(قادیانیت کے مخالف ہماری آغوش میں)
مرزاناصر احمد: جی یہ یاد رکھو مضمون۔ ایک سوال تھا ’’الفضل‘‘ ۱۶؍جنوری ۱۹۵۲ء سے متعلق اور وہ مجبور ہوکر احمدیت کی آغوش میں آگرے اس میں سوال یہ تھا کہ دشمن اور آغوش ان کا کیا مطلب ہے؟ جو میں اس وقت Recollect (یاد) کرتا ہوں تو یہ زمانہ ہے۔ ۵۳۔۱۹۵۲ء کا اور اس کے مخاطب سارے مسلمان نہیں بلکہ وہ جو فساد کی خاطر نمایاں ہوکر سامنے آگئے تھے اور آغوش میں گر…
جناب یحییٰ بختیار: Anti- Ahmediyya Agitation (جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک) چل رہی تھی۔ میں نے وہ نوٹ کیا ہوا ہے۔
مرزاناصر احمد: جی، جی!
جناب یحییٰ بختیار: میں صرف آپ کو وہ…
809مرزاناصر احمد: تو صرف وہ مراد تھے اور آغوش میں آگرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاملہ سمجھ جائیں اور پھر دوست دوست بن جائیں اور یہ جماعت کی جو ایک بالکل بچوں کی، نوجوانوں کی ہے تنظیم یہ اس کا حوالہ ہے جماعت کا، اس جماعت کی طرف سے نہیں ہے۔ یہ جو اخبار میں شائع ہوا نوجوانوں کی تنظیم کی طرف سے تبلیغ کی طرف توجہ دلانے کے لئے ایک نوٹ ہے اور یہ اس تنظیم کی طرف سے بھی نہیں بلکہ اس تنظیم کے اس شعبے کی طرف سے ہے جس کا نام ہے مہتمم تبلیغ یعنی تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ جس تنظیم کا تعلق ہے نوجوانوں کی تنظیم کے اندر پھر چھوٹی تنظیم اس کا نام ہے۔ مہتمم تبلیغ اور مہتمم تبلیغ کی طرف سے یہ عبارت شائع ہوئی۔ الفضل میں اور ۱۹۵۲، ۱۹۵۳ء کے فسادات شروع ہوچکے تھے۔ دشمن سے مراد وہی نہیں جو باہر نکل رہے تھے۔ مکانوں کو آگ لگانے کے لئے اور قتل وغارت کرنے کے لئے اور اس کو یہ کہا ہے کہ ان کو اس طرح سمجھاؤ کہ پھر وہ سمجھ جائیں۔ یہ نہیں کہا کہ ان کا مقابلہ کرو اسی طرح۔