فیصلہ
مقدمہ کے تمام پہلوؤں پر نظر غائر ڈالنے اورسامعین پرمرافعہ نگار کی تقریر کے اثرات کااندازہ کرنے سے میںاس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ مرافعہ گزار تعزیرات کی دفعہ ۱۵۳ کے ماتحت جرم کا مرتکب ہواہے اور اس کی سزا قائم رہنی چاہئے۔ مگر سزا کی سختی اورنرمی کا اندازہ کرتے وقت ان واقعات کو پیش نظررکھنا بھی ضروری ہے جو قادیان میں رونما ہوئے۔ نیز یہ بات نظرانداز کئے جانے کے قابل نہیں کہ مرزا نے خود مسلمانوں کو کافر سور اوران کی عورتوں کو کتیوں کاخطاب دے کر ان کے جذبات کوبھڑکایا۔میراخیال یہی ہے کہ اپیلانٹ کا جرم محض اصطلاحی تھا۔ چنانچہ میں اس کی سزا کو کم کرکے اسے اختتام عدالت قید محض کی سزا دیتاہوں۔
گورداسپور دستخط
۶؍جون۱۹۳۵ئ جی۔ ڈی۔ کھوسلہ
سیشن جج
2347جناب چیئرمین: بہت بہت شکریہ۔ مولاناعبدالحق صاحب!
مولوی مفتی محمود: جناب والا!ایک بات عرض کرنا ہے کہ یہ بیان قومی اسمبلی کے ۳۷ ارکان کی طرف سے ہے اوراس وقت تک ہمارے پاس ۳۹ اراکین کے دستخط ہیں۔ یہ دستخط ہمارے پاس موجود ہیں اوریہ تمام پارٹیوں سے بالاتر ہوکر کیا ہے۔
جناب چیئرمین: ہم ساری پارٹیوں سے بالاتر ہوکر کریں گے۔
مولوی مفتی محمود: اگر کوئی رکن اس قرارداد پر دستخط کرنا چاہیں،تو کردیں؟
جناب چیئرمین: اگر ان کو دینا چاہیں تو دے دیں۔مولاناعبدالحکیم صاحب! آپ شروع کریں۔
مولانا عبدالحکیم: دستخط ہو جانے دیں۔
جناب چیئرمین: آپ شروع کریں۔
مولانا عبدالحکیم: باتیں ہورہی ہیں۔
جناب چیئرمین: ملک اختر !باتیں نہ کریں۔ مولانا!شروع کریں۔
7th is comming to close.
سات تاریخ بہت قریب آرہی ہے۔
آپ ۲۵۰صفحات کی کتابیں لکھ کر لائے ہیں۔
If you read it,you have to sit.
اگر آ پ یہ پڑھیں گے تو آپ کو بیٹھنا پڑے گا۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: جناب والا!
جناب چیئرمین: مولانا!پہلے وہ ختم کرلیں،پھر اس کے بعد۔
2348مولانا عبدالحکیم:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔
الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔