فیصلہ مقدمہ بہاول پور
باجلاس جناب منشی محمد اکبر خاں صاحب، بی۔اے، ایل۔ایل۔بی ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول پور بمقدمہ مسماۃ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش سکنہ احمد پور شرقیہ، ریاست بہاول پور، بنام عبدالرزاق ولد مولوی جان محمد سکنہ موضع مہند تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاول پور۔ دعویٰ دلاپانے ڈگری استقراریہ مشعر تنسیخ نکاح فریقین بوجہ ارتداد شوہر مدعا علیہ تاریخ فیصلہ ۷؍فروری ۱۹۳۵ئ۔
1976Sheikh Muhammad Rashid: (Minister for Health and Social Welfare) I may only point out that all important parts of the judgments of different courts should be read out.
(شیخ محمد رشید: (صحت وسماجی بہبود کے وفاقی وزیر) میں اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوںکہ مختلف عدالتوں کے فیصلہ جات کے اہم حصے پڑھے جانے چاہئیں)
Mr. Chairman: The judgments of the courts run into hundred of pages and their operative parts are many. The details are given in the judgments.
He is giving operative portions to support thier claim.
(جناب چیئرمین: عدالتوں کے فیصلے سو صفحات پر محیط ہیں اور ان میں بہت سارے اہم حصے ہیں۔ فیصلوں میں تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہ صاحب اپنے دعویٰ کے ثبوت میں صرف عملی حصے پیش کر رہے ہیں)
مولوی مفتی محمود: عدالت مذکورہ نے مقدمہ کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد آخر میں اپنا فیصلہ مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کیا اور سنایا۔
اوپر کی تمام بحث سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور کہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النّبیین بایں معنی نہ ماننے سے کہ آپ آخری نبی ہیں ارتداد واقع ہو جاتا ہے اور کہ عقائد اسلامی کی رو سے ایک شخص کلمہ کفر کہہ کر بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
مدعا علیہ، مرزاغلام احمد صاحب کو عقائد قادیانی کی رو سے نبی مانتا ہے اور ان کی تعلیم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ امت محمدیہ میں قیامت تک سلسلہ نبوت جاری ہے۔ یعنی کہ وہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النّبیین یعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرتa کے بعد کسی دوسرے شخص کو نیا نبی تسلیم کرنے سے جو قباحتیں لازم آتی ہیں۔ ان کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ اس لئے مدعا علیہ اس اجماعی عقیدۂ امت سے منحرف ہونے کی وجہ سے مرتد سمجھا جاوے گا اور اگر ارتداد کے معنی کسی مذہب کے اصولوں سے بکلی انحراف کے لئے جاویں تو بھی مدعا علیہ مرزاصاحب کو نبی ماننے سے ایک نئے مذہب کا پیرو سمجھاجائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے قرآن کی تفسیر اور معمول بہ مرزاصاحب کی وحی ہوگی۔ نہ کہ احادیث واقوال فقہا جن پر کہ اس وقت تک مذہب اسلام قائم چلا آیا ہے اور جن میں سے بعض کے مستند ہونے کو خود مرزاصاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
1977علاوہ ازیں احمدی مذہب میں بعض احکام ایسے ہیں کہ شرع محمدی پر مستزاد ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں۔ مثلاً چندہ ماہواری کا دینا جیسا کہ اوپر دکھایا گیا ہے۔ زکوٰۃ پر ایک زائد حکم ہے۔ اسی طرح غیراحمدی کا جنازہ نہ پڑھنا۔ کسی احمدی کی لڑکی غیراحمدی کو نکاح میں نہ دینا۔ کسی غیراحمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا شرع محمدی کے خلاف اعمال ہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے ان امور کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں کہ وہ کیوں غیراحمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے، کیوں ان کو نکاح میں لڑکی نہیں دیتے۔ لیکن یہ توجیہیں اس لئے کارآمد نہیں کہ یہ امور ان کے پیشواؤں کے احکام میں مذکور ہیں۔ اس لئے وہ ان کے نقطۂ نگاہ سے شریعت کا جزو سمجھے جائیں گے جو کسی صورت میں بھی شرع محمدی کے موافق تصور نہیں ہو سکتے۔ اس کے ساتھ جب یہ دیکھا جاوے کہ وہ تمام غیراحمدی کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے مذہب کو مذہب اسلام سے ایک جدا مذہب قرار دینے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں مدعا علیہ کے گواہ مولوی جلال الدین شمس نے اپنے بیان میں مسیلمہ وغیرہ کاذب مدعیان نبوت کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گواہ مذکور کے نزدیک دعویٰ نبوت کاذبہ ارتداد ہے اور کاذب مدعی نبوت کو جو مان لے وہ مرتد سمجھا جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے یہ ثابت کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب کاذب مدعی نبوت ہیں۔ اس لئے مدعا علیہ بھی مرزاصاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا ابتدائی تنقیحات جو ۴؍نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھیں۔ بحق مدعیہ ثابت قرار دے جا کر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے اور اگر مدعا علیہ کے عقائد کو بحث مذکورہ بالا کی روشنی میں دیکھا جاوے تو بھی مدعا علیہ کے ادّعا کے مطابق مدعیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی امتی نبی نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعا علیہ نے اپنی 1978طرف منسوب کئے ہیں۔ وہ گو عام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں۔ لیکن ان عقائد پر وہ انہی معنوں میں عمل پیرا سمجھا جاوے گا۔ جو معنی کہ مرزاصاحب نے بیان کئے ہیں اور یہ معنی چونکہ ان معنوں کے مغائر ہیں جو جمہور امت آج تک لیتی آئی اس لئے بھی وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ہے اور ہر دو صورتوں میں وہ مرتد ہی ہے اور مرتد کا نکاح جو ارتداد سے فسخ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ بھی ازاں مدعا علیہ لینے کی حقدار ہوگی۔
اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک سوال یہ پیدا کیاگیا ہے کہ ہر دو فریق چونکہ قرآن مجید کو کتاب اﷲ سمجھتے ہیں اور اہل کتاب کا نکاح جائز ہے۔ اس لئے بھی مدعیہ کا نکاح فسخ قرار نہیں دینا چاہئے۔ اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کو مرتد کہتے ہیں تو ان کے اپنے اپنے عقائد کی رو سے بھی ان کا باہمی نکاح قائم نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے نہ کہ مردوں سے بھی۔ مدعیہ کے دعویٰ کی رو سے چونکہ مدعا علیہ مرتد ہوچکا ہے۔ اس لئے اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے بھی اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ مدعیہ کی یہ حجت وزن دار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس بناء پر بھی وہ ڈگری پانے کی مستحق ہے۔