• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانیت تعلیمی لحاظ سے

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پیکر دجل و مکر اور کذب و افتراءمرزاقادیانی کی موت کے بعد اس کی ذریت اس زعم میں مبتلا ہوگئی کہ آئندہ ہندوستان انہی کی خلافت کے زیر سایہ ہوگا۔ چنانچہ مرزا محمود نے بزرو بازو قادیان میںاپنی خلافت قائم کی جس کا پایہ تخت بعد میںپاکستان کے ضلع جھنگ میں منتقل ہوگیا۔ پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قابض ہونے کے بعد انہیںیقین تھاکہ جلد وہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے اور یہاں مسیلمہ پنجاب کی شیطانی شریعت کا راج ہوگا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے ریاست کے اندر ایک ریاست ربوہ کے نام سے قائم کی۔ اس ریاست میں امور خارجہ‘ داخلہ‘ دفاع‘ خزانہ‘ تجارت‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کی ایسی ہی وزارتیںقائم کیں جیسے ایک ملک کے نظام کو چلانے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ ان لوگوں نے کسی بھی عوامی یا حکومتی رد عمل سے بچنے کے لئے وزارت کی بجائے نظارت کی اصطلاح اختیار کی۔ نظارت امور خارجہ کا کام اپنی ریاست ربوہ سے اندرون و بیرون ملک خلیفہ کی زیر نگرانی تبلیغی‘ سیاسی اور جوڑ توڑ کی کارروائیاں کرنا ہے۔ نظارت داخلہ کا کام فوجداری مقدمات‘ سزاﺅں پر عمل درآمد ‘ پولیس اور حکومت سے روابط رکھنا ہے۔ ناظر حفاظت مرکز کا کام ربوہ کو بیرونی حملوں سے محفوظ کرنا اور اس مقصد کے لئے فوج میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا ہے۔ اسی طرح ایک اہم نظارت تعلیم ہے جس میں ناظر یا وزیر تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ قادیانی طلبہ کے تمام تعلیمی امور کی نگرانی کرے۔ انہیں ملک کے اہم اور مہنگے تعلیمی اداروں میں ہر طرح کے ذرائع استعمال کرکے داخلہ دلوائے تاکہ انہیں منظم کرکے ان کے ذریعے قادیانی مذہب کا پرچار کیاجائے۔ ایسے واقعات کئی ایک اداروں میں ہوئے جہاں قادیانی طلباءنے مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر طلباءکو مرتد کرنے کی کوششیں کیں۔ ملت اسلامیہ سے جھٹک دیئے جانے کے باوجود قادیانیت ایک ایسا ناسور ہے جو اپنے باطل عقائد‘ شیطانی اوہام اور اضغاث احلام پر ایسے ہی اسلام کا لیبل چپکائے رکھنے پر اصرار کرتاہے جیسے کوئی شعبدہ با ز پیتل پر سونے کا پانی چڑھا کر لوگوں کو دھوکا دیتا ہے۔ عالمی صہیونی تحریک کا آلہ کار اپنے مغربی آقاﺅں کے مفادات کی خاطر امت مسلمہ کی جڑیںکھوکھلی کرنے کے لئے مسلمانوں سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتا۔ قادیانیت کی تعلیمی اداروںمیں سرگرمیوں کی تازہ واردات پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں ہوئی جہاں انہوں نے خفیہ تبلیغ کے ذریعے تین لڑکیوں کو مرتد بنالیا۔ ملک کے اس اہم ادارے میں قادیانی طلباءکی دعوتی سرگرمیاں نو دس سالوں سے جاری تھیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں ناظر تعلیم ربوہ سے باقاعدہ رہنمائی ملتی رہی۔ ان طلباءمیں سال اول سے لے کر فائنل ایئر تک تقریبا ً23 طلباءو طالبات شامل ہیں۔ طالبا ت کی تعداد 15 جبکہ طلباءکی تعداد 8 ہے۔ یہ وہ طالب علم ہیں جن کی قادیانیت چھلک کر واضح ہوگئی ہے۔ قادیانیوں کی سرگرمیوں کا اصل مرکز گرلز ہاسٹل تھے۔ نئی آنے والی لڑکیاں قادیانیت کے پرچار میں زیادہ سرگرم تھیں۔ انہوں نے کئی ایک لڑکیوں کو مسیلمہ قادیان اور دیگر قادیانی فتنہ پروروں کی شیطانی تحریوں پر مشتمل لٹریچر دینا شروع کیا۔ اور ساتھ انہیں سبز باغ بھی دکھائے جاتے۔ اکثر قادیانی مبلغات طالبات سے والدہ یاکسی مذہبی رشتے کی آڑ میں ملنے کے بہانے آکر مذموم سرگرمیاں انجام دیتیں۔ مئی 2008 ءکے آغاز میں ایک قادیانی طالبہ کی والدہ کے روپ میںایک مبلغہ ہاسٹل میں آئی یہاں اس کا قیام اس وقت تک رہا جب تک وہ تین مسلم طالبات کو رام کرکے ارتداد کی گھٹا ٹوپ گمراہیوں میں اتارنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ ہاسٹل کی رفاقت‘ سلام دعا اور دوستی سے شروع ہونے والایہ سفر اس وقت تکمیل پذیر ہوا جب ڈاکو¶ں نے سبز باغ اور گمراہ کن تبلیغ کے ذریعے ان کے ایمان کو لوٹ لیا۔ اس نام نہاد والدہ کے جانے کے چند روز بعد دو طالبات نے ایک دن ہاسٹل میںیہ دھماکہ خیز اعلان کیا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوکر قادیانیت اختیار کر چکی ہیں۔ ان کی اس دیدہ دلیری پر مسلمان طلباءو طالبات میں بھونچال آگیا۔ تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔قادیانیوں کی غنڈہ گردی کی تاریخ تو ان کی پیدائش سے ہی شروع ہوجاتی ہے تاہم بطور نمونہ مشتے از خروارے کچھ واقعات آپ کے ملاحظہ کے لئے ہم بیان کریں گے۔1974ءمیں نشتر میڈیکل کالج کے طلباءسیر و سیاحت کی غرض سے بذریعہ ریل ملتان سے پشاور جا رہے تھے جب ان کی گاڑی ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو قادیانی مشنری گماشتوں نے ان کے ڈبے میں داخل ہوکر ارتدادی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔ مسلمان طلباءنے اسلام زندہ باد‘ خاتم الانبیاءمحمد مصطفی زندہ باد‘ قادیانیت اور اس کے گرو کے خلاف نعرے لگائے۔ ربوہ جو قادیانی ریاست کا گڑھ ہے جہاں ان کی منشاءکے خلاف چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ‘ آج یہاں قادیانیت کے خلاف نعرے بازی‘ کبھی انہوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ مسلمان طلباءکی جرا¿ت اور غیرت ایمانی نے شیطان کے چیلوں کو سیخ پا کردیا۔ انہوں نے ان طلباءکو سبق سکھانے کا عزم مصمم کرلیا جب یہ طلباء واپسی پر ربوہ پہنچے تو قادیانی غنڈوں کا ایک ہجوم ڈنڈوں اور آتشیں اسلحہ سے لیس ہوکر ان پر ٹوٹ پڑا۔ ان طلباءکو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اکثر کی حالت نازک ہوگئی۔ نشتر میڈیکل کالج کے ان طلباءکی اس قربانی کانتیجہ تھاکہ قادیانیوں کو استعماری قوتوں کے دباﺅ کے باوجود حکومت وقت کو غیر مسلم قرار دینا پڑا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت دلوانے کا کا م جو علماءکی برسوں کی تحاریر و تقاریر سے نہ ہو سکا‘ وہ نشتر میڈیکل ملتان کے طلباءکی مظلومیت اور کلمہ حق سے منزل مراد پاگیا۔ کہاں وہ نشتر میڈیکل کالج کے طلباءجو قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کا سبب بنے اور کہاں آج پنجاب میڈیکل کالج جہاں قادیانیت نے سرنگ لگا کر طلباءو طالبات کو مرتد بنانا شروع کردیاہے۔ آج PMC کے طلباءکا امتحان ہے‘ دیکھیں وہ مرزا کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ PMCکے سینئر طلباءکو جب قادیانی طلباءکی سرگرمیوں کا پتہ چلا تو انہوں نے دوسرے روز کلاسز میں قادیانیت کے جھوٹے عقائد کے حوالے سے لٹریچر تقسم کیا۔ راقم نے جب PMC میں ناظم اسلامی جمعیت طلباءحسان چوہدری اور طلباءجماعة الدعوة کے ذمہ دار خاور بھائی سے رابطہ کیا تو انہوں نے تمام صورت حال بتاتے ہوئے کہا: ہم نے دوسرے روز ایک وال چارٹ آگاہی کے لئے کیمپس میں آویزاں کیا مگر اس چارٹ کو چھٹی سے قبل ہی اس طرح پھاڑ دیا گیا کہ پوری عبارت میں سے صرف اسم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پھاڑا گیا ۔ طلبہ کا مشتعل ہونا ایک لازمی امر تھا مگر چونکہ مجرم تلاش کے باوجود نہ مل سکا لہذا طلبہ نے اپنے ابلتے ہوئے جذبات پر قابو پاکر صبر کیا۔ اسی رات تمام دینی و سیاسی تنظیموں کو ایک ہنگامی اجلاس میں اکٹھا کرکے ایک طلبہ ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے زیر اہتمام کالج میں مزید وال چارٹس لگائے گئے‘ جن پر طلبہ سے ان قادیانیوں کا بائیکاٹ اور انتظامیہ سے ان کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ صبح طلبہ کا ایک وفد پرنسپل سے ملاقات کے لئے گیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ قادیانی طالبات کا ہاسٹلز میں داخلہ بند کیا جائے اور ان کی الاٹمنٹ منسوخ کی جائے مگر پرنسپل رضامند نہ ہوا۔ اس کے خیال میں تمام قادیانی طالبات کو ایک الگ ونگ(Wing)میں منتقل کر دینا ہی دانشمندی تھی۔ چند ہی دن گزرے تھے کہ ایک رات کمیٹی کے لگائے گئے وا ل چارٹس میں سے ایک کو پھاڑ دیا گیا ۔ رات ہی کو اس امر کی نشاندہی ہونے کے بعد طلبہ نے قادیانی لڑکوں کو گھیر لیا اور ان سے پوچھ گچھ شروع کی تو پھٹے ہوئے وال چارٹس کے ٹکڑے ایک قادیانی طالبعلم ذیشان کی جیب سے برآمد ہوئے ۔ دونوں بوائز ہاسٹلز کے طلبہ باہر آگئے۔ اور تمام قادیانی طالبعلموں کو ایک جگہ جمع کرلیا گیا ۔ پہلے پہل تو کسی نے اقرار نہ کیا مگر بعد میں اسی طالبعلم نے پوسٹر کے پھاڑنے کے امر کا اعتراف کر لیا۔جب قادیانیوں کی گھناﺅنی حرکات کے ثبوت مل گئے تو طلباءکے مشتعل ہجوم سے کسی بھی واقعہ کا سرزد ہونا بعید نہ تھا چنانچہ طلباءایکشن کمیٹی نے حالات پر قابو پاکر اعلان کیا کہ کل صبح پرنسپل آفس کے سامنے جاکر ان سب طلبہ کے کالج سے خارج ہونے تک دھرنا دیا جائے گا۔ چنانچہ صبح 8 بجے پرنسپل کے دفتر کا تمام طلبہ و طالبات نے گھیراﺅ کر لیا۔ پرنسپل نے اکیڈمک کونسل کا اجلاس طلب کر لیا ۔ شہر کے DIG، DCO کو بھی مشورے کے لئے بلا لیا گیا۔ انتظامیہ نے بہتیرے حیلے بہانے کرنے کی کوشش کی مگر طلبہ و طالبات ان قادیانیوں کے کالج سے خروج (expelsion) سے کم پر راضی نہ ہوئے ۔ چنانچہ اکیڈمک کونسل نے اسی دوران ڈسپلنری کمیٹی کا اجلاس بلا یا جس میں پھٹا ہوا پوسٹر بطور ثبوت پیش ہوا اور چند قادیانی طلبہ و طالبات کے داخلہ فارمز بھی پیش کئے گئے جس میں انہوں اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا تھا۔ ڈسپلنری کمیٹی نے3گھنٹے غورو خوض کے بعد ان طلبہ کے اخراج کا فیصلہ سنایا جس کا نوٹیفیکیشن پرنسپل نے جاری کر دیا۔ اس سارے عمل کے دوران جون کی شدید گرمی میں ساڑھے چار گھنٹے تک طلبہ پر امن طریقے سے ایڈمن بلاک کے باہر اور اندر دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ نوٹیفیکشن جاری کرنے کے فوراً بعد پرنسپل نے اسی روز گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا جو در اصل معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے طلبہ کو گھروں میں بھیجنے کی سازش تھی۔ اس معاملے (23قادیانی طلبہ کے اخراج ) کو عالمی نیوز ایجنسیوں ، خصوصاً بی بی سی اور وائس آف امریکہ نے بہت بھونڈے انداز میں پیش کیا اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس کی بنیا د پر یہ تاثر پھیلاکہ شاید ان طالبعلموں سے زیادتی کی گئی ہے۔ پرنسپل پر دبا ﺅ پڑا تو اس نے ہاسٹل میں مقیم باقی ماندہ طلبہ کو نکالنے کے لئے ہاسٹلز کی بجلی اور پانی بند کر دیئے اور ان کو ہاسٹلز خالی کرنے کا کہا گیا لیکن جب طلبہ سازش کی بو پاکر ہاسٹل سے نہ گئے تو پولیس گردی کی گئی اور ہاسٹلز کو زبردستی خالی کرا لیا گیا۔ انتظامیہ نے معاملے کی از سر نو تحقیق کے لئے ایک نئی انکوائیری کمیٹی تشکیل دی جس نے طلبہ کو اپنے روبرو پیش ہونے کو کہا ۔ طلبہ نے اعلان کیا کہ وہ کسی کمیٹی میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک کالج کھل نہیں جاتے اور تمام طلبہ واپس نہیں آجاتے کہ ا نتظامیہ ان سے اکیلے میں دباﺅڈال کر اپنی مرضی کا بیان نہ دلوالے ۔اس پر ان کے گھروں میں فون کر کے کالج سے اخراج حتی کہ گرفتاری تک کی دھمکیاں دی گئیں اور ان کے والدین کو ڈرایا دھمکایا گیا ۔ جس پر مجبور ہو کر 27 میں سے چار طلبہ پیش ہو گئے اور انتظامیہ نے سخت دباﺅ کے ماحول میں ان سے بیانات لئے۔ ایسا کرنے والے پرنسپل ڈاکٹر محمد اصغر رندھاوا کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ نشتر میڈیکل کالج کے طالب علم اور ربوہ کے ریلوے پلیٹ فارم پر قادیانیوں کے ہاتھوں زخم کھانے والوں میں شامل تھے۔ آج پرنسپل شپ ان کے ایمانی تقاضوں پر حاوی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ انتظامیہ اپنا پرانا (قادیانی طلبہ و طالبات کے اخراج کا)نوٹیفیکشن واپس لے چکی ہے ۔ انکوائیری کمیٹی کی انکوائیری طلبہ کے بائیکاٹ کی وجہ سے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو چکی ہے ۔ انتظامیہ کسی نئے اقدام کے لئے تیار کھڑی ہے۔ امتحان قریب ہے اور ہاسٹلز پر بدستور پولیس کا قبضہ ہے۔ طلبہ کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ پنجاب میڈیکل کالج کی تمام تنظیموں نے مل کر تحفظ ختم نبوت طلبہ اتحاد قائم کیا ‘ اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے اس منافق انتظامیہ کے خلاف تحریک جاری ہے۔ اتحاد کا موقف ہے کہ تمام قادیانی طالبعلم باہم منسلک ہیں اوراس بات کے معترف ہیںکہ وہ ایک دوسرے اور ناظر تعلیم ربوہ سے پوچھ کر ہر کام نمٹاتے ہیں (وال چارٹس پھاڑنے کا کام)، لہٰذا اگر کسی ایک بھی طالبعلم کو واپس پی ایم سی میں لایا گیا تو سخت احتجاج ہوگااور انتظامیہ کو بخشا نہیں جائے گا۔ تحفظ ختم نبوت طلبہ اتحاد کی ردِ قادیانیت تحریک جاری ہے اور جاری رہے گی۔ طلباءکا عزم و ارادہ ہے کہ نبی آخرالزماں(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ کا آخری رسول ماننے والے مسلمان جھوٹے نبی کے جھوٹے پیروکاروں کا پیچھا کرتے رہیں گے اور ان کو انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ قادیانی لابی کافر قرار دیئے جانے کے باوجود خود کو اقلیت تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے بلکہ وہ علی الاعلان اپنے باطل مذہب کی اشاعت میں مصروف ہے۔ ملک میں بسنے والی دیگر اقلیتیں آئین اور ریاست کی طرف سے دیئے گئے حقوق کے مطابق اس ملک میں امن و سکون سے رہ رہی ہیں لیکن قادیانی ہمیشہ سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی ملک دشمن اور اسلام دشمن سرگرمیوں سے یہ حقیقت طشت از بام ہوتی ہے کہ قادیانیت کچھ اور ہو نہ ہو‘ فتنہ و فساد کی جڑ ضرور ہے۔ یہ ایک ایسا فتنہ ہے جس نے امت میں تفرقہ و انتشار اور نفاق کا بیج بویا ۔ آج یہ قادیانی لابی پاکستان میں علی الاعلان جارحیت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان لوگوں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ اقلیت قرار دیئے جانے کے بعد بھی یہ خود کو مسلمان ظاہرکرکے تعلیمی اداروں سمیت ہر شعبے میں گھسے ہوئے ہیں۔ جب ان کی سرگرمیاں بے نقاب ہوجاتی ہیں تو پھر یہ مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر پوری دنیامیں شور مچا کر مغرب کے شر انگیز میڈیا کے ذریعے استعمار سے دخل اندازی کے لئے درخواست گزار ہوتے ہیں۔ ساٹھویں سالانہ اجتماع کے موقع پر ایک قادیانی شاعر نے اپنے خیر خواہ و ہمدرد ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی مظلومیت کا رونا یوں رویا ہے کہ جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوںکا قتل عام ان کا اجتماعی ہولوکاسٹ تھا جبکہ پاکستان میں ان کا انفرادی ہولو کاسٹ جاری ہے۔ مبارک احمد کی یہ ہفوات دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانی جہاں بھی موقع دیکھتے ہیں‘ دہشت گردی اور تخریب کاری سے باز نہیں آتے۔ ان کی گزشتہ ادوار کی تاریخ کو دیکھنے سے بخوبی علم ہوتاہے کہ یہ لوگ حسن بن سبا کی طرح قادیانیت کے لئے کسی بھی حد کو پار کر سکتے ہیں۔ ذیل میں ان کی سرگرمیوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ 1997ءمیں ربوہ کے تعلیم الاسلام کالج کے مسلمان طلباءنے ایک جلوس نکالا اس جلوس کا سبب یہ بات تھی کہ حکومت نے قادیانیوں کو قادیانی کی بجائے احمدی مسلمان کا لفظ لکھنے کی اجازت دی۔ مسلمان طلباءاس بات پر سراپا احتجاج تھے۔ انہوں نے کالج روڈ سے جلوس نکالا۔ جب یہ جلوس ریلوے پھاٹک پر پہنچا تو وہاں قادیانی غنڈوں نے ان مسلمان طلبا ءپر حملہ کردیا۔ قادیانی گماشتوں کی فائرنگ سے کئی طلباءشدید زخمی ہوگئے۔ اسلامیات کے لیکچرر محمد یوسف نے ختم نبوت کے موضوع پر لیکچر کا آغاز کیا تو قادیانی طلباءنے شور مچادیاکہ یہ متنازعہ مسئلہ ہے‘ آپ اس کو بیان نہ کریں۔ اس پر لیکچرر نے کہا‘ ختم نبوت ہمارے نصاب کا حصہ ہے اور جو چیز نصاب میںشامل ہے‘ اسے پڑھانا میری ذمہ داری ہے۔ مسلمان طلباءنے بھی لیکچر ر کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ختم نبوت اور قادیانیت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اٹھ کر باہر چلا جائے۔ اس لیکچر کے دو تین روزبعد قادیانی طلباءنے ان مسلمان طلباءکو زد و کوب کیا اور قتل کرنے کی کوشش کی۔1991ءکی بات ہے راولپنڈی آرمی میڈیکل کالج میں قادیانی پرنسپل لیفٹنینٹ جنرل محمد اختر کے حکم سے چھ مسلمان طلباءکو کالج سے نکال دیا گیا۔ اس خروج کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان طلباءکا قادیانی طلباءسے ختم نبوت کے موضوع پر گرما گرم مباحثہ ہوا تھا۔ کالج سے نکالنے کے بعد انہیں قادیانی طلباءکے ہاتھوں خوب پٹوایا گیا۔ قادیانی ربوہ کے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھنے والے مسلم طلباءکے نوخیز ذہنوں میں مرزا کے ابلیسی افکار کو ٹھونسنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ 1984ءکی بات ہے کہ قادیانی اساتذہ نے یہ معمول بنا لیا کہ کلاس میں آتے ہی مسلمان طلباءسے مرزا کی جھوٹی نبوت کی فضیلت میں نظمیں پڑھواتے اور مرزاکے فضائل (رذائل) اور قادیانیت کی صداقت پر مسلمان طلباءکو لیکچر دیا جاتا۔ قادیانیوں کی اس دہشت گردی سے مسلمان اساتذہ میں خالی الذہن طلباءکے قادیانیت کے بدبودار گڑھے میں گرنے کے حوالے سے بے چینی پیدا ہوئی۔ انہوں نے اس کی شکایت ہیڈ ماسٹر سے کی۔ قادیانی غنڈوں نے ایک استاد محمد نواز کو اس جرم کی پاداش میں قتل کرنے کےلئے حملہ کیا لیکن دوسرے مسلمانوں نے اسے بمشکل بچایا۔ اسی طرح 1976ءمیں جب ایک طالب علم عبدالرشید نے مرزا کی شان میں قصیدے پڑھنے سے انکار کیا تو اسے بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں قائم فوٹو سٹیٹ سنٹر کے مالک گستاخ رسول شریف قادیانی نے یونیورسٹی کو قادیانی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنالیا۔ یہ شخص نہ تو وہاں ملازم تھا اور نہ ہی طالب علم لیکن اس نے اپنے فوٹو سٹیٹ سنٹر اور یونیورسٹی کے پہلے ڈائریکٹر سٹوڈنٹ افیئرز پروفیسر یوسف انور قادیانی کی سرپرستی کاخوب حق ادا کیا۔ شریف قادیانی اپنی دکان پر آنے والے ہر طالب علم کو مرتد کرنے کی کوشش کرتا اوربعض اوقات طلباءکے سامنے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہہ کر گستاخی کا مرتکب ہوتا۔ ایک روز اس نے ایک طالب علم سے بحث کرتے ہوئے شان رسالت میں گستاخی کی تو طلباءنے پر زور احتجاج کیا۔ اس کے خلاف 295c کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ طلباءکے ایک وفد نے دوسرے روز وائس پرنسپل سے ملاقات کرکے اس کو یونیورسٹی سے نکالنے کا مطالبہ کیا تو وی سی صاحب نے کہا‘ شریف قادیانی نے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شان میں گستاخی کی ہے۔ آپ کے باپ کو گالی نہیں دی تم لوگ شیطانوں والا کام کر رہے ہو‘ کیاتم نے ناموس رسالت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ قارئین ہزاروں میں سے یہ چند واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ قادیانیت کو اگر مزید کھل کھیلنے کا موقع مل جائے تو وہ اپنے آقا اسرائیل کی طرح اس ملک کو ریاست مرزائیل میں بدل دے۔ اور جس طرح سپین میں مسلمانوں کو تلوار کی نوک پر عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ‘ مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کرکے ان کا سپین کی زمین سے نام و نشان مٹایا گیا۔ یہ اس سے بڑھ کر ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں سے بہیمانہ سلوک کریں گے۔ اس ملک کے تعلیمی اداروں میں کئی ایسے استاد اور پرنسپل صاحبان رہے ہیں جن کے بارے میں ریٹائرمنٹ تک کسی کو علم نہ ہو سکاکہ وہ مسلمان ہیں یا قادیانی۔ یہ لوگ اندر ہی اندر اپنے مشن پر کام کرتے رہے۔ ایسے ہی لوگوں میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کا ایک پرنسپل ہے۔ اسی طرح دوسرے قادیانیوں کا تذکرہ صاف بتادیتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ موصوف کے مراسم کیوں تھے۔ قادیانی اپنے کارندوں کو محکمہ صحت و تعلیم میں گھسیٹرنے کے لئے خصوصی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بالخصوص اسلامیات اور اردو پڑھانے والے اساتذہ میں قادیانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پروفیسر غلام رسول قادیانی نے اپنی ساری مدت ملازمت میں مختلف کالجوں میں مسلمان طلباءکو قادیانی سٹائل میں اسلامیات پڑھائی۔ اس شخص نے اپنی قادیانیت اپنے قریب ترین ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھی۔ اس نے مذاہب عالم کے تقابلی مطالعہ پر متعدد کتب مولوی محمد علی لاہوری‘ عبدالحق ودیاتھی اور ریویو آف ریلیجیز کے مضامین لفظ بلفظ نقل کرکے لکھی ہیں جن میں قادیانیت جھلکتی ہی نہیں چھلکتی نظر آتی ہے۔ تنویر القرآن اور اس نوع کی دوسری کتب میں بھی وہ ملفوف انداز میںمسلمانوں کو گمراہ کر رہاہے۔ اسی طرح ضیاءاللہ قادیانی نے ایک کتاب ہمارا خالق ترتیب دی ہے۔ اس کتاب کو شیخ غلام علی اینڈ سنز نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن طبع ہوکر شائع ہوچکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب مرزا غلام احمد کی کتابوں کا چربہ ہے بلکہ کئی طویل پیرا گراف لفظ بلفظ مرزا کی عبارتوں پر مشتمل ہیں لیکن منافقت کی انتہا دیکھیں کہ مرزا کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ عبدالکریم نامی لیکچرر جو FC سمیت کئی کالجز میں اسلامیات پڑھاتا رہا اور بچھو کی فطرت کی طرح قادیانی ڈنگ مارتا رہا‘ اس نے ہمیشہ صبغة اللہ پر قادیانی رنگ چڑھا کر اپنے لیکچرزسے قادیانیت کا زہر مسلمان طلباءکے ذہن میں اتارنے کی ہر ممکن سعی کی۔ شومئی قسمت سے یہ شخص سیارہ ڈائجسٹ میں چلا گیا۔ یہاں اس نے قادیانیت کے زہر میں بجھے الفاظ کے تانے بانے سے ایک اداریہ لکھا جس پر نعیم صدیقی نے ترجمان القرآن میں یہ تاریخی جملہ لکھا کہ سیارہ ڈائجسٹ کے ماتھے پر لگنے والے دھبے کو دھویا تو جا سکتا ہے مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔ شہزاد احمد قادیانی نے انجمن ترقی ادب کے چیئر مین کی حیثیت سے کافی عرصہ کام کیا۔ اسی دوران اس نے مرزا قادیانی کی کتاب کا ترجمہ کیا۔ قادیانیوں نے بڑے بڑے دانشوروں اور اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز افراد کی تاریں اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے خوبصورت لڑکیوں کا سہارا لیا۔ احمد ندیم قاسمی جو اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے‘ ان کے ساتھ منصورہ احمد نامی لڑکی جو خود قادیانی اور محسن جعفر کی عزیزہ ہے‘ اپنے مذہب کی ترغیب کے لئے مستقل چمٹی رہی۔ قادیانیوں نے جہاں ملک کے اعلیٰ اداروں میں پاﺅں جما رکھے ہیں‘ وہیں انہوں نے بڑے بڑے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اپنا نیٹ ورک قائم کر رکھاہے اور طلباءکو مختلف بہانوں سے اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ لاہور کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھانے والے ایک استاد نے بتایاکہ ان کے سکول میں ایک قادیانی ٹیچر نے ڈاکٹر عبدالسلام سائنس کلب قائم کر رکھا ہے۔ اس کی آڑ میںوہ اپنی دعوتی سرگرمیاں سر انجام دیتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام جسے قادیانی ہونے کی وجہ سے اس کے آقاﺅں نے نوبل انعام سے نوازا‘ اس کی ملک دشمنی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بھٹو دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے سرگرمی سے کام شروع ہوا تو ایم ایم احمد اور اٹامک انرجی کمیشن کے اندر مختلف عہدوں پر براجمان جلی و خفی قادیانیو ں کے ذریعے ان لوگوں نے اس میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں اور پھر ڈاکٹر عبدالسلام نے انہیں اٹلی میں قائم کردہ اپنی ریسرچ لیبارٹری میں بڑی بڑی تنخواہوں پر ملازم رکھے اور ازاں بعد مغربی ممالک میں منتقل کرنے کا لائحہ عمل طے کیا۔ صدر ضیاءالحق کو اپنے دورہ امریکہ میںجب پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں کی ساری تفصیلات کا پرنٹ دکھایا گیا تو وہ ششدر رہ گئے اور پھر تحقیقات کے بعد انہیںیہ پتہ چلا کہ یہ سارا کام ڈاکٹر عبدالسلام نے دوسرے قادیانیوں سے مل کرکیا تھا تو وہ اس طبقے کی اس خوفناک قومی غداری پر دل تھام کر رہ گئے۔ ایک نومسلم سابق قادیانی نے بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق قادیانیوں نے اپنے اپنے خبث باطن کو ظاہر کئے بنا مسلمانوں کے روپ میں لاہور اور راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں پرائیویٹ سکول کھول رکھے ہیں۔ یہاں پڑھنے والوں کی 90% تعداد مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ قادیانی اقلیت ہونے کے باوجود خود کو کسی صورت اقلیت تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے امت مسلمہ کی پشت میں چھرا گھونپ رہے ہیں۔ Pmc میںجب قادیانی طلباءکی سرگرمیاں بے نقاب ہوئیں تو یہ انکشاف کسی بم بلاسٹ سے کم نہیں تھاکہ یہاں پڑھنے والے پندرہ قادیانیوں نے اپنے داخلہ فارم میں اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رکھا تھا۔ یہ واقعہ صرف ایک کالج کا ہے۔ ملک کے دیگر کالجز‘ پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں‘ یونیورسٹیوں میں نجانے کتنے بدبخت‘ کریہہ صورت اسلام کا ماسک پہنے اپنے مذموم عزائم میںمصروف ہوں گے۔ اسی طرح دفاع‘ سائنس و ٹیکنالوجی امور خارجہ‘ انتظامیہ ‘ بیوروکریسی سمیت تمام اداروں میں خود کو مسلمان ظاہرکرکے اس ملک کی جڑیں کاٹ کر یہاں قادیانی خلافت (جس کی بنیاد ربوہ میں رکھ کر ڈھانچہ تیار کیا گیاہے ) کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو تلاش کرکے ان کے جرم کی سزا دے تاکہ آئندہ کوئی قادیانی ایسی حرکت نہ کرے۔ پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے والے بل پر دستخط کرکے ایک تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔ آج پیپلز پارٹی یوسف ملتان کی قیادت میں اس ملک پر حکمران ہے۔ قادیانی ایک بار پھر جارحانہ انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اگر پھر تاریخ میں زندہ ہونا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ قادیانیوں کو لگام دے۔ انہیں مسلمان نہیں بلکہ ایک اقلیت کے طور پر اس ملک میں رہنے پر مجبور کرے۔ ملک میں جلد از جلد یہ قانون بنایا جائے کہ جس طرح شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ ضروری ہے اور اس میںیہ عبارت درج ہوتی ہے کہ میں ختم نبوت پر کامل ایمان رکھتاہوں‘ میرا مرزا کذاب اور کسی دوسرے گروہ سے کوئی تعلق نہیں ‘اسی طرح کی عبارت داخلہ فارم میں بھی لکھی جائے۔ تعلیمی اداروں اور دیگر سرکاری و نجی اداروں میںکام کرنے والے قادیانیوں کی پہچان کے لئے کوئی علامت وضع کی جائے تاکہ ہر مسلمان ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے بھیڑیئے سے محتاط رہے۔
 
Top