قائداعظم کی نماز جنازہ
چنانچہ اپنے مذہب اور خلیفہ کے حکم کی تعمیل میں چوہدی ظفر اﷲ خان صاحب سابق وزیر خارجہ پاکستان نے قائداعظم کی نماز جنازہ میں بھی شرکت نہیں کی۔ منیر انکوائری کمیشن کے سامنے تو اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ:
’’نماز جنازہ کے امام مولانا شبیر احمد عثمانی احمدیوں کو کافر، مرتد اور واجب القتل قرار دے چکے تھے۔ اس لئے میں اس نماز میں شریک ہونے کا فیصلہ نہ کر سکا۔ جس کی امامت مولانا کر رہے تھے۔‘‘
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت پنجاب ص۲۱۲)
لیکن عدالت سے باہر جب ان سے یہ بات پوچھی گئی کہ آپ نے قائداعظم کی نماز جنازہ کیوں اد انہیں کی؟ تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا۔
’’آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں یا مسلمان حکومت کا کافر نوکر۔‘‘
(زمیندار لاہور ۸؍فروری ۱۹۵۰ئ)
جب اخبارات میں یہ واقعہ منظر عام پر آیا تو جماعت ربوہ کی طرف سے اس کا یہ جواب دیا گیا کہ:
’’جناب چوہدری محمد ظفر اﷲ خاں صاحب پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ قائداعظم احمدی نہ تھے۔ لہٰذا جماعت احمدیہ کے کسی فرد کا ان کا جنازہ نہ پڑھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔‘‘
(ٹریکٹ نمبر۲۲، بعنوان ’’احراری علماء کی راست گوئی کا نمونہ‘‘ ناشر: مہتمم نشرواشاعت نظارت دعوت وتبلیغ صدر انجمن احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ)
1920اور قادیانی اخبار ’’الفضل‘‘ کا جواب یہ تھا کہ:
’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابوطالب بھی قائداعظم کی طرح مسلمانوں کے بہت بڑے محسن تھے، مگر نہ مسلمانوں نے آپ کا جنازہ پڑھا اور نہ رسول خدا نے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۵۲ء ص۴ کالم۲ ج۴۰ ش۲۵۲)
بعض لوگ چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب کے اس طرز عمل پر اظہار تعجب کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں تعجب کا کوئی موقع نہیں۔ انہوں نے جو دین اختیار کیا تھا یہ اس کا لازمی تقاضا تھا۔ ان کا دین، ان کا مذہب، ان کی امت ان کے عقائد ان کے افکار ہر چیز مسلمانوں سے نہ صرف مختلف بلکہ ان سے بالکل متضاد ہے، ایسی صورت میں وہ قائداعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھتے؟