• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(قادیانیوں کی دروغ گوئی)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کی دروغ گوئی)

مولانا محمد ظفر احمد انصاری: چنانچہ انہوں نے کسی انجمن میں جو تعمیری کام کر رہی تھی یا انگریزوں کے خلاف لڑنے، یا جہاد، یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی مسائل سے متعلقہ ہیں، انہوں نے اس میں دلچسپی نہ لی۔
جس زمانے میں مسلمانوں پر مصیبتیں آئیں ان میں نمایاں مصیبتیں بیسیویں صدی کے شروع میں آئی تھیں۔ جنگ طرابلس شروع ہوئی۔ جنگ بلغان شروع ہوئی۔ اس کے بعد ترکوں کے خلاف انگریزوں نے جنگ شروع کی۔ اس عرصے میں مقامی مسجد کان پور میں ایک واقعہ ہوا جس سے پورے ہندوستان میں اشتعال پیدا ہوا اور بہت سے مسلمان اس میں شہید ہوئے۔ پھر خلافت کی جنگ شروع ہوئی۔ پھر جلیانوالہ باغ کا قصہ شروع ہوا۔ جس میں مسلمان اور ہندو سبھی شریک تھے۔ ترکوں کی سلطنت کو ختم کیاگیا۔ اس پر قادیان میں چراغاں ہوا اور یہ انتہائی جسارت کے ساتھ غلط بیانی کی گئی کہ سارے مسلمان چراغاں کر رہے تھے۔ ہم نے بھی چند دئیے 2893روشن کر دئیے۔ یہ ایک ایسی دروغ بیانی ہے میں اسے کیا کہوں۔ میں اس زمانے میں طالبعلم تھا۔ مگر یہ منظر پوری طرح یاد ہے۔ میں سکول میں پڑھتا تھا۔ یہ میں جانتا ہوں کہ پوری ہڑتال ہوئی۔ جگہ جگہ اتنی گرفتاریاں ہوئیں اس روز، صرف اس بات پر کہ چراغاں کرو، شیرینی تقسیم کرو۔ بہرحال شہر میں ایسے لوگ تھے جو خوشامدی تھے اور ان کی اغراض وابستہ تھیں۔ جگہ جگہ ایسا ہوا بھی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس روز ہڑتال ہی کی اور اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا۔
پھر ۱۹۲۲ء میں ترکوں کو، یونانیوں کے مقابلے میں سمرنہ میں فتح ہوئی تو مسلمانوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ کچھ لوگوں نے انہی کے مریدوں نے کہا کہ ہم بھی چراغاں کریں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس موقعہ پر چراغاں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے بعد دو چیزیں ایسی ہیں جن میں انہوں نے شرکت کی۔ ایک شدھی اور سنگھٹن تحریک جو کہ اس شخص نے شروع کی تھی جس نے آزادی کی جنگ میں بڑا نمایاں مقام حاصل کیا ہے اور مسلمان اس کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ بعد میں وہ جیل میں گیا اور جیل میں جانے کے بعد حکومت نے اس سے کچھ معاملہ طے کیا اور جیل سے نکلنے کے بعد اس نے شدھی کی تحریک (دیائند) شروع کی۔ اس میں یہ ضرور گئے۔ لیکن وہاں کیا تھا؟ وہ ایک بڑی اچھی شکارگاہ تھی جہاں پر یہ اپنی جماعت کے لئے آدمی لے سکتے تھے۔ اس میں یہ بے شک گئے۔
دوسرا بڑا کارنامہ جو وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی میں شرکت کی اور کشمیر کمیٹی میں ان کی شرکت کا جو حال ہے وہ یہ ہے۔ اس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے اور بھی بہت سے اکابرین تھے۔ اس کے بارے میں ’’مسئلہ کشمیر‘‘ مصنفہ ممتاز احمد کا ایک اقتباس آپ کی اجازت سے پیش کرتاہوں۔
’’۱۹۳۱ء میں جب ریاست میں تحریک حریت کا آغاز ہوا اور ریاستی مسلمانوں نے سیاسی آزادی کے حصول کے لئے جب باقاعدہ طور پر جدوجہد کا آغاز کیا تھا… یہ الفضل کا Quotation (اقتباس) 2894ہے تو حضرت امام جماعت احمدیہ (عربی) جو پہلے ہی مناسب موقعہ کی انتظار میں تھے، یکایک میدان عمل میں آگئے۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ ۲۵؍جولائی کو شملہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ علامہ اقبال بھی اس میں شامل تھے۔ لیکن صدارت مرزابشیرالدین محمود کے سپرد کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کشمیر کمیٹی کا منصوبہ بنانے والے بھی دراصل مرزا بشیر محمود صاحب ہی تھے اور جو افراد شملہ میں جمع ہوئے تھے ان میں اکثریت احمدیوں ہی کی تھی۔ کمیٹی کے پیش نظر جسے ابتداء میں بیان کر دیا گیا ہے۔ ریاستی مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دلانا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے والے مسلمانوں کو قانونی امداد مہیا کرنا تھا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے تمام کشمیری لیڈروں سے براہ راست روابط قائم کئے گئے۔ قادیانی زعماء کو بڑی تعداد میں ریاست میں بھیجا گیا۔ جہاں انہوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور مسلمانوں کی مالی امداد کر کے اپنا ممنون احسان بنانے کی کوشش کی گئی اور اس دوران سینکڑوں کی تعداد میں مبلغین بھی بھیجے گئے جو ریاست کے چپے چپے کا دورہ کر کے قادیانی عقائد کی تبلیغ کرنے لگے۔ اس ریاست میں تحریک آزادی کے مظلومین کی امداد کے لئے اکثر رقوم شیخ محمد عبداﷲ کی معرفت دی گئیں۔ چوہدری عباس کے مقابلے میں قادیانیوں کی تمام ہمدردیاں شیخ عبداﷲ کے ساتھ تھیں اور شیخ صاحب کے جماعت سے تعلقات انتہائی قریب ہورہے تھے اور لاہور میں اس افسوس ناک افواہ نے کافی تقویت پکڑ لی کہ شیر کشمیر شیخ عبداﷲ مرزائی ہیں۔ پھر شیخ صاحب نے خود لاہور آکر ایک جلسہ میں اس کی تردید کی، کشمیر کمیٹی اسی طرح کام کرتی رہی۔ لیکن ابھی اس کا دستور نہیں بنا تھا اور اس کے سیاسی مقاصد لوگوں کے سامنے واضح ہونے لگے تو انہوں نے یہ کوشش کی کہ اس کا دستور بن جائے۔ لیکن یہ بات مرزابشیرالدین کو ناگوار تھی۔ کیونکہ وہ اس میں ڈکٹیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور جب دستور بنانے کے لئے اصرار کیاگیا تو مرزابشیرالدین محمود نے بطور احتجاج کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور پھر علامہ اقبال کمیٹی کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔ 2895لیکن ان کا (مرزابشیرالدین) کا استعفیٰ دینا تھا کہ تمام قادیانی حضرات نے کمیٹی کے کاموں میں دلچسپی لینا بند کر دی اور عملاً کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا۔ حتیٰ کہ قادیانی وکلاء جو ریاست میں مسلمانوں کے مقدمات لڑ رہے تھے وہ مقدمات ادھورے چھوڑ کر واپس آگئے اور جب کمیٹی کے کاموں میں تعطل پیدا ہوا تو علامہ اقبال بھی قادیانیوں کے رویہ سے بددل ہوکر صدارت سے مستعفی ہو گئے اور خود اس پر علامہ اقبال کے جو ریمارکس ہیں وہ چند جملے بیان کر دیتا ہوں:
"Unfortunately there are members in the Committee who recognise no loyalty except to the head of their particular religious sect. This was made clear by a public statement recently made by one of the Ahmadi pleaders who had beeen conducting the Mirpur cases. He plainly admitted that he recognises on Kashmir Committee, and admits that whatever he and his colleagues did was done in obedience to the commands of their religious leader. I confess that I interpreted this statement as a general indication of the Ahmadi's attitude of mind of felt doubts about the Kashmir Committee. I do not mean to stigmatise anybody. A man is free to develop any attitude intellectually and spiritually to suit his mind best. Indeed I have every sympathy for a man who needs a spiritual probe and finds one in the shrine of by- gone saint or any living priest. As far as I am aware, there are no differences of opinion among members of the Kashmir Committee regarding the General Committee's policy to the formation of a party on the ground of differneces in policy. Nobody can object, but according to my view of the situation the differences in the Kashmir Committee are based on considerations which I believe are utterly irrelevant. I do not believe that a smooth working is possible and feel that in the best interests of all concerned the present Kashmir Committee should cease to exist."
(بدقسمتی سے اس کمیٹی میں ایسے ارکان بھی ہیں جو اپنے مخصوص مذہبی فرقے کے قائد سے وفاداری کے سوا کسی اور وفاداری کو نہیں جانتے۔ اس بات کا واضح اعلان ان احمدی وکلاء میں سے ایک وکیل نے حال ہی میں کیا ہے جو میرپور مقدمات کی پیروی کر رہے تھے۔ اس نے صاف صاف اعتراض کیا کہ وہ کسی کشمیر کمیٹی کو نہیں جانتا اور اس نے اور اس کے رفقاء نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنے مذہبی امام کے احکامات کی اطاعت میں کیا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اس بیان سے احمدیوں کے کشمیر کمیٹی سے متعلق شکوک وشبہات اور ان کے ذہنی رویے کے ایک عمومی مفہوم کو اخذ کیا ہے۔ میں کسی شخص کو بدنام نہیں کرنا چاہتا۔ ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی طبع کے مطابق کوئی بھی ذہنی اور روحانی رویہ اپنائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے ایسے شخص سے بھرپور ہمدردی ہے جسے روحانی علاج کی ضرورت ہے اور وہ اسے کسی گذشتہ بزرگ کے مزار یا کسی زندہ مذہبی پیشوا سے حاصل کر لیتا ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں کشمیر کمیٹی کے ارکان میں پالیسی میں اختلافات کی بنیاد پر ایک پارٹی کی تشکیل میں عمومی کمیٹی کی پالیسی کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا۔ لیکن موجودہ صورتحال سے متعلق میرا تجزیہ ہے کہ کشمیر کمیٹی میںاختلافات کا تعلق ایسے عوامل سے ہے جو میرے خیال میں بالکل غیرمتعلق ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہموار طریقے سے کام کرنا ممکن ہے اور تمام متعلقہ لوگوں کے بہترین مفادات میں محسوس کرتا ہوں کہ موجودہ کشمیر کمیٹی کو کالعدم ہوجانا چاہئے)
بہرحال انہوں نے یہ حالت پیدا کر دی کہ اگر کشمیر کمیٹی کو قادیانیت کی تبلیغ کے لئے استعمال نہیں کرنے دیا جاتا تو پھر اس سے علیحدہ ہو جاؤ۔ یہ کشمیر کمیٹی کا حال تھا۔ 2896قیام پاکستان کے سلسلے میں انہوں نے جس احسان کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں یہ صورت ہے کہ علامہ اقبال کے اس مضمون کے بعد جب ان کا بھید لوگوں پر کھلنے لگا اور پنجاب میں کیونکہ یہ زیادہ تھے اس لئے پنجاب مسلم لیگ نے یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ کوئی قادیانی مسلم لیگ کا ممبر نہیں ہوسکتا اور یہ ریزولیوشن ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی بار پیش ہوا۔ میں ان کی اس وقت کی ذہنیت کے سلسلے میں چند جملے آپ کو سناتا ہوں۔ یہ ۱۹۱۶ء کا اخبار ’’الفضل‘‘ ہے: ’’ہمیں یاد رہے کہ مسلمانوں کے مصلح دنیا کے ہادی، حضرت مسیح موعود، مہدی آخر الزمان علیہ السلام (یعنی مرزاغلام احمد قادیانی صاحب) کے حضور جب مسلم لیگ کا ذکر آیا تو حضور مرزا نے اس کے متعلق ناپسندیدگی ظاہر فرمائی تھی۔ تو کیا ایسا کام جسے خدا کا برگزیدہ مامور ناپسند فرمائے وہ مسلمانوں کے حق میں سازگار بابرکت ہوسکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ آپ لوگوں کو روکتے رہیں کہ سیاست میں کسی طرح شریک نہ ہوں اور جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے۔‘‘
یہ پیغام صلح۱۹۸۰ء کا Quotation (اقتباس) ہے: ’’اب تو مسلم لیگ نے بھی جس کے ممبر آزاد خیال اور روادار سمجھے جاتے ہیں اور ہندوستان کی ذہنی روح تصور کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک حلف نامہ تیار کیا ہے کہ ان کی طرف سے اسمبلی کے لئے جو امیدوار کھڑا ہو گا وہ یہ حلف اٹھائے گا کہ اسمبلی میں جاکر احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ اقلیت منظور کرانے کی کوشش کرے گا۔‘‘
یہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۶ء کا الفضل ہے۔ اب یہ ۱۹۳۷ء کا ہے: ’’اس کے بعد حضور میاں محمود احمد خلیفہ قادیان ملکی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور اس سوال پر روشنی ڈالی ہے کہ جماعت احمدیہ کوکانگریس میں شرکت کرنی چاہئے یا مسلم لیگ میں۔‘‘
یہ ۱۹۳۷ء کی بات ہے: ’’حضور نے فرمایا کہ ابھی تک اس بارے میں ہم نے کوئی رائے قائم نہیں کی اور نہ ابھی کوئی دوست رائے قائم کرے۔ بلکہ کانگریس جب علی الاعلان بغیر کسی پیچ کے اور بغیر کسی شک وشبہ کے یہ اعلان نہیں کرتی کہ تبلیغ مذہب اور تبدیلی مذہب پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں 2897ہوگی۔ اس وقت تک ہم کانگریس میں نہیں مل سکتے اور اس طرح مسلم لیگ یہ کہہ چکی ہے کہ کوئی احمدی اس کا ممبر نہیں ہوسکتا۔ پھر کون بے غیرت احمدی ہے جو اس میں شامل ہو، جب تک کہ لیگ صاف طور پر یہ اعلان نہ کر دے کہ احمدی مسلم لیگ کے ممبر ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے حلقوں سے امیدوار کھڑے کر سکتے ہیں۔‘‘
اسی طرح بہت سی Quotations ہیں۔ لیکن میں اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ البتہ اس روز انہوں نے ایک فوٹوسٹیٹ کاپی ۱۹۴۴ء کے ریزولیوشن کی پیش کی ہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت مولانا عبدالحامد بدیوانی مرحوم مغفور نے ایک قرارداد پیش کی تھی کہ احمدیوں کو، مرزائیوں کو، جنہیں تمام امت نے متفقہ طور پر کافر قرار دیا ہے۔ ان کو مسلم لیگ کا ممبر نہیں بننا چاہئے اور انہیں مسلم لیگ میں داخل نہ ہونے دیا جائے اور قائداعظم نے ان سے کہہ کر واپس کروادی۔ یہ کونسل کا وہ اجلاس ہے جس میں شریک ہونے والے بہت سے لوگ ابھی ہوں گے اور میں اس وقت اس کا اسٹیٹ سیکرٹری تھا۔ محمد علی برکت علی ہال میں جو جلسہ ہوا تھا وہ ریزولیوشن مولانا صاحب میرے پاس لائے تھے اور مجھ سے مشورہ کیا۔ میں نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ریزولیوشن ایجنڈا میں شامل ہوا۔ جب اس کا وقت آیا تو قائداعظم نے یہ کہا کہ کون احمدی ہے۔ پنجاب میں کچھ لوگ ہوں گے وہ تو پہلے ہی پاس کر چکے ہیں تو غیرمتعلق مسئلہ آپ کیوں لاتے ہیں۔ صرف اتنی بات تھی اور یہ ان کا مزاج تھا کہ وہ جدوجہد کے دوران چاہتے تھے کہ کوئی Irrelevant (غیرمتعلق) چیز سامنے نہ آئے۔ صرف اتنی بات انہوں نے کہی اور مولانا نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ یہ فیصلہ تو پہلے ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ میں بھی یہ فیصلہ موجود ہے اور کون احمدی ہے جو آتا ہے۔ لہٰذا وہ ریزولیوشن اس طرح ڈراپ ہوا ہے جس کو کہا جاتا ہے کہ قائداعظم نے ریزولیوشن کو مسترد کر دیا۔ یہ گویا دروغ گوئی کی انتہاء ہے۔ مسلم لیگ نے اور پوری ملت اسلامیہ نے اسے جسم ملت کے لئے ایک ناسور سمجھا۔ ایک بدگوش سمجھا، سیاسی اور شرعی دونوں حیثیتوں سے، مسلمان ان لوگوں میں سکون محسوس نہیں کرتے تھے۔ البتہ ۱۹۳۶ء میں یہ ہوا کہ جواہر لال نہرو لاہور تشریف 2898لائے۔ ۲۹؍مئی کو تو جیسے ظلی حج ہوتا ہے، ظلی نبی ہوتا ہے اور ظلی قرآن ہے، تو وہاں ایک جیسے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو وہاں ایک انڈین نیشنل لیگ بنائی گئی قادیان میں، اور جب جواہر لال نہرو تشریف لائے تو قادیان میں ۵۰۰والنٹیئر آئے اوران کے بڑے مانے ہوئے وکیل چوہدری نصراﷲ صاحب کو قائداعظم کا خطاب دیاگیا تو ایک ظلی قائداعظم بھی بن گیا اور انہوں نے سلامی لی۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے بڑے بڑے بینرزلگے۔ پلے کارڈس لگے۔ اس کے بعد لوگوں نے اعتراض کیا وہ جواب پھر میں وقت کی تنگی کی وجہ سے اس اقتباس کو چھوڑتا ہوں۔ مرزابشیرمحمود کا بیان ہے کہ لوگوں کو کیوں اعتراض ہے۔ جواہرلال نہرو نے علامہ اقبال کی مخالفت میں میری حمایت کی تھی۔ جو علامہ اقبال کی قرارداد تھی کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دو تو انہوں نے ہماری حمایت کی وہ آئے ہیں تو ایک سیاسی انجمن کی طرف سے ان کا استقبال کیاگیا۔ ان کا خیرمقدم کیاگیا۔ ان کو سپاسنامہ پیش کیا گیا۔ تو اس میں حمایت کی کیا بات ہے۔ اب وہاں سیاسی انجمن بھی بنائی گئی۔ وہ تو یہ مختصراً مسلمانوں کے کاموں میں شرکت کا حال ہے اور ۵؍اپریل کو یعنی جب پاکستان بننے کا زمانہ قریب آنے لگا، ان کے تعلقات دونوں طرف تھے۔ یہ کوشش کر رہے تھے کہ ۱۹۴۶ء میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے لئے پنڈت جواہر لال نہرو نے چوہدری ظفر اﷲ صاحب کا نام Recommend (تجویز) کیا جو ان کی کتاب تحدیث نعمت میں موجود ہے اور یہ ۱۹۴۶ء کا وہ زمانہ تھا جب کانگریس اور مسلم لیگ یا ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان Feelings بہت شدت پر تھیں۔ اس وقت ان کے یہ تعلقات تھے کہ پورے ہندوستان میں جتنے بڑے وکیل تھے وہاں سے جواہر لال نہرو نے ان کے نام Recommend (تجویز) کئے۔ اس وقت یہ کامیاب نہ ہوئے۔
وہاں الیکشن میں یہ الگ بات ہے کہ ۱۵؍اپریل ۱۹۴۷ء کو انہوں نے بیان دیا جو یہاں فائل بھی ہوچکا ہے کہ ہم بہرحال اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں اور ہماری کوششوں اور خواہشوں کے علی الرغم اگر پاکستان بن گیا تو پھر ہماری کوشش یہ جاری رہے گی کہ کسی نہ کسی طرح اکھنڈ 2899بھارت بن جائے۔ یہ بہت مشہور ان کا وہ ہے اور اس کا وہ اقتباس بلکہ فوٹوسٹیٹ یہاں داخل کیا جاچکا ہے۔ ۵؍اپریل کو یہ بات انہوں نے کہی اور ۱۲؍اپریل کو ایک سوال کے جواب میں یہ فرمایا۔ سوال کسی نامہ نگار کا تھا کہ کیا پاکستان عملاً ممکن ہے؟ یہ سوال جواب (ریویو آف ریلیجنز ج۱۸ نمبر۲) میں شائع ہوا۔
سوال تھا کہ کیا پاکستان عملاً ممکن ہے؟
جواب: سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان ممکن ہے۔ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ملک کے حصے بخرے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج دنیا کی کامیابی کا راز اتحاد میں مضمر ہے۔ دوسرے ذرائع مواصلات بھی ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں ضرورتاً ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر ہونا چاہئے اور اتحاد کی کوشش کرنی چاہئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس موقع پر ہندوستان دو علیحدہ علیحدہ حصوں میں بٹ جائے اور ہندوستان کی بڑی قومیں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔ یہ ۱۲؍اپریل کا تھا۔ پھر اسی طرح ۱۳؍جون کا اسی مضمون کا ایک بیان ہے۔ پھر ۱۷؍جون کا ہے۔ اس کے بعد ۱۸؍اگست ۱۹۴۷ء کا ایک بیان ہے۔ یعنی پاکستان بننے کے بعد اور ایک ۲۸؍دسمبر کا ہے تو تقسیم کے موقع پر امام جماعت احمدیہ کو یہ الہام ہوا کہ (عربی)…
’’یعنی تم جہاں کہیں ہو گے اﷲ تمہیں ایک جگہ اکٹھا کر دے گا۔اس الہام میں تبشیر کا پہلو بھی ہے اور انداز کا بھی توقع تو پہلے ایک رنگ میں ہوچکی ہے۔ یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئی ہیں اور کچھ ہندوستان کی طرف۔ ممکن ہے کہ اﷲتعالیٰ ان کو اکٹھا کرنے کی کوئی صورت پیدا کر دے۔‘‘ یہ اکٹھا ہونا دونوں کا، یہ بہرحال مسلسل چل رہا ہے۔ ۱۳؍دسمبر کے ’’حالات کی وجہ سے لوگ گھبرا کر قادیان کی خرید کردہ زمینوں کو ضائع شدہ خیال کرنے لگے ہیں اور اپنی ادا کردہ قیمت کو امانت قرار دے کر اس کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے نوٹس میں بتایا تھا کہ ایسا مطالبہ نہ صرف کاروباری اصول کے مطابق غلط اور ناجائز ہے۔ بلکہ دینی لحاظ سے بھی 2900ایمانی کمزوری کی علامت ہے۔ کیونکہ دراصل اس مطالبے میں یہ شبہ مخفی ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک قادیان کی (واپسی) مشکوک ہے۔ حالانکہ یہ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہمیں قادیان انشاء اﷲ! ضرور واپس ملے گا وغیرہ، وغیرہ۔‘‘ اب یہ کیسے ملے گا؟ اس کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو ہم قادیان فتح کر لیں یا خدانخواستہ وہ اکھنڈ بھارت کا ان کا جو منصوبہ ہے وہ مکمل ہو جائے۔ تو قادیان کو فتح کرنے کا جہاںتک سوال ہے پاکستان کی حکومت نے ہی اس کا فیصلہ کرنا ہے اور آج ۲۷سال میں پاکستان حکومت کی طرف سے ہمیشہ یہ اعلان ہوتا رہا ہے کہ ہمیں کسی دوسرے ملک کی سرحدات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم کسی کے خلاف جارحیت نہیں کریں گے۔ یہ کس نسخے سے اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیاکوئی ایسا چکر دے کر کہ پاکستان اور ہندوستان کی لڑائی کراکر اس کی صورت پیدا کرنا چاہتے ہیں یا بہرحال کیا ہے، میں نہیں جانتا۔
اب اس کے بعد ۲۸؍دسمبر کی بات ہے۔ ’’مومن وہ ہے جو محض سن کر خدا پر ایمان نہیں لاتا۔ بلکہ جس کا ایمان پورے یقین اور وثوق پر مبنی ہے وہ جانتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ تقسیم ایک عارضی تقسیم ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ قادیان ہماری چیز ہے۔ وہ ہمارا ہی ہے کیونکہ خدا نے وہ مجھے دی ہے۔ گو آج ہم قادیان نہیں جاسکتے۔ مگر آج ہم محروم کر دئیے گئے ہیں۔ لیکن ہمارا ایمان اور یقین ہمیں باربار کہتا ہے کہ قادیان ہمارا ہے۔ وہ احمدیت کا مرکز ہے۔ ہمیشہ احمدیت کا مرکز رہے گا۔ وہ انشا اﷲ! حکومت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، بلکہ حکومتوں کا کوئی مجموعہ بھی ہمیں مستقل طور پر قادیان سے محروم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ زمین ہمیں قادیان لے کر نہیں دے گی تو ہمارے خدا کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور ہمیں قادیان لے کر دیں گے۔ اس راہ میں جو بھی طاقت حائل ہوگی وہ پارہ پارہ کر دی جائے گی۔ وہ نیست ونابود کر دی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔‘‘ یہ گویا ان کے عزائم ہیں۔
2901اس کے ساتھ ان کے ہاں جانبازوں کا نظام ہے جن سے یہ عہد نامہ لیا جاتا ہے کہ ’’ہم خداتعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے قادیان کو احمدیہ جماعت کا مرکز فرمایا ہے۔ میں اس حکم کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش اور جدوجہد کرتا رہوں گا اور اس مقصد کو کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دوں گا اور اپنے نفس کو، اپنے بیوی بچوں کو اور اگر خدا کی مشیّت یہی ہو تو اولاد کی اولاد کو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار کرتا رہوں گا کہ وہ قادیان کے حصول پر ہر چھوٹی اور بڑی قربانی کے لئے تیار رہے۔ اے خدا مجھے اس عہد پر قائم رہنے اور اس کو پورا کرنے کی توفیق عطاء فرما۔‘‘
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ قادیان کا قصہ جو کچھ ہوگا تو جیسا پہلے میں نے عرض کیا اس کا فیصلہ قادیان ہو یا اور ہو، بہرحال ہمارے بس میں ہو تو ہم چاہیں گے کہ سارا پاکستان ہی بن جائے۔ لیکن یہ کہ یہ فیصلہ مرزائیوں کو کرنا ہے یا پاکستان گورنمنٹ کو کرنا ہے۔ پاکستان کی گورنمنٹ کو کرنا ہے۔ اس کا کھلا ہوا اعلان ہے کہ ہمیں کسی کے علاقے میں جارحیت نہیں کرنی ہے۔ اب پاکستان بن جانے کے بعد ان کے جو عزائم ہیں وہ باربار ان تحریروں میں آئے ہیں کہ ہمیں اسے اکھنڈ بھارت بنانا ہے، اکٹھا کرنا ہے۔
اس کے بعد ایک دیرینہ ان کی حسرت یہ رہی کہ افسوس ہمارے پاس کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں سوائے احمدیوں کے کوئی نہ ہو۔ اب اس کی کوئی ضرورت تھی کہ وہاں احمدی کے علاوہ کوئی نہیں رہے۔ بہرحال وہ حسرت انہوں نے یہاں پوری کر لی۔ پہلے قادیان کو تقریباً ایسے ہی بنایا تھا۔ وہاں تو جو مسلمان رہتے تھے ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی انہوں نے، یہاں تک کہ ان دکانداروں سے ایک طرح کا ٹیکس لیا جاتا تھا۔ جیسے یہ جماعتوں میں غیرمسلموں سے جزیہ کے عنوان سے کہتے تھے۔ ان غریب دکانداروں سے ٹیکس لیا جاتا تھا اور ان سے معاہدہ ہوتا تھا کہ جو 2902ہمارے مخالف ہیں ان سے کسی طرح کا تعلق نہیں رکھیں گے اور کسی کو پایا گیا تو اسے ایسی سزادی جاتی کہ پھر وہ ربوہ نہیں جاسکتا تھا۔ قتل وغارت بھی ہوتی تھی، مکانات بھی جلائے جاتے تھے۔ سبھی کچھ ہوتا تھا۔
اب اس کے بعد یہ منصوبہ بنا کہ پہلے بلوچستان پر قبضہ ہونا چاہئے اور وہ اقتباس، چونکہ میرے خیال میں پہلے موجود ہے، دس لاکھ ، بارہ لاکھ کی آبادی ہے۔ اگر ہم پوری کوشش کریں، پورا پاکستان نہ سہی ایک صوبہ تو ہمارا اپنا ہوسکتا ہے۔ وہ آرزو پوری نہیں ہوتی اور مرزاصاحب کے آخری الہاموں میں ایک الہام یہ بھی تھا۔ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ پوری نہیں ہوئی۔ لیکن ان کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔ پاکستان میں حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے ان کا وہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ ہمارے ملک میں پہلی بار فوجی انقلاب کے ذریعے حکومت کو بدلنے کی کوشش ہوئی۔ اس میں جو لوگ شامل تھے وہ نام کوئی چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ اس کے بعد سے مسلسل یہ کوشش ہوتی رہی، یہاں تک کہ ایک آخری دور میں… یہ بیچ کی چیزیں میں نظرانداز کرتے ہوئے آتا ہوں۔ مشرقی پاکستان کا حصہ گیا۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس کی کوشش کرنے لگیں۔ کسی نے کہا کہ مجیب الرحمن سے کوئی سیاسی مفاہمت ہو جائے تاکہ پاکستان دو ٹکڑوں میں نہ بٹے۔ یہ حالات جب بہت بگڑ گئے پھر بھی یہ کوشش ہوتی رہی۔ یہاں سے مختلف پارٹیوں کے لوگ وہاں گئے، مذاکرات کئے، ظفر اﷲ خان قادیانی کا خط عین اس زمانے میں سرظفر اﷲ نے آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں اپنے کسی دوست (ایم۔ایم احمد) کو خط لکھا۔ اس دوست کا نام ظاہر نہیں کیا۔ لیکن یہ کہا کہ وہ ایسے دوست ہیں کہ وہ مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈروں سے بہت قریب ہیں اور گویا بہت بااثر ہیں۔ یہ خط انہوں نے اردو میں بھیجا۔ By Process of elimination آدمی اندازہ کر سکتا ہے کہ جو لوگ اس وقت Count کرتے تھے۔ ان میں یہ خط کس کے نام ہوگا۔ زبان بھی اس کی 2903بڑی مذہبی ہے جو ایک خاص طبقے کے اندر زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ اس میں لکھتے ہیں، میں وہ خط سنا دیتا ہوں۔ ماحصل اس کا یہ ہے اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ ’’مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے ایک رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ بات دل سے بھلادو۔ اب یہ ہے کہ فوج کشی نہ کرو اور صلح صفائی کے ساتھ الگ کر دو۔‘‘
یہ گویا لوگوں کے ذہن پر اپنے سارے عمر بھر کے بین الاقوامی تجربے اور اس کا زور ڈال کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کسی بہت بااثر دوست کو لکھا ہے اور لوگ اپنی جگہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس زمانے میں یحییٰ صاحب کے قریب ان کے بااثر دوستوں میں کون ہوگا۔ خط یہ ہے کہ: ’’ان آثار وقرائن کی بناء پر جن کا ذکر جرائد میں آتا ہے۔ ’’واﷲ اعلم بالصواب‘‘ خاکسار کے ذہن میں جو افکار چکر لگاتے ہیں وہ گزارش خدمت ہیں۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو باہم جکڑنے والی زنجیر ’’مخلصین لہ الدین‘‘ ہی ہوسکتی تھی۔ ورنہ آب وہوا، زبان، خوراک، رنگ روپ، خدوخال، لباس، حتیٰ کہ عبادت کو چھوڑ کر معاشرے کا خاکہ اور ذہنی افکار سب مختلف ہیں۔ اب اعتماد مفقود اور دین کی نسبت جذبات پر قومیت کا غلبہ ہے۔ ادھر سارے عالم میں حق خود ارادیت کی پرستش۔ مشرق ومغرب میں آبادی کی نسبت سات اور چھ اور رقبے کی نسبت نو اور اکیاون ہے۔ مشرق عملاً علیحدگی پر مصر ہے۔ مغرب کے پاس کوئی قاطع برہان اس کے خلاف نہیں۔ ہو بھی تو مشرق سننے اور غور کرنے پر آمادہ نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جبر نہ ہی حرف لاحاصل ہے۔ بلکہ خود کشی کے مترادف ہے۔ اگر خون کی خلیج خدانخواستہ حائل ہوگئی تو پاٹی نہ جاسکے گی اور نقصان مایہ کی تلافی کی صورت ہوسکتی ہے۔ نقصان جان تلافی نہیں ہوسکتی اور شماتت ہمسایہ کی تلخی تو بہرصورت لازم ہے۔ پھر جبر سے اگر کچھ دن برا بھلا گزارہ ہو بھی تو باہمی ربط بڑھنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس لئے خواستہ یا نخواستہ صراحاً جمیلہ ہی کا طریقہ کام آسکتا ہے۔ اس کے رستے میں بہت سی مشکلات ہیں۔ آج تو شاید 2904باہمی مفاہمت سے نپٹ سکیں۔ چند دن بعد شاید یہ امکان بھی جاتا رہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ صورت میں امساک بالمعروف ممکن نہیں اور تصریح بالاحسان کا ہی رستہ کھلا ہے۔ (یہ گویا میاں بیوی میں اگر کوئی نزاع ہو جائے تو قرآن کریم کی رو سے دو راستے ہیں یا تو خوش دلی سے اس نزاع کو ختم کر کے اچھے طریقے پر رہو۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر خوش دلی کے ساتھ اچھے انداز میں قطع تعلق کر لو۔ تو یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ قطع تعلق کرو) دونوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ لیکن اﷲتعالیٰ کی طرف رجوع کریں تو ’’یغنی ہما بفضلہ‘‘ پر قادر ہے۔ اگر اس وقت کدورت نہ بڑھائی جائے تو شاید کل کو اپنے اپنے گھر کا جائزہ لینے کے بعد کوئی طریق سے دوستانہ تعاون برادرانہ امداد پیدا ہوتی ہے۔ موجودہ صورت بہت سے خطرات کا موجب ہے اور جگ ہنسائی اور شماتت کا سامنا ہے۔‘‘
یہ ہے خط جس میں اپنے بااثر دوست کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ احسان بالمعروف یعنی دونوں بازؤں کا ایک جگہ ایک ملک کی صورت میں رہنا یہ ناممکن ہے اور اس کے لئے کوئی کوشش اب نہیں کرنی چاہئے۔ ایک راستہ گویا علیحدگی کا صراحاً جمیلہ کا دیکھنا چاہئے۔ یہ ہے پاکستان کی وحدت وسالمیت کے تحفظ کے سلسلے میں اس جماعت کا Contribution (کردار) اب اس کے علاوہ جو آگے عزائم اور تیاریاں ہیں میں ان کی بعض ہلکی سی جھلک اقتباسات کے ذریعے آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تو آج جس کام کے لئے مصروف ہیں اس کے متعلق کشمیر کمیٹی کا ایک فیصلہ پچھلے سال ہوا تھا۔ اس پر تبصرہ ہوا، وہ بہت معنی خیز ہے۔ ایک جملہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ ’’ہاں! اس سے پہلے ۲۶تا۲۸ کے سالانہ جلسہ ۱۹۴۷ء کا اس میں خطبہ جمعہ میں مرزابشیرالدین صاحب کا اعلان یہ ہیں۔ حضورایدہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا اصل جلسہ تو وہی سمجھا جائے گا جو قادیان میں مقیم احمدی وہاں منعقد کرتے ہیں۔ لاہور کا جلسہ اس کا ظل ہے۔ یعنی یہ ظلی جلسہ ہے اور اس کی تائید میں سمجھا جائے گا اور اس امر کے 2905خلاف بطور احتجاج منعقد کیا جائے گا کہ اس جماعت کو اس کے مقدس مذہبی مرکز سے محروم کر دیا گیا جو ہمیشہ حکومت وقت کی وفادار اور پرامن رہی ہے۔‘‘ پہلے کشمیر میں اس طرح کا ریزولیوشن پاس ہوا تھا۔ اس پر ان کے موجودہ خلیفہ کا تبصرہ ہوا ہے: ’’پس نو یا بارہ آدمیوں نے اس قسم کی قرارداد پاس کر دی تو خداکی قائم کردہ جماعت پر اس کا کیا اثر ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتیں ہیں وہ یہ نہیں کہ جماعت احمدیہ غیرمسلم بن جائے گی۔ جس جماعت کو اﷲتعالیٰ مسلمان کہے اس کو کوئی ناسمجھ انسان غیرمسلم قرار دے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیں اس کی فکر نہیں۔ ہمیں فکر ہے تو اس بات کی کہ اگر یہ خرابی خدانخواستہ انتہاء تک پہنچ گی تو اس قسم کے فتنہ فساد کے نتیجہ میں پاکستان قائم نہیں رہے گا۔‘‘ گویا یہ وارننگ ہے جو انہوں نے اس وقت دی تھی۔ پاکستان قائم نہ رہنے کے لئے کیا انتظامات ہیں وہ تو زیادہ تفصیل سے میں اس وقت نہیں بتا سکتا۔
’’لیکن یہ خدام الاحمدیہ بڑی ذمہ داریوں کا حامل ہے۔ ہماری ایک مجلس ہے، ہماری نوجوان نسل جس نے اس رنگ میں تربیت حاصل کر لی ہے جو بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں اور بڑھتے ہوئے بوجھ کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔ انسانی جسم پر بنیادی طور پر دو قسم کے بوجھ پڑتے ہیں۔ ایک وہ بوجھ جو براہ راست اس کے جسمانی اور ذہنی قواء پر پڑتا ہے۔ ایک وہ بوجھ ہے جو بالواستہ اس کے جسمانی اور ذہنی قواء پر پڑتا ہے۔ اس کے لئے جو تربیت یہ جماعت اپنے پیارے بچوں کو دینا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی جسمانی قوتوں کو نشوونما اس رنگ میں پہنچائیں کہ دوہری ذمہ داریاں نبھانے کے بوجھ کو برداشت کر سکیں۔ ان میں سے ایک طریق جو ماضی قریب میں جاری کیاگیا وہ سائیکل کا استعمال ہے۔ جب اخبار میں یہ تحریک کی تو مختصراً اشارہ کیا تھا کہ اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے سائیکل کی طرف متوجہ ہوں۔ اس وقت جو تعداد میرے علم میں آئی ہے وہ ۶۶۲ ہے۔ لیکن اس میں جنہوں نے نام ابھی تک رجسٹر نہیں کرائے توقع ہے کہ کچھ آج 2906پہنچ جائیں گے۔ ان میں سے وہ ہیں جو کراچی سے سائیکل پر تقریباً نوے اور سومیل روزانہ طے کر کے تھرپارکر سندھ وغیرہ سے آسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے۔ میں نے بتایا تھا آج دہراتا ہوں۔ مجھے بڑی جلدی ایک لاکھ احمدی سائیکل چاہیں، احمدی سائیکل وہ ہیں جو احمدی چلاتے ہیں اور ایک لاکھ ایسے احمدی چاہتے ہیں جنہیں روزانہ سومیل چلنے کی عادت ہو۔ سو میل روزانہ چلنے ایک دن میں ہمارا احمدی ایک کروڑ میل کا سفر کر رہا ہوگا۔ یہ بڑی حرکت ہے اور حرکت میں برکت ہے۔ ہم نے تجربہ کیا تو ہر شخص نے الاماشاء اﷲ اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ ایک لاکھ سائیکل سوار چاہیں کیوں۔ میں آپ لوگوں کے سامنے ایک بڑا منصوبہ پیش کرنے والا ہوں۔ اس کے لئے بھی تیاری کر رہا ہوں۔ آپ کے ذہنوں کو بھی اس کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ پس یہ جسمانی قوت کو مضبوط کرنے کے لئے ایک پروگرام ہے۔ ہلاکو خان، جنگیز خان جو دنیا فتح کرنے کے لئے اپنے ملک سے نکلے تھے اور دنیا کو فتح کیا تھا ان کے پاس ایسے گھوڑے تھے جن کو سات آٹھ سو میل تک گھوڑے سے اترنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘ ہلاکو خان، چنگیز خان موٹی سرخیوں سے لکھا ہوا ہے۔ ذہن ادھر مائل کیا جارہا ہے۔ اب وہ اس کے ساتھ دس ہزار گھوڑوں کی فرمائش کہ دس ہزار گھوڑے تیار ہوں اور وہ دس ہزار گھوڑے احمدیوں کے ہوں اور ان سواروں کو نیزہ بازی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اب میں اقتباس پڑھ رہا ہوں۔ ’’اس کے ساتھ خدام الاحمدیہ کسے کہاگیا ہے۔ خادم کی علامت کے طور پر ایک رومال تجویز کیاگیا ہے۔ کیونکہ وقت کم تھا یہ صرف پانچ سو کے قریب تیار ہوسکے۔ کچھ نے خرید بھی لئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں خادم اسلام کے پاس یہ رومال ہونا چاہئے۔ اس رومال میں ایک چھلہ پڑتا ہے… یہودی بڑی ہوشیار قوم ہے۔ وہ دنیا میں ہر محاذ پر اپنی بڑائی پھیلانے کی کوشش کرتی ہے۔ چنانچہ مجھے اس رومال اور چھلے کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ ہمیں اپنے لئے رنگ (Ring) خود تجویز کرنے 2907چاہیں الحمرا کی دیواروں پر مجھے چار فقرے نظر آئے:
۱… لا غالب الا اﷲ۔ ۲… القدرت ﷲ۔
۳… الحکم ﷲ۔ ۴… العزت ﷲ۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کی دروغ گوئی) بقیہ
ان سے فائدہ اٹھا کر یہ تجویز کی ہے۔ عام اطفال اور خدام یعنی ہر رکن کے لئے القدرت ﷲ کا چھلہ اور جو عہدیدار ہیں ان کے لئے العزت ﷲ کا یہی لجنہ اماء اﷲ کا نشان ہے۔ البتہ ان کے رومال کا رنگ مختلف ہے۔ ویسے جھنڈوں کے لئے عام طور پر سبز رنگ ہوتا ہے۔ صرف جھنڈے کا ذکر ہے۔ اب اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اگر رومال ایک گز سے چھوٹا رہ جائے تو اس کے ذریعے جو دوسرے فوائد ہمارے مدنظر ہیں۔‘‘
وہ رومال کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ بہرحال سکاؤٹس میں بھی چھلہ اور رومال ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی بہت بڑے کام کے لئے ہے اور اس کوپڑھنے کے بعد مجھے ڈلہوزی کے زمانے کا چھلہ اور رومال جو ٹھگ استعمال کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس رومال ہوتا تھا اور ایک چھلہ ہوتا تھا اور اس کے ذریعے وہ آدمیوں کی گردن پھنسا کر فوری طور پر ختم کر دیتے تھے۔ اب یہ ایک لاکھ سائیکل سوار، دس ہزار گھوڑے اور نیزہ باز، یہ سب کس کی تیاری ہے؟ کیا قادیان واپس لینے کی تیاری ہے یا یہ جس طرح بہت دفعہ انہوں نے کہا، ہمیں اپنی حکومت قائم کرنی ہے۔ اس کی تیاری کرنی ہے۔ بہرحال یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہم صرف نظر نہیں کر سکتے۔ یہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں پوری تیاری سے اس مسئلہ کو نمٹانا چاہئے۔ ایک چیز اور عرض کروں گا جس وقت یہ باؤنڈری کمیشن کا واقعہ آیا ہے اور آپ نے دیکھا ۵؍اپریل سے اگست ۱۹۴۷ء بلکہ دسمبر ۱۹۴۷ء کے اقتباسات میں نے آپ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں۔ جس میں ہر جگہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے قیام سے یہ اپنا ذہن ہم آہنگ نہیں کر سکے۔ لیکن جب باؤنڈری کمیشن کا وقت آیا ہے تو خود چوہدری ظفر اﷲ صاحب لکھتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ اقتباس ہے۔ اس لئے کہ کہاں تو مرزابشیرمحمود صاحب ایک طرف یہ لکھ 2908رہے ہیں کہ ہمیں اکھنڈ بھارت بنانا ہے اور ہمیں کوشش جاری رکھنی ہے۔ لیکن باؤنڈری کمیشن کا تقرر ہوتے ہی ان کو مسلم لیگ کے کیس سے اتنی دلچسپی ہوئی کہ اتنی مسلم لیگ کے لیڈروں کو بھی نہ تھی۔ مجھے وہ انگریزی کی مثل یاد آتی ہے:
"A woman that loves a child more than its mother does, must be a witch."
(ایسی عورت جو کسی بچے کو اس کی ماں سے زیادہ پیار کرتی ہے۔ یقینا ڈائن ہے)
تو یہ مختصر سا اقتباس ہے۔ ’’تحدیث نعمت‘‘ مصنفہ چوہدری ظفر اﷲ صاحب، ص۵۶۶
’’حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ان دنوں لاہور ہی میں تشریف فرما تھے۔ بدھ کی سہ پہر کو مولانا عبدالرحیم درد صاحب تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت صاحب نے یہ دریافت کرنے کے لئے مجھے بھیجا ہے کہ حضور کسی وقت تشریف لا کر تمہیں تقسیم کے متعلق بعض پہلوؤں کے متعلق معلومات بہم پہنچادیں۔ خاکسار نے (یعنی ظفر اﷲ نے) گزارش کی کہ جس وقت حضور کا ارشاد ہو، خاکسار، حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔ درد صاحب نے فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ تم نہایت اہم قومی فرض کی سرانجام دہی میں مصروف ہو۔ تمہارا وقت بہت قیمتی ہے۔ تم اپنے کام میں لگے رہو۔ ہم وہیں تشریف لائیں گے۔ موجودہ حالات میں یہ مناسب ہے۔ چنانچہ حضور تشریف لائے اور بٹوارے کے اصولوں کے متعلق بعض نہایت مفید حوالوں کی نقول خاکسار کو عطا کیں، اور فرمایا کہ اصل کتب کے منگوانے کے لئے ہم نے انگلستان فرمائش بھیجی ہوئی ہے۔ اگر وہ کتب بروقت پہنچ گئیں تو وہ بھی تمہیں بھیج دی جائیں گی۔ نیز ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنے خرچ کے دفاع کے ہر ماہر پروفیسر کی خدمات حاصل کی ہیں۔ وہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور نقشہ جات وغیرہ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ تم تحریری بیان تیار کر لینے کے بعد ان کے ساتھ مشورے کے لئے وقت 2909نکال لینا۔ وہ یہاں آکر تمہیں یہ پہلو سمجھا دیں گے۔ چنانچہ متعلقہ کتب انگلستان سے قادیان پہنچیں اور وہاں سے ایک موٹر سائیکل سوار انہیں سائڈ کار میں رکھ کر لاہور لے آیا اور دوران بحث وہ ہمیں میسر آگئیں۔ ان سے ہمیں بہت مدد ملی۔‘‘
جو پروفیسر آئے تھے ان کا نام تھا پروفیسر سپیٹ۔ پروفیسر سپیٹ نے مجھے دفاعی پہلو خوب سمجھادیا۔ وغیرہ وغیرہ! اب دفاعی پہلو کیا سمجھایا؟ میں نے آپ کے توسط سے انہیں خط لکھا تھا کہ پروفیسر سپیٹ کی Observations, Recommendations جو ہوں، ان کی ایک کتاب ہمیں نہ بھیج دیں۔ وہ انہوں نے نہ بھیجیں کہ دفاعی پہلو اسے کیا سمجھایا گیا کہ پاکستان کس طرح بنایا جائے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ دلچسپی مرزاصاحب کو تھی۔ وہ چیز تو ہمارے پاس نہیں ہے۔ لیکن جو پہلے کے عزائم سامنے آرہے ہیں اور اس کے بعد جو نقشہ بن رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ ہوگا۔
Mr. Chairman: Sir, how long will you take?
(جناب چیئرمین: جناب آپ ابھی کتنا وقت لیں گے؟)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: آپ جس وقت کہیں گے۔
جناب چیئرمین: میں بالکل نہیں کہوں گا۔ You have already taken One and half hour. (آپ پہلے ہی ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لے چکے ہیں)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اچھا جی! (مداخلت)
جناب چیئرمین: میں روک نہیں رہا، میں نے ویسے پوچھا تھا۔
Why do you feel ill when I ask how long you will take? I am sorry.
(آپ کیوں ناراض ہوتے ہیں جب میں پوچھتا ہوں کہ آپ کتنا وقت لیں گے؟ میں معذرت خواہ ہوں)
2910میں نے صرف اس لئے پوچھا تھا کہ میں صرف ایڈجسٹ کر سکوں۔ Members are becoming restive (اراکین بے چین ہورہے ہیں) کچھ لیڈی حضرات جاچکی ہیں اور باقی سارے گھڑیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کوئی مجھے کہہ رہے ہیں کہ روٹی کھانی ہے۔ اس لئے میں نے پوچھا تھا تاکہ میں ایڈجسٹ کر سکوں۔
I am not saying that he is not saying useful word. You think that you believe that these are useful words and I do not believe that these are useful words?
(میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کوئی مفید گفتگو نہیں کر رہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ صرف آپ ہی ان الفاظ کو مفید سمجھتے ہیں اور میں انہیں مفید نہیں سمجھتا؟)
میں غلطی کر بیٹھا ہوں کہ آپ کو کہہ بیٹھا ہوں کہ تیزی سے نہ پڑھیں۔ I am sorry for that. I apologize before the whole House. (میں پورے ایوان کے سامنے معذرت خواہ ہوں) صرف اس واسطے میں نے کہا کہ سائیکلو سٹائل کرواکے دے دیں۔
That will be useful; and give oral arguments, that would be better. How long will you take?
(یہ فائدہ مند ہوگا، اور زبانی دلائل دیں تو وہ بہتر ہے۔ آپ کتنا وقت لیں گے؟)
میں نے صرف ایڈجسٹ کرنا ہے۔ That is all.
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میرے خیال میں میں نے جو گزارش کی تھی اگر وہ آپ منظور کرتے ہیں…
جناب چیئرمین: وہ میں نے کب انکار کیا ہے؟ اس وقت حنیف خان صاحب نے کہا تھا کہ تحریری طور پر دے دیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میری گزارش یہ ہے کہ میں بھی یہ محسوس کر رہا ہوں کہ ممبر صاحبان کافی تھک گئے ہوں گے۔
Mr. Chairman: From their expressions; that is why I cut it short.
(جناب چیئرمین: ان کے چہروں سے یہ واضح ہے۔ اسی لئے میں مختصر کرنے کو کہہ رہا تھا)
2911مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں اس کو یہاں ختم کرتا ہوں۔ اگر آپ مجھے آدھ گھنٹہ اس روز دے دیں تو میں کوشش کروں گا…
جناب چیئرمین: اگر آپ مناسب سمجھیں تو اٹارنی جنرل صاحب کے بعد جیسے بھی…
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ہاں! اتنا وقت تو کوئی ایسا نہیں ہوگا۔
جناب چیئرمین: اگر ضرورت سمجھیں۔ یہ میں نے اس واسطے کہا کہ ڈیڑھ بج گیا ہے اور آپ نے فرمایا تھا کہ ایک گھنٹہ لیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں نے ڈیڑھ گھنٹہ کہا تھا۔
جناب چیئرمین: آدھ گھنٹہ پہلے ہو گیا ہے۔ بریک سے پہلے ساڑھے گیارہ بجے آپ نے سٹارٹ کیا۔ بارہ بجے بریک ہوئی۔ 12:25 پر پھر ہم نے سٹارٹ کیا تھا۔ 1:35 ہوگیا ہے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ٹھیک ہے۔ پھر اس روز کے لئے رکھیں۔ اگر وہ تیار ہوگئے تو آدھ گھنٹہ شروع کا مجھے دے دیں۔ یعنی آنے میں بھی تو کچھ دیر ہوتی ہے۔ میں اس وقت کر لوں گا۔
جناب چیئرمین: بالکل ٹھیک ہے جی۔ Thank you.
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اگر میں کچھ لکھ سکا، جس کی زیادہ امید نہیں ہے تو پھر وہ بھی کر لوں گا۔ بہت بہت شکریہ۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔ Thank you very much.
مسٹر جمال کوریجہ! آپ اندازاً کتنا وقت لیں گے؟
خواجہ جمال محمد کوریجہ: دو منٹ، جناب۔
 
Top