(قادیانیوں کے متعلق فتویٰ جات)
اور اپنے اس ادعا کی تائید میں چند دیگر علماء کے فتاوے بھی پیش کئے گئے ہیں جو مسل کے ساتھ شامل ہیں اور سید انور شاہ صاحب گواہ نے مصر اور شام کے دو مطبوعہ فتوؤں کا حوالہ بھی اپنے بیان میں دیا ہے۔
تحریری فتوے جو مسل پر لائے گئے ہیں حسب ذیل مقامات کے علماء کے ہیں۔ مکہ معظمہ، ریاست رام پور، دارالافتاء ریاست بھوپال، ہمایوں (سندھ) بریلی۔ ڈابھیل، دہلی سہارن پورتھانہ بھون ملتان علماء کی فہرست میں شیخ عبداﷲ صاحب رئیس القضاۃ مکہ معظمہ، مفتی کفایت اﷲ صاحب صدر جمعیت علماء ہند اور مولوی اشرف علی صاحب کے اسماء بھی ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے ان دلائل کا جو مرزاصاحب کی تکفیر کے متعلق مدعیہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں۔ تین طریق پر جواب دیا گیا ہے۔
اوّل! یہ کہ مرزاصاحب کی جن عبارات سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان سے ان کے عقائد کفریہ ظاہر ہوتے ہیں۔ ان عبارات کے ماسبق اور مابعد کی عبارات کو مدنظر نہیں رکھاگیا اور نہ ہی سیاق وسباق عبارت کو زیرغور لایا گیا ہے اگر ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ان عبارات پر غور کیا جاوے تو ان سے وہ نتائج اخذ نہیں ہوتے جو گواہان مدعیہ نے بیان کئے ہیں۔
دوسرا! یہ کہ مرزاصاحب نے خود دیگر مقامات پر ان عبارات کی تشریح کر دی ہے۔ اس لئے ان عبارات سے وہی مفہوم لیا جائے گا جو انہوں نے خود بیان کیا اور کہ دیگر مقامات پر ایسی عبارات بھی موجود ہیں کہ جن کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کہا جاسکتا کہ ان عبارات زیر اعتراض سے مرزاصاحب کا وہی مدعا تھا جو گواہان مدعیہ نے اخذ کیا۔
تیسرا! یہ کہ مرزاصاحب کے اقوال زیر بحث میں سے بعض اقوال ایسے ہیں جو دیگر بزرگان دین سے بھی سرزد ہوئے۔ لیکن فریق مدعیہ کے نزدیک وہ بزرگان مسلمان تھے اس لئے ان اقوال کی بناء پر مرزاصاحب کے خلاف کیونکر فتویٰ تکفیر لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تمام امور تشریح طلب ہیں اور اپنے اپنے موقعہ پر ان کی تفصیل بیان کی جائے گی اور وہاں ان کا پورا جواب بھی دیا جائے گا۔ یہاں ان کے متعلق مختصراً یہ درج کیا جاتا ہے کہ عبارات زیربحث میں سے بعض ایسی ہیں کہ جو اپنے اندر ایک مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی ایسا ابہام نہیں ہے کہ جو کسی تشریح یا توجیہ کا محتاج ہو۔ اس لئے ایسی عبارات کے نہ ماسبق اور مابعد دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ سیاق وسباق معلوم کرنے کی۔ لہٰذا ان فقرات کی اپنی ترتیب سے ہی جو مفہوم اخذ ہوگا وہی مراد لیا جائے گا۔
امر دوم! کے متعلق اوّل تو مرزاصاحب کی کتابوںکے مطالعہ سے یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے بہت سے اقوال میں تعارض ہے اور اس تعارض کو کسی صاف تشریح یا وضاحت سے رفع نہیں کیا گیا۔ دوسرا جیسا کہ اوپر درج کیاگیا ہے بعض عبارات فی نفسہ ایسے مستقل جملے ہیں کہ جو اپنے مفہوم کی خود وضاحت کر رہے ہیں۔ اس لئے تاوقتیکہ یہ نہ دکھلایا جاوے کہ یہ کلمات واپس لئے 2183گئے۔ دیگر کلمات نہ ان کے قائمقام تصور ہوسکتے ہیں اور نہ ان کی تشریح بن سکتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ ان اقوال کو ان اقوال کے تحت سمجھا جاوے۔ جو مرزاصاحب نے دوسری جگہ بیان کئے ہیں۔ کیونکہ وہ اقوال اقوال زیر بحث کو مسترد نہیں کرتے۔ بلکہ جیسا کہ مدعیہ کے گواہ سید انور شاہ صاحب نے بیان کیا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ روش مرزا نے عمداً اختیار کی تاکہ نتیجہ گڑ بڑ رہے اور ان کو بوقت ضرورت مخلص اور مفرباقی رہے۔
امر سوم! کے متعلق اوّل تو ان بزرگان کے اقوال بعینہ ان الفاظ میں نہیں جو مرزاصاحب نے بیان کئے ہیں۔ دوسرا مقدمہ ہذا میں ان بزرگان کے مسلمان یا نہ مسلمان ہونے کا سوال زیربحث نہیں ہے اور نہ ہی ان کے دیگر حالات پیش نظر ہیں۔ اس لئے مرزاصاحب کے مقابلہ میں ان کے الفاظ پیش کرنا ایک سعی لاحاصل ہے۔
علاوہ ازیں سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ بیان کیا ہے کہ صوفیاء کے ہاں ایک باب ہے جس کو شطحیات کہتے ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ ان پر حالات گزرتے ہیں اور ان حالات میں کوئی کلمات ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں جو ظاہری قواعد پر چسپاں نہیں ہوتے اور بسا اوقات غلط راستہ لینے کا سبب ہو جاتے ہیں۔ صوفیاء کی تصریح ہے کہ ان پر کوئی عمل پیرا نہ ہو اور تصریحیں کرتے ہیں کہ جس پر یہ احوال نہ گذرے ہوں۔ وہ ہماری کتاب کا مطالعہ نہ کرے۔ مجملاً ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص جو کسی حال کا مالک ہوتا ہے دوسرا خالی آدمی ضرور اس سے الجھ جائے گا۔ لیکن دین میں کسی زیادتی کمی کے صوفیاء میں سے بھی کوئی قائل نہیں اور ایسے مدعی کو کافر بالاتفاق کہتے ہیں۔