• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانیت انگریزی استعمار کی ضرورت اور پیداوار

اسدعلی(سابقہ قادیانی)

رکن ختم نبوت فورم
قادیانیت انگریزی استعمار کی ضرورت اور پیداوار

جب انگریزی استعمار اپنے تمام تر مظالم اور جبرواستبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد ختم نہ کرسکا تو 1869ء کے اوائل میں برٹش گورنمنٹ نے ممبران برٹش پارلیمنٹ‘ برطانوی اخبارات کے ایڈیٹرز اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سر ولیم میور کی قیادت میں ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو رام کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کیا جاسکے۔ برطانوی وفد ایک سال تک برصغیر میں رہ کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کرتا رہا۔ 1870ء میں وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا جس میں اس وفد نے برطانوی راج کی ہندوستان میں آمد کے عنوان سے دو رپورٹس پیش کیں۔ جن کاخلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے سوا تمام مذاہب کو کفریہ مذاہب سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مسلح جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دے کر‘ جہاد کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے کے مذہبی عقیدہ کے مطابق انگریزی حکومت‘ کافر حکومت ہے۔ اس لئے مسلمان اس حکومت کے خلاف بغاوت اور جہاد میں مصروف رہتے ہیںجو برطانوی حکومت کے لئے مشکلات کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو انگریز حکومت کے جواز اور اس کے خلاف بغاوت و جہاد کے حرام ہونے کی بابت الہامی سند پیش کردے تو ایسے شخص کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لئے مفید کام لیا جاسکتا ہے۔ ان رپورٹس کو مدنظر رکھ کر برطانوی حکومت کے حکم پر ایسے موزوں شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے سند مہیا کرسکے اور جس کے نزدیک تاج برطانیہ کا ہر حکم وحی کے مترادف ہو۔ ایسے شخص کی تلاش ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ‘ پارنکسن کے ذمہ لگائی گئی۔ جس نے برطانوی ہند کی سینٹرل انٹیلی جنس کی مدد سے کافی چھان بین کے بعد چار اشخاص کو اپنے دفتر طلب کرکے انٹرویو کئے۔ بالاخر ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی کو برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے نامزد کرلیا گیا اور اس کی سرکاری سرپرستی شروع کردی گئی۔ مرزا قادیانی کیوں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے موزوں ترین شخص تھا؟ اس لئے کہ اس کا خاندان شروع سے ہی برطانوی سامراج کی خدمت اور کاسہ لیسی میں مشہور تھا۔ اس کا اعتراف خود مرزا قادیانی نے اپنی متعدد تحریروں میں کیا ہے بطور نمونہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ خاندان


میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا‘ جن کو دربار گورنری میںکرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریز کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے عین زمانہ عذر کے وقت سرکار انگریز کی امداد میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں‘ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے محاذ پر مفسدوں کا سرکار انگریز کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریز کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا

(کتاب البریہ ص 5,4,3‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 13‘ ص 6,5,4 مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

پچاس برس سے وفادار جانثار خاندان


سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کرمجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا

(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 21‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)

سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں پچاس الماریاں


میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی ہیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصراور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں‘ ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں

(تریاق القلوب ص 28,27 مندرجہ ذیل روحانی خزائن جلد 15 ص 156,155 از: مرزا غلام احمد قادیان)

مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے


میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے‘ ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے

(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 19‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)

برطانوی گورنمنٹ کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے


بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے‘ یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے‘ اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔

(اشتہارات القرآن ص 84‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 6‘ ص 380 از مرزا قادیانی)

جیسی خدا تعالیٰ کی اطاعت ویسی اس سلطنت کی اطاعت


سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہرکرتا ہوں‘ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں‘ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو‘ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے

(اشتہارات القرآن ص 84‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد ص 380 از: مرزا قادیانی)

انگریز سلطنت ایک رحمت و برکت ہے


سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریز سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لئے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو

(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 584‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)

دنیا میں آنے کا مقصد گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی


ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیرخواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ۔ ہمارا اصول ہے۔ ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقص امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے

کتاب البریہ ص 17‘ اشتہار مورخہ 20 ستمبر 1897ء مندرجہ روحانی خزائن‘ جلد 13ص 18‘ مصنفہ: مرزا غلام احمد قادیانی

ان حوالہ جات کی روشنی میں قادیانیت کی وجہ تخلیق کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مرزا قادیانی استعماری سیاست کا خود کاشتہ پودا تھا۔ انگریز نے اپنے نظریہ ضرورت کے تحت قادیانی تحریک کو پروان چڑھایا۔ جناب مرتضیٰ احمد خاں مکیش بھی رقم طراز ہیں۔ دین مرزا برطانیہ کی استعماری سیاست کا ایک خود کاشتہ پودا ہے یعنی ایک ایسی سیاسی تحریک ہے جو انگریز کے مقبوضہ ہندوستان میں ایک ایسی مذہبی جماعت پیدا کرنے کے لئے شروع کی گئی جو سرکار برطانیہ کی وفاداری کو اپنا جزو ایمان سمجھے۔ غیر اسلامی حکومت یا نامسلم حکمرانوں کے استیلا کو جائز قرار دے اور ایک ایسے ملک کو شرعی اصطلاح میں دارالحرب سمجھنے کے عقیدہ کا بطلان کرے جس پر کوئی غیر مسلم قوم اپنی طاقت و قوت کے بل پر قابض ہوگئی۔ انگریز حکمرانوں کی قہاریت اور جباریت کو مسلمان ازروئے عقیدۂ دینی اپنے حق میں اﷲ کا بھیجا ہوا عذاب سمجھتے تھے اور ان کی رضاکارانہ اطاعت کو گناہ تصور کرتے تھے۔ انگریز حکمران مسلمانوں کے اس جذبے اور عقیدے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ لہذا انہوں نے اس سرزمین میں ایک ایسا پیغمبر کھڑا کردیا جو انگریزوں کو اولیٰ الامر منکم کے تحت میں لاکر ان کی اطاعت کو مذہباً فرض قرار دینے لگا اور ان کے پاس ہندوستان کو دارالحرب سمجھنے والے مسلمانوں کی مخبری کرنے لگا جس طرح باغبان اپنے خود کاشتہ پودے کی حفاطت و آبیاری میںبڑے اہتمام سے کام لیتا ہے‘ اسی طرح سرکار انگریز نے دین مرزائیت کو فروغ دینے کے لئے مرزائی جماعت کو پرورش کرنا اپنی سیاسی مصلحتوں کے لئے ضروری سمجھا۔ اور اس دین کے پیروئوں سے مخبری‘ جاسوسی اور حکومت کے ساتھ جذبہ وفاداری کی نشرواشاعت کا کام لیتی رہی۔ 1919ء میں جب مولانا محمد علی رحمتہ اﷲ علیہ نے خلافت اسلامیہ ترکی کی شکست سے متاثر ہوکر مسلمانوں کو انگریزوں کے قابو چیانہ گرفت سے چھڑانے اور ارض مقدس کو عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کے لئے تحریک احیائے خلافت کے نام سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی مہم شروع کی اور عام مسلمان مولانا محمد علی اور دیگر زعمائے اسلام کی دعوت ونفیر پر کان دھر کر انگریز حکومت سے ترک موالات کرنے پر آمادہ ہوگئے تو مرزائی جماعت نے اس دور کے وائسرائے کے سامنے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے سرکار انگریزی کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے اس جہاد آزادی کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کے خادم موجود ہیں‘ جو سرکار انگریز کی وفاداری کو مذہبی عقیدہ کے رو سے اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔

پاکستان میں مرزائیت صفحہ 25 تا 27 از مرتضیٰ احمد خان مکیش
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
شروع میں جو رپورٹ پیش کی ہے اگر اس کا اصل حوالہ پیش کردیا جاتا تو پھر آپ کی بات میں وزن ہوتا وگرانہ
مخالفین کا یہ الزام کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور ان کی جماعتوں پر لگایا جاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ؐ کے انکار کرنے والوں نے بھی آپ پر اس قسم کا الزام لگایا ۔ چنانچہ فرمایا۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْکُ نِ افْتَرٰہُ وَاَعَانَہ، عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ

(الفرقان :٥)
کافر لوگ کہتے ہیں کہ محمد ؐ نے یہ جھوٹ بنا لیا ہے اور اس معاملہ میں اس کے پیچھے کوئی دوسری قوم ہے جو اس کی مدد کر رہی ہے۔


حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے انگریز حکومت کے عدل وانصاف کی تعریف کی ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ انگریز حکومت کے قیام سے قبل پنجاب میں سکھوں کی طرف سے مسلمانوں پر بے انتہاء مظالم توڑے جا رہے تھے ان کے تمام مذہبی حقوق سلب کر لئے گئے تھے ۔مسلمان عورتوں کی عزتیں غیر محفوظ تھیں ۔اس کا ذکر کرتے ہوئے تلسی رام لکھتے ہیں :۔
”مسلمانوں سے سکھوں کی بڑی دشمنی تھی۔اذان یعنی بانگ بآواز بلند نہیں ہونے دیتے تھے۔ مسجدوں کو اپنے تحت لے کر ان میں گرنتھ پڑھنا شروع کرتے اور اس کا نام موت کا کڑا رکھتے تھے۔”

(شیر پنجاب از تلسی رام مطبوعہ 1872ء )

انگریز حکومت کے آنے کے بعد مسلمانوں کو مذہبی آزادی ملی اور معاشرتی مسائل حل ہوئے ۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے انگریز حکومت کے مسلمانوں پر اس احسان اور اس کے عدل و انصاف قائم کرنے کی بناء پر اس کی تعریف کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں :۔

’’پس سنو! اے نادانو! میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتابلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار چلاتی ہے ۔قرآن شریف کے رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے۔ کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی۔‘‘

(کشتی نوح حاشیہ روحانی خزائن جلد 19ص 75)

پھر فرماتے ہیں:۔

”میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا۔”

(کتاب البریہ روحانی خزئن جلد13ص 340)

تعریف کرنے کا جواز

رسول کریم ؐ نے بھی غیر مسلم عادل بادشاہوں کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے بارہ میں اپنے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”تم لوگ حبشہ چلے جاؤ کیونکہ وہاں ایسا بادشاہ ہے جو کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ ارض حق یعنی سچائی والی زمین ہے”

(سیرۃ ابن ہشام جلد اوّل ص321)

شیعہ عالم علی الحائری لکھتے ہیں :۔”پیغمبر اسلام نے نوشیرواں عادل کے عہد سلطنت میں ہونے کا ذکر مدح اور فخر کے رنگ میں بیان فرمایا”

(موعظہ تحریف قرآن ص72 ۔از علی الحائری مطبوعہ 1932ء)


انگر یز کی خو شامد کا الزام اور حقیقت

آپ علیہ السلام نے انگریز حکومت کے ہندوستانی مسلمانوں پراس احسان کا خدااوررسولﷺ کی تاکیدوں کے تحت کسی صلہ کی تمنا کے بغیر محض اپنا فرض جان کر برملا اعتراف کیا اور اس کی تعریف فرمائی۔بایں ہمہ آپ علیہ السلام نے خدمت اسلام کے فریضہ کو باحسن طور انجام دیتے ہوئے اسلام پر حملہ آور عیسائی مذہب پر بھی بڑی کاری ضربیں لگائیں۔

انبیا ء اور مرسلین کا طریق

حضرت مسیح موعود علیہ السلا م اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموراور مرسل تھے۔ اس لیے حکومت وقت سے آپ علیہ السلام کا معاملہ تمام دنیوی لیڈروں کی ڈگر سے ہٹ کر انبیاء کرام کے مقدس سلسلہ کے ان مرسلوں سے مشابہ تھا جواللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت غیر مذہب کے حکمرانوں کی غلام قوموں میں بھیجے گئے تھے۔ خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پر فائز ہونے کے سبب سے آپ کا طرز عمل اُن سے کامل مطابقت رکھتا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلا م رومن حکمرانوں کی غلام قوم بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تھے اور آپ نے حکمرانوں کے مذہبی عقائد سے ہٹ کر دین حق کی اشاعت کے فریضہ کی ادائیگی اور حکومت سے وفاداری میں توازن رکھنے کے لیے یہ اصول پیش فرمایا کہ:

”جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے خدا کو دو۔“(لوقا : 20/22)

سکھوں کا راج اور انگریز حکو مت

حضرت مسیح موعود علیہ السلا م انگریزی حکومت کے ذریعہ آنے والے اس انقلاب کے معترف تھے جس کے نتیجہ میں ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو عام طور پر اور پنجاب کے مسلمانوں کو خاص طور پر گذشتہ سکھ حکومت کی غلامی اور اس کی زیادتیوں سے نجات ملی اور ایک پر امن، پر سکون اور محفوظ زندگی نصیب ہوئی۔ اسی طرح آپ علیہ السلام انگریز حکومت کی مذہبی پالیسی کو بہت سراہتے تھے جس کے نتیجہ میں اشاعت اسلام کے وہ مواقع پیدا ہوئے تھے جن کا سکھوں کی حکومت میں تصور بھی ممکن نہ تھا۔ آپ علیہ السلام نے انگریز حکومت کے ہندوستانی مسلمانوں پر اس احسان کا خدا اور رسول ﷺ کی تاکیدوں کے تحت کسی صلہ کی تمنا کے بغیر محض اپنا فرض جان کر بر ملا اعتراف کیا اور اس کی تعریف فرمائی۔بایں ہمہ آپ علیہ السلام نے خدمت اسلام کے فریضہ کو باحسن طور انجام دیتے ہوئے اسلام پر حملہ آور عیسائی مذہب پر بھی بڑی کاری ضربیں لگائیں۔

انگریزوں کی آمد سے قبل یہاں کے مسلمان سکھا شاہی کے ہاتھوں جس دردناک عذاب میں مبتلا تھے اس کی کیفیت مولوی مسعود احمد ندوی صاحب کے الفاظ میں یہ تھی:

”اس وقت پنجاب میں سکھا شاہی کا زور تھا۔ مسلمان عورتوں کی عصمت و آبرو محفوظ نہ رہی تھی۔ ان کا خون حلال ہو چکا تھا۔ گائے کی قربانی ممنوع تھی مسجدوں سے اصطبل کا کا م لیا جا جارہا تھا۔ غرض مظالم کا ایک بے پناہ سیلاب تھا جو پانچ دریاوٴں کی مسلم آبادی ک بہائے لیے جا رہا تھا۔“

(ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک از مولوی مسعود احمد ندوی صفحہ37 )

الغرض جاننا چاہئے کہ انگریز حکومت کا یہ مسلمانوں پر بہت بڑا احسان تھا کہ ان کو سکھوں کے ستم سے مخلصی عنایت کی۔ انگریز حکومت کا یہ حسن سلوک قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں ہرمسلمان کو جذبات شکر کے اظہار کا پابند بناتا تھا۔

قرآن مجید تو انسا ن کو احسان کے بدلہ احسان اور شکر گزاری کے جذبات کی تعلیم دیتا ہے۔فرما یا:

ھَلْ جَزَاْءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ.۔کیا احسان کی جزاءاحسان کےسوا ہو سکتی ہے؟(الرحمن :55)

تحریرات حضرت مسیح موعود ؑ

حضرت مسیح موعود ؑ فرما تے ہیں:۔

”اس عاجز نے جس قدر حصہ سوم کے پرچہ مشمولہ میں انگریزی گورنمنٹ کا شکر ادا کیا ہے وہ صرف اپنے ذاتی خیال سے ادا نہیں کیا بلکہ قرآن شریف اور احادیث نبوی کی ان بزرگ تاکیدوں نے جو اس عاجز کے پیش نظر ہیں مجھ کو اس شکر ادا کرنے پر مجبور کیا ہے۔“

(اشتہار مندرجہ براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ316)

پھر فرما یا:۔

”کیونکہ یہ گورنمنٹ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کی حمایت کرتی ہے اور ہر ایک ظالم کے حملہ سے ان کو بچاتی ہے …… میں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امید وار ہو کرکیا ہے ۔ بلکہ یہ کام محض للہ اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق کیا ہے ۔“

(نورالحق حصہ اول روحانی خزائن جلد 8 صفحہ40,41)

پھر فرما یا:۔

”بے شک جیسا کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا صرف اسلام کو دنیا میں سچا مذہب سمجھتا ہوں لیکن اسلام کی سچی پابندی اسی میں دیکھتا ہوں کہ ایسی گورنمنٹ جو درحقیقت محسن اور مسلمانوں کے خون اور مال کی محافظ ہے اس کی سچی اطاعت کی جائے ۔میں گورنمنٹ سے ان باتوں کے ذریعہ سے کوئی انعام نہیں چاہتا میں اس سے درخواست نہیں کرتا کہ اس خیر خواہی کی پاداش میں میرا کوئی لڑکا کسی معزز عہدہ پر ہوجائے ۔“

(اشتہار21اکتوبر1899ء تبلیغ رسالت جلد 4ص49)

خلاصہ جواب

ان تحریرات سے واضح ہے کہ حضرت بانیٴ سلسلہ احمدیہ نے انگریزکے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ کسی لالچ یا طمع یا خوف کے زیر اثر نہیں تھا اور یہ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کو واقعات کی تائید بھی حاصل ہے ۔کیونکہ یہ امر واقعہ ہے اور کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی یہ نہیں کہہ سکتا حضرت مرزا صاحب نے گورنمنٹ سے کوئی مربع یا جاگیر حاصل کی یا کوئی خطاب حاصل کیا۔ بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت بانی ٴسلسلہ احمدیہ کے خلاف عیسائی پادریوں نے اور بعض اوقات حکومت کے بعض کارندوں نے بھی آپ اورآپ کی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پس جب یہ ثابت ہے کہ حضور نے کوئی مادی فائدہ گورنمنٹ سے حاصل نہیں کیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ نے انگریزی حکومت کی غیرجانبداری اور امن پسندی اور مذہب میں عدم مداخلت کی پالیسی کے حق میں جو کچھ لکھا وہ مبنی بر حقیقت تھا تو پھرآپؑ پر ”خوشامد“کا الزام لگانامحض تعصب اور تحکم نہیں تو اور کیا ہے؟


مسلما نو ں کا انگریز حکومت کی حمایت کرنا

حضرت مسیح موعودؑ پر انگریز کی خوشامد کا الزام لگا یا جاتا ہے۔ذیل میں بعض مسلمان علماء اور لیڈروں کے حوالہ جات نقل کیے جاتے ہیں ۔انصاف کی نظر رکھنے والوں کے لئے جائے عبرت ہے۔

شاعر مشرق علامہ اقبال نے ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر ایک مرثیہ میں لکھا:۔

میت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کے لئے اقبال اڑ کے خاک سر راہ گزر ہو
صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا دیتے ہیں نام ماہ محرم کا ہم تجھے
کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرئے

(باقیات اقبال مرتبہ سید عبد الواحد ایم۔ اے ص75۔76 شائع کردہ آئینہ ادب انار کلی لاہور بار دوئم)

شمس العلماء مولوی نذیر احمد دہلوی لکھتے ہیں:۔

”خدا کی بے انتہاء مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ آئے”

(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی ص 4۔5 مطبوعہ1890ء)

اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:۔

”اس امن وآزادی ئ عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہلحدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنت کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں ”

(اشاعۃ السنہ ۔ جلد6 نمبر10 ص293)

مجلس احرار کے لیڈر مولانا ظفر علی خان لکھتے ہیں :۔

”اگر کوئی بدبخت مسلمان گورنمنٹ سے سرکشی کی جرأت کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان، مسلمان نہیں”

(اخبار زمیندار لاہور ۔11 نومبر 1914ء


اہل حدیث اور دیوبندی فرقہ کے چوٹی کے عالم اور بزرگ شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی فرماتے ہیں:

”سارے ہندوستان کی عافیت اسی میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہو کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو۔ (انگریز ہی نہیں جو بھی مرضی ہو یورپ کا ہو سہی۔ناقل)مگر خدا کی بے انتہاء مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ آئے۔“

(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ4-5 مطبوعہ 1890ء )

پھر مزید فرماتے ہیں:

”کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے توبہ توبہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق۔“

(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ19 مطبوعہ 1890ء)

مو لوی محمد حسین بٹالوی

”اس امن و آزادی عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں۔“

(رسالہ اشاة السنة جلد6 نمبر10 صفحہ292-293 )

مولانا ظفر علی خان لکھتے ہیں:

”مسلمان۔۔۔ایک لمحہ کے لیے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے۔۔۔اگر کوئی بد بخت مسلمان، گورنمنٹ سے سرکشی کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان مسلمان نہیں۔“

(اخبار زمیندار لاہور11 نومبر1911ء)

مسلمانوں کے مشہور لیڈر سر سید احمد خان صاحب لکھتے ہیں:

”ہماری گورنمنٹ کی عملداری دفعةً ہندوستان میں نہیں آئی تھی بلکہ رفتہ رفتہ ہوئی تھی۔ جس کی ابتداء 1757ء کے وقت سراج الدولہ کے پلاسی پر شکست کھانے سے شمار ہوتی ہے۔ اس زمانہ سے چند روز پیشتر تک تمام رعایا اور رئیسوں کے دل ہماری گورنمنٹ کی طرف کھنچتے تھے اور ہماری گورنمنٹ اور اس کے حکامِ متعہدکے اخلاق اور اوصاف اور رحم اور استحکامِ عہود اور رعایا پروری اور امن و آسائش سن سن کر جو عملداریاں ہندو اور مسلمانوں کی ہماری گورنمنٹ کے ہمسائے میں تھیں وہ خواہش رکھتی تھیں اس بات کی کہ ہماری گورنمنٹ کے سایہ میں ہوں۔“

(مقالاتِ سرسید حصہ نہم صفحہ 54)

حضرت سید اسماعیل شہیدؒ :

حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒ کے دست راست اور آپ ہی کے ساتھ سکھوں سے جہاد کرتے ہوئے مئی 1831ء میں جام شہادت نوش کرنے والے بزرگ حضرت مولانا اسماعیل شہید ؒ نہ صرف انگریز حکومت کے خلاف جہاد سے منع فرماتے تھے بلکہ آپ اس قدر اس حکومت کی طرف سے دی گئی مذہبی آزادی کے قدر دان تھے کہ آپ نے فرمایا:

”ان (یعنی انگریزوں ۔ ناقل) پر جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں۔“

(حیات طیبہ مرتبہ مرزا حیرت دہلوی صفحہ 296 بحوالہ خون کے آنسو صفحہ32)

علامہ اقبال:

مورخہ22جنوری1901 ء کو ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا۔ اتفاق سے اس دن عید الفطرتھی۔ ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر علامہ ڈاکٹرسرمحمداقبال نے ایک مرثیہ لکھاجو لاہور کے ایک ماتمی جلسہ میں پڑھا گیا۔ یہ مرثیہ مطبع خادم التعلیم میں چھپ کر شائع کیا گیا تھا۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

آئی ادھر نشاط ادھر غم بھی آگیا

کل عید تھی تو آج محرم بھی آگیا

صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا

دیتے ہیں نام ماہِ محرم کا ہم تجھے

کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے

اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے

توجس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہ دل

رخصت ہوئی جہاں سے وہ تاجدارآج

اے ہندتیرے سرسے اُٹھا سایہ خدا

اک غمگسارتیرے مکینوں کی تھی گئی

ہلتا تھا جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے

زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اسی کا ہے

(باقیات اقبال صفحہ 92-74 طبع دوم 1966ء)

جب ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لئے مسلم لیگ قائم کی تو اس کے اغراض و مقاصد بھی طے کیے گئے۔ ان میں سے پہلا مقصد یہ تھا:

To promise among Indian Muslims feelings of loyalty towards the British Government, and to remove any misconseption that may arise as to the intentions of the Government with regard to any of its measures.

ترجمہ:ہندوستان کے مسلمانوں میں برٹش گورنمنٹ کی بابت وفاداری کے احساس کو بڑھانا اور گورنمنٹ کے کسی قدم کے بارے میں اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہو تو اسے دور کرنا۔

(Indian Muslims, A Political History, 1858 – 1947, by Ram Gopal, Book Traders Lahore. page 102)

اہل تشیع کی رائے میں حکومت برطانیہ محسنہ اور ان کی اس حکومت کے دوام کے لیے دعائیں:

شیعہ مجتہد علی الحائری کہتے ہیں:

”پس یہ کس قدر قدر شکر کا مقام ہے کہ برطانیہ عظمی ان تمام عیوب اور خود غرضیوں سے پاک ہے۔ جس کو اختلاف مذاہب سے کوئی بھی غرض نہیں ہے۔ اور جس کا قانون ہے کہ سب مذاہب آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض کو ادا کریں۔ اس لئے نیابةً تمام شیعوں کی طرف سے برٹش سلطنت کا صمیم قلب سے میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس ایثار کا جو وہ اہل اسلام کی تربیت میں بے دریغ مرعی رکھتی ہے۔ خاص کر ہمارا فرقہ شیعہ جو تمام اسلامی سلطنتوں میں تیرہ سو برس کے ناقابل برداشت مظالم کے بعد آج اس انصاف پسند عادل سلطنت کے زیر حکومت اپنے تمام مذہبی فرائض اور مراسم تولا و تبرا کو بپابندی قانون اپنے اپنے محل و قوع میں ادا کرتے ہیں۔ اور خلاف قانون کوئی غیر روکاوٹ کا باعث نہیں ہو سکتا۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہر شیعہ کو اس احسان کے عوض میں (جو آزادی مذہبی کی صورت میں انہیں حاصل ہے) صمیم قلب سے برٹش حکومت کا رہین احسان اور شکرگزار رہنا چاہئے۔ اور اس کے لئے شرع بھی اس کو مانع نہیں ہے۔ کیونکہ پیغمبر اسلام علیہ وآلہ السلام نے نوشیرواں عادل کے عہد سلطنت میں ہونے کا ذکر مدح اور فخر کے رنگ میں بیان فرمایا ہے۔“

(موعظہ تحریف قرآن۔ مرتبہ سید محمد رضی الرضوی اپریل ۱۹۲۳ء شائع کردہ شیعہ ینگ مین سوسائٹی خواجگان نارووالی لاہور۔ ص68)
 
Top