• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

فتنہ قادیانیت ۔۔۔ ایک چونکا دینے والی تحریر

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ایک ایسےوقت میں جب پاکستانی وزیر اعظم جنوبی کوریا میں عالمی جوہری کانفرنس میں دنیا کے سامنے پاکستان کا یہ مطالبہ کا یہ مطالبہ پیش کررہے ہیں کہ اسے پرامن مقاصد کے لئے جوہری ٹیکنالوجی دی جائے، لندن میں قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا مسرور احمد نے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے کے لئے خلاف اعلانیہ مہم شروع کردی ہے۔ عین اسی دوران امریکہ نے بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ایک زور دار مہم شروع کی ہے جس کا افتتاح خود صدر اوباما نے عالمی جوہری کانفرنس میں خطاب سے کیا اور پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو سب سے بڑا خطرہ اب القاعدہ یا طالبان سے نہیں، ایٹمی دہشت گردی سے ہے۔گذشتہ روز قادیانی جماعت کے سربراہ نے برطانیہ میں اپنی جماعت کی سالانہ امن کانفرنس کا افتتاح کیا اوراس میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے خلاف پر جوش تقریر کی۔

احمدیہ جماعت کے سربراہ مرزا مسرور نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی ایٹمی جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس وقت عالمی صورتحال اس قسم کا منظر نامہ پیش کررہی ہے کہ جس طرح امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرادیئے تھے اس طرح کوئی اور ملک بھی اس قسم کی مہم جوئی کرسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا تباہ ہوجائے گی۔ اس لئے دنیا سے ایٹمی ٹیکنالوجی ختم کی جائے اور پاکستان کو بھی اپنا ایٹمی پروگرام ختم کردینا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مورڈن میں سالانہ امن کانفرنس سے خطاب اور بعد ازاں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ مرزا مسرور نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ اور تناؤ کی صورتحال کے نتیجے میں ایٹمی جنگ کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے جب کہ اس وقت دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی بھی بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر عناصر دہشت گردی کررہے ہیں جس سے پوری امت مسلمہ بدنام ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے عالمی ممالک کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور وہ چھوٹے ایٹمی ممالک کو غیر مسلح کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

دوسری جانب جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیوٴل میں جوہری سلامتی کی سربراہی کانفرنس میں عالمی رہنماؤں نے پاکستان اور ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرتے ہوئے انتہائی افزودہ یورینیم کے استعمال کو کم کرنے کیلئے بین الاقوامی کوششوں کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے اور مشترکہ اعلامیے کے مسودہ کے مطابق عالمی رہنماوٴں نے اس بات بھی اتفاق کیا ہے کہ ایٹمی دہشت گردی بین الاقوامی سلامتی کو درپیش سنگین خطرات میں سے ایک ہے۔ فرانسیسی خبرایجنسی اے ایف پی کو ملنے والے سربراہی کانفرنس کے اعلامیے کے مسودہ کے مطابق 4 عالمی تنظیموں کے علاوہ 53 ممالک کے اعلیٰ حکام ایٹم سے مسلح دہشت گردی کے موجودہ خطرے سے بچاؤ کیلئے جنوبی کوریا میں اکٹھے ہوئے۔ جنوبی کوریا کے صدر منگل کو اعلامیہ جاری کریں گے۔ مسودہ میں عالمی رہنماؤں نے کہا ہے کہ ایٹمی دہشت گردی بین الاقوامی سلامتی کو درپیش سنگین خطرات میں ایک ہے، اس خطرہ کو شکست دینے کیلئے مضبوط قومی اقدامات اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔

اسی کانفرنس میںوزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ پاکستان سے امتیازی سلوک ختم کیا جائے اور پرامن مقاصد کیلئے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی دی جائے، توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جوہری ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے،پاکستان کسی طور پر بھی ایٹمی دہشت گرد میں ملوث نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں موثر کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام موجود ہے۔اس کے بعد امریکہ صدر اوباما نے تقریر کی اور کہا کہ اس وقت دنیا میں ایٹمی دہشت گردی ہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے ایٹمی بجلی گھروں کی بھی مخالفت کی اور جاپان کی مثال دی۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اپنے لئے اٹیمی توانائی کا مقدمہ لڑ رہا ہے اور امریکہ اس کی مخالفت کررہا ہے، اچانک قادیانی جماعت کے سربراہ کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے خلاف مہم شروع کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ قادیانیوں کی کافی بڑی تعداد پاکستان میں رہائش پذیر ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں مصروف کار ہے۔ کہتے ہیں کہ

وہ دشمن جو بظاہر دوست ہو، اس کے دانتوں کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔ اس مقولے تناظر میں قادیانی جماعت کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو بہت پہلے سے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے خلاف سرگرم ہے۔ خاص طور سے پاکستان کے ایک سابق ایٹمی سائنسدان اور نوبیل انعام یافتہ قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام پر پوری طرح صادق آتا ہے جنھوں نے دوستی کی آڑ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔انھیں 10 دسمبر 1979ء کو نوبل پرائز ملا۔ قادیانی جماعت کے آرگن روزنامہ ’’الفضل‘‘ نے لکھا تھا کہ جب انھیں نوبل انعام کی خبر ملی تو وہ فوراً اپنی عبادت گاہ میں گئے اور اپنے متعلق مرزا قادیانی کی پیشین گوئی پر اظہار تشکر کیا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک رشوت ہے جو یہودیوں نے قادیانیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے دی۔ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنی جماعت کی خدمات پر ’’فرزند احمدیت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد کے حکم پر 1966ء سے وفات تک مجلس افتاء کے باقاعدہ ممبر رہے۔

10 ستمبر 1974ء کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیراعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کی وجہ انھوں نے اس طرح بیان کی:

’’آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیہ (قادیانی) فرقے کا ایک رکن ہوں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم منظور کی ہے، مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ کوئی شخص خالق اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا لیکن اب جبکہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے تو میرے لیے بہتر یہی ہے کہ میں اس حکومت سے قطع تعلق کر لوں جس نے ایسا قانون منظور کیا ہے۔ اب میرا ایسے ملک کے ساتھ تعلق واجبی سا ہوگا جہاں میرے فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو۔‘‘

فروری 1987ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے امریکی سینٹ کے ارکان کو ایک چٹھی لکھی کہ ’’آپ پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور اقتصادی امداد مشروط طور پر دیں تاکہ ہمارے خلاف کیے گئے اقدامات حکومت پاکستان واپس لے لے۔‘‘

30 اپریل 1984ء کو قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد قادیانی آرڈیننس مجریہ 1984ء کی خلاف ورزی پر مقدمات کے خوف سے بھاگ کر لندن چلے گئے۔ رات کو لندن میں انھوں نے مرکزی قادیانی عبادت گاہ ’’بیت الفضل‘‘ سے ملحقہ محمود ہال میں غصہ سے بھرپور جوشیلی تقریر کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالسلام مرزا طاہر کے سامنے صف اوّل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مرزا طاہر احمد نے اپنے خطاب میں صدارتی آرڈیننس نمبر 20 مجریہ 1984ء (جس کی رو سے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا تھا) پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے حقوق انسانی کے منافی قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ احمدیوں کی بددعا سے عنقریب پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ مزید برآں انھوں نے امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کی تمام اقتصادی امداد بند کر دیں۔ اپنے خطاب کے آخر میں مرزا طاہر نے ڈاکٹر عبدالسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’صرف آپ میرے دفتر میں ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ آپ سے چند ضروری باتیں کرنا ہیں۔‘‘ ’’فرزند احمدیت‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام نے اسے اپنی سعادت سمجھا اور ملاقات کے لیے حاضر ہو گئے۔اس ملاقات میں مرزا طاہر احمد نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ہدایت کی کہ وہ صدر ضیاء الحق سے ملاقات کریں اور انھیں آرڈیننس واپس لینے کے لیے کہیں۔ لہٰذا ڈاکٹر عبدالسلام نے جنرل محمد ضیاء الحق سے پریذیڈنٹ ہائوس میں ملاقات کی اور انھیں جماعت احمدیہ کے جذبات سے آگاہ کیا۔ صدر ضیاء الحق نے بڑے تحمل اور توجہ سے انھیں سنا۔ جواب میں صدر ضیاء الحق اٹھے اور الماری سے قادیانی قرآن ’’تذکرہ‘‘ مجموعہ وحی مقدس و الہامات اٹھا لائے اور کہا کہ یہ آپ کا قرآن ہے اور دیکھیں اس میں کس طرح قرآن مجید کی آیات میں تحریف کی ہے اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔اس صفحہ پر مندرجہ ذیل آیت درج تھی:

انا انزلنا قریبا من القادیان ترجمہ: ’’(اے مرزا قادیانی) یقینا ہم نے قرآن کو قادیان (گورداسپور بھارت) کے قریب نازل کیا۔‘‘ (نعوذ باللہ) (تذکرہ مجموعہ وحی مقدس و الہامات طبع چہارم ص 59 از مرزا قادیانی)

اور مزید لکھا ہے کہ یہ تمام قرآن مرزا قادیانی پر دوبارہ نازل ہوا ہے۔ ضیاء الحق نے کہا کہ یہ بات مجھ سمیت ہر مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ بے حد شرمندہ ہوئے اور کھسیانے ہو کر بات کو ٹالتے ہوئے پھر حاضر ہونے کا کہہ کر اجازت لے کر رخصت ہو گئے۔

یہ بات اہل علم سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل کے معروف یہودی سائنس دان یوول نیمان کے ڈاکٹر عبدالسلام سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ یہ وہی یوول نیمان ہیں جن کی سفارش پر تل ابیب کے میئر نے وہاں کے نیشنل میوزیم میں ڈاکٹر عبدالسلام کا مجسمہ یادگار کے طور پر رکھا۔ معتبر ذرائع کے مطابق بھارت نے اپنے ایٹمی دھماکے اسی یہودی سائنس دان کے مشورے سے کیے جو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یوول نیمان امریکہ میں بیٹھ کر براہ راست اسرائیل کی مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔

اسرائیل کے لیے پہلا اٹیم بم بنانے کا اعزاز بھی اسی شخص کو حاصل ہے۔ پاکستان اس کی ہٹ لسٹ پر ہے اور اس سلسلے میں وہ بھارت کے کئی خفیہ دورے بھی کر چکا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امریکی کانگریس کی بہت بڑی لابی اس وقت یوول نیمان کے لیے نوبیل پرائز کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس کی زندگی کا پہلا اور آخری مقصد امت مسلمہ کو نقصان پہنچانا ہے اور وہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے ہر وقت مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی سازش میں مصروف رہتا ہے۔ دنیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تل ابیب یونیورسٹی اسرائیل کے شعبہ فزکس کا سربراہ بھی ہے۔ اس سے پہلے یہ شخص اسرائیل کا وزیر تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی بھی رہا۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر اس کی خاص نظر ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان ان کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر عبد السلام کے پاکستان دشمن بھارتی لیڈر نہرو کے ساتھ بڑے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دفعہ نہرو نے ڈاکٹر عبدالسلام کو آفر کی تھی کہ آپ انڈیا آ جائیں، ہم آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق ادارہ بنا کر دیں گے۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ ’’وہ اس سلسلہ میں اٹلی کی حکومت سے وعدہ کر چکے ہیں لہٰذا میں معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے وہاں کے سائنس دانوں سے تعاون کروں گا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی بھارتی ’’خدمات‘‘ کے عوض ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ برائے بنیادی تحقیق بمبئی، انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی نئی دہلی اور انڈیا اکیڈمی آف سائنس بنگلور کے منتخب رکن رہے۔ گورونانک یونیورسٹی امرتسر (بھارت)، نہرو یورنیورسٹی بنارس (بھارت)، پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ (بھارت) نے انہیں ’’ڈاکٹر آف سائنس‘‘ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔ کلکتہ یونیورسٹی نے انہیں سر دیو پرشاد سردادھیکاری گولڈ میڈل اور انڈیشن فزکس ایسوسی ایشن نے شری آرڈی برلا ایوارڈ دیا۔

بھارتی صحافی جگجیت سنگھ کے ساتھ ڈاکٹر عبدالسلام کے ذاتی تعلقات تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام جب بھی بھارت جاتے، جگجیت سنگھ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں ان پر بھر پور فیچر شائع کرتے۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام پر "Abdulsalam a Biography" (سن اشاعت 1992ئ) کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا ایک باب "The Ahmaddiya Jammat" ہے جس میں جگجیت سنگھ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے والے 7ستمبر 1974ء کو پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ اور 1984ء کے صدارتی آرڈنینس جس کے تحت قادیانی شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتے، کی سخت مذمت کی اور قادیانیوں کو ’’مظلوم‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف اقدامات کو حقوق انسانی کے منافی قرار دیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام کے ایک اور بے تکلف دوست جے سی پولنگ ہارو (J.C.Polking Horue) جو کیمبرج میں سلام کے شاگرد تھے اور بعد میں کیتھولک بشپ بن گئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی درخواست پر ہر سال قادیانی جماعت کے سالانہ جلسوں میں شرکت کرتے رہے۔ یاد رہے یہ وہی پولنگ ہارو ہیں جو پاکستان میں قانون توہین رسالت 295/C کے خلاف امریکہ میں عیسائی جلوسوں کی قیادت کرتے ہیں۔ جن میں قادیانیوں کی بھی کثیر تعداد شامل ہوتی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے جولائی 1994ء میں بیت الفضل لندن میں توہین رسالت کی سزا کے خلاف تقریر کی تو مسٹر پولنگ ہارو اپنے کئی بشپ دوستوں کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔

ڈاکٹر عبدالسلام مسلمانوں کو کیا سمجھتے تھے؟ اس سلسلہ میں معروف صحافی و کالم نویس جناب تنویر قیصر شاہد نے ایک دلچسپ مگر فکر انگیز واقعہ اپنی ذاتی ملاقات میں راقم کو بتایا۔ یہ واقعہ انہی کی زبانی سنئے اور قادیانی اخلاق پر غور کیجیے:

’’ایک دفعہ لندن میں قیام کے دوران بی بی سی لندن کی طرف سے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بطور معاون، ڈاکٹر عبدالسلام کے گھر ان کا تفصیلی انٹرویو کرنے گیا۔ میرے دوست نے ڈاکٹر سام کا خاصا طویل انٹرویو کیا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ جوابات دیئے۔ انٹرویو کے دوران میں بالکل خاموش، پوری دلچسپی کے ساتھ سوال و جواب سنتا رہا۔ دوران انٹرویو انہوں نے ملازم کو کھانا دسترخوان پر لگانے کا حکم دیا۔ انٹرویو کے تقریباً آخر میں عبدالسلام مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہاں کہ آپ معاون کے طور پر تشریف لائے ہیں مگر آپ نے کوئی سوال نہیں کیا۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی کوئی سوال کریں۔ ان کے اصرار پر میں نے بڑی عاجزی سے کہا کہ چونکہ میرا دوست آپ سے بڑاجامع انٹرویو کر رہا ہے اور میں اس میں کوئی تشنگی محسوس نہیں کر رہا، ویسے بھی میں، آپ کی شخصیت اور آپ کے کام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں نے آپ کے متعلق خاصا پڑھا بھی ہے۔ جھنگ سے لے کر اٹلی تک آپ کی تمام سرگرمیاں میری نظرں سے گزرتی رہی ہیں لیکن پھر بھی ایک خاص مصلحت کے تحت میں اس سلسلہ میں کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام فخریہ انداز میں مسکرائے اور ایک مرتبہ اپنے علمی گھمنڈ اور غرور سے مجھے ’’مفتوح‘‘ سمجھتے ہوئے ’’فاتح‘‘ کے انداز میں ’’حملہ آور‘‘ ہوتے ہوئے کہا کہ ’’نہیں… آپ ضرور سوال کریں، مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘ بالآخر ڈاکٹر صاحب کے پرزور اصرار پر میں نے انہیں کہا کہ آپ وعدہ فرمائیں کہ آپ کسی تفصیل میں گئے بغیر میرے سوال کا دوٹوک الفاظ ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں جواب دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ فرمایا کہ ’’ٹھیک! بالکل ایسا ہی ہو گا؟‘‘ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ چونکہ آپ کا تعلق قادیانی جماعت سے ہے، جو نہ صرف حضور نبی کریم کی بحیثیت آخری نبی منکر ہے، بلکہ حضور نبی کریم کے بعد آپ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتے ہیں۔ جبکہ مسلمان مرزا قادیانی کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ ماننے پر آپ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام بغیر کسی توقف کے بولے کہ ’’میں ہر اس شخص کو کافر سمجھتا ہوں جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتا۔‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام کے اس جواب میں، میں نے انہیں کہا کہ مجھے مزید کوئی سوال نہیں کرنا۔ اس موقع پر انہوں نے اخلاق سے گری ہوئی ایک عجیب حرکت کی کہ اپنے ملازم کو بلا کر دستر خوان سے کھانا اٹھوا دیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کو غصے میں دیکھ کر ہم دونوں دوست ان سے اجازت لے کر رخصت ہوئے۔

معروف صحافی جناب زاہد ملک اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ڈاکٹر عبدالقدیر اور اسلامی بم‘‘ کے صفحہ 23 پر ڈاکٹر عبدالسلام کی پاکستان دشمنی کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’معزز قارئین کو اس انتہائی افسوس ناک بلکہ شرمناک حقیقت سے باخبر کرنے کے لیے کہ اعلیٰ عہدوں پر متمکن بعض پاکستانی کس طرح غیر ممالک کے اشارے پر کہوٹہ بلکہ پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں، میں صرف ایک اور واقعہ کا ذکر کروں گا اور اس واقعہ کے علاوہ مزید ایسے واقعات کا ذکر نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ ایسا کرنے میں کئی ایک قباحتیں ہیں لیکن میں نے ان سنسنی خیز واقعات کو تاریخ وار درج کر کے اس انتہائی اہم قومی دستاویز کی دو نقلیں پاکستان کے باہر دو مختلف شخصیات کے پاس بطور امانت درج کرا دی ہیں اور اس کی اشاعت کب اور کیسے ہو، کے متعلق بھی ضروری ہدایات دے دی ہیں۔ ‘‘

یہ واقعہ نیاز اے نائیک سیکرٹری وزارت خارجہ نے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذاتی دوست سمجھتے ہوئے سنایا تھا۔ انہوں نے بتلایا کہ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خاں نے انہیں یہ واقعہ ان الفاظ میں سنایا:

’’اپنے ایک امریکی دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں، میں بعض اعلیٰ امریکی افسران سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کر رہا تھا کہ دوران گفتگو امریکیوں نے حسب معمول پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر شروع کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے اپنی پیش رفت فوراً بند نہ کی تو امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کی امداد جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ایک سینئر یہودی افسر نے کہا ’’نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین تنائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ جب ان کی گرم سرد باتیں اور دھمکیاں سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ کسی اور قسم کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے تو سی آئی اے کے ایک افسر نے جو اسی اجلاس میں موجود تھا، کہا کہ آپ ہمارے دعویٰ کو نہیں جھٹلا سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا ماڈل بھی موجود ہے۔ یہ کہہ کر سی آئی اے کے افسر نے قدرے غصے بلکہ ناقابل برداشت بدتمیزی کے انداز میں کہا کہ آئیے میرے ساتھ بازو والے کمرے میں۔ میں آپ کو بتائوں آپ کا اسلامی بم کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ دوسرے امریکی افسر بھی اٹھ بیٹھے۔ میں بھی اٹھ بیٹھا۔ ہم سب اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ سی آئی اے کا یہ افسر، ہمیں دوسرے کمرے میں کیوں لے کر جا رہا ہے اور وہاں جا کر یہ کیا کرنے والا ہے۔ اتنے میں ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہو گئے۔ سی آئی اے کا افسر تیزی سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کمرے کے آخر میں جا کر اس نے بڑے غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ سے ایک پردہ کو سرکایا تو سامنے میز پر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ایک سٹینڈ پر فٹ بال نما کوئی گول سی چیز رکھی ہوئی تھی۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا ’’یہ ہے آپ کا اسلامی بم۔ اب بولو تم کیا کہتے ہو۔ کیا تم اب بھی اسلامی بم کی موجودگی سے انکار کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا میں فنی اور تکینکی امور سے نابلد ہوں۔ میں یہ بتانے یا پہچان کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ فٹ بال قسم کا گولہ کیا چیز ہے اور یہ کس چیز کا ماڈل ہے۔ لیکن اگر آپ لوگ بضد ہیں کہ یہ اسلامی بم ہے تو ہو گا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا کہ آپ لوگ تردید نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ آج کی میٹنگ ختم کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر کی طرف نکل گیا اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میرا سر چکرا رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ جب ہم کا ریڈور سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میں داخل ہو رہے تھے، جس میں بقول سی آئی اے کے، اس کے اسلامی بم کا ماڈل پڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، اچھا! تو یہ بات ہے‘‘۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے صاحبان اقتدار نے دانستہ طور پر ڈاکٹر عبدالسلام کی مندرجہ بالا غداریوں او رسازشوں سے مجرمانہ چشم پوشی کی اور ان ’’خدمات‘‘ کے عوض انہیں 1959ء میں ستارہ امتیاز اور تمغہ و ایوارڈ حسن کارکردگی اور 1979ء میں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیا گیا۔

آخر میں ایک اہم بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وفاقی وزارتِ تعلیم اسلامی جمہوریہ پاکستان (شعبہ نصاب) کی چٹھی نمبری F-2-4/2004-AEA (B.S) مورخہ 19 اپریل 2003ء کے مطابق تمام صوبوں، ریاست آزاد کشمیر اور فیڈرل بورڈ کی نویں جماعت کی (طبیعات) فزکس کی کتاب کے باب اوّل میں ’’سائنس کی ترقی میں عالم اسلام اور پاکستانی سائنسدانوں کا حصہ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مضمون دیا گیا ہے۔ جس میں زمانہ قدیم کے اہل علم و فن ابن الہیثم، البیرونی اور الکندی کے ساتھ ساتھ زمانہ حال کے دو پاکستانی سائنسدانوں، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور نوبل انعام یافتہ قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ (بلوچستان کی دونوں کتابوں میں صرف قادیانی سائنس دان کا ذکر ہے محسن پاکستان کا نہیں ہے)
 
Top