانہی پیشگوئیوں میں سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کاایک قول قرآن مقدس میں منقول ہے چنانچہ اللہ ربّ العزت فرماتا ہے :
(اِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہ‘ اَحْمَدُ ط فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ) ]الصف: [6
ترجمہ: اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا : اے (میری قوم) بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں۔ اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمھیں خوشخبری سناتا ہوں جس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ اس کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔
اس آیت میں نبی کریم aکو احمد کے لقب سے پکارا گیا ہے، جس کا مفہوم ہے : بہت زیادہ تعریف کرنے والا اور اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی شک نہیں کہ اﷲ رب العزت کی حمد وثناء سب سے زیادہ نبی کریم aنے ہی بیان فرمائی ہے۔ اور نبی کریم dہی حضرت عیسیٰ d کے بعد نبوت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس قادیانی کذاب و دجال اوراس کی ذریت اس آیت کو مرزا قادیانی پر چسپاں کرتی ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ:
’’میرے رب نے میرا نام احمد رکھا ہے ۔ پس میری تعریف کرو اور مجھے دشنام مت دو اوراپنے امر کو ناامیدی کے درجے تک مت پہنچاؤ اور جس نے میری تعریف کی اور کوئی قسم کی تعریف نہ چھوٹی تواس نے سچ بولا اور جھوٹ کا ارتکاب نہ کیاا ور جس نے اس بیان کو جھٹلایاپس اس نے جھوٹ بولا او ر اپنے خدا کے غصے کو بھڑکایا ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16، صفحہ 53)
محترم قارئین ! یہ تو تھے قادیانی کذاب کے الفاظ ، آئیے اب قادیانی ذریت میں مرزا قادیانی کے بڑے بیٹے میاں بشیر الدین محمود کی تحریر بھی ملاحظہ ہو۔یہاں میاں بشیر الدین محمود خلیفہ دوم قادیان رقم طراز ہے کہ:
’’ اب یہاں سوال ہوتاہے کہ وہ کون سا رسول ہے جو حضرت عیسیٰ d کے بعد آیااس کا نام احمد ہے۔ میرا اپنا دعویٰ ہے اور میں نے یہ دعویٰ یوں ہی نہیں کر دیا بلکہ حضرت مسیح موعود کی کتابوں میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح اول (حکیم نور الدین) نے بھی یہ ہی فرمایا ہے کہ مرزا صاحب احمد ہیں۔ چنانچہ ان کے درسوں کے نوٹوں میں یہی چھپا ہوا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اس آیت (اسمہ احمد) کے مصداق حضرت مسیح موعود d ہی ہیں۔‘‘
(انوار خلافت صفحہ 21 مندرجہ انوار العلوم جلد3 صفحہ 85)
مذیدلکھتاہے کہ
’’پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا یا آنحضرت aکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کیا یہ سورہ صف کی آیت جس میں ایک رسول کی ، جس کا نام احمد ہوگا، بشارت دی گئی ہے ۔ آنحضرتa کے متعلق ہے یا حضرت مسیح موعود کے متلق۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت (اسمہ احمد) مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں۔ لیکن ان کے خلاف کہا جا تا ہے کہ احمد نام رسول کریم aکا ہے اور آپ کے سوا کسی اور کو احمد کہنا آپ کی ہتک ہے لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے کہ اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے حضرت مسیح موعود کے متعلق ہی ہے۔‘‘
(انوار خلافت صفحہ 18مندرجہ انوار العلوم جلد3 صفحہ 82)
محترم قارئین کرام ! قادیانی کذاب کا دوسرا بیٹا مرزا بشیراحمد جسے قادیانی قمر الانبیاء کے لقب سے پکارتے ہیں رقم طراز ہے:
’’ سورہ صف میں جس احمد رسول کے متعلق عیسیٰ dنے پیش گوئی کی ہے وہ احمد مسیح موعود (مرزا قادیانی) ہی ہے جس کی بعثت حسب وعدہ الٰہی (وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُم)خود نبی کریم کی بعثت ہے۔‘‘
(کلمۃ الفصل، صفحہ 141 اور مرزا بشیر احمد ابن مرزاقادیانی)
محترم قارئین ! آپ نے مرزا قادیانی اوراس کی ذریت کی مندرجہ بالا عبارتیں ملاحظہ فرما لیں کہ کس طرح انھوں نے قرآن مقدس کی آیت کو مرزا قادیانی پر فٹ کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی اپنے نام کے بارے میں ایک جگہ پر لکھتا ہے:
’’ چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کہ کیا اس حدیث کا جو الایات بعد المأتین ہے ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرہویں صدی کے پورے ہونے پرظاہر ہونے والا تھا پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور یہ نام ہے غلام احمد قادیانی ۔ اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں اوراس قصبہ قادیانی میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 186، 185 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 189,190)
محترم قارئین ! آپ نے قادیانی کذاب کی تحریر ملاحظہ کر لی کہ اس کے مطابق اس کا نام غلام احمد قادیانی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس اس آیت مقدسہ میں جس رسول کی بشارت دی گئی ہے ا سکا نام احمد رکھا گیا ہے اور کسی طرح یہ ڈھٹائی کے ساتھ اس آیت کو اپنے اوپر چسپاں کر رہا ہے۔ اگر مرزا قادیانی کے اس اصول کو قبول کر لیا جائے تو پھر کوئی غلام اﷲ نامی شخص بھی کھڑا ہو کر یہ کہہ سکتا ہے کہ قرآن مقدس میں جہاں پر لفظ اﷲ استعمال ہوا ہے اس سے مراد وہ ہے ۔ پھر وہی شخض اگر یہ کہہ دے کہ میں اﷲ ہوں اور میں نے اس خبیث قادیانی کو کب نبی بناکر بھیجا ہے تو پھر قادیانی ذریت کیا جواب دے گی؟ آجا کر اس پر کفر کا فتویٰ ہی صادر کر ے گی کہ وہ دعویٰ الوہیت کرکے کافر ہو گیا۔ اگر وہ دوبارہ کلمہ پڑھ کر اپنے دعویٰ سے تائب ہو کر مسلمان ہو جائے تو کیا قادیانی اوراس کے پیروکار بھی مسلمان ہو جائیں گے۔؟
قارئین کرام! مرزاقادیانی نے فقط ایک آیت ہی اپنی طرف منسوب نہیں کہ بلکہ اور بھی کئی ایسی آیات ہیں جو فقط نبی کریم aکے ساتھ خاص ہیں۔ لیکن مرزا قادیانی نے انھیں اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک آیات یہاں پر درج کی جاتی ہیں تاکہ قادیانی کذاب کا دجل و فریب واضح ہو سکے۔
-1 اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر O فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ O اِنَّ شَاْنءَِکَ ھُوَ الْاَبْتَرo
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ 235 از مرزا قادیانی)
-2 وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ 236 از مرزا قادیانی)
-3 ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ 238 از مرزا قادیانی)
-4 سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ 543,63 )
-5 وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ321 )
-6 ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ321 ،542)
-7 قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ292 ،اشتہار معیار الاخیار، مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ390 طبع چہارم)
-8 قُلْ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا
(بحوالہ تذکرہ طبع چہارم صفحہ 292 ، مجموعہ اشتہارات جلددوم، صفحہ390 طبع چہارم)
-9 وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ
( تذکرہ صفحہ 547،طبع چہارم)
-10 یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّرْ Oقُمْ فَاَنْذِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ
( تذکرہ صفحہ 39 ،طبع چہارم)
محترم قارئین کرام ! یہ تھیں وہ چند آیات مبارکہ جو فقط نبی آخر الزمان جناب محمدرسول اﷲ aکے لیے خاص ہیں، جنھیں قادیانی دجال اپنی طرف منسوب کر رہا ہے۔
تمام انبیاء کا مجموعہ ہونے کا دعویٰ:۔
محترم قارئین!مرزاقادیانی ’’تمام انبیاء کامجموعہ‘‘ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’خدا تعالیٰ نے مجھے انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کیے ہیں ۔میںآدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے نام کا میں مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمدا وراحمد ہوں۔
(حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ73 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 76)
-10دعویٰ الوہیت:
محترم قارئین! قادیانی کذاب نے بے شمار دعوے کیے ہیں جن میں حجر اسود، قرآن کی مانند، اور خاتم الانبیاء ہونے کے ساتھ ساتھ خاتم الاولیاء ہونے کا دعویٰ بھی کیاہے اور ان سب سے بڑھ کر دعویٰ الوہیت بھی کیا ہے۔چنانچہ مرزا قادیانی دعویٰ الوہیت کرتے ہوئے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں رقم طراز ہے :
’’ورایتنی فی المنام عین اللہ و تیقنت اننی ھو‘‘
ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں ، میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔
(آئینہ کمالات اسلام ص 564 ،مندرجہ روحانی خزائن ج 5ص564)
’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کر لیا کہ وہی ہوں۔۔۔۔۔۔اور اسی حالت میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب وتفریق نہ تھی ۔ پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب وتفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا اور کہا: اِنَّا زَیِّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بمصَابِیْحَ۔ پھر میں نے کہا:ہم اب انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کریں گے۔
(کتاب البریہ ص 87-85 مندرجہ روحانی خزائن ج 3ص 105-103)
محترم قارئین! اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں سورہ یس کے آخرمیں فرماتے ہیں کہ
(اِنَّمَا اَمْرُہ‘ اِذَا اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنَ )
وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہو جاتی ہے۔
اس آیت مبارکہ میں رب کائنات نہ صرف اپنی عظمت وشان کا ذکر کیا ہے بلکہ اپنی ایک صفت کا بھی اظہار فرمایا ہے ۔ اس آیت میں تحریف کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے کہا ہے کہ مجھ پر بھی اﷲ تعالیٰ کی وحی نازل ہوئی ہے کہ:
اِنَّمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَ شَیْءًا اَنْ تَقُوْلَ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنَ
توجس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 108، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 108 )
محترم قارئین!قادیانی کذاب کی اس خود ساختہ صفت کی حقیقت اس کے ان دعووں اور پیش گوئیوں سے ہی ظاہر ہو جاتی ہے۔ جن کے پورا ہونے کی حسرت لیے ہی یہ کذاب واصل جہنم ہوا۔ آئیے ان میں سے چند ایک نمونے کے طور پر ملاحظہ کیجیے۔
* مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ جو ابتدا میں مرزا قادیانی کے دوستوں میں سے تھے ، جب اس کے یہ بدعقائد سامنے آئے توا نھوں نے نہ صرف ہر محاذ پر اس کذاب کا پیچھا کیا بلکہ سب سے پہلے اس کے خلاف فتویٰ تکفیر لکھ کر جماعت اہل حدیث کے سرخیل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ سے دستخط کروانے کے بعد سارے برصغیر سے تمام مکاتب فکر کے 200سے زائد علماء کے دستخط کروا کے مشتہرکیا ۔ انہی مولانا بٹالوی رحمۃ اﷲعلیہ کے بارے میں مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’شیخ محمدحسین بٹالوی۔۔۔۔۔کی نسبت تین مرتبہ مجھے معلوم ہو اکہ وہ اپنی اس حالت پر ضلالت سے رجوع کرے گا اور پھر خدا اس کی آنکھیں کھولے گا: وَاﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘
(سراج منیر صفحہ 78، روحانی خزائن جلد 12، صفحہ 80مندرجہ تذکرہ صفحہ 247طبع چہارم)
* محمدی بیگم سے نکاح کے بارے میں مرزا قادیانی کی کوششوں کا جائزہ لیں تو مرزا اﷲ تعالیٰ پر افتراء کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
’’خدا تعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر اس عاجزپر ظاہر فرمایا ہے کہ مرزااحمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہشیار پوری کی دختر کلاں (محمدی بیگم) انجام کار تیرے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو لیکن آخرکار ایسا ہی ہوگا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمھاری طرف لائے گا، باکرہ ہونے کی حالت میںیا بیوہ کرکے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھاوے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا، کوئی نہیں جواس کو روک سکے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 396 روحانی خزائن جلد 3صفحہ 305)
* مرزا قادیانی اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ ص 34مندرجہ روحانی خزائن ج 15 ص 201 پر رقم طراز ہے:
’’ تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گزر ا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنۃ کے مکان پرجانے کا اتفاق ہوا، اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج کل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا تھا اور وہ یہ ہے کہ:
بِکْرٌ وَّثَیِّبٌ
جس کے یہ معنی ہیں کہ ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کیے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا ، ایک بکر ہوگی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بکر کے متعلق تھا پورا ہو گیا اور اس وقت بفضلہ تعالیٰ چار پسر (بیٹے) اس بیوی سے موجود ہیں اور بیوہ کے الہام کا انتظار ہے۔‘‘
(تذکرہ صفحہ 31طبع چہارم)
* ’’20فروری 1884کے اشتہار میں یہ پیش گوئی خدائے تعالیٰ کی طرف سے بیان کی کہ اس نے مجھے بشارت دی تھی کہ بعض عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میںآئیں گی اور ان سے اولاد پیدا ہوگی۔‘‘
(روحانی خزائن، جلد 2 صفحہ 318، طبع چہارم اشتہار محک خیار واشرار)
محترم قارئین! مرزا قادیانی کی کن فیکون کی صفت کا حال فقط ان چند باتوں سے ظاہر ہو گیا کہ نہ تو مولانا بٹالوی رحمۃ اﷲ علیہ قادیانی ہوئے بلکہ انھوں نے ساری زندگی قادیانیوں کو ناکوں چنے چبوائے ۔ اسی طرح نہ ہی محمدی بیگم سے مرزا کا نکاح ہوا اور نہ ہی وہ مرزا کی زندگی میں بیوہ ہوئی اور اس پیش گوئی کے بعد نہ کسی بیوہ عورت سے شادی ہوئی ، نہ کنواری سے بلکہ مرزا یہ حسرت دل میں لیے ہی واصل جہنم ہو گیا۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارُ
مرزا قادیانی ایک اورمقام پر لکھتا ہے کہ:
’’اعطیت صفت الافناء والاحیاء من الرب الفعال‘‘
’’مجھ (مرز اقادیانی) کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے اور یہ صفت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو ملی ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 56,55 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 56,55)
محترم قارئین ! قادیانی دجال اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں نشان نمبر104کے تحت لکھتا ہے:
’’ایک دفعہ میرا چھوٹا لڑکا مبارک احمد بیمار ہو گیا۔ غشی پر غشی پڑتی تھی اور میں اس کے قریب مکان میں دعا میں مشغول تھا اور کئی عورتیں اس کے پاس بیٹھی تھیں کہ یک دفعہ ایک عورت نے پکار کرکہا کہ اب بس کرو کیونکہ لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ تب میں اس کے پاس آیا اور اس کے بدن پر ہاتھ رکھا اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی تو دو تین منٹ کے بعد لڑکے کو سانس آنا شروع ہو گیا اور نبض بھی محسوس ہوئی اور لڑکا زندہ ہو گیا۔تب مجھے خیال آیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا احیائے موتیٰ بھی اسی قسم کا تھا اور پھرنا دانوں نے اس پر حاشیے چڑھادیے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 253 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 265)
محترم قارئین ! ایک طرف یہ قادیانی کذاب و دجال ہے جو زندہ کرنے اور مارنے کا دعوے دار ہے تو دوسری طرف اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں فرماتا ہے:
(ھُوَ الَّذِیْ یُحْیٖی وَیُمِیْتُ فَاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ) (المومن:(68
’’وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور پھر جب وہ کسی کام کا کرنا مقرر کر تا ہے تواسے صرف یہ کہتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے۔
اورایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے:
وَلَمْ یَکُنْ لَّہ‘ کُفْوًا اَحَدٌ (الاخلاص: 4)
’’اور اس کا کوئی بھی ہم سر(پارٹنر) نہیں ہے۔
جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی جو صفات فقط رب کائنات کے لیے خاص ہیں انھیں اپنے آپ میں شامل کردعویٰ الوہیت کر رہا ہے ۔ کیا اب بھی اس کے کافر ہونے میں کوئی شک کیا جا سکتا ہے؟
 
Top