• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی سوالات کے جوابات ( 9 کیا حضور علیہ السلام کے دشمنوں سے نرمی کرنا سنت نبوی ہے؟)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی سوالات کے جوابات ( 9 کیا حضور علیہ السلام کے دشمنوں سے نرمی کرنا سنت نبوی ہے؟)
سوال نمبر:۹… مرزائی، اور مرزائی نواز طبقہ عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزائیوں کے ساتھ شدت والا معاملہ نہیں کرنا چاہئے۔ حضور علیہ السلام نے ہمیشہ اپنے دشمنوں سے درگذر والا معاملہ کیا۔ تو اب حضور علیہ السلام کی سنت کا تقاضا یہ ہے، کہ آپ علیہ السلام کے دشمنوں سے درگذر والا معاملہ کیا جائے، نہ کہ ان کے ساتھ شدت برتی جائے۔
جواب… ایک ہے ذات، اور ایک ہے دین۔ جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے تو اپنی ذات کے لئے شدت کے بجائے درگذر والا معاملہ کرنا چاہئے۔ مگر دین کے لئے بعض اوقات شدت لازمی ہو جاتی ہے۔ حضور علیہ السلام اگر اپنے دشمنوں کو معاف فرمادیتے تھے، تو یہ آپ علیہ السلام کی ذات کا مسئلہ تھا۔ چونکہ حضور علیہ السلام کی ذات پاک ہمارے لئے صرف دین کا حصہ ہی نہیں، بلکہ سراپا دین ہے، اور دین کے معاملہ میں درگذر کرنا مداہنت ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک حضور علیہ السلام کے دشمنوں کے ساتھ نرمی یا رعایت کرنا قطعاً جائز نہیں، بلکہ حضور علیہ السلام کے دشمنوں کے مقابلہ میں ’’اشداء علی الکفار‘‘ کا نمونہ بننا چاہئے۔ مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃُ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ: جس طرح حضور علیہ السلام کے ساتھ محبت رکھنا ایمان کی علامت اور نشانی ہے۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کے دشمن کے ساتھ بغض رکھنا یہ بھی ایمان کی علامت اور نشانی ہے۔ حضور علیہ السلام کا صحابہ کرامe کے متعلق ارشاد ہے: ’’من ابہم فبحبی اححبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم (مشکوٰۃ ص۵۵۴)‘‘ {جو شخص صحابہe سے محبت رکھتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے۔}
نیز ’’الحب فی اﷲ والبغض فی اﷲ‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے۔
اب آئیے! اس طرف کہ آیا کبھی صحابی رضی اللہ عنہ کے سامنے کسی بدبخت نے حضور علیہ السلام کی توہین کی ہو؟۔ (نعوذ باﷲ) اور اس صحابی رضی اللہ عنہ نے اسے برداشت کر لیا ہو؟۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف یہ تو ہے کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے سامنے حضور علیہ السلام کی کسی شخص نے توہین کی تو صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر حضور علیہ السلام کی عزت کا تحفظ کیا۔
واقعہ نمبر:۱
۱… اسلامی تاریخ میں یہ واقعہ بھی بڑا سنہری ہے، کہ ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو پھانسی پر لٹکایا جارہا تھا، تو کفار نے اس سے کہا کہ کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے؟ کہ تجھے چھوڑ دیا جائے؟ اور تیری جگہ تیرے نبی( علیہ السلام ) کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے؟ (نعوذ باﷲ) تو جواب میں صحابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھانسی پر لٹکایا جانا درکنار، اگر مجھے یہ کہہ دیا جائے کہ ہم تجھے چھوڑ دیتے ہیں، اور تیری جگہ تیرے نبی( علیہ السلام ) کو کانٹا چبھودیتے ہیں تو میں پھانسی پر لٹکنا گوارا کر لوں گا۔ لیکن اپنے نبی( علیہ السلام ) کو کانٹا چبھانا گوارا نہیں کر سکتا۔
نیز اس کے علاوہ (تبلیغی نصاب ص۱۷۰) پر ہے: ’’کہ جب عروہ بن مسعود ثقفی نے حضور علیہ السلام سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ اشراف کی جماعت نہیں دیکھتا۔ یہ اطراف کے کم ظرف لوگ تمہارے ساتھ ہیں۔ مصیبت پڑنے پر سب بھاگ جائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پاس کھڑے ہوئے تھے۔ یہ جملہ سن کر غصے میں بھر گئے اور ارشاد فرمایا۔ تو اپنے معبود ’’لات‘‘ کی پیشاب گاہ کو چاٹ۔ کیا ہم حضور علیہ السلام سے بھاگ جائیں گے؟ اور آپ علیہ السلام کو چھوڑ دیں گے؟‘‘
واقعہ نمبر:۲
نیز اس کے علاوہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃُ اللہ علیہ نے ’’معارف القرآن‘‘ میں سورۂ ممتحنہ کی پہلی آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ’’بخاری شریف‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’مکہ مکرمہ کی ایک مغنیہ عورت ’’سارہ نامی‘‘ مدینہ منورہ میں آئی ہوئی تھی۔ جب وہ مدینہ سے جانے لگی تو ’’حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ‘‘ نے اسے کفار کے نام ایک خط دیا۔ جو حضور علیہ السلام کے مکہ مکرمہ پر خفیہ حملہ کرنے کے ارادہ پر مشتمل تھا۔ حضور علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، ابومرثد رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تینوں حضرات کو حکم دیا کہ سارہ کے پاس ایک خفیہ خط ہے جو وہ مکہ مکرمہ لے جارہی ہے۔ وہ تمہیں روضۂ خاخ پر ملے گی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے گھوڑوں پر بیٹھ کر اس کا تعاقب کیا۔ ٹھیک وہ ہمیں اسی مقام پر ملی جس مقام کا حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ خط دے دو۔ اس نے انکار کیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہم نے دل میں سوچا کہ حضور علیہ السلام کا فرمان غلط نہیں ہوسکتا۔ خط ضرور اس کے پاس ہے۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا کر اس کی تلاشی لی۔ مگر خط نہ ملا۔ ہم نے اسے کہا کہ خط دے دو۔ ورنہ تیرے کپڑے پھاڑ کر خط لے لیں گے۔ اس پر گھبرا کر اس نے خط دے دیا۔‘‘ (معارف القرآن ج۸ ص۳۹۹، ۴۰۰، بخاری ج۲ ص۶۱۲)
غرضیکہ نبی علیہ السلام کی ہر بات کو سچا ماننا، آپ کی عزت وناموس کا تحفظ کرنا، حتیٰ کہ ماں باپ، آل اولاد، عزیزواقارب، جان ومال سب سے زیادہ آپ علیہ السلام کی ذات سے محبت کرنا مؤمن ہونے کے لئے ضروری ہے۔ حدیث پاک: ’’لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین (بخاری ج۱ ص۷)‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان مرمٹے۔ مگر آپ علیہ السلام کی توہین کو برداشت نہ کرے۔ غرضیکہ آپ علیہ السلام کا دشمنوں کو معاف فرمانا یہ آپ علیہ السلام کا ذاتی معاملہ تھا۔ حضور علیہ السلام کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا یہ ہمارے لئے اہم دینی امر ہے۔ ذاتی دشمن کو معاف کرنے کا ہمیں حق ہے۔ نبی علیہ السلام کے دشمنوں کو معاف کرنا شریعت اس کی امت کو اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جو شخص معاذ اﷲ! توہین رسالت کا ارتکاب کرے اس کی توبہ قبول نہیں۔ اس پر قاضی سزا نافذ کرے گا۔
 
Top