(قادیانی جماعت کی تعداد؟)
جماعت احمدیہ کی نفری یا تعداد کے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تو آپ دیکھئے کہ ان کا کیا سٹینڈ ہے اور انہوں نے اپنا مؤقف کیا اختیار کیا ہوا ہے؟ جواب میں مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ اس کا کوئی ریکارڈ ان کے پاس نہیں ہے کہ پاکستان میں گزشتہ بیس سال سے کتنے احمدی Convert (تبدیل) ہوئے ہیں یا جماعت میں کتنے لوگ شامل ہوئے ہیں؟ ہم کوئی ایسا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ جب پوچھا گیا کہ بیعت کے رجسٹر کی گنتی کی جاتی ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ یہ گواہ امیرجماعت احمدیہ ہے۔ خلیفہ (ثالث) ہے اور امیرالمؤمنین ہے اور اس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کی جماعت کی کل نفری کتنی ہے۔ نہ اس نے ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ نہ اس کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ریکارڈ موجود ہے یا نہیں ہے؟ پھر آگے چل کر پلٹتا ہے اور کہتا ہے 2859کہ میرے اندازے کے مطابق پاکستان میں پینتیس، چالیس لاکھ احمدی ہیں۔ دنیا میں ایک کروڑ ہیں۔ مرزا غلام احمد صاحب کی وفات کے وقت چار لاکھ احمدی تھے۔ ۱۹۵۴ء کی مردم شماری میں اگر تعداد چند ہزار درج ہے تو وہ غلط ہے۔ مردم شماری کے اعدادوشمار کبھی درست نہیں ہوتے۔ مجھے علم نہیں کہ منیر کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ میں سے کس نے جماعت کی تعداد دو لاکھ بتائی تھی؟ یہ تعداد غلط ہے۔ ’’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘‘ میں بھی ہماری تعداد غلط تحریر ہے۔ اگر آپ کہیں کہ احمدیوں کی تعداد دولاکھ ہے تو میں کسی دستاویز سے اس کی تردید نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر آپ کسی ریکارڈ یا سرکاری دستاویز سے ثابت کر دیں تو میں تردید نہیں کروں گا۔ کوئی حتمی مردم شماری نہیں کی گئی۔ اس لئے تعداد اندازے سے بتائی گئی ہے۔ اب تعداد پینتیس، چالیس لاکھ ہے۔ بوقت تقسیم ملک چار لاکھ تھی۔ اس وقت تیس پینتیس ہزار ہندوستان میں رہ گئے تھے۔