• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی دجال کی تحریری گستاخیاں ( پارٹ 1)

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
تحریر:۔عبیداللہ لطیف
عنوان :قادیانی دجال کی تحریری گستاخیاں ( پارٹ 1)

توہینِ رب العالمین:
محترم قارئین! ا س سے قبل آپ مرزا قادیانی کے دعووں کی تفصیل ملاحظہ کر چکے ہیں ، آئیے اب اس کی مزید گستاخیاں بھی ملاحظہ کریں۔ مرزا قادیانی رب کائنات کے وجود مقدس کا نقشہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’قیوم العالمین‘‘ ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لیے بے شمار ہاتھ ، بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہا عرض و طول رکھتا ہے اور تندوی(تیندوے) کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں۔
(توضیح المرام صفحہ 75، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 90)
’’وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 396)
’’کیا کوئی عقل مند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں ، پھر بعداس کے یہ سوال ہوا کہ کیوں نہیں بولتا، کیا (اس کی) زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گیا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 144 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 312)
محترم قارئین! ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اﷲ رب العزت کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ اﷲ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی والدین اور نہ ہی بیوی کیونکہ رب کائنات نے قرآن مجید میں اپنے آخری نبی سیدنا محمد رسول اﷲ aکو مخاطب کرکے فرمایا :
(قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌO اللّٰہُ الصَّمَدُ O لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ)
’’اے میرے نبی ! کہہ دیجیے اﷲ ایک ہے، اﷲ بے نیاز ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی باپ ہے اور نہ ہی بیٹا۔(الاخلاص3-1)
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے سورہ انعام کی آیت 100اور101 میں فرمایا ہے:
(وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَھُمْ وَخَرَقُوْا لَہ‘ بَنِیْنَ وَبَنٰتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ سُبْحٰنَہ‘ وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ O بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہ‘ وَلَدٌ وَّلَمْ یَکُنْ لَّہ‘ صَاحِبَۃٌ وَّخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَّھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٍ )
ترجمہ:ا ور لوگوں نے شیاطین کو اﷲ تعالیٰ کے شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان لوگوں کو اﷲ ہی نے پیدا کیا ہے اور ان لوگوں نے اﷲ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں اور وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی اولاد کہا ں سے ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی بیوی تو ہے ہی نہیں اور اﷲ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔
جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے مخاطب کرکے فرمایا ہے :
’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِاَوْلَادِیْ‘‘
اے مرزا! تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔
مزید ایک جگہ فرمایا:
اَنْتَ مِنِّيْ وَاَنَا مِنْکَ
تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہو گیا۔
( دافع البلاء صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ227)
اَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃَ وَلَدِيْ
اے مرزا!تومجھ سے میرے بیٹے کی طرح ہے
(بحوالہ تذکرہ طبع چہارم صفحہ 442 از مرزا قادیانی)
اسی طرح مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے کہ:
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر4 صفحہ 19 (روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 452 ) میں بابوالٰہی بخش صاحب کی نسبت الہام ہے:
’’یریدون ان یرواطمعک واللہ یرید ان یریک انعامہ الانعمات المتواترۃ۔ انت مني بمنزلۃ اولادي واﷲ ولیک وربک فقلنا یانارکونی برداً‘‘
یعنی بابوالٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اورناپاکی پر اطلاع پائے۔ مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے ۔ ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اﷲ (اﷲ کے بچے کی مانند ) ہے۔
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 143 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ581)
’’درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو قابل بیان نہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، صفحہ 63، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ81)
اسی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے مرزاقادیانی کا ایک مرید قاضی یا ر محمد قادیانی اپنی کتاب اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر34پر رقم طراز ہے:
’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پراپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پراس طرح ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے والے کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔‘‘ (نعوذ باﷲ من ذلک)
(اسلامی قربانی صفحہ12ازیارمحمدقادیانی)
محترم قارئین! مرزا قادیانی اوراس کی ذریت کی طرف سے اس سے بڑھ کر بھی کوئی رقیق حملہ اﷲ رب العزت کی ذات پر ہو سکتا ہے۔ آئیے ذرا مزید دیکھیے کس طرح یہ کذاب قادیانی رب ذوالجلال کے بارے میں مزید بکواس کرتا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ:
’’جیسا کہ عاجز کو اپنے الہامات میں خدا تعالیٰ مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں اور زمین وآسمان تیرے ساتھ ہیں، جیسا کہ میرے ساتھ ہیں اور تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ خشکی سے ۔۔۔۔۔۔۔لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم خداسے پیارکرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے چلو تاخدا بھی تم سے پیار کرے۔ میری سچائی پر خدا گواہی دیتا ہے ۔ پھر کیوں تم ایمان نہیں لاتے۔ تو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا۔ خدا عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔۔۔۔۔۔جس طرف تیرا منہ اس طرف خدا کا منہ ۔۔۔۔۔۔۔میں نے ارادہ کیا کہ اپنا جانشین بناؤں تو میں نے آدم کو یعنی تجھے پیدا کیا۔ آواہن (خدا تیرے اندر اتر آیا) خدا تجھے ترک نہیں کرے گا اور نہ چھوڑے گا۔ جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرے۔میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو مجھ میں اور تمام مخلوقات میں واسطہ ہے۔۔۔۔۔۔تیرا بھید میرا بھید ہے۔‘‘
(کتاب البریۃ صفحہ 85-82، مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ103-100)
’’ خدا نکلنے کو ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو مجھ سے ایسا ہے جیساکہ میں ہی ظاہر ہو گیا یعنی تیرا ظہور بعینہ میرا ظہور ہوگا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ از مرزا قادیانی صفحہ 93مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ404)
محترم قارئین ! مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ کھانے ، پینے، سونے اور غلطی کرنے سے مبرا ہے۔ لیکن مرزا قادیانی رب کائنات پر افتراء کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اے مرزا:
افطرواصوم میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔
(بحوالہ دافع البلاء صفحہ 578 روحانی خزائن ، جلد 18، صفحہ 100)
اُخْطِي وَاُصِیْب میں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی۔
(حقیقۃ الوحی، صفحہ 103 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106)
اُصَلِّیَ وَاَصُوْم اَسھَرُوا وَاَنَام
’’ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں ، میں جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔‘‘
(بحوالہ تذکرہ صفحہ 379 طبع چہارم )
محترم قارئین ! ان کے علاوہ بھی مرزا قادیانی کی کتب توہین باری تعالیٰ سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن یہاں پر مختصراً بیان کردی گئی ہیں کسی جگہ پر تو آپ کو مرزا قادیانی رب ذوالجلال کے ساتھ ایک ہی پلنگ پر بیٹھا ہوا نظر آئے گا۔
(سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ 74، روایت نمبر100)
تو کبھی مرزا قادیانی کے ساتھ اس کے باپ کی تعزیت کرتا ہوا دیکھیں گے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 219، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 219)
تو کبھی قادیانی پروردگار عالم سے قضا وقدر کے کاموں پر دستخط کرواتا نظر آئے گا، اورپھر ساتھ یہ دعویٰ بھی کہ جب اﷲ تعالیٰ نے اپنے قلم کی سیاہی کو چھڑکا تواس کے چھینٹے مرزا کے کپڑوں پر پڑے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 225مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 267)
الغرض مرزا قادیانی کی کتب ایسی ہی خرافات وبکواسات سے بھری ہوئی ہیں۔
-2توہین انبیاء:۔
-i مرزا قادیانی توہین یوسف علیہ السلام کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
’’ پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ عاجز قید کی دعا کرکے بھی قید سے بچایا گیا مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 99، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 99)
-ii
انبیاء گرچہ بودہ اندبسے

من بعرفان نہ کمترم زکسے
آنچہ داد است ہر نبی راجام

داد آن جام را مرا بتمام
زندہ شد ہر نبی بآمدنم

ہر رسولے نہاں برپرہنم
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین

ہر کہ گوید دروغ ہست لعین
(نزول المسیح ص 100مندرجہ روحانی خزائن ج 18 ص 478,477)
1۔ اگرچہ دنیا میں بہت سے نبی ہوئے ہیں میں عرفان میں ان نبیوں میں سے کسی سے کم نہیں ہوں۔
2۔ وہ خداکہ جس نے ہرنبی کو پیالہ دیا۔اس نے وہ پیالہ پورے کاپورادے دیا ۔
3۔ میری آمد کی وجہ سے ہر نبی زندہ ہو گیا ہے ۔ہر رسول میری قمیص میں چھپا ہوا ہے۔
4۔ میں ان سب سے یقین کے لحاظ سے کم نہیں ہوں۔ جو جھوٹ کہتا ہے وہ لعین ہے۔
-iii عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
* ’’آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔‘‘
(انجام آتھم ص 7 مندرجہ روحانی خزائن ج 11ص 291)
* ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تویہ تھاکہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیاکرتے تھے ۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔‘‘
(کشتی نوح ص 73، مندرجہ روحانی خزائن ج 19 ص 71)
* ’’پھرشراب کو دیکھوکہ تمام گناہوں کی جڑ ہے، اس کی تخم ریزی مسیح نے کی۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ 423طبع چہارم )
* ’’لیکن مسیح کی راستبازی اپنے زمانہ میں دوسرے راستبازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام ’’حصور ‘‘رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 220)
* ’’مسیح تو خود کنجریوں سے تیل ملواتا رہا۔ اگر استغفار کرتے تویہ حالت نہ ہوتی۔۔۔۔۔مفتی محمد صادق جو کتاب سنایا کرتے ہیں جس میں مشیعہ عورت کا اور مشیع یہودی عاشق سلومی کا ذکر ہے کہ وہ عورت سلومی مشیع کو چھوڑ کر یسوع کے شاگردوں میں جاملی۔ اس لیے اس مشیع نے یہ سارا منصوبہ صلیب کا بنایا ۔ گویا ایک عورت کے واقعہ نے ان کی صلیب تک نوبت پہنچائی۔۔۔۔۔ان کے نزدیک زیادہ شادیاں کرنا گناہ ہے مگر ایک بازاری عورت عطر ملتی ہے، تیل بالوں کو لگاتی ہے، بالوں کو کنگھی کرتی ہے اور یہ مہنت کی طرح بیٹھے ہوئے مزے سے سب کرواتے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ان کو کنجریوں سے کیا تعلق تھا۔ اور اگر کہو کہ اس کنجری نے توبہ کی تھی تو کنجری کی توبہ کا کیا اعتبار۔۔۔۔۔ایک طرف توبہ کرتی ہیں اور ایک طرف پھر موڑھے پر بازار میں جا بیٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔پھر شراب کو دیکھو کہ تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ اس کی تخم ریزی مسیح نے کی۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 422طبع چہارم)
* ’’یورپ جو زناکاری سے بھر گیا اس کا کیا سبب ہے۔ یہی تو ہے کہ نامحرم عورتوں کو بے تکلف دیکھناعادت ہو گیا اول تو نظر کی بدکاریاں ہوئیں ۔ پھر معانقہ بھی ایک معمولی امر ہو گیا۔ پھرا س سے ترقی ہو کر بوسہ لینے کی بھی عادت پڑی، یہاں تک کہ استاد جوان لڑکیوں کو اپنے گھروں میں لے جا کر یورپ میں بوسہ بازی کرتے ہیں اور کوئی منع نہیں کرتا ہے۔شیرینیوں پر فسق و فجور کی باتیں لکھی جاتی ہیں۔ تصویروں میں نہایت درجہ کی بدکاری کا نقشہ دکھایا جاتا ہے۔ عورتیں خود چھپواتی ہیں کہ میں ایسی خوبصورت ہوں اور میری ناک ایسی ہے اور آنکھ ایسی ہے اور ان کے عاشقوں کے ناول لکھے جاتے ہیں اور بدکاری کا ایسا دریا بہہ رہا ہے کہ نہ تو کانوں کو بچا سکتے ہیں اور نہ آنکھوں کو ، نہ ہاتھوں کو ، نہ منہ کو ۔ یہ یسوع صاحب کی تعلیم ہے۔ کاش ! ایسا شخص دنیا میں نہ آیا ہوتا۔‘‘
(نور الانوار صفحہ 42 مندرجہ روحانی خزائن جلد 9صفحہ417)
* ’’ایک کنجری خوب صورت ایسی قریب بیٹھی ہے گویا بغل میں ہے۔ کبھی ہاتھ لمبا کرکے سر پر عطر مل رہی ہے ، کبھی پیروں کو پکڑتی ہے، اور کبھی اپنے خوشنما اور سیاہ بالوں کو پیروں پر رکھ دیتی ہے اور گود میں تماشہ کر رہی ہے۔ یسوع صاحب اس حالت میں وجد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور کوئی اعتراض کرنے لگے تواس کو جھڑک دیتے ہیں۔ اور طرفہ یہ کہ عمر جوان اور شراب پینے کی عادت اور پھر مجرد۔ اور ایک خوب صورت کسبی عورت سامنے پڑی ہے۔ جس کے ساتھ جسم لگا رہی ہے۔ کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے۔ اور اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی۔ افسوس کہ یسوع کو یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کر لیتا۔ کم بخت زانیہ کے چھونے سے اور نازواداکرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور شہوت کے جوش نے پورے طور پر کام کیا ہوگا۔ اسی وجہ سے یسوع کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ اے حرام کار عورت! مجھ سے دو ررہ۔ا ور یہ بات انجیل سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ عورت طوائف میں سے تھی اور زناکاری میں سارے شہر میں مشہور تھی۔‘‘
(نور القرآن صفحہ 74، مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 449)
محترم قارئین! ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس انداز سے توہین ہے تو دوسری طرف معجزات مسیح سے بھی مکمل طور پرانکار کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف انکار کیا جارہا ہے بلکہ وہ معجزات جو قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام کے بیا ن کیے گئے ان معجزات کو مسمریزم قرار دے کر قرآن مقدس کی بھی توہین کاارتکاب کیا ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی دجال لکھتا ہے کہ:
* ’ ’آپ کے ہاتھوں سوائے مکر وفریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 291)
* ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ اوراس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا۔ اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔‘‘
(حاشیہ انجام آتھم صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 230)
محترم قارئین !اﷲ رب العزت قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کاذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(اِذْ قَالَتِ الْمَلٰءِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیِْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرِّبِیْنَO وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا وَّ مِنَ الصَّالِحِیْنَ O قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ اِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُo وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ O وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ اِنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ بِاَیَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ اِنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْءَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا تَأْکُلُوْنَ وَمَا تَدِّخُرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتمْ مُؤْمِنِیْنَ )
ترجمہ: جب فرشتوں نے کہا:اے مریم ! اﷲ تعالیٰ تجھے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح ابن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے اور وہ میرے مقربین میں سے ہے اور وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور بڑھاپے میں بھی اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا۔ کہنے لگیں : الٰہی!مجھے لڑکا کیسے ہوگا، حالانکہ مجھے توکسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا فرشتے نے کہا: اسی طرح ہوگااﷲ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب کبھی کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتاہے کہ ہو جاؤ تو وہ ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اسے لکھنا حکمت تورات اورانجیل سکھلائے گا اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا۔کہ میں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانیاں لایا ہوں۔ میں تمھارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اوراپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں بتا دیتا ہوں۔ اس میں تمھارے لیے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایماندار ہو۔
(سورہ آل عمران :49-45)
ان آیات مبارکہ میں درج ذیل باتیں بیان ہوئی ہیں:
-i جناب مریم علیہا السلام پاک دامن اور عفت مآب تھیں ، انھیں کسی بھی مرد نے نہیں چھوا تھا۔
-ii عیسیٰ علیہ السلام نے بچپن میں ہی ماں کی گود میں گفتگو کی اور اسی طرح قیامت کے قریب دوبارہ نازل ہونے کے بعد بڑھاپے میں بھی گفتگو کریں گے۔
-iii عیسیٰ علیہ السلام صالح اور نیک لوگوں میں سے تھے۔
-iv عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے لکھنا سکھلایا اور توراۃ و انجیل کا علم دیا۔
-v مٹی کا پرندہ بنا کر پھونک مار کر حقیقی پرندہ بن جانا، مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، خوراک اور گھروں میں ذخیرہ شدہ چیزوں کا بتانا یہ سب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے ہیں اور یہ ساری چیزیں اﷲ رب العزت کے حکم سے رونما ہوئیں۔
محترم قارئین ! ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر مرزا قادیانی کی درج ذیل تحریروں کا مطالعہ کریں کہ کس طرح اس کذاب نے قرآن مقدس کی واضح اور بین آیات کا انکار کیا ہے۔
* ’’سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کاکام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے۔ اور جیسے انسان میں قویٰ موجود ہوں انہی کے موافق اعجاز کے طور پربھی مدد ملتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 155,154مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 254,255)
* ’’یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر انھیں سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا۔ نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہو گیا تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 322 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 حاشیہ صفحہ 263)
* ’’ ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل الترب یعنی مسمریزی طریق سے بطور لہو ولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آ سکیں کیونکہ عمل الترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں، ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ155,156مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 256,255)
* ’’مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں ۔ اگریہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 158، مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 258)
* ’’آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی ۔ ادنیٰ ادنیٰ بات پر غصہ میں آجاتا تھا اور اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں کیونکہ آپ توگالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
( انجام آتھم حاشیہ صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 289)
* ’’نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔ ‘‘
(حاشیہ انجام آتھم مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 290)
* ’’مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا: ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( مرزا قادیانی ) کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی اﷲ تعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے اس پر حضور علیہ السلام (مرزا قادیانی) نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت توڑنے کے لیے ماں کا ذکر کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں ’’بھرجائی کانیے تینوں سلام آکھناواں‘‘ جس سے مقصود کانا ثابت کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلام کہنا ۔ اسی طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیت ہے نہ کہ مریم کی صدیقیت کا اظہار‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول، صفحہ 732 روایت 801)
* ’’ یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں ۔ یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں ۔ یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھیں ۔‘‘
(کشی نوح صفحہ 20، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
* ’’پانچواں قرینہ ان کے وہ رسوم ہیں جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں۔ مثلاً ان کے بعض قبائل ناطہ اور نکاح میں کچھ چنداں فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلا تکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں۔ حضرت مریم کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے مگر خوانین سرحدی کے بعض قبائل میں مماثلت عورتوں کی اپنے منسوبوں سے حد سے زیادہ ہوتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے بھی حمل ہو جاتا ہے جس کو برا نہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات کو ٹال دیتے ہیں کیونکہ یہود کی طرح یہ لوگ ناطہ کو ایک قسم کا نکاح ہی جانتے ہیں جس میں پہلے مہر بھی مقرر ہو جاتا ہے ۔‘‘
(ایام الصلح صفحہ 74، مندرجہ روحانی خزائن جلد 14، صفحہ 300)
* ’’مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیا تاکہ وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو اور تمام عمر خاوند نہ کرے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایاں ہو گیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام کے ایک نجار سے نکاح کر دیا اوراس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا، وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا ۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 24، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20، صفحہ356,355)
* ’’اور مریم کی وہ شان ہے کہ جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا ، پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا ، گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں کیوں کر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیادڈالی گئی ۔ یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میںآوے ۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے ،نہ قابل اعتراض۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ 20، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
محترم قارئین! آپ نے قرآن مقدس کی آیات کے تناظر میں قادیانی دجال کی ان تحریروں کو مطالعہ کر لیا جب قادیانی ذریت کے سامنے مرز ا قادیانی کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی گستاخی پر مبنی یہ تحریر یں پیش کی جاتی ہیں تو جواب ملتا ہے کہ اس دور میں عیسائی نبی کریم علیہ السلام کے خلاف الزامات لگاتے تھے اور انہی کی انجیل کی عبارتوں کی مرزا صاحب نے تشریح کی ہے اور یہ الزامی جواب ہے جس کے بارے میں مرزا قادیانی خود لکھتا ہے:
’’ ہمارے قلم سے حضرت عیسیٰ d کی نسبت جو کچھ خلاف شان ان کے نکلا ہے ، وہ الزامی جواب کے رنگ میں اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کیے ہیں۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 326)
محترم قارئین ! یہی اصول اپنا کر جب عیسائیوں نے نبی کریم dکی گستاخی کی تو مرزا قادیانی نے ان کے اس انداز کو بدطریق قرار دیا، لیکن خوداس بدطریق پر عمل کیا۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’جس طرح یہود محض تعصب سے حضرت عیسیٰ اور ان کی انجیل پرحملے کرتے ہیں ، اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت aپر کرتے ہیں عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اس بدطریق میں یہودیوں کی پیروی کرتے۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 4، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 337)
محترم قارئین ! حقیقت تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے گستاخان رسول ﷺ عیسائیوں کو غیر ت مند مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے یہ خیانت کی جس کے بارے میں خود لکھتا ہے:
’’میں اس بات کا اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی بالخصوص پرچہ نورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور مؤلفین نے ہمارے نبی ﷺکی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زنا کار تھاا ور صدہا پرچوں میں شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں یہ جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا قدرے سختی سے جواب دیا جائے تاسریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو ۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنش نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ وغضب بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہو گا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی۔ ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزار ہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے یک طرفہ ان کے اشتعال فرو ہو گئے۔۔۔۔۔۔سو مجھ سے پادریوں کے مقابل جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اول درجہ خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ ‘‘
(تریاق القلوب صفحہ ب ج ،مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 491-490)
محترم قارئین ! یہ تھا مرزا قادیانی کا عیسیٰ اور مریم e کی توہین کرنے کا اصل مقصد کہ عیسائیوں کو بچانا اور اپنے آقا انگریز کو خوش رکھنا۔ اب آتے ہیں مرزا قادیانی کے اس گھناؤنے کردار کی طرف کہ اس ملعون نے کس طرح نبی آخر الزمان جناب محمدرسول اﷲ aکی توہین کی۔
ٍ * ’’ جو شخص مجھ میں اور مصطفی a میں فرق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد16صفحہ 259)
* ’’ جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی dکی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی، پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت aکی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ و اکمل اوراشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ272-271)
ٍ * ’’ اس (نبی کریمa) کے لیے چاند کے خسوف کانشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا ،اب کیا تو انکار کرے گا؟‘‘
(اعجاز احمدی صفحہ 71 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 183)
* نبی کریم کے تین ہزار معجزات اور مرزا قادیانی کے دس لاکھ۔
’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبی سے ظہور پذیر ہوئے اور حدیبیہ کی پیش گوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت اندازہ کردہ پر پوری نہیں ہوئی۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد17 صفحہ 157)
’’ان چند سطروں میں جو پیش گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 72، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 72)
ٍ * ’’ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصوصیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہر ایک پہلو سے ہمارے نبی aکی توہین ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کچھ حد وحساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً آنحضرت aکی سو برس تک بھی عمر نہ پہنچی۔مگر حضرت مسیح اب قریباً دو ہزار برس سے زندہ ہیں اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت کے چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ و تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلا لیا۔ اب بتاؤ محبت کس سے زیادہ کی۔ عزت کس کی زیادہ کی۔ قرب کا مقام کس کو دیا اور پھر دوبارہ آنے کا شرف کس کو بخشا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ 112مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 205)
محترم قارئین ! ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم dنے اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دی ۔ یہ حدیث اسی کتاب کے باب سوئم میں ’’عقیدہ ختم نبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں‘‘ عنوان کے تحت درج ہے۔ مرزا قادیانی بھی اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دیتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’ پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیش گوئی کو پور اکرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچادے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 178، مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178) (جاری ہے )
 
Top