• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزاقادیانی کی تمنائے موت کا جواب​

تحریف نمبر: ۲… ’’ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ ھَادُوْا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَآئُ اللّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ (الجمعہ:۶) ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے اعمال خراب ہوں وہ موت کی تمنا کبھی نہیں کرتا۔ مگر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ:
گر تومی بینی مراپرفسق وشر
گر تو دید استی کہ ہستم بدگہر
پارہ پارہ کن من بدکار را
شادکن ایں زمرۂ اغیار را
(حقیقت المہدی ص۸، خزائن ج۱۴ص۴۳۴)
تحقیق… اس آیت میں یہودیوں کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ وہ کبھی موت کی تمنا یا آرزو نہ کریں گے۔ جیسا کہ : ’’ وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ (بقرۃ:۹۶) ‘‘ سے ظاہر ہے کہ ہر کافر سے موت کی تمنا کرنے کی نفی بیان نہیں کی گئی۔
اور اگر موت کی تمنا کرنی سچائی کی نشانی ہے تو مکہ کے کافر پہلے سچے ہونے چاہئیں۔ جنہوں نے رسول خدا ﷺ کے مقابلہ میں یہ کہاتھا کہ: ’’ وَاِذْقَالُوْا اللَّہُمَّ اِنْ کَاَن ہَذَا ہُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْعَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَائَ (انفال:۳۰) ‘‘
۲… ’’ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖ اِلَّا أَنْ قَالُوْا ائْتِنَا بِعَذِابِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ (عنکبوت:۲۹) ‘‘
اور پھر مرزاقادیانی نے مولوی ثناء اﷲ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مقابلہ میں مفتری اور کذاب سے پہلے مرجانے کی دعا کی تھی جو پوری ہوگئی۔ مرزائی مانیں نہ مانیں مگر ہم تو مرزاقادیانی کو اس میں مستجاب الدعاء سمجھتے ہیں۔
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ
تحریف نمبر: ۳… ’’ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس :۱۶) ‘‘
جواب نمبر:۱… مرزاقادیانی کے دعویٔ مسیحیت ومجددیت وغیرہ کے بعد بجائے دیانت داری، تقویٰ وطہارت کے، کذب بیانی، وعدہ خلافی، خیانت، تحریف قرآنی، انکار معجزات، انکار از نزول ملائکہ، ترک حج، دنیا پرستی، سب وشتم وغیرہ عیوب اس میں نظر آتے ہیں۔ عیاں راچہ بیان!
دعویٰ سے قبل
۱… مرزاقادیانی کے بچپن کے حالات میں گذر چکا ہے کہ وہ گھر سے چوری کرتا تھا۔
۲… جوانی میں دادا کی پنشن وصول کر کے کھا گیا۔
۳… لوگوں سے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدوں کے پیسے لے کر پانچ جلدیں لکھیں۔ پینتالیس جلدوں کے پیسے کھا گیا۔ حرام کھایا۔
۴… حکیم نورالدین کے ساتھ مل کر فراڈ کرتا تھا۔ نورالدین کی مرزاقادیانی کے دعویٰ سے قبل کی شناسائی تھی۔
مرزاقادیانی کے (مکتوبات ج۵ حصہ دوم ص۳۵، مکتوب نمبر۲۵) پر نظر ڈالیں تو ایک نئی بات کا انکشاف ہوگا۔ فریب، دھوکہ، حب مال کا شاخسانہ ہے۔ میرے خیال میں آج تک شاید کسی بڑے سے بڑے فریبی وفراڈی دنیا دار نے یہ چال نہ چلی ہوگی جو ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ اور حکیم نورالدین نے چلی۔ عقل حیران رہ گئی۔ ششد ررہ گیا کہ یا اﷲ! اس طرح کا مکروفریب تو کسی کمینے دنیا دار کو بھی شیطان نے نہ سکھلایا ہوگا۔ بلکہ میرے خیال میں شیطان کو خود یہ تدبیر نہ سوجھی ہوگی جو مرزا غلام احمد قادیانی اور حکیم نورالدین قادیانی کو سوجھی۔ ایسی چال چلی کہ فراڈ کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔
قارئین کرام! انگریز کے زمانہ میں اور اس وقت بھی محفوظ ذرائع سے رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ بھجوانے کے دو طریقے ہیں۔ بینک سے رقم بھجوانا یا ڈاک خانہ سے منی آرڈر وغیرہ کے ذریعہ سے۔ بینک سے رقم بھجوائیں تو ڈرافٹ وغیرہ! اس پر سرچارج اور سروس چارجز ادا کرنے کے علاوہ ڈرافٹ رجسٹرڈ ڈاک سے بھجوانا ہوگا۔ رقم زیادہ ہوتو اس پر خاصہ خرچ آتا ہے۔ منی آرڈر یا تارمنی پر بھی خرچ آتا ہے۔ اب مرزا قادیانی کے پاس حکیم نورالدین اس زمانہ میں کشمیر سے پنجاب قادیان رقم بھجوانا چاہتا ہے۔ رقم بھی خاصی ہے۔ یعنی اس زمانہ میں پانچ سو روپیہ بھارتی جموں وکشمیر سے بھارتی پنجاب قادیان بھجوانی ہے جس زمانہ میں مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر ایم اے کی (سیرت المہدی ج اوّل ص۱۸۲) کے مطابق :’’ایک آنہ کا سیر گوشت ملتا تھا۔‘‘ حساب لگائیں کہ:
۱… ایک روپیہ کے سولہ آنے۔ ایک آنہ کا ایک کلو گوشت۔ تو پانچ سو روپے کا گوشت آٹھ ہزار کلو۔ اس زمانہ میں ملتا تھا۔ آج کل گوشت کی قیمت عموماً چار سو روپے کلو ہے۔ آٹھ ہزار کلو گوشت آج خریدنا چاہیں تو آٹھ ہزار کو چار سو سے ضرب دیں۔ یہ بتیس لاکھ روپیہ بنتا ہے۔
۲… یا یوں حساب لگائیں کہ اس زمانہ کا ایک کلو گوشت ایک آنہ میں جو آج کل چار سو روپے کے برابر ہے۔ سولہ آنہ کو چار سو سے ضرب دیں تو چونسٹھ سو روپیہ بنتا ہے۔ گویا اس زمانہ کا ایک روپیہ آج کل کے چونسٹھ سو روپیہ کے برابر ہے۔ اس زمانہ کے پانچ صد روپیہ کی رقم آج کل کے حساب سے لگانی ہو تو چونسٹھ صد کو پانچ صد سے ضرب دیں۔ تو نتیجہ وہی بتیس لاکھ روپیہ ہوتا ہے۔
چلیں حساب ہوگیا۔ بتیس لاکھ آج بینک سے یا ڈاکخانہ سے بھجوانے ہوں تو جتنا خرچہ آئے گا اتنا خرچہ ’’نورالدین قادیانی‘‘ کو پانچ صد روپیہ پر اس زمانہ میں خرچ کرنا پڑتا۔ آج کل مہنگائی کے چکر کو قادیانی نہ روئیں۔ حکیم نورالدین کے چکر کو دیکھیں کہ اس زمانہ میں پانچ صد روپیہ بھجوانے پر دس بارہ روپے بھی اس دور میں خرچ ہوتے تو روپے کے حساب کو سامنے رکھیں تو اس زمانہ کے دس بارہ روپے بھی آج کل کے حساب سے خاصی رقم تھی۔ ’’مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین قادیانی‘‘ اس خاصی رقم سے بچنے کے لئے کیا چال چلتے ہیں؟۔
سوچا کہ اگر پانچ صد روپیہ کا نوٹ لفافہ میں ڈال کر بھیج دیں۔ ظاہر ہے کہ اس دور میں بھی آج کل کی طرح لفافہ میں نوٹ ڈال کر بھیجنا خلاف قانون تھا۔ اور یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں لفافہ سنسر ہوگیا یا کسی نے کھول کر پانچ صد روپیہ کا نوٹ نکال لیا تو ’’مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین‘‘ دنیا داربنئے کی طرح جو دس بارہ روپے خرچ نہیں کرتے وہ پانچ صد روپے ضائع ہونے یا نکال لینے پر ویسے ہی آنجہانی ہوجاتے۔
حکیم نورالدین نے ’’باہمی مشورہ‘‘ سے (اس باہمی مشورہ کے لفظ کو یاد رکھیں۔اس کی خبر بعد میں لیں گے۔ پہلے مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین کی خبر قادیانی لے لیں!) نورالدین نے پانچ صد روپے کے نوٹ کے دو ٹکڑے کئے۔ ایک ٹکڑا بیکار ہے۔ اسے بھیجنا قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ اس لئے کہ ردی کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ کوئی کھولے بھی تو ردی کاغذ کا ٹکڑا اس کے کس کام کا؟۔ پہنچ گیا آدھا ٹکڑا نوٹ کا، قادیان۔ اب مرزا قادیانی نے اسے محفوظ کرکے ’’حکیم نورالدین‘‘ کو خط سے اطلاع دی کہ پانچ صد روپیہ کے نوٹ کا ایک قطعہ مل گیا ہے۔ اب دوسرا بھیج دیں۔ لیکن احتیاط کریں۔ بارشیں ہیں۔ بارش میں بھیگ کر ضائع نہ ہوجائے۔ اس لئے کہ آج کل کی طرح ڈاکئے اس زمانہ میں بھی عام ڈاک کی زیادہ احتیاط نہ کرتے تھے۔ اب کے دوسرا ٹکڑا بھیج دیں۔ لیکن رجسٹرڈ ڈاک سے۔ قادیان پہنچ گیا دوسرا ٹکڑا۔ اب پانچ صد روپیہ کا نوٹ جوڑ کر مرزا قادیانی قادیان میں اور حکیم نورالدین کشمیر میں اس کامیاب ’’انوکھے فراڈ‘‘ پر جشن منائیں اور صدارت کرے اس جشن کی ابلیس، اور مبارک باد دے۔ باپ، بیٹے، مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین کو کہ آپ نے وہ کر دکھایا جو آج تک میرے کسی چیلے کو کیا خود مجھے بھی نہ سوجھی تھی۔قارئین کرام! انتظار کی زحمت کو معاف فرمائیں اور پڑھیں مرزا قادیانی کے مکتوب کو:
مخدومی ومکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ
’’آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سوروپیہ پہنچ گیا۔ چونکہ موسم برسات کا ہے۔ اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑہ رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرمائیں تو انشاء اﷲ روپیہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے۔‘‘
خاکسار غلام احمد از قادیان۱۱جولائی۱۸۸۷ء
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ دوم ص۳۵مطبوعہ راست گفتار پریس امرتسر)
اب قادیانیوں سے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول ﷺ کے نام پر۔ نہیں تو شرف انسانیت کے نام پر (ان سے) اپیل ہے کہ وہ ہماری تمہیدات اور مرزا قادیانی کے خط کے مندرجات کو بار بار ٹھنڈے دل سے پڑھیں کہ ایسے فراڈ ئے مذہبی رہنما تھے؟۔ یا فراڈ کے چمپئن اور شیطان کے کان کترنے والے ٹھگ اور مکار؟۔
ہماری تلخ نوائی کو قادیانی معاف کریں۔ ہم جب مرزا قادیانی کے ان بیہودہ افعال اور کفریہ اقوال کو دیکھتے ہیں اور پھر آپ لوگوں کی سادگی، تو یہ امر ہمیں تلخ نوائی پر مجبور کردیتے ہیں۔ ’’باہمی مشورہ‘‘ کا لفظ اس لئے لکھا کہ مرزا قادیانی نے لفافہ کھولتے ہی پانچ صد روپیہ کے ایک ٹکڑا کو دیکھتے ہی کوئی تعجب نہیں کیا۔ بلکہ جھٹ سے اس کے ملنے کی اطلاع یابی کے لئے خط لکھ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام دونوں نے ’’باہمی مشورہ‘‘ سے کیا۔ فرمائیے آپ کی کیا رائے ہے؟۔
ایک اور امر رہ جاتا ہے کہ کیا وہ دوسرا ٹکڑا پانچ صد روپیہ کا نورالدین نے ’’کشمیر‘‘ سے ’’قادیان‘‘ مرزا قادیانی کوبھیجا اس کا جواب اسی کتاب کے اسی صفحہ پر موجود ہے کہ مرزا قادیانی نے دوسرے مکتوب (نمبر۲۶)میں لکھا ہے کہ: ’’آج نصف قطعہ (دوسرا) نوٹ پانچ سو روپیہ بذریعہ رجسٹری شدہ پہنچ گیا۔‘‘ اس دوسرے ٹکڑا نوٹ پانچ صد ملنے کی اطلاع یابی کے خط پر ۲۶؍جولائی۱۸۸۷ء ہے۔ گویا پندرہ دنوں میں دونوں کامیاب فراڈ کرکے فارغ ہوگئے۔ اس فراڈ کو اب ’’مرزا قادیانی اور نورالدین‘‘ نے کاروبار بنالیا۔ چنانچہ نورالدین نے دوصد چالیس روپے اس کے بعد مرزا قادیانی کو بھجوائے۔ لیکن نوٹوں کے آدھے آدھے حصے تھے۔ جب وہ مل گئے تو پھر اسی دو صد چالیس کے نوٹوں کے دوسرے باقیماندہ ٹکڑے بھجوادئیے۔ چنانچہ ۳۱؍اکتوبر ۱۸۸۷ء کے ’’مکتوب بنام نورالدین‘‘ میں مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’بقیہ نصف نوٹ دوصد چالیس روپیہ بھی پہنچ گئے۔‘‘ (مکتوبات ج۵ نمبر۲ص۴۵)
قارئین کرام! اس سے کہیں زیادہ درد ناک پہلو یہ ہے کہ اس کارستانی ’’کارشیطانی‘‘ پر مرزا قادیانی، حکیم نورالدین کو لکھتا ہے کہ:’’ اور میں نہایت ممنون ہوں کہ آںمکرم بروش صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دل سے اور پورے جوش سے نصرت اسلام میں مشغول ہیں۔‘‘ (مکتوبات ج۵ نمبر۲ص۴۵)
لیجئے! اب حکیم نورالدین صحابی بن گیا اور مرزا غلام احمد قادیانی نبی بن گیا۔ (معاذاﷲ) کیا قادیانیوں میں کوئی اﷲ کا بندہ ایسا ہے جو اس انوکھے فراڈ کے کیس پر توجہ کرکے فراڈ نرا فراڈ یعنی قادیانیت سے تائب ہوجائے؟
مرزاقادیانی کے بیس برس مرید خاص رہے۔ ڈاکٹر عبدالحکیم خان، انہوں نے کہا کہ مرزامسرف وکذاب ہے۔ الٰہی بخش، میر عباس سب کا یہی حال تھا۔ اس زمانہ کے وہ لوگ جو مرزاقادیانی کے حالات جانتے تھے۔ جیسا کہ گذرچکا انہوں نے مرزاقادیانی کو رشوت وحرام مال کھانے والا کہا۔ مرزاقادیانی شراب منگواتا تھا۔ جیسا کہ ’’خطوط امام بنام غلام‘‘ سے ظاہر ہے۔ مرزاقادیانی غیرمحرم عورتوں سے اختلاط رکھتا تھا۔

صدق نبوت کی ایک دلیل​

ایسی زاہدانہ زندگی جس میں اوّل سے آخر تک کوئی تفاوت نہ ہو۔ غربت اور امارت کے زمانہ میں یکساں طرز عمل، اور دولت دنیا سے بے تعلقی بے اثری خود مرزاقادیانی کے نزدیک نبوت محمدی کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ وہ لکھتا ہے اور پھر جب مدت مدید کے بعد غلبۂ اسلام کا ہوا تو ان دولت واقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی، کوئی یادگار تیار نہ ہوئی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش وعشرت تجویز نہ کیاگیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبرگیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہوکر کھانا نہ کھایا۔

دین کا داعی یا سیاسی قائد؟​

اب ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر جو خود مرزاقادیانی نے ہم کو دیا ہے اور جو مزاج نبوت کے عین مطابق ہے۔ ہم خود مرزاقادیانی کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم کو اس مطالعہ میں نظر آتا ہے کہ جب ان کی تحریک پھیل گئی، اور وہ ایک بڑے فرقہ کے روحانی پیشوا اور اس کی عقیدتوں اور فیاضانہ اولوالعزمیوں کا مرکز بن گئے، تو ان کی ابتدائی اور اس آخری زندگی میں بڑا فرق نمایاں ہوا۔ ہمیں اس موقع پر ان کے حالات دین کے داعیوں اور مبلغوں اور درس گاہ نبوت کے فیض یافتہ نفوس قدسیہ سے الگ سیاسی قائدین اور غیردینی تحریکوں کے بانیوں سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ چیز ان کے مخلص ومقرب ساتھیوں کے لئے بھی اضطراب کا باعث ہوئی اور دل کی بات زبانوں پر آنے لگی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزاقادیانی کی خانگی زندگی​

مرزاقادیانی کی خانگی زندگی جس ترفہ اور جیسے تجمل اور تنعم کی تھی۔ وہ راسخ الاعتقاد متبعین کے لئے بھی ایک شبہ اور اعتراض کا موجب بن گئی تھی۔ ’’خواجہ کمال الدین صاحب‘‘ نے ایک روز اپنے مخصوص دوستوں کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا کہ ان کے گھر کی جوبیبیاں مرزاقادیانی کے گھر کی رہائش اور معیار زندگی دیکھ چکی ہیں۔ وہ کس طرح سے ایثار وقناعت اور سلسلہ کی اشاعت وترقی کے لئے اپنی ضرورتوں سے پس انداز کر کے روپیہ بھیجنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ مولوی محمد علی (امیر جماعت احمدیہ لاہور) اور قادیانی جماعت کے مشہور عالم مولوی سرور شاہ قادیانی سے کہا: ’’میرا ایک سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں آتا۔ میں اسے پیش کرتا ہوں۔ آپ اس کا جواب دیں۔ پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ علیہم السلام وصحابہe والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم وخشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اﷲ کی راہ میں دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے۔ لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا، تو واپس آکر ہمارے سر پر چڑھ گئیں، کہ تم تو بڑے جھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان میں جاکر خود انبیاء وصحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے، اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ کمایا ہوا ہوتا ہے، اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے، وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے۔ لہٰذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر اس عرصۂ دراز تک ہم کو دھوکا دیتے رہے، اور آئندہ ہرگز ہم تمہارے دھوکے میں نہ آویں گی۔ پس وہ اب ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں۔‘‘
خواجہ صاحب نے یہ بھی فرمایا: ’’ایک جواب تم لوگوں کو یاد کرتے ہو۔ پھر تمہارا وہ جواب میرے آگے نہیں چل سکتا۔ کیونکہ میں خود واقف ہوں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۳)
اور پھر بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا۔

مالی اعتراضات​

معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں ان کی نگرانی میں لنگر کا جو انتظام تھا۔ اس سے بہت سے مخلصین مطمئن نہیں تھے۔ ان کے نزدیک اس میں بہت سی بے عنوانیاں ہوتی تھیں۔ اس بحث نے بہت طول کھینچا۔ معترضین میں خواجہ کمال الدین پیش پیش تھے اور مولوی محمد علی بھی ان کے مؤید تھے۔ خواجہ کمال الدین نے ایک موقع پر مولوی محمد علی سے کہا: ’’یہ کیسے غضب کی بات ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ قوم کا روپیہ کس محنت سے جمع ہوتا ہے اور جن اغراض قومی کے لئے روپیہ دیتے ہیں۔ وہ روپیہ ان اغراض میں صرف نہیں ہوتا۔ بلکہ بجائے اس کے شخصی خواہشات میں صرف ہوتا ہے اور پھر وہ روپیہ بھی اس قدر کثیر ہے کہ اس وقت جس قدر قومی کام آپ نے شروع کئے ہوئے ہیں اور روپیہ کی کمی کی وجہ سے پورے نہیں ہوسکے اور ناقص حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لنگر کا روپیہ اچھی طرح سے سنبھالا جائے تو اکیلے اسی سے وہ سارے کام پورے ہوسکتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵)
یہ اعتراضات مرزاقادیانی کے کان تک بھی پہنچے اور انہوں نے اس پر بڑی ناگواری وناراضگی کا اظہار کیا۔ مولوی سرور شاہ لکھتا ہے: ’’مجھے پختہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے بہت اظہار رنج فرمایا ہے کہ باوجود میرے بتانے کے کہ خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے اور اگر اس کے خلاف ہوا تو لنگر بند ہو جائے گا۔ مگر یہ خواجہ وغیرہ ایسے ہیں کہ باربار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵)
خود مرزاقادیانی نے اپنے انتقال سے کچھ پہلے اس مالی الزام کا تذکرہ اور اس پر اپنے رنج وملال کا اظہار کیا۔
مرزابشیرالدین، مولوی حکیم نورالدین کے نام ایک خط میں لکھتا ہے: ’’حضرت صاحب نے اپنی وفات سے پہلے جس دن وفات ہوئی اس دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہا کہ خواجہ (کمال الدین) اور مولوی محمد علی وغیرہ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں۔ ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب، مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے کہ لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے۔ باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھر میں آکر آپ نے بہت غصہ ظاہر کیا۔ کہا: کہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں۔ ان کو اس روپیہ سے کیا تعلق۔ اگر آج میں الگ ہو جاؤں تو سب آمدن بند ہو جائے۔‘‘
پھر خواجہ صاحب نے ایک ڈیپوٹیشن کے موقع پر جو عمارت مدرسہ کا چندہ لینے گیا تھا۔ مولوی محمد علی سے کہا کہ حضرت (مرزاقادیانی) صاحب آپ تو خوب عیش وآرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے خرچ گھٹا کر بھی چندہ دو، جس کا جواب مولوی محمد علی نے یہ دیا کہ ہاں اس کا انکار تو نہیں ہوسکتا۔ لیکن بشریت ہے۔ کیا ضرور کہ ہم نبی کی بشریت کی پیروی کریں۔ (حقیقت الاختلاف ص۵۰)

آمدنی کے نئے نئے ذرائع​

مرزاقادیانی ہی کی زندگی میں قادیان کے ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں جگہ پانے کے لئے جو شرائط وضع کی گئیں اور ایک قبر کی جگہ کے لئے جو گراں قدر قیمت اور نذرانہ رکھاگیا اور اس کا جس ترغیب وتشویق کے ساتھ اعلان کیاگیا۔ اس نے قرون وسطیٰ کے ’’ارباب کلیسا‘‘ کے ’’پروانہ غفران‘‘ کے بیع وشراء اور جنت کی قبالہ فروشی کی یاد تازہ کر دی، اور مرکز قادیان کے لئے آمدنی کا ایک وسیع ومستقل سلسلہ شروع ہوگیا، اور وہ رفتہ رفتہ سلسلۂ قادیانیت کا ایک عظیم محکمہ بن گیا۔ قادیان کے ترجمان ’’الفضل‘‘ نے اپنی ایک اشاعت میں صحیح لکھا ہے کہ: ’’مقبرۂ بہشتی اس سلسلہ کا ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے اور ایسا عظیم الشان انسٹیٹیوشن یعنی محکمہ ہے جس کی اہمیت ہر دوسرے محکمہ سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۲۴ نمبر۲۵، مورخہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۶ء)

قادیان اور ربوہ کی دینی ریاست​

اس سارے آغاز کا انجام یہ ہوا کہ ’’تحریک قادیانیت‘‘ کا مرکز قادیان اور تقسیم ہند کے بعد سے اس کا جانشین ’’ربوہ‘‘ ایک اہم دینی ریاست بن گیا۔ جس میں قادیان کے خاندان نبوت اور اس کے صدر نشین ’’مرزابشیرالدین محمود‘‘ کو امارت وریاست کے وہ سب لوازم ایک مذہبی آمر اور مطلق العنان فرمانروا کے سب اختیارات اور خوش باشی وعیش کوشی کے وہ سب مواقع مہیا ہیں۔ جو اس زمانہ میں کسی بڑے سے بڑے انسان کو مہیا ہو سکتے ہیں۔ اس دینی وروحانی مرکز کی اندرونی زندگی اور اس کے امیر کی اخلاقی حالت ’’حسن بن صباح‘‘ باطنی کے ’’قلعۂ الموت‘‘ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ جو پانچویں صدی ہجری میں مذہبی استبداد اور عیش وعشرت کا ایک پراسرار مرکز تھا۔

دور حاضر کا مذہبی آمر اور انگریز​

پھر اگر قادیانیوں کو مرزاقادیانی کی زندگی پیش کرنے کا شوق ہے تو مرزاقادیانی نے جو خود اپنا مقصد زندگی بیان کیا ہے۔ وہ ذیل میں ملاحظہ کیا جائے۔ مرزاقادیانی نے باربار اپنی وفاداری، اور اخلاص، اور اپنی خاندانی خدمات، اور انگریزی حکومت کی تائید وحمایت میں اپنی سرگرمی اور انہماک کا ذکر کیا ہے، اور ایک ایسے زمانے میں جب مسلمانوں میں دینی حمیت کو بیدار کرنے کی سخت ضرورت تھی۔ باربار جہاد کے حرام وممنوع ہونے کا اعلان کیا۔ یہاں پر نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند عبارتیں اور اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔ ایک جگہ مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید وحمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور ’’مہدی خونی‘‘ اور ’’مسیح خونی‘‘ کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
اپنی کتاب (شہادت القرآن ص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰) کے آخر میں لکھتا ہے: ’’میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں۔ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کرے۔ دوسرے اس سلطنت کی کہ جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
(اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص۳، کتاب شہادۃ القرآن کے آخر میں)
ایک درخواست میں جو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء کو پیش کی گئی تھی، لکھتا ہے: ’’دوسرا امر قابل گذارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر کو پہنچا ہوں، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ تا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کروں۔ جو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں… اور میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں پر میری تحریروں کا بہت ہی اثر ہوا اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’میں نے بیسیوں کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگز جہاد درست نہیں۔ بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلاد اسلام میں پہنچائیں اور میں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی سے لبالب ہیں۔ ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لئے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لئے دلی جان نثار۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۶،۳۶۷)
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی۔ وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں، اور رسائل، اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلام میں اس مضمون کے شائع کئے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اس گورنمنٹ کی سچے دل سے اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکرگزار اور دعاگو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو، فارسی، عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکے اور مدینے میں بھی بخوبی شائع کردیں اور روم کے پایۂ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی گئی۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ’’برٹش انڈیا‘‘ کے تمام مسلمانوں میں اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا۔‘‘ (ستارہ قیصریہ ص۳،۴، خزائن ج۱۵ ص۱۱۴)
مزید اس آیت سے متعلق جوابات ملاحظہ فرمائیں۔ جس سے ’’مرزاغلام احمد قادیانی‘‘ کا کذب ودجل آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔
جواب نمبر:۲… ’’ہرقل شاہ روم‘‘ نے عرب وفد سے حضور ﷺ کے بارے میں جو سوال کئے۔ ان میں سے بعض آپ ﷺ کی بعثت سے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً کیا آپ ﷺ کے متبعین میں سے کوئی آپ کے دین سے ناراض ہوکر آپ سے علیحدہ ہوا ہے؟ اور کیا آپ کے متبعین بڑھتے جارہے ہیں یا کم بھی ہوتے جاتے ہیں؟
صحابہe نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ہرقل کی اس سوچ پر کسی قسم کی نکیر نہیں کی۔
جواب نمبر:۳… اس دلیل میں قادیانی مبلغ نے مرزاقادیانی کو حضور ﷺ پر قیاس کرنے کی گستاخی کی ہے۔ اس کے جواب میں ہم مرزاقادیانی کی یہ عبارت پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں: ’’ماسواء اس کے جو شخص ایک نبی متبوع کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اﷲ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ناسمجھی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹، خزائن ج۵ ص۳۳۹)
لہٰذا مرزاقادیانی کو ہم حضور علیہ السلام پر قیاس نہیں کر سکتے۔
جواب نمبر:۴… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’ فَلَا تَقِیْسُوْنِیْ عَلٰی أَحْدٍ وَلَا أَحْدًا بِیْ پس مجھے کسی دوسرے کے ساتھ مت قیاس کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۲۰، خزائن ج۱۶ ص۵۲)
اس لئے مرزائیوں کو آنحضرت ﷺ پر مرزاقادیانی کو قیاس کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو مرزاقادیانی کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے۔
جواب نمبر:۵… بعثت سے قبل اور بعثت کے بعد نبی کی دونوں قسم کی زندگی پاک اور بے داغ ہوتی ہے۔ پہلی زندگی کو بے داغ ثابت کرنا اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے اگلی زندگی کو بے داغ بتایا جائے اور دعویٰ نبوت کو صحیح مانا جائے۔
بعثت کے بعد کی زندگی کو موضوع بحث بنانے سے فرار اختیار کرنا نہایت ہی کمزور بات ہے، اور یہ اس پر دال ہے کہ اس کی زندگی میں واقعی کچھ کالا ضرور ہے۔
جواب نمبر:۶… مرزاقادیانی نے اپنی پہلی زندگی میں انگریز کی عدالت میں مقدمہ لڑ کر کچھ مالی وراثت حاصل کی۔ حالانکہ نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا۔ ’’ نَحْنُ مَعْشَرُ الْاَنْبِیَآئِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ ‘‘ ہم جماعت علیہم السلام نہ کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے۔
جواب نمبر:۷… یہ حقیقت ہے کہ نبی کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک ہوتی ہے اور دعویٰ نبوت کے بعد کی زندگی بھی بے داغ اور صاف ہوتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس کی پہلی زندگی پاک وصاف اور بے داغ اور بے عیب ہو وہ نبی بھی ہو جائے۔ جس طرح نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شاعر نہ ہو وہ کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے۔ جھوٹ نہ بولتا ہو، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی شاعر نہ ہو، کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو وہ نبی بھی ہو جائے۔ کیونکہ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو آج ہزاروں ایسے ملیں گے جو اپنی پہلی زندگی کے پاک وصاف ہونے کے مدعی ہیں۔ کیا ان سب کو نبی مانا جائے گا؟
جواب نمبر:۸… مرزاقادیانی خود تسلیم کرتا ہے کہ علیہم السلام کے علاوہ کوئی معصوم نہیں اور نہ ہی میں معصوم ہوں اور یہ مسلم قاعدہ ہے۔ ’’ أَلْمَرْئُ یُؤَخِذُ بِاِقْرَارِہٖ ‘‘ کہ آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن افسوس کہ بٹالوی صاحب نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے نہ کسی انسان کو بعد علیہم السلام کے معصوم ہونے کا دعویٰ ہے۔‘‘ (کرامات الصادقین ص۵، خزائن ج۷ ص۴۷)
’’سیرت المہدی‘‘ میں سات صد روپیہ پنشن کی رقم کے اڑائے۔ حوالہ گذر چکا ہے۔
کیا یہ اپنے معصوم نہ ہونے کا کھلا اقرار نہیں؟ بچے تھے کہ کوئی دھوکہ دے سکتا ہے یا پھسلا سکتا ہے؟ اور پھر ادھر ادھر پھرانے کا کیا مطلب ہے؟ یہ بات تو قطعی ہے کہ کسی دینی کام یا مسجد ومدرسہ میں نہیں گئے ہوںگے اور نہ یہ رقم کسی اچھی جگہ خرچ کی ہوگی۔ ’’ادھر ادھر‘‘ سے اگر بازار حسن مراد نہیں تو اور کون سی جگہ ہوگی جو مرزاقادیانی کو پسند آئی ہوگی۔ اگر یہ کوئی شرمناک وارداتیں نہ تھیں تو مرزاقادیانی کو شرم کیوں آئی جو وہ سیالکوٹ بھاگ گئے؟
اب مرزائیوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اتنی خطیر رقم کا حساب دیں کہ کہاں کہاں خرچ ہوئی؟ بصورت دیگر مرزاقادیانی کی عصمت باقی نہیں رہتی اور یہ دعویٰ کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت سے قبل کی زندگی بالکل بے داغ تھی۔ بالکل باطل ہو جاتا ہے۔
جواب نمبر:۹… محمد عربی ﷺ نے سب سے پہلے اپنے قریب کے آدمیوں کوبلا کر ان کے سامنے اپنی صفائی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یک زبان ہوکر اعلان کیا: ’’ جَرَّبْنَاکَ مِرَارًا فَمَا وَجَدْنَا فِیْکَ اِلَّاصِدْقً ا‘‘ کہ ہم نے باربار آپ کو آزمایا اور ہر بار ہم نے آپ ﷺ میں سچائی ہی پائی۔
اس کے برعکس مرزاقادیانی نے اپنی صفائی مولوی محمد حسین بٹالوی (آئینہ کمالات اسلام ص۳۱۱، خزائن ج۵ ص۳۱۱) سے پیش کروائی ہے جو کہ کچھ عرصہ ہی اس کے ساتھ رہے تھے۔ پھر وہ مرزاقادیانی کے شہر اور گاؤں کے رہنے والے بھی نہ تھے اور اس میں بھی شک نہیں ہوسکتا کہ مرزاقادیانی کی حقیقت واضح ہونے پر انہوں نے اپنی سابقہ تحریر سے رجوع کر لیا۔ (دیکھئے آئینہ کمالات اسلام حوالہ مذکورہ) اسی طرح حضور ﷺ کی صفائی آپ کے قبیلہ کے سردار حضرت ابوسفیانرضی اللہ عنہ نے ہر قل بادشاہ کے سامنے اسلام لانے سے قبل پیش کی تھی اور اسی طرح حضرت خدیجہt جو آپ ﷺ کی رفیقۂ حیات ہیں۔ انہوں نے آپ کی پہلی زندگی کی صفائی پیش کی۔ جب حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آپ ﷺ کی طرف پہلی دفعہ تشریف لائے تھے اور اسی طرح آپ ﷺ کی آخری اور پوری زندگی کی صفائی حضرت عائشہ صدیقہt پیش کر رہی ہیں۔ ’’ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ ‘‘ آپ ﷺ کا اخلاق قرآن ہے۔‘‘

اظہار غیب​

تحریف نمبر:۴… ’’ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (الجن:۲۶،۲۷) ‘‘
اس آیت مبارکہ کی مکمل اور شافی تفصیل (قادیانی شبہات کے جوابات جلد اوّل ص۱۴۴ تا ۱۴۷)پر ملاحظہ فرمائیں۔

سلسلہ کی حفاظت وغلبہ​

تحریف نمبر:۵… ’’ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ (انعام:۲۱) ‘‘
۲… ’’ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (مجادلہ:۲۱) ‘‘
۳… ’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر:۹) ‘‘
اور وہ اپنے سلسلہ کی خود حفاظت کرتا ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ بدکار اور گنہگار کو کبھی کامیاب نہیں کرتا۔ مگر مرزا قادیانی کی جماعت روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس کو اپنی سکیم میں بڑی کامیابی نصیب ہوئی اور دشمن پر ان کا غلبہ ہورہا ہے۔
تحقیق… معنے آیت کے یہ ہیں کہ بدوں کو اگرچہ ابتداء میں کچھ کامیابی نظر آتی ہے۔ لیکن انجام کار وہ ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں، اور ان کا جھوٹ سب پر ظاہر ہوجاتا ہے، اور آخرت میں ان کو عذاب دیا جاتا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں آنے والے ساحروں کے ساتھ حکومت کی امداد تھی۔ لیکن حق غالب ہوکر رہا اور ابتداء میں سوائے اظہار حق کے فرعونیوں کے مرنے یا ہلاک ہونے کے ساتھ غلبہ کا اظہار نہیں تھا۔ بلکہ ظاہر نظر میں موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ساحروں کو پھانسی کی سزا دے کر فرعون نے اپنا غلبہ بحال رکھا۔ لیکن جب حق وباطل کے فیصلہ کا وقت آیا تو فرعون مع اپنے لشکر کے ہلاک ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام مع اپنے ساتھیوں کے صحیح سلامت زندہ رہے۔ مرزا قادیانی کے دعویٔ باطلہ کا انکشاف اچھی طرح ہوچکا ہے اور بارہا حق کے مقابلہ میں مرزا قادیانی کو شکست ہوچکی ہے۔ اگر عیش کی زندگی اور کثرت تعداد صداقت کی نشانی ہے تو دنیا کے تمام فرق باطلہ سچے ہونے چاہئیں؟ کیونکہ ان کی تعداد ہر زمانہ میں مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ اور دولت مند ہوتی چلی آئی ہے اور اﷲ تعالیٰ کافروں کی بھی حفاظت کرتا ہے اور ان کی ترقی بھی ہوتی ہے تو وہ بھی خدائی سلسلہ ہونا چاہئے؟لاحول ولاقوۃ الاباﷲ!

مرزاقادیانی اور مخالفین​

تحریف نمبر:۶… ’’ وَاِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ (مؤمن:۲۸) ‘‘ مرزا قادیانی جو کچھ دشمنوں کے لئے کہتا رہا وہ بات پوری ہوتی رہی۔
تحقیق… اس آیت کی رو سے تو مرزا قادیانی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جتنی وعیدیں مرزا قادیانی نے اپنے مخالفوں کے حق میں کی تھیں وہ اس پر وارد ہوتی رہیں۔
مثلاً: مرزا غلام احمد قادیانی نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق کہا: کہ اس عاجز نے آخری فیصلہ کے طور پر ایک اشتہار شائع کیا جس کا متن (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۵۷۹) پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
جس میں مرزا قادیانی نے کہا: ’’کہ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہوجائوں گا۔‘‘ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ء میں آنجہانی ہوگیا اور مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد ۹سال تک زندہ سلامت باکرامت رہے۔
اسی طرح عبداﷲ آتھم عیسائی پادری سے متعلق مرزا غلام احمد قادیانی نے الہام جڑا تھا۔ جس کی تفصیل (جنگ مقدس ص۲۰۹تا۲۱۱، خزائن ج۶ص۲۹۱تا۲۹۳) پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس میں لکھا ہے۔
’’وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بہ سزائے موت ہاویہ میں گرایا جائے گا۔‘‘ لہٰذا مرزا غلام احمد قادیانی اس عیسائی پادری کے مقابلہ میں بھی جھوٹا ہوا اور دشمن اسی مدت کے اندر ہاویہ میں نہ گرا۔ بلکہ مرزاناکامی کے ہاویہ میں گرادیاگیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے مخالفوں میں ایک نام ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی صاحب کا بھی ہے جو پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کے مخلص مرید تھے۔ مگر احقاق حق ہونے کے بعد ابطال باطل میں ایسے لگے کہ مرزا قادیانی کے کفریہ عقائد ونظریات کو طشت از بام کرنے میں لگ گئے اور مرزائیت کے تار پود بکھیردئیے اور کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی اگست ۱۹۰۸ء سے پہلے مرجائے گا۔ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۵۹۱)
چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی مئی ۱۹۰۸ء میں مرگیا ؎
خس کم جہاں پاک شد
اسی طرح مرزا قادیانی اور مشہور عالم دین مولانا عبدالحق غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان ۱۰؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ بمطابق ۱۴؍مئی ۱۸۹۳ء کو امرتسر کی عیدگاہ میں مباہلہ ہوا۔ مباہلہ اس امر پر ہوا کہ مولانا نے کہا: کہ مرزا قادیانی اور اس کے سب متبعین دجال، کافر، ملحد اور بے دین ہیں۔ واضح رہے کہ مرزا قادیانی نے اپنے مرنے سے سات ماہ ۲۴دن قبل ۲؍اکتوبر۱۹۰۷ء کو یہ اصول بیان کیا تھا کہ: ’’مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہوجاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات ج۹ص۴۴۰)
خدا کی مشیت کہ اسی اصول کے مطابق مرزا قادیانی مولانا غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل بمرض ’’وبائی ہیضہ‘‘ ہلاک ہوگیا اور مولانا غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد پورے نوسال بقید حیات رہے۔ ۱۶؍مئی ۱۹۱۷ء کو راہی ملک بقاء ہوئے(رحمہ اﷲ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ) اس اعتبار سے مرزا قادیانی خود اپنے مباہلہ اور بیان کردہ اصول کے مطابق جھوٹااور مفتری قرار پایا۔ اس کے بعد مزید کسی شہادت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

اسمہ کا مصداق مرزا​

تحریف نمبر: ۷… ’’ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ بَعْدِی اِسْمُہٗ اَحْمَدْ (الصف:۶) ‘‘ اگر بعینہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے تشریف لائیںگے تو رسول اﷲ ﷺ پہلے اور عیسیٰ بعد میں ہو جائیںگے۔ باوجود یہ کہ آیت میں رسول اﷲ ﷺ پہلے اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد مذکور ہے۔
تحقیق… آیت میں بعد سے بعدیت زمانی یا مغائرت مراد نہیں۔ کیونکہ غزوۂ تبوک پر جاتے ہوئے جب حضرت علیرضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے مدینہ کا امیر مقرر کیا اور غزوہ میں اپنے ساتھ نہ لینے سے حضرت علیرضی اللہ عنہ کو رنجیدہ دیکھا تو ان کو تسلی دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایاتھا کہ: ’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی وَلٰکِنَ لَّا نَبِیَّ بَعْدِیْ (بخاری ج۱ ص۴۲۰ مناقب حضرت علیرضی اللہ عنہ ) ‘‘ اگر بعد سے مراد بعدیت زمانی ہے تو حضرت علیرضی اللہ عنہ سے نبوت کی نفی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ حضور ﷺ ہی کے زمانہ میںاور آپ ہی کے سامنے موجود تھے۔ باوجود یہ کہ آیت میں دونوں باتوں کی نفی کرنی مقصود ہے، اور لفظ لکن کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میںہارون علیہ السلام نبی تھے۔ مگر اے علیرضی اللہ عنہ تو نبی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ میرے علاوہ کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا، اور ایسے ہی مغائرت کے معنے بھی نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ حضرت علیرضی اللہ عنہ رسول خدا ﷺ کے تابع اور موافق تھے۔ مستقل مخالف نہیں تھے اور بحیثیت تابع ہونے ہی کے ان سے نبوت کی نفی کی گئی ہے۔ اس لئے بعد سے مراد یا دوسرا نبی ہے۔ یعنی سلسلۂ نبوت میں کوئی اور نبی آنے والا باقی نہیں رہا۔ اس لئے اے علیرضی اللہ عنہ تو بھی نبی نہیں ہوسکتا۔ اس میں پہلے نبی کے زندہ موجود ہونے رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ میں آنے کی نفی نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں ہے کہ: ’’ لَوْکَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَّمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اِتِّبَاعِیْ (مشکوٰۃ ص۳۰ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) ‘‘
’’اگر آج موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو میری ہی اتباع کرنی پڑتی۔‘‘ معلوم ہوا کہ پہلا نبی حضور ﷺ کے زمانہ یا بعد میں موجود ہوسکتا ہے اور اس سے ختم نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
آیت مذکورہ بالا میں بعدی کے یہی معنے ہیں کہ سلسلہ نبوت میں آنے والا نبی صرف احمد مجتبیٰ ﷺ رہ گئے۔ ولاغیر!
یہاں بعد کے معنے غیر کے ایسے ہی ہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہیں: ’’ قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ أَقُتِلَ مِنْ بَعْدِنَا مِنَ الطُّلَقَاء ‘‘ نووی نے مسلم کی شرح میں ’’من بعدنا‘‘ کے معنے میں’’سوانا‘‘ کئے ہیں۔ اسی طرح ’’ أَوَّلْتُہُمَا کَذَّابَیْنِ یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ أَحَدُہُمَا عَنْسِیُّ وَالْاٰخِرُ مُسَیْلَمَۃُ ‘‘ میں بعدی سوائی کے معنوں میں ہے۔ ورنہ اسود عنسی اور مسیلمہ دونوں نے نبی عربی ﷺ کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کیاتھا۔ جیسا کہ بخاری کی دوسری روایت کے الفاظ ’’ اَلْکَذَّابَیْنِ الَّذَیْنِ اَتَابَیْنَہُمَا ‘‘ سے ظاہر ہے۔ د وسری آیت ’’ کَذَلِکَ اَرْسَلْنَکَ فِیْ اُمَّۃٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہَا اُمَمٌ (رعد:۳۰) ‘‘ میں یہودونصاریٰ کو امم قبل، اور اس امت کو مابعد کہا ہے۔ لیکن باوجود اس بات کے امم ماضیہ اسی طرح موجود اور زندہ ہیں۔ اگر امم ماقبل، امت مابعد کے ساتھ جمع اور اس کے زمانہ میں زندہ موجود ہوسکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ نبی ماقبل، نبی مابعد کے سامنے یا اس کے پیچھے نہیں آسکتا؟ ’’ مَاہُوَ جَوَابُکُمْ فَہُوَ جَوَابُنَا ‘‘
۲… قرآن وحدیث اور تمام شرائع سابقہ میں نبی اس کو کہتے ہیں۔ جو اپنے ہر عمل میں پہلی شریعت کا تابع نہ ہو۔ بلکہ اس کی ذات خاص کے لئے بعض احکام میں وحی نبوت اس پر نازل ہو۔ البتہ تبلیغ اور پیغام رسانی میں شریعت سابقہ کی اتباع کرے، اور اپنے مخصوص احکام کو غیر تک نہ پہنچائے اور رسول وہ ہے۔ جس کو ایسی شریعت عامہ عطاء فرمائی جائے۔ جس کی پابندی امت اور نبی دونوں پر لازمی ہو۔ اس مختصر تمہید کے بعد یاد رکھئے کہ عیسیٰ علیہ السلام آمد ثانی کے وقت ہر حکم میں شریعت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف تحیۃ) کی اتباع کریںگے، اور کوئی حکم ان کی ذات خاص کے لئے نازل نہ ہوگا، اور نہ وحی نبوت ان پر اتریگی اور نہ وہ نبی تشریعی ہوںگے۔ اگرچہ ان کا مرتبہ نبیوں جیسا ہوگا۔ مگر وحی نبوت اور شریعت خاصہ نازل ہونے کی وجہ سے وہ شرعی اصطلاح میں نئے نبی نہیں کہلائیںگے۔
جس طرح قیامت کے دن تمام انبیاء اور رسلعلیہ السلام اسی نام کے ساتھ پکارے جائیں گے۔ لیکن منصب نبوت تبلیغ وتشریح اور نزول وحی وغیرہ کچھ نہیں ہوگا۔
اسی لئے عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی ختم نبوت کے ہرگز مخالف نہیں ہے۔
۳… مرزاغلام احمد قادیانی کا اصل نام جو اس کے ماں باپ نے رکھا وہ غلام حمد ہے، اور مرزاقادیانی ساری زندگی یہی لکھتا رہا ہے۔ اس کا نام آیت کے مطابق صرف احمد نہیں تھا۔ بلکہ یہ تو غلام احمد تھا۔ تو پھر غلام احمد ’’اسمہ احمد‘‘ کا مصداق کیسے ہوگیا؟
۴… اگر احمد سے مراد مرزاغلام احمد قادیانی ہے تو پھر یہ مسیح موعود یا مہدی کیسے ہوگیا؟ اس لئے کہ مسیح موعود اور مہدی میں سے کسی کا نام احمد نہیں ہے۔
لطیفہ: ایک مرتبہ ایک قادیانی نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے یہ بات کہہ دی کہ اس آیت میں احمد سے مراد غلام احمد ہے تو آپ شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ نے فی البدیہہ فرمایا: کہ اگر غلام احمد سے مراد احمد ہے تو پھر عطاء اﷲ سے مراد صرف ’’اﷲ‘‘ ہوسکتا ہے۔ غلام احمد سے مراد احمد کہتے ہو تو پھر عطاء اﷲ سے مراد بھی اﷲ لے لو۔ اگر اﷲ مانو گے تو میرا پہلا حکم یہ ہے کہ غلام احمد قادیانی جھوٹا ہے۔ اسے میں نے نبی نہیں بنایا۔ پس شاہ جی کی حاضر جوابی سے قادیانی بھاگ گیا۔

عذاب​

تحریف نمبر: ۸… ’’ مَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً (بنی اسرائیل: ۱۵) ‘‘ ’’یعنی خداتعالیٰ جب کسی قوم پر عذاب بھیجنا چاہتا ہے تو پہلے اپنا ایک رسول بھیجتا ہے۔‘‘ جس کی وہ تکذیب کرتے ہیں، اور اس کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں مصیبتیں عام ہورہی ہیں۔ اس لئے خدائی قانون کے موافق کوئی رسول بھی آنا چاہئے اور وہ مرزا غلام احمدقادیانی ہیں۔
اس آیت مبارکہ کا تفصیلی جواب (قادیانی شبہات کے جوابات جلد اوّل ص۱۲۳سے ص۱۲۵) تک ملاحظہ فرمائیں۔ جزاک اﷲ!

مرزا سے استہزاء​

تحریف نمبر:۹… ’’ یَاحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَایَأْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْابِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ (الحجر:۱۱) ‘‘ چونکہ رسولوں سے استہزاء اور مذاق کیا جاتا تھا اور مرزا سے بھی استہزاء کیاگیا۔ اس لئے وہ سچا ہے۔
تحقیق… اس آیت کا مفاد صرف اس قدر ہے کہ رسولوں سے استہزاء اور تمسخر کیاگیا۔ اس کے یہ معنے ہرگز نہیں ہیں کہ جس کا تمسخر اور مذاق اڑایا جائے وہ رسول بھی بن گیا۔ ورنہ تو کافروں کو رسول ہونا چاہئے۔ کیونکہ ان سے اﷲ اور اس کے رسولوں نے استہزاء اور تمسخر کیا ہے۔ جیسا کہ قرآن عزیز کی ان آیتوں سے ظاہر ہے کہ: ’’اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ (البقرہ:۱۵)‘‘ اﷲ کافروں سے استہزاء کرتا ہے۔ ’’ وَکُلَّمَا مَرَّعَلَیْہِ مَلَأٌمِّنْ قَوْمِہٖ سَخِرُوْامِنْہُ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَأِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُوْنَ (ہود:۳۸) ‘‘ جب ان (نوح علیہ السلام ) کے پاس سے کافروں کی جماعت گذرتی تو ان (نوح علیہ السلام ) کا مذاق اڑاتے ۔ انہوں نے کہا اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہوتو ہم تمہارا مذاق اڑاتے ہیں۔
پھر دعویٰ ہے۔ نبوت ظلیہ کا اور ثبوت میں روایت پیش کی جا رہی ہے۔ جس میں صاحب شریعت رسولوں کے متعلق خبر دی گئی ہے۔ لہٰذا دلیل اور دعوے میں تطابق نہ ہونے کی وجہ سے استدلال ہی غلط ہے۔ اس کے بعد احادیث کے متعلق مغالطے دیئے گئے جن میں سے اکثر کا جواب گذشتہ صفحات میں گذر چکا ہے۔ چند یہاں بھی ذکر کئے جاتے ہیں اور بعض کی حیثیت خرافات سے زیادہ نہیں تھی۔ اس لئے ان کے جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔

احادیث نبویہ سے مغالطہ دہی کے جوابات​

اونٹوں کا بیکار ہونا​

مغالطہ نمبر: ۱… ’’ وَلَیُتْرَکُنَّ الْقَلَاصُ فَلَا یَسْعٰی عَلَیْہَا وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ… الخ ‘‘ مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹوں کی سواری ترک کر دی جائے گی اور اسی طرف آیت میں پیش گوئی کی گئی ہے۔ جو مرزاقادیانی کے زمانہ میں پوری ہوگئی۔
تصحیح… حدیث میں اونٹوں کی سواری متروک ہونے سے مکہ اور مدینہ کے درمیان متروک ہونا مراد ہے۔ تمام دنیا میں مراد نہیں۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی نے مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہونے کو مسیح موعود کی نشانی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل تیار ہو رہی ہے یہی اس پیش گوئی کا ظہور ہے۔ جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی۔ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲، خزائن ج۱۹ ص۱۰۸)
مگر مکہ اور مدینہ کے درمیان اب تک اونٹ کی سواری متروک نہیں ہوئی۔ جب اونٹوں کی سواری کے ترک کو مشروط کیا ریل چلنے سے۔ جب ریل جاری نہ ہوئی تو بنائے دلیل باطل ہوگئی۔ آج کل وہاں موٹروے ہے۔ ریل کی تیاری کا سن رہے ہیں۔ اتنا عرصہ مرزاقادیانی کے اعلان کی نحوست سے تاخیر واقع ہوئی۔ موٹر موجود ہے۔ ریل کی تیاری ہو جائے تب ہی وہاں سے سفر کریں تو اونٹوں کے ڈار کے ڈار پہاڑوں میں سفر کرتے بوجھ اٹھاتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ایک ایک اونٹ کا وجود مرزاقادیانی کے کذب کی دلیل ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی اپنے دعوے میں جھوٹے تھے۔ نیز اگر تمام دنیاسے اونٹ کی سواری متروک ہونی مراد ہوتو وہ بھی اب تک نہیں پائی گئی۔ عرب، بلوچستان، سندھ وغیرہ ریگستانی علاقوں میں اونٹ کی سواری عام ہے اور وہاں ریل جاری نہیں ہوئی۔آیت میں قیامت کا ذکرہے۔ مسیح موعود کی نشانی مذکور نہیں۔ جیسا کہ : ’’ اِذَا السَّمَآئُ کُشِطَتْ (التکویر :۴) ‘‘
’’ وَاِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ (التکویر:۱۲،۱۳) ‘‘ سے ظاہر ہے ۔ کیونکہ ہر نفس کا اپنے صحیفۂ عمل کو پڑھنا قیامت ہی کے دن ہوگا۔ اس لئے اذظرفیہ سے بھی قیامت ہی کا دن مراد ہے۔
مغالطہ نمبر: ۲… مسیح کے دو حلیے آئے ہیں۔ اس لئے مسیح بھی دو ہونے چاہئیں۔
تصحیح… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حلیے حدیث میں تین طرح مذکور ہیں اور موسیٰ کے دوطرح۔ لہٰذا مرزائی تحقیق کے موافق مسیح علیہ السلام تین اور موسیٰ علیہ السلام دو ہونے چاہئیں اور نیز رسول اﷲ ﷺ کے حلیہ میں بھی الفاظ مختلف آئے ہیں۔ اس لئے وہ بھی متعدد ہوںگے؟۔ دراصل اختلاف الفاظ کی جو وجہ مرزاقادیانی نے سمجھ لی ہے وہ غلط ہے۔ بلکہ اس کی یہ وجہ ہے کہ حلیہ بیان کرنے والے نے صاحب حلیہ کے مختلف اوصاف میں سے کبھی کسی وصف کا اعتبار کر لیا اور کبھی کسی کا۔ جس طرح کہ عیسیٰ علیہ السلام کے حلیہ کے بیان میں کہاگیا ہے اور اس کی مزید تحقیق حیات مسیح کے تحت میں گذر چکی ہے۔
مغالطہ نمبر: ۳… ’’ لَا مَہْدِیَّ اِلَّا عِیْسٰی ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہدی علیہ السلام ہی عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی اور عیسیٰ آنے والا نہیں ہے۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں۔ (قادیانی شبہات کے جوابات جلد دوم ص۳۷۷، زیر بحث قادیانی سوال نمبر۳۳)
مغالطہ نمبر: ۴… مہدی جب مبعوث ہوگا تو اس کی عمر چالیس سال ہوگی۔
(کنز العمال ج۱۴ ص۲۶۷ حدیث نمبر۳۸۶۸۰)
تصحیح… مرزاقادیانی کی عمر دعوے کے وقت ۳۵سال یا ۴۲یا ۴۵سال تھی۔ پورے چالیسویں سال دعویٰ ہی نہیں ہوا۔ اس لئے وہ مہدی نہ تھے۔
پہلے نام، پھر عمر، مرزاقادیانی کا نام ہی مہدی سے نہیں ملتا تو عمر کی بحث سے سوائے رسوائی کے مرزائیوں کو اور کیا ملے گا۔
مغالطہ نمبر: ۵… نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت سب لوگ ایمان نہیں لائیںگے۔ (تفسیر روح المعانی ج۲ ص۶۰۰)
تصحیح… بے شک نزول کے وقت سب ایمان نہیں لائیںگے۔ لیکن بعد میں جتنے زندہ بچیںگے وہ سارے مسلمان ہوجائیںگے۔ خود مرزاقادیانی کو بھی اس بات کا اقرار ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے: ’’جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیںگے۔ تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ۴، ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
مرزاقادیانی کا بعد میں دعویٰ کرنا کہ میں مسیح ہوں۔ اس حوالہ کی رو سے چاہئے کہ اگر مرزاقادیانی مسیح ہیں تو روئے زمین کے کافر مرزاقادیانی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیتے۔ روئے زمین کے کافروں کا اسلام قبول کرنا تو رہا اپنی جگہ۔ الٹا مرزاقادیانی نے کہہ دیا کہ: ’’ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے اسلام قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۰۷، روایت نمبر۱۱۷۵)
گویا مرزاقادیانی کے آنے سے روئے زمین کے کافر مسلمان ہونے کی بجائے روئے زمین کے مسلمان کافر ہوگئے۔ پھر مرزاقادیانی نے کہا کہ مسلمان وہ جو مجھے مانے، گویا مسلمان صرف مرزاقادیانی کے ماننے کا نام ہے، اب مرزاقادیانی کے ماننے والوں کا لاہوری، قادیانی گروپ کی شکل میں اختلاف ہوا۔ لاہوریوں نے کہا مرزاقادیانی نبی نہیں تھا۔ جو غیرنبی کو نبی کہے وہ کافر۔ گویا لاہوریوں کے نزدیک قادیانی کافر۔
قادیانیوں نے کہا کہ مرزاقادیانی نبی تھا۔ جو نبی کو نبی نہ مانے وہ کافر گویا قادیانیوں کے نزدیک لاہوری کافر۔ مرزاقادیانی نے کہا کل روئے زمین کے مسلمان کافر۔
لاہوریوں نے کہا کہ قادیانی کافر۔
قادیانیوں نے کہا کہ لاہوری کافر۔
نتیجہ یہ کہ مرزاقادیانی کے آنے سے روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ رہا۔ اب قادیانی بتائیں کہ مسیح کی یہ علامت مرزاقادیانی میں پائی گئی؟ یا نہیں؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

خسوف وکسوف​

مغالطہ نمبر: ۶… ’’ اِنَّ لَمَہْدَیْنَا آیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُخَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ تَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ (دار قطنی ج۲ ص۶۵ بَابُ صِفَۃِ صَلَاۃِ الْخُسُوْفِ وَالْکُسُوْفِ) ‘‘چاند گرہن۱۳،۱۴،۱۵ سورج گرہن ۲۷،۲۸،۲۹۔
(کتاب التعارض بین العقل والنقل ص۲۴۶ احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۹)
تصحیح… یہ قول رسول اﷲ ﷺ کا نہیں ہے اور نہ متصلًایا مرسلاًآنحضرت ﷺ سے نقل کیاگیا ہے۔ بلکہ محمد بن علی کاکشف ہے اور کشف اس جگہ دو وجہ سے حجۃ نہیں ہوسکتا۔
۱… محمد بن علی غیر معلوم آدمی ہے، اور اگر مرزاقادیانی کی اس بات کو مان لیں کہ محمد بن علی سے مراد امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ ہیں، تو پھر بھی یہ روایت ازروئے سند کے غیر معتبر ہے۔ کیونکہ اس میں عمروبن شمر راوی ہے اور ’’میزان الاعتدال‘‘ میں اس کے متعلق یہ لکھا ہوا ہے: ’’ لَیَسَ بِشَیْیئٍ یَشْتِمُ الصَّحَابَۃَ، وَیَرْوِی الْمَوْضُوْعَاتِ عَنِ الثِّقَاتِ ‘‘ ممکن ہے کہ یہ حدیث بھی اس نے گھڑ کر محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کردی ہو اور مرزاقادیانی کا (ایام الصلح اردو کے ص۸۰، خزائن ج۱۴ ص۳۱۵) پر تسلیم کرتے ہوئے کہ کسوف وخسوف… امام باقر رحمۃ اللہ علیہ سے مہدی کا نشان قراردیاگیا ہے۔ پھر اس کو رسول اﷲ ﷺ کی حدیث اس لئے بتایا کہ سوائے نبی کے کوئی غیب کی خبر نہیں دیتا۔ جیسا کہ ’’حاشیہ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’دوسری گواہی اس حدیث کے صحیح اور مرفوع متصل ہونے پر آیت ’’ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ‘‘ میں ہے۔ کیونکہ یہ آیت علم غیب صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے۔ جس سے بالضرورت متعین ہوتا ہے کہ ’’اِنَّ لَمَہْدَیْنَا‘‘ کی حدیث بلاشبہ رسول اﷲ ﷺ کی حدیث ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۲۹، خزائن ج۱۷ ص۱۳۵ حاشیہ)
صحیح نہیں کیونکہ حدیث کی حجت اور اتصال کا انوکھا طریقہ ہونے کے علاوہ لازم آتا ہے کہ باعتبار اس ضابطہ کے جو خبریں بھی غیب سے تعلق رکھیں گی۔ وہ یا احادیث ہوںگی یا اس کی خبر دینے والا خود رسول ہوگا۔ دونوں باتوں میں سے ایک بات ضرور ماننی پڑے گی۔ اس لئے ہندو، بددین، کنجر، خاکروبہ وغیرہ کی ایسی خبریں بھی نعوذ باﷲ حدیث ہوںگی۔ یا وہ خود رسول ہوںگے۔ لا حول ولا قوۃ!
کیونکہ مرزاقادیانی نے ان سب کو صاحب کشف وشہود بتایا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
’’خواب تو چوڑھوں چماروں اور کنجروں کو بھی آجاتے ہیں اور وہ سچے بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسی چیز پر فخر کرنا لعنت ہے۔ فرض کرو ایک شخص کو چند خوابیں آگئیں اور وہ سچی بھی ہوگئیں۔ اس سے کیا بنتا ہے۔‘‘ (ملفوظات ج۱۰ ص۹۳)
’’ہر ایک فرقہ کے لوگ خوابیں دیکھتے ہیں اور بعض خوابیں سچی بھی نکلتی ہیں۔ بلکہ بعض فاسقوں فاجروں اور مشرکوں کی بھی خوابیں سچی ہوتی ہیں اور الہام بھی ہوتے ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۰۱، خزائن ج۲۳ ص۳۱۶)
پھر حدیث میں بھی تصریح ہے کہ جب سے زمین وآسمان بنا ہے۔ ایسا اجتماع مہدی علیہ السلام کے زمانہ تک کبھی ظہور میں نہیں آیا ہوگا۔ وہ یہ ہے کہ رمضان کی پہلی تاریخ کو چاند گرہن اور اسی رمضان کی پندرھویں تاریخ کو سورج گرہن ہوگا۔
نظام شمسی وقمری میں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے دن چاند گرہن اور پندرھویں تاریخ سورج گرہن ہو۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ ہمیشہ سے چاند گرہن ۱۳،۱۴،۱۵ کو اور سورج گرہن ۲۷،۲۸،۲۹ ماہ کو ہوتا رہا ہے۔ جیسا کہ ’’کتاب التعارض‘‘ سے نقل کیا ہے۔ یعنی چاند اور سورج کو ان کی مقررہ تین تاریخوں میں سے ایک نہ ایک دن ضرور گرہن لگتا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں رمضان کی پہلی اور پندرھویں تاریخ کو خلاف عادت چاند سورج کا گرہن نہیں ہوا۔ بلکہ مقررہ اوقات میں سے کسی ایک وقت میں گرہن ہواتھا۔ اس لئے ۱۳تاریخ کا ’’خسوف‘‘ اور ۲۸ کا ’’کسوف‘‘ کسی صورت میں نشانی نہیں بن سکتا: ورنہ ’’ لَمْ یَکُوْنَا مُنْذَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ‘‘ کی قید لغو اور بے سود ہوجائے گی اور دوسرے اس حدیث میں ’’ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ مِنْ اَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ تَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِیْ النِّصْفِ ‘‘ آیا ہے۔ یہ نہیں آیا کہ ’’ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ لَیَالِیْ خُسُوْفِہَا وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِیْ نِصْفِ مِنْ أَیَّامِ کُسُوْفِہَا ‘‘ پھر دنیا میں چاند وسورج گرہن کا اجتماع رمضان المبارک میں مرزاقادیانی کے جیتے جی تین مرتبہ ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ہندوستان میں ایسا پہلا اجتماع رمضان کے اندر ۱۲۶۷ھ میں ہوا۔ یعنی ۱۳؍جولائی ۱۸۵۱ء مطابق ۱۳؍رمضان ۱۲۶۷ھ کو چاند گرہن اور ۲۸؍جولائی مطابق ۲۸؍رمضان کو سورج گرہن ہوا۔ اس گرہن کے وقت مرزاقادیانی کی عمر تقریباً ۱۱،۱۲ برس کی تھی۔ پھر دوسرا اجتماع انہی تاریخوں میں ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء کو امریکہ میں ہوا، جس کا مرزاقادیانی نے ’’حقیقت الوحی‘‘ میں اقرار کیا ہے۔ تیسرا اجتماع ۱۳؍رمضان ۱۳۱۲ھ مطابق ۱۱؍مارچ ۱۸۹۵ء کو چاند گرہن اور ۲۶؍مارچ مطابق ۲۸؍رمضان کو سورج گرہن ہوا۔ جب اس تینتالیس سال کی مدت میں تین دفعہ اجتماع ہوگیا تو جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے نہ معلوم کتنی مرتبہ رمضان میں دونوں گرہنوں کا اجتماع ہوا ہوگا۔ پھر لطف یہ ہے کہ مہدی پہلے بن جاتے ہیں اور نشانی بعد میں ۱۲برس پیچھے ظاہر ہوتی ہے، اورمرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ قمر کا لفظ اوّل رات کے چاند پر اطلاق نہیں کیا جاتا، بالکل غلط ہے، اور قمر عام ہے۔ ہلال اور بدر دونوں چاندوں پر بولا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے کہ: ’’ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ (یٰس :۳۹) ‘‘
۲… ’’ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدََّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ (یونس :۵) ‘‘
’’ اَلْہِلَالُ غُرَّۃُ الْقَمَرِ وَہِیْ اَوَّلُ لَیْلَۃٍ (تاج العروس) ‘‘ یعنی ہلال قمر کی پہلی رات ہے۔ اس کے علاوہ مرزامحمود پسر مرزا نے بھی تسلیم کیا ہے کہ قمر کا لفظ ہلال پر بولا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’قمر بدر نہیں ہوتا۔ لیکن بدر ضرور قمر ہوتا ہے۔ اسی طرح قمر ہلال نہیں ہوتا۔ مگر ہلال ضرور قمر ہوتا ہے۔‘‘ (درس قرآن تفسیر سورۂ مدثر مندرجہ اخبار الفضل ۷؍جولائی ۱۹۲۸ء)

افتراء علی اﷲ​

’’اسلام نے سورج اور چاند کے گرہن کا ذکر فرمایا ہے۔قرآن پاک نے اسے مختلف پیرایوں میں انقلاب عظیم اور قیامت کی نشانی بھی ٹھہرایا ہے۔‘‘ (الفضل ربوہ ۹؍دسمبر۱۹۷۴ء)
سورج یا چاند گرہن کا قیامت کی نشانی ہونا مرزائیوں کی ’’مسیحی انجیل‘‘ (انجیل البشریٰ مسیح قادیان صاحب کی وحی والہام کا مجموعہ ہے) میں کہیں لکھا ہوتو ہو مگر قرآن پاک میں کہیں اس کا نام ونشان نہیں۔ اسے قرآن کی جانب منسوب کرنا محض کذب اور افتراء علی اﷲ ہے۔

افتراء علی الرسول​

قادیانی کہتے ہیں کہ: ’’رسول اکرم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ میری امت کی رہبری ورہنمائی کے لئے اﷲ تعالیٰ مسیح موعود اور مہدی معہود کو مبعوث فرمائے گا۔ اس کی شناخت کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اِنَّ لَمَہْدَیْنَا آیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ… …الخ ‘‘ (دارقطنی ص۱۸۸)کہ ہمارے مہدی کے لئے یہ دونشان مقرر ہیں اور یہ نشان ہمارے ہی امام مہدی کے ظہور کے ساتھ مختص ہیں۔ اسی کے لئے بطور دلیل صداقت ظاہر ہوں گے اور یہ صورت ابتدائے دنیا سے امام مہدی کے وقت میں ہی پیدا ہوگی۔ یعنی یہ کہ:
۱… امام مہدی ہونے کا دعویدار موجود ہو۔
۲… رمضان کا مہینہ ہو۔
۳… چاند کی تاریخ ہائے خسوف میں سے اسے پہلی تاریخ کو گرہن لگے۔
۴… سورج کی تاریخ ہائے کسوف میں سے اسے درمیانی تاریخ کو گرہن لگے۔ (حوالہ بالا)
اس عبارت میں قادیانیوں نے دووجہ سے افتراء علی الرسول کیا ہے:
اوّل… یہ کہ قادیانیوں نے ’’دارقطنی‘‘ کا حوالہ دیا ہے اور اس میں یہ قول امام باقر رحمۃ اللہ علیہ کی جانب منسوب کیا گیا ہے اور
محدثین کی تصریح کے مطابق یہ نسبت بھی محض غلط اور بازاری گپ ہے جو ’’عمروبن شمر‘‘ اور جابر جعفی ایسے کذابوں نے حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ کے سردھری تھی۔ مگر ان بزرگوں کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس وضعی اور من گھڑت افسانے کو آنحضرت ﷺ کی ذات مقدس سے منسوب کرڈالیں۔ مگر شاباش اور صد آفرین کہ قادیانیوں نے اس افترائی روایت کو ارشاد نبوی ﷺ قرار دے کر کذب، افتراء کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔
ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کند
دوم… یہ کہ قادیانیوں نے اس موضوع روایت کے اصل الفاظ ذکر نہیں کئے۔ نہ ان کا ترجمہ کیا۔ بلکہ اس جھوٹی روایت کی خودساختہ تشریح اور من مانا مفہوم گھڑ کر اس کو فرمودۂ رسول ﷺ بتایا۔ یہ کذب در کذب (ڈبل جھوٹ) بھی مسیح قادیان کی مسیحی امت کا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے۔ قادیانیوں کو خوب علم ہے کہ یہ روایت سراپا کذب ہے۔ مگر ان کی مشکل یہ ہے کہ مہدی علیہ السلام کے حق میں یہ جس قدر صحیح حدیثیں کتب صحاح میں موجود ہیں، ان میں سے ایک بھی تو ان کے خانہ ساز مہدی پر چسپاں نہیں ہوتی۔ اس لئے انہوں نے اپنے مہدی کی تقلید میں من گھڑت روایتوں کو رسول اﷲ ﷺ سے منسوب کرنے کا راستہ اختیار کرلیا۔ حالانکہ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس گرداب سے نکلنے کی ہمت کرتے۔ لیکن’’ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَالَہٗ مِنْ نُّوْرٍ ‘‘

پینتالیس برس کی قلیل مدت میں گرہنوں کا نقشہ ملاحظہ ہو!​

(گرہنوں کا نقشہ صفحہ نمبر:۴ پر ملاحظہ فرمائیں)
۱… ۱۱۷ھ مطابق ۷۳۶ء رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس تاریخ کو گرہن لگا اور اس وقت ’ظریف‘‘ نامی بادشاہ موجود تھا۔ یہ صاحب شریعت نبی ہونے کا مدعی تھا۔ یہ جب ۱۲۶ھ کو مرا تو اس کا بیٹا ’’صالح‘‘ نامی بادشاہ ہوا۔
نیز ۳۴۶ھ مطابق ۹۵۹ء رمضان کی ان ہی تاریخوں میں گرہن لگا اور اس وقت ’’ابومنصور عیسیٰ‘‘ مدعی ٔ نبوت موجود تھا۔
۲… دوسرے نقشے کے مطابق ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء کے گرہنوں کے حساب سے پہلا گرہن ۱۶۱ھ مطابق ۷۷۹ء رمضان کی ان ہی تاریخوں میں لگا۔ اس وقت صالح نامی مدعی ٔ نبوت موجود تھا اور اس صالح کے زمانہ میں مرزا قادیانی کی طرح دومرتبہ رمضان کی ان ہی تاریخوں میں گرہن لگا۔ یعنی ۱۲۷ھ پھر ۱۶۲ھ میں بھی لگا۔ پھر ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء کو لگا۔ لیکن اس کا ظہور ہندوستان میں نہ ہوا۔ بلکہ امریکہ میں ہوا اور اس وقت ’’مسٹر ڈوئی‘‘ وہاں مسیح موعود ہونے کا جھوٹا مدعی موجود تھا۔
۳… تیسرے نقشے کے مطابق ایک گرہن ۱۶۲ھ مطابق ۷۸۰ء میں لگا جس میں صالح مدعی تھا اور دوسرا گرہن ۱۳۱۲ھ مطابق ۱۸۹۵ء میں لگا جس میں مرزا قادیانی جھوٹا مدعی ٔ نبوت تھا۔

ابن عربی کی پیش گوئی​

مغالطہ نمبر:۷… ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مسیح ’’خاتم الاولاد‘‘ ہوگااور اس کے ساتھ اس کی بہن پیدا ہوگی۔
(شرح فصوص الحکم ص۸۳)
یہ بات مرزا قادیانی میں پائی جاتی ہے۔
تصحیح… اصل پیش گوئی ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کی اس طرح ہے کہ آخر زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جو بنی نوع انسان میں خاتم الاولاد ہوگا اور اس کے بعد کوئی لڑکا یا لڑکی جہاں میں پیدا نہ ہوگی۔ مرزا قادیانی اس پیش گوئی کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: ’’ہم مناسب دیکھتے ہیں کہ اس جگہ شیخ کی اصل عبارت نقل کر دیں اور وہ یہ ہے: ’’ وَعَلٰی قَدَمَ شِیْثٍ یَکُوْنُ آخِرُ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ مِنْ ہَذَا النَّوْعِ الْاِنْسَانِیِّ وَھُوْ حَامِلُ اَسْرَارِہٖ۰ وَلَیْسَ بَعْدَہٗ وَلَدُ فِیْ ہَذَا النَّوْعِ فَہُوَ خَاتَمُ الْاَوْلَادِ۰ وَتُوْلَدُ مَعَہٗ اُخْتُ لَّہٗ فَتَخْرُجُ قَبْلَہٗ وَیَخْرُجُ بَعْدَہَا یَکُوْنُ رَأْسُہٗ عِنْدِ رِجْلَیْہَا۰ وَیَکُوْنُ مَوْلِدُہٗ بِالصِّیْنِ وَلُغَتُہٗ لُغَۃُ بَلَدِہٖ۰ وَیَسْرِی الْعَقَمُ فِی الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ فَیَکْثُرُ النِّکَاحُ مِنْ غَیْرِ وِلَادَۃٍ۰ وَیَدْعُوْہُمْ اِلٰی اللّٰہِ فَلَا یُجَابُ ‘‘ یعنی کامل انسانوں میں سے آخری کامل ایک لڑکا ہوگا۔ جو اصل مولد اس کا چین ہوگا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ’’قوم مغل‘‘ اور ’’ترک‘‘ میں سے ہوگا اور ضروری ہے کہ عجم میں سے ہوگا، نہ عرب میں سے، اور اس کو وہ علوم اور اسرار دئیے جائیں گے۔ جو شیث کو دئیے گئے تھے، اور اس کے بعد کوئی اور ولد نہ ہوگا، اور وہ خاتم الاولاد ہوگا۔ یعنی اس کی وفات کے بعد کوئی کامل بچہ پیدا نہیں ہوگا، اور اس فقرہ کے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ اپنے باپ کا آخری فرزند ہوگا اور اس کے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوگی جو اس سے پہلے نکلے گی اور وہ اس کے بعد نکلے گا۔ اس کا سر اس دختر کے پیروں سے ملا ہوا ہوگا۔ یعنی دختر معمولی طریق سے پیدا ہوگی کہ پہلے سر نکلے گا اور پھر پیر اور اس کے پیروں کے بعد بلاتوقف اس پسر کا سر نکلے گا۔ (جیسا کہ میری ولادت اور میری توأم ہمشیرہ کی اسی طرح ظہور میں آئی) اور پھر بقیہ ترجمہ شیخ کی عبارت کا یہ ہے کہ اس زمانہ میں مردوں اور عورتوں میں بانجھ کا عارضہ سرایت کرے گا۔ نکاح بہت ہوگا۔ یعنی لوگ مباشرت سے نہیں رکیں گے۔ مگر کوئی صالح بندہ نہیں ہوگا… اور پیش گوئی میں یہ بھی الفاظ ہیں کہ اس کے بعد یعنی اس کے مرنے کے بعد نوع انسان میں علت عقم سرایت کرے گا۔ یعنی پیدا ہونے والے حیوانوں اور وحشیوں سے مشابہت رکھیں گے اور انسانیت حقیقی صفحۂ عالم سے مفقود ہو جائیں گے۔ وہ حلال کو حلال نہیں سمجھیں گے اور نہ حرام کو حرام۔ پس ان پر قیامت قائم ہو گی۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵۸،۱۵۹، خزائن ج۱۵ ص۴۸۲،۴۸۳)
سچ ہے کہ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔
۱… مرزا قادیانی نے رجل فارس بننے کے لئے اپنا ’’فارسی النسل‘‘ ہونا بیان کیا۔
۲… پھر اس پیش گوئی کو دیکھا تو ’’چینی الاصل‘‘ ہونے کی کہانی وضع کی۔
۳… پھر ہمشیرہ کے ساتھ پیدا ہونے کی کہانی بیان کی۔
۴… لیکن اﷲ تعالیٰ کی شان بے نیازی پر قربان جائیں کہ مرزا قادیانی کا لکھنا! کہ شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی پیش گوئی میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: ’’اس کے بعد یعنی اس کے مرنے کے بعد نوع انسان میں علت عقم سرایت کرے گی۔‘‘
اب ہمارے نزدیک تو ایک بزرگ کا یہ قول ہے جس کی شریعت میں کوئی اہمیت نہیں۔ جس کی عقیدہ کے باب میں ذرہ برابر وقعت نہیں۔ لیکن ’’شیخ الحدیث مولانا عبدالغفور صاحب آف سجاول‘‘ کے بقول مرزا قادیانی اس عادی مجرم کی طرح کہ جس کی جگہ… خالی دیکھی اس پر بیٹھ گیا۔ مرزا قادیانی نے اس پیش گوئی پر خود کو فٹ کرنے کے لئے کہانی تیار کی مگر اس پیش گوئی کے یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ ’’اس کے بعد یعنی اس کے مرنے کے بعد نوع انسان میں علت عقم سرایت کرجائے گی۔ یعنی پیدا ہونے والے حیوانوں اور وحشیوں سے مشابہت رکھیں گے اور انسانیت حقیقی صفحۂ عالم سے مفقود ہوجائیں گے۔ وہ حلال کو حلال نہیں سمجھیں گے اور نہ حرام کو حرام۔‘‘
اب اگر مرزا قادیانی جیسا کہ وہ خود کہتا ہے کہ میں اس پیش گوئی کا مصداق ہوں تو موجودہ قادیانی خلیفہ ’’طاہر ومسرور‘‘ سمیت سب مرزا کے مرنے کے بعد پیدا ہوئے۔ اس طرح موجودہ تمام قادیانی بھی سب مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد پیدا ہوئے تو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد علّت عقم پیدا ہوتی۔ لہٰذا:
۱… مرزائی خلیفہ سمیت تمام قادیانی حیوان ہیں۔
۲… مرزائی خلیفہ سمیت تمام قادیانی وحشی ہیں۔
۳… مرزائی خلیفہ سمیت تمام قادیانی انسان حقیقی نہیں۔
۴… مرزائی خلیفہ سمیت تمام قادیانی حلال کو حلال نہیں سمجھتے۔
۵… مرزائی خلیفہ سمیت تمام قادیانی حرام کو حرام نہیں سمجھتے۔
مرزا قادیانی کے حق میں اگر یہ پیش گوئی سچی ہے تو پھر فتویٰ بالا بھی قادیانی قبول فرمائیں۔
لیکن فتویٰ قبول کرنے کے بعد بھی مشکل پیش آئے گی کہ ان موجودہ مرزائیوں پر قیامت قائم نہ ہوئی۔ مرزا قادیانی پھر بھی جھوٹے کا جھوٹا۔ استاذ! لا ہاتھ کیسی کہی!

حدیث مجدد​

مغالطہ نمبر: ۸… ’’ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدْ لَہَا دِیْنَہَا (ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲ کتاب الملاحم) ‘‘ مرزاقادیانی کا علمی کارنامہ اور خدمت دین اس امر کی شہادت ہے کہ وہ اس کے مجدد تھے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اس پیش گوئی کے باوجود اب تک کوئی مجدد پیدا نہیں ہوا۔ یہ وعدۂ الٰہی نہ صرف احادیث میں آیا ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں بھی پایا جاتا ہے۔ ’’ وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ (النور:۵۵) ‘‘ یعنی جس طرح وہ پہلے امت موسوی میں خلفاء بھیجتا تھا۔ اسی طرح امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف تحیہ) میں مومنوں کو جو نیک عمل کریںگے۔ خلفاء بنائے گا تاکہ وہ اس دین کو مضبوط کریں۔ جس کو اﷲ نے پسند کیا ہے۔ لہٰذا چونکہ موسوی شریعت کی تمکین کے لئے ۱۳سو سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اس لئے سلسلۂ محمدی میں ایک مثل عیسیٰ اتنی ہی مدت کے بعد آنا چاہئے تاکہ مماثلت پوری ہوجائے۔
تصحیح… تجدید دین کے یہ معنے ہیں کہ جس طرح کسی پتھر کی مٹی ہوئی تحریر پر قلم لگا کر اس کو روشن کردیا جائے۔ اسی طرح دین کے مٹے ہوئے آثار کو از سرنو تازہ کردے اور بدعت کو دور کر کے سنت مستقیم پر لوگوں کو قائم کرے۔ چنانچہ تیسیر شرح جامع صغیر میں ہے کہ: ’’ یُجَدِّدُلَہَا بَیَّنَہَا اَیْ یُبَیِّنُ السُّنَّۃَ مِنَ الْبِدْعَۃِ وَیُذِلُّ اَہْلَہَا ‘‘ سنت کو بدعات سے پاک کردے، اور اہل بدعۃ کی تردید کرے، اور یہی معنے ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھے ہیں: ’’ مَنْ یُّجَدِّدُلَہَا دِیْنَہَا اَیْ یُبَیِّنُ السُّنَّۃَ مِنَ الْبِدْعَۃِ وَیَکْثُرُ الْعِلْمُ وَیَعُزُّ أَہْلُہَ وَیُقْمِعُ الْبِدْعَۃَ وَیُکْسِرُ اَہْلَہَا ‘‘ یعنی مجدد وہ ہے جو دین کو بدعات سے پاک کرے، سنت کی ترویج اور اشاعت کرے۔ بدعات کو اکھاڑے، دینداروں کی عزت کرے، اور اہل بدعت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج۱ ص۳۰۲)
پھر جائز ہے کہ جماعت کثیرہ اس کام پرلگی ہوئی ہو، اوران میں ہر فرد اپنے عہد کا مجدد ہو۔ چنانچہ ’’تیسیر شرح جامع صغیر‘‘ میں ہے کہ ’’ عَلٰی رَأْسِ التَّنْزِیْلِ سَنَۃُ مِّنَ الْہِجْرَۃِ اَوْغَیْرِہَا عَلٰی مَامَرَّ مِنْ رَّجُلٍ اَوْاَکْثَرَ یُجَدِّدُ… الخ‘‘
’’قَالَ ابْنُ کَثِیْرٍ قَدْیَدَّعِیْ کُلُّ قَوْمٍ فِیْ اِمَامِہِمْ اَنَّہُ الْمُرَادُ وَالظَّاہِرُ حَمْلُہٗ عَلَی الْعُلَمَائِ مِنْ کُلِّ طَائِفَۃٍ (تَیْسِیْر) کُلُّ فِرْقَۃٍ حَمَلُوْہُ عَلٰی اِمَامِہِمْ وَالْاَوْلٰی اَلْحَمْلُ عَلَی الْعُمُوْمِ وَلَایُخَصُّ بِالْفُقَہَائِ فَاِنَّ انْتِفَاعَہُمْ بِاُوْلِی الْاَمْرِ وَالْمُحَدِّثِیْنَ وَالْقُرَّائِ وَالْوُعَاظِ وَالزُّہَادِ اَیْضًا کَثِیْرٌ (مجمع البحار ج۱ ص۳۲۸)
‘‘
یعنی عام علماء حق جو دین کی صحیح خدمت کرنے والے اور ردبدعت اور ترویج سنت جن کا مشغلہ ہے۔ وہ سب مجدد ہیں۔ خود مرزاقادیانی نے بھی یہی کہا ہے۔
گفت پیغمبرے ستودہ صفات
از خدائے علیم مخفیات
برسر ہر صدی بروں آید
آنکہ ایںکار راہمے شاید
تاشود پاک ملت از بدعات
تابیابند خلق زو برکات
الغرض ذات اولیاء کرام
ہست مخصوص ملت اسلام
(براہین احمدیہ حصہ ۴ ص۳۱۱، خزائن ج۱ ص۳۶۲)
کیا مرزاقادیانی نے ۱۳سو برس سے جو دین چلا آتا تھا اس کی اشاعت کی؟ اور کیا سنت کی ترویج کرتے ہوئے خلاف شرع کاموں اور بدعات کے دور کرنے میں جان لڑادی؟ اور جس طرح دین کی تجدید ہر صدی کے مجدد کرتے چلے آئے ہیں۔ کیا مرزاقادیانی نے اس طرح دین کی تجدید کی؟ اور جو اسلامی تعلیم مرزاقادیانی نے پیش کی ہے۔ کیا کسی پہلے مجدد نے ایسے گندے خیالات کو اسلام میں جگہ دی تھی؟۔ ہر گز نہیں! بلکہ مرزاقادیانی نے:
۱… اسلام میں وفات مسیح کا عقیدہ جاری کیا۔
۲… نبوت کا دروازہ کھولا۔
۳… ملائکہعلیہ السلام کی شرعی حقیقت سے انکار کرتے ہوئے فلسفیوں کے خیال کی تائید کی۔
۴… جبرائیل علیہ السلام اور دوسرے فرشتوں کے معینہ انسانی شکل میں حقیقی طور پر نازل ہونے سے باوجود اسلامی عقیدہ ہونے کے انکار کیا اورفلسفی رنگ نزول مانا۔
۵… معجزوں میں اسلامی تحقیق کو ٹھکرا کر ملحدانہ شبہے کئے اور ملحدین کے خیالات کی تائید کی۔
۶… احیاء موتی، اور خلق طیر، اور اس قسم کے خارق عادت معجزوں کو تسلیم نہ کیا۔ اس کو جادو اور مسمریزم بتایا۔
۷… قرآن میں اپنی رائے کو دخل دیا، اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات عالیہ کی پرواہ نہ کی، اور فرقۂ باطنیہ کی طرح قرآن کی آیتوں کو ظاہری معنوں سے پھیر کر استعارات کا رنگ دیا، اوراس پرد ہ میں ناواقف اور دین سے بے خبر مسلمانوں کو اسلام کی سیدھی سادھی تعلیم سے ہٹا کر گمراہی کے گڑھے میںدھکیلا، اور اسی طرح قرآن میں تفسیر بالرائے کا دروازہ کھولا۔
۸… نصاریٰ کو خوش کرنے کے لئے جہاد کے حکم کو اسلامی تعلیم سے خارج کیا۔
۹… معراج کو ایک کشفی چیز بتایا اور اس خیال کی حضرت عائشہ صدیقہt کی طرف جھوٹی نسبت کی۔
۱۰… ابن اﷲ، اور عین خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔
۱۱… باوجود استطاعت کے کبھی حج نہ کیا، نہ دعویٰ مسیحیت سے پہلے، اور نہ بعد میں، اورا س گناہ کو سرپر لے کر چلتے بنے۔ اگر مجدد دنیا میں ایسے ہی کاموں کے واسطے آتا ہے۔ تو ایسے مجدد کو دور ہی سے سلام ہے۔
محمد علی نے ۲۵؍دسمبر۱۹۳۰ء کو بعنوان ’’برادران قادیان سے اپیل‘‘ ایک مصالحتی ٹریکٹ شائع کیا تھا۔ جس میں وہ اپنی اسلامی خدمات کا ذکر اس طرح کرتا ہے: ’’آج خدا کے فضل سے اس ترقی کے علاوہ جو ہندوستان میں ہماری جماعت کو ملی ہے۔ دس بیرونی ممالک میں ہمارے ہاتھوں سے سلسلہ احمدیہ کی بنیاد قائم ہوچکی ہے اور وہاں جماعتیں بن چکی ہیں۔ چار ہزار سے زیادہ صفحات حضرت غلام احمد کی کتابوں کے ہم دوبارہ چھپوا کر اس کا بڑا حصہ تقسیم کر چکے ہیں۔ صرف انگریزی میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی اور کئی زبانوں میں بھی تقسیم کیا۔ جب ہم آپ سے جدا ہوئے تھے تو اس وقت ہم کتنے آدمی تھے، اور پھر کس قدر نصرت عطاء فرمائی کہ وہ علوم جو ہم کو حضرت موعود سے ورثہ میں ملے تھے۔ انہیں ہم نے دنیا کے دوردور کے کناروں تک پہنچایا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی کے عقائدوخیالات ہی اس جماعت کی نظر میںاصل اسلام ہے اور اسی کی ہندوستان سے باہر دیگر ممالک میں اور یہاں اشاعت کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر (ازالۂ اوہام ص۵۷ اور آئینہ کمالات ص۲۱۹،۲۲۰) سے قطع نظر کرلیا جائے۔ جن سے مرزاقادیانی کا دعویٔ مجددیت ۱۲؍اپریل۱۸۷۵ء میں معلوم ہوتا ہے۔
اور (حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۱۹۱) کو بھی چھوڑ دیں کہ جس میں دعوے کی ابتداء ۱۲۹۰ھ میں بتائی ہے تو پھر مرزاقادیانی نے مجدد کا دعویٰ صاف لفظوں میں (براہین احمدیہ ص۳۱۲، خزائن ج۱ ص۳۶۳) پر مجدد کا ذکر کرتے ہوئے یوں کہا ہے:
وعدہ کج بطالباں ند ہم
کاذبم گراز ونشاں ندہم
من خود از بھرایں نشاں زادم
دیگر از ہر غمے دل آزادم
ایں سعادت چوبود قسمت ما
رفتہ رفتہ رسید نوبت ما
کتاب ۱۲۹۷ھ یعنی صدی سے تین سال پہلے طبع ہوئی۔ جیسا کہ مادۂ تاریخ ’’یا غفور‘‘ سے ظاہر ہے اور حصہ سوم کے شروع میں ۸۷ دعویداروں سے بوجہ تاخیر عذر خواہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حصہ سوم کے نکلنے میں تقریباً دوبرس کی تاخیر ہوگی۔ مگر اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ بلکہ مالک مطبع کی طرف بعض مجبوریاں ایسی پیش آگئیں۔ جن سے طباعت میں دیر ہوگئی۔ اس لئے معلوم ہوا کہ صدی سے تقریباً ۵سال پہلے کا ہے اور اگر ۱۲۹۷ھ کو مان لیں تب بھی تین سال پیشتر ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اﷲ کا ایماندار اور نیک عمل مسلمانوں سے وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں حکومت عطاء فرمائیں، اور ان کے دین کو جس کو اس نے پسند کیا ہے۔ مضبوط کرے۔ جس طرح کہ انبیاء علیہم السلام سابقین کے سچے پیروں کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ لہٰذا جو معنے مرزائی جماعت نے اس آیت کے کئے ہیں۔ وہ سرتاپا غلط اور الفاظ قرآن کے مخالف ہیں۔ پھر ولایت کے لئے شرط اوّل یہ ہے کہ وہ کوئی مسئلہ قرآن عزیز کی صریح نص کے خلاف نہ کہے اور (یواقیت ج۲ ص۹۲) میں ہے کہ: ’’ مَنْ زَعَمَ اَنَّ عِلْمًا بَاطِنًا للِّشَّرِیْعَۃِ غَیْرُ مَابَایْدِ یْنَا فَہُوَ بَاطِنِیٌّ یُقَارِبُ الذِّنْدِیْقَ… فان من شان اہل الطریق ان یکون جمیع حرکاتہم وسکناتہم محررۃ علی الکتاب والسنۃ ولا یعرف ذلک الا بالتبحر فی علم الحدیث والفقہ والتفسیر‘‘ مگر مرزاقادیانی کو ’’لاتاخذہ سنۃ ولا نوم (بقرہ:۲۵۵) ‘‘ کے خلاف ۳؍فروری۱۹۰۳ء کو یہ الہام ہوا کہ: ’’ اصلی، واصوم، اسہر، وانام، واجعل لک انوار القدوم، واعطیک ماید وم ان اﷲ مع الذین اتقوا ‘‘ یعنی میں نماز پڑہوںگا، اور روزہ رکھوںگا، جاگتا ہوں اور سوتا ہوں… الخ!
( البشریٰ ج۲ ص۷۹، تذکرہ ص۴۶۰، طبع سوم، اخبار الحکم ج۷ نمبر۵ ص۱۶، ۷؍فروری۱۹۰۳ء)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

باب چہاردہم … قادیانیوں سے سوالات؟​

کیا حضور ﷺ کی اتباع سے نجات مل سکتی ہے؟​

سوال نمبر:۱… مرزاغلام احمد قادیانی کے بقول اسے حضور اکرم ﷺ کی اتباع سے نبوت ملی ہے۔ تو گزارش یہ ہے کہ جب حضور ﷺ کی اتباع سے نبوت مل سکتی ہے، تو کیا حضور ﷺ کی اتباع اور پیروی سے دوزخ سے نجات بھی مل سکتی ہے یا نہیں؟ اگر حضور ﷺ کی اتباع سے نجات مل سکتی ہے، تو پھر مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر حضور اکرم ﷺ کی اتباع سے نجات نہیں مل سکتی، تو پھر حضور ﷺ کی اتباع سے نبوت کیسے مل سکتی ہے؟ نیز خیرالقرون سے لے کر آج تک کوئی شخص حضور ﷺ کا متبع گزرا ہے یا نہیں؟ اگر گزرا ہے تو وہ نبی کیوں نہ بنا؟ آخر مرزاقادیانی میں کون سی صلاحیت واستعداد تھی جو دوسروں میں نہیں تھی؟

’’خاتم النّبیین‘‘ کے کون سے معنی صحیح ہیں؟​

سوال نمبر:۲… مرزاغلام احمد قادیانی کی کئی عبارات سے یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہے کہ دعویٔ نبوت سے پہلے مرزاغلام احمد قادیانی بھی ’’خاتم النّبیین‘‘ کے معنی وہی سمجھتا تھا۔ جو چودہ صدیوں سے تمام دنیا کے مسلمان سمجھتے چلے آئے ہیں۔ جسے مرزاغلام احمد قادیانی اپنی کتاب (ازالۂ اوہام) میں لکھتا ہے کہ: ’’قرآن کریم بعد خاتم النببیین( ﷺ) کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۱۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱)
’’اور دعویٔ نبوت کے بعد مرزاقادیانی خاتم النّبیین کے دوسرے معنی بیان کرتا ہے۔ جس کی بناء پر نبوت کا جاری ہونا ضروری ہوگیا اور بقول مرزاجس مذہب میں وحی نبوت نہ ہو وہ شیطانی اور لعنتی مذہب کہلانے کا مستحق ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۸، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶)
’’جو شخص یہ کہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ وہ دین، دین نہیں اور نہ وہ نبی، نبی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ایضاً ج۲۱ ص۳۰۶)
اب سوال یہ ہے کہ ’’خاتم النّبیین‘‘ کے کون سے معنی صحیح ہیں؟ پس اگر خاتم النّبیین کے جدید معنی صحیح ہیں تو یہ لازم آئے گا کہ چودہ صدیوں میں جس قدر بھی مسلمان گذر چکے وہ سب کافر اور بے ایمان مرے۔ گویا کہ عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر اس وقت تک تمام امت کفر پر گزری اور دعویٔ نبوت سے پہلے خود مرزاقادیانی بھی جب تک اسی سابقہ عقیدہ پر رہا تو وہ خود کافر رہا اور پچاس برس تک جملہ آیات واحادیث کا مطلب بھی غلط سمجھتا رہا اور تمام امت کا اس بات پر اجماع ہے، کہ جو شخص تمام امت کی تکفیر وتذلیل کرتا اور احمق وجاہل قرار دیتا ہو، وہ بالاجماع کافر اور گمراہ ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی بالاجماع کافر اور گمراہ ٹھہرا! اور اگر خاتم النّبیین کے پہلے معنی صحیح ہیں جو تمام امت نے سمجھے اور مرزاقادیانی بھی دعویٰ نبوت سے پہلے وہی سمجھتا تھا تو لازم آئے گا کہ پہلے لوگ تو سب مسلمان ہوئے اور مرزاقادیانی دعویٰ نبوت کے بعد سابق عقیدہ کے بدل جانے کی وجہ سے خود اپنے اقرار سے کافر اور مرتد ہوگیا۔ اب مرزائی خود بتائیں کہ وہ کون سا معنی کرنا پسند کریں گے؟
نوٹ: یہ مسئلہ فریقین میں مسلّم ہے کہ تشریعی نبوت کا دعویٰ کفر ہے۔ خود مرزاقادیانی کی تصریحات اس پر موجود ہیں کہ جو شخص تشریعی نبوت کا دعویٰ کرے… وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰،۲۳۱)
اختلاف صرف نبوت مستقلہ کے بارے میں ہے، کہ آیا وہ جاری ہے یا وہ بھی ختم ہوگئی؟ اس لئے اب اس کے متعلق فریق مخالف سے چند سوالات ہیں۔
۱… مرزاقادیانی نے اوّل اپنی کتابوں میں تشریعی نبوت کے دعویٰ کو کفر قرار دیا اور پھر خود صراحتاً تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا۔ چنانچہ لکھا: ’’اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اسی آیت کا مصداق ہے۔‘‘ ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳) کیا یہ صریح تعارض اور تناقض نہیں؟ کیا مرزاقادیانی اپنے اقرار کی بناء پر کافر نہ ہوا؟
۲… جب مرزاقادیانی تشریعی نبوت اور مستقل رسالت کا مدعی ہے تو پھر اس کا خاتم النّبیین میں یہ تاویل کرنے اور غیرتشریعی نبی مراد لینے سے کیا فائدہ؟
۳… نصوص قرآنیہ اور صدہا احادیث نبویہ ( ﷺ) سے مطلقاً نبوت کا انقطاع اور اختتام ثابت ہے۔ اس کے برعکس کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں کہ جس میں یہ بتلایا گیا ہو کہ حضور اکرم ﷺ کے بعد نبوت غیرمستقلہ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر ہے تو اسے پیش کیا جائے؟
۴… نبوت غیرمستقلہ کے ملنے کا معیار اور ضابطہ کیا ہے؟
۵… کیا وہ معیار حضرات صحابہe میں نہ تھا؟ اور اگر تھا جیسا کہ مرزاقادیانی کا اقرار ہے تو وہ نبی کیوں نہ بنے؟
۶… اس چودہ سوسال کی طویل وعریض مدت میں ائمہ حدیث وائمہ مجتہدین، اولیاء، عارفین، اقطاب وابدال، مجددین میں سے کوئی ایک شخص ایسا نہ گزرا جو علم وفہم، ولایت ومعرفت میں مرزاقادیانی کے ہم پلہ ہوتا؟ اور نبوت غیرمستقلہ کا منصب پاتا۔ کیا رسول اﷲ ﷺ کی ساری امت میں سوائے قادیان کے دہقان کے کوئی بھی نبوت کے قابل نہ تھا؟
۷… آنحضرت ﷺ کے بعد بہت سے لوگوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کئے۔ بعض ان میں سے تشریعی نبوت کے مدعی تھے۔ جیسے ’’صالح بن ظریف اور بہاء اﷲ ایرانی‘‘ اور بعض غیرتشریعی نبوت کے مدعی تھے۔ جیسے ابوعیسیٰ وغیرہ تو ان سب کے جھوٹا ہونے کی کیا دلیل ہے؟

کیا نزول مسیح ختم نبوت کے منافی ہے؟​

سوال نمبر:۳… قادیانی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مسیح علیہ السلام نزول فرمائیں تو یہ ختم نبوت کے منافی ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ کے بعد ایک نبی مسیح علیہ السلام آگئے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی نبی تھا۔ بلکہ اپنی شان میں مرزاقادیانی، حضرت مسیح علیہ السلام سے شان میں بڑھ کر ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہ ملے صرف پہلے کے نبی آئیں تو ختم نبوت کے منافی۔ آنحضرت ﷺ کے بعد ایک شخص (مرزاقادیانی) کو نبوت ملے اور وہ پہلے نبیوں سے شان میں بڑھ کر ہو وہ ختم نبوت کے منافی نہیں! ہے کوئی قادیانی جو اس معمہ کو حل کر دے؟

اسود عنسی اور مسیلمہ کیوں قتل ہوئے؟​

سوال نمبر:۴… اسود عنسی کو حضرت فیروز دیلمیرضی اللہ عنہ نے واصل جہنم کیا۔ اسود کے قتل کی وجہ اور اس کا جرم کیا تھا؟ مسیلمۂ کذاب کے خلاف اعلان جہاد اور عملاً جہاد ہوا۔ آخر کیوں؟ ان دونوں کا جرم اور قصور کیا تھا۔ جس کی بناء پر ان کے خلاف ایسی کاروائی ہوئی؟ اگر مرزاقادیانی کا بھی وہی جرم اور قصور ہے جو اسود عنسی اور مسیلمہ کا تھا۔ مسیلمہ کذاب کے ماننے سے جہاد اور مسیلمہ پنجاب کے ماننے والے مسلمان کیوں؟

کیا مرزاقادیانی جھوٹا اور مرتد تھا؟​

سوال نمبر:۵… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۴۱۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱) پر لکھا ہے: ’’کہ قرآن کریم بعد خاتم النّبیین ( ﷺ) کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا۔‘‘ جبکہ اپنی دوسری کتاب (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۷) پر لکھا ہے کہ: ’’پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
کیا قادیانی بتانا پسند فرمائیں گے؟ کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی دونوں باتوں میں سے کون سی سچی ہے؟ اگر پہلی سچی اور دوسری جھوٹی ہے تو کیا جھوٹا آدمی منصب نبوت پر فائز ہوسکتا ہے؟ اور اگر دوسری سچی ہے تو کیا مرزاغلام احمد قادیانی اپنے قول کے مطابق ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں‘‘ کے مطابق خود مرتد ہوا یا نہیں؟

سابقہ مدعیان نبوت کے جھوٹا ہونے کی کیا دلیل ہے؟​

سوال نمبر:۶… حضور ﷺ کے بعد بہت سے لوگوں نے تشریعی اور غیرتشریعی نبوت کے دعوے کئے۔ جن میں مرزاغلام احمد قادیانی بھی شامل ہے۔ کیا قادیانی بتاسکتے ہیں؟ کہ جھوٹے مدعیان نبوت کے جھوٹے ہونے کی کیا دلیل ہے؟ اگر وہی دلائل یا ان سے بھی بڑھ کر مرزاغلام احمد قادیانی میں پائے جاتے ہوں تو پھر مرزاقادیانی جھوٹا ہوا یا نہیں؟ اگر مرزاقادیانی جھوٹا ہے (اور یقینا جھوٹا ہے) تو کیا جھوٹے کی پیروی کرنا شرعاً لازم اور جائز ہے یا نہیں؟

کیا حضور ﷺ سابقہ علیہم السلام کے لئے خاتم نہیں؟​

سوال نمبر:۷… اگر خاتم النّبیین ( ﷺ) سے مراد ’’حضور ﷺ کی مہر سے نبوت ملنے اور نبیوں کی مہر‘‘ والا ترجمہ کیا جائے تو اس سے ثابت یہ ہوگا کہ حضور ﷺ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک کے علیہم السلام کے خاتم نہ ہوئے۔ بلکہ حضور ﷺ بعد میں آنے والے نبیوں کے لئے خاتم ہوںگے۔ کیا یہ ترجمہ اور مفہوم منشاء قرآن وسنت کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو دلائل اور قرائن سے سمجھایا جائے کہ کیسے ہے؟ اور اگر یہ ترجمہ ومفہوم قرآن وحدیث کے منشاء کے خلاف ہے! تو پھر صحیح مفہوم کیا ہے؟

کیا حضور ﷺ خاتم النبی تھے؟​

سوال نمبر:۸… مرزائیو! اگر خاتم النّبیین کا معنی ’’نبیوں پر مہر‘‘ ہے اور چودہ سو برس میں مہر لگی تو صرف (بقول مرزا) ایک نبی پر جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے اپنی کتاب ’’حقیقت الوحی‘‘ میں لکھا ہے: ’’پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۹۳، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
اب سوال یہ ہے کہ ’’خاتم النّبیین‘‘ کا معنی نبیوں پر مہر اور وہ مہر لگی صرف مرزاقادیانی پر، جیسا کہ مذکورہ بالا مرزا کی عبارت بتلارہی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ ’’خاتم النّبیین‘‘ نہ ہوئے۔ بلکہ ’’خاتم النبی‘‘ ہوئے۔ یعنی ایک نبی کے لئے مہر؟ یہ عقدہ حل کر کے مرزاقادیانی کو ایصال ثواب کرو۔

’’خاتم النّبیین‘‘ کے معنی ’’نبیوں کی مہر‘‘ کا ثبوت؟​

سوال نمبر:۹… ’’خاتم النّبیین‘‘ کا معنی اگر ’’نبیوں کی مہر‘‘ یا ’’نبیوں پر مہر‘‘ ہے۔ جیسا کہ اے مرزائیو! تم بتلاتے ہو اور یہی معنی مرزاقادیانی کرتا ہے تو کیا مرزاقادیانی سے پہلے امت مسلمہ کے مفسرین، ائمہ لغت نے یہ ترجمہ کیا ہے؟ اور یہ تفسیر جو مرزاقادیانی نے کی یا تم کرتے ہو۔ سابقہ کتب تفاسیر، اور کتب لغت سے تم اس کا ثبوت پیش کر سکتے ہو؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر یہ بتلاسکتے ہو؟ کہ مرزاقادیانی کا کیا ہوا۔ ترجمہ اور تفسیر غلط ہے؟ اور کیا کہہ سکتے ہو کہ مرزاقادیانی نے جھوٹ بولا ہے؟

اجراء نبوت پر کوئی آیت یا حدیث؟​

سوال نمبر:۱۰… قرآن کریم کی آیات اور احادیث کثیرہ سے مطلقاً نبوت مستقلہ ہو یا غیرمستقلہ، تشریعی نبوت ہو یا غیرتشریعی وغیرہ کا انقطاع اور اختتام ثابت ہوتا ہے۔ کیا قادیانی ایسی کوئی آیت یا حدیث پیش کر سکتے ہیں؟ جس میں مرزاغلام احمد قادیانی کے لئے نبوت غیر مستقلہ یا غیرتشریعی ملنے کی صراحت ہو۔ اگر ہو تو پیش کی جائے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر ہمت سے کام لے کر کہہ سکتے ہو؟ کہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے جھوٹ بولا ہے؟

نبوت غیرمستقلہ ملنے کے لئے معیار؟​

سوال نمبر:۱۱… قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا کو نبوت غیرمستقلہ ملی تھی، اور یہی دعویٰ مرزاقادیانی اور مرزاقادیانی کے خلفاء نے کیا ہے تو سوال یہ ہے کہ نبوت غیرمستقلہ ملنے کا معیار اور ضابطہ کیا ہے؟ نیز وہ معیار چودہ صدیوں کے اکابرین، بزرگان ملت، صحابہe وتابعین رحمۃ اللہ علیہ ، خلفاء راشدینرضی اللہ عنہ میں پایا جاتا تھا یا نہیں؟ اگر پایا جاتا تھا تو وہ نبی کیوں نہ بنے؟ اور انہوں نے دعویٰ نبوت کیوں نہ کیا؟

کیا جھوٹا مدعی ٔ نبوت زندہ نہیں رہ سکتا؟​

سوال نمبر:۱۲… مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو اور خدا پر افتراء کر کے آنحضرت ﷺ کے زمانۂ نبوت کے موافق یعنی تیئس برس تک مہلت پاسکے۔ ضرور ہلاک ہو گا۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
مرزاقادیانی نے ۱۹۰۱ء میں دعویٰ نبوت کیا اور ۱۹۰۸ء میں آنجہانی جہنم مکانی ہوگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ مرزاقادیانی دعویٔ نبوت کے بعد تیئس برس تک مہلت نہ پاسکا۔ اس سے پہلے آنجہانی ہوگیا تو کیا باقرار خود جھوٹا ثابت ہوا یا نہیں؟ اگر ہوا تو تمہارے ذمہ ہے اس کے جھوٹے ہونے کا اعلان؟ ورنہ اس کے سچا ہونے کی کیا دلیل ہے؟

کیا حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ وحضرت عمررضی اللہ عنہ منصب نبوت کے لائق نہ تھے؟​

سوال نمبر:۱۳… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی) میں لکھا ہے: ’’اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
مذکورہ عبارت سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ نبوت (العیاذ باﷲ) حضور ﷺ پر ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ مرزاقادیانی ملعون پر ختم ہوئی۔ مرزائیو! تم بتلاؤ! جو شخص صرف نبوت کا مدعی نہ ہو بلکہ ختم نبوت کا مدعی ہو تو وہ دجال وکذاب، کافر ومرتد، ملحد وزندیق نہیں؟ نیز اس مدعی ختم نبوت کے پیروکاروں کا کیا حکم ہے؟ مرتد ہیں یا مسلمان؟ اور جو حضور ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا کیا حکم ہے؟
علاوہ ازیں یہ بتائیں! جس منصب نبوت کے لئے مرزاقادیانی ملعون مخصوص کیاگیا ہے۔ اس منصب کے لئے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ وحضرت عمررضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہe میں سے کوئی لائق نہ تھا؟ آخر اس منصب کے لئے کیا معیار ہے؟ جو مرزا ملعون کے علاوہ میں نہیں پایا جاتا؟

کیا اﷲ کے نبی دنیا کے معلمین کے پاس تعلیم حاصل کرتے ہیں؟​

سوال نمبر:۱۴… قرآن وحدیث تو یہ بتلاتے ہیں کہ اﷲ کا نبی اﷲتعالیٰ سے تعلیم پاتا ہے، اور دنیا کو علوم کی خیرات کرتا ہے اور احکامات الٰہیہ امت تک پہنچاتا ہے۔ نبی کے معلم خود اﷲتعالیٰ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک کی بیسیوں آیات اور ذخیرۂ احادیث اس پر شاہد ہے۔ مگر قادیان کا دہقان ایک طرف اپنی کتاب (کتاب البریہ ص۱۸۰، خزائن ج۱۳ ص) میں لکھتا ہے کہ میرے معلم فضل الٰہی، فضل احمد، گل علی، حکیم غلام مرتضیٰ ہیں اور دوسری طرف نبوت کا مدعی بھی ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ کوئی ایک نبی ایسا مل سکتا ہے جس نے دنیا کے معلمین کے پاس تعلیم حاصل کی ہو؟ اور ان معلمین کے آگے دوزانو بیٹھا ہو؟ یا سرکاری ملازمت یا منشی گیری کی ہو؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو مرزاقادیانی نبی کیسے؟

کیا مراقی نبی بن سکتا ہے؟​

سوال نمبر:۱۵… اﷲتعالیٰ کا نبی ہر ایسے عیب اور بیماری سے پاک ہوتا ہے جس سے لوگ متنفر ہوں۔ مگر مرزاقادیانی تو عیبوں اور بیماریوں کا معجون مرکب تھا۔ جس کی تفصیل اس کی کتب میں موجود ہے۔ اگر بالفرض قیامت کے دن اﷲتعالیٰ مرزاقادیانی سے استفسار فرمالیں اور یقینا فرمائیں گے کہ تو نے کس مجبوری سے دعویٰ نبوت کر لیا؟ جبکہ میں نے باب نبوت حضور رحمتہ للعالمین ﷺ پر مسدود کر دیا تھا۔ آگے مرزاقادیانی جواب دے کہ میری دو مجبوریاں تھیں۔
۱… ایک سرکار انگریزی کی غلامی۔
۲… مراق وغیرہ بیماریوں کا تسلط۔
مرزائیو! تم سے ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا ان مجبوریوں کے عذر سے مرزاقادیانی سبکدوش ہو جائے گا؟ اگر نہیں اور پکی بات ہے کہ نہیں! تو آپ سے بھی سوال ہوگا کہ تم نے اس دجال کی پیروی کیوں کی؟ جب کہ اس کی یہ مجبوری تھی؟ تو تم کیا جواب دو گے؟ ذرا عقدہ کشائی کر کے ہماری معلومات میں اضافہ کریں؟

کیا مرزاقادیانی کی شہ رگ نہیں کٹی؟​

سوال نمبر:۱۶… اکثر مرزائی کہتے ہیں کہ جھوٹے کی اﷲتعالیٰ شہ رگ کاٹ دیتے ہیں۔ اب مرزائیوں سے سوال یہ ہے کہ قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت دیں؟ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ جھوٹے کی شہ رگ کاٹ دی جاتی ہے تو مرزاقادیانی کا آخری دعویٰ جو (ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷) میں موجود ہے کہ: ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘ جس دن چھپ کر آیا پروردگار نے اسی دن ’’ہیضہ کی موت‘‘ میں مرزاقادیانی کو آنجہانی کر دیا۔ اب مرزائیو! تم بتلاؤ کیا مرزاقادیانی کی شہ رگ نہیں کٹی؟ اگر کٹ گئی تو پھر بتلاؤ! کیا مرزاقادیانی جھوٹا نہیں تھا؟ اگر جھوٹا نہیں تھا تو شہ رگ کیوں کٹی؟

کلمہ گو، اہل قبلہ کا کیا مطلب؟​

سوال نمبر:۱۷… قادیانیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم کلمہ گو ہیں۔ اہل قبلہ ہیں۔ قبلہ کی طرف ہم اپنا رخ کرتے ہیں۔ لہٰذا مسلمان ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اہل قبلہ کی شرعاً کیا تعریف ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ آدمی ضروریات دین کا انکار کرے، یا متواترات میں تاویل کرے، یا عقیدۂ ختم نبوت کا انکار کرے۔ حیات ونزول مسیح علیہ السلام کو نہ مانے۔ تب بھی وہ اہل قبلہ میں سے ہے؟ چاہے وہ کلمہ بھی پڑھتا ہو؟ تو کیا اس کے کلمہ کا اعتبار ہوگا؟ جب کہ وہ ضروریات دین کا انکار یا ان میں تاویلات سے کام لیتا ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ لاہوری مرزائی تمہارے نزدیک کیوں کافر ہیں؟ کیا وہ اہل قبلہ نہیں؟

مرزاقادیانی ’’مسیح موعود‘‘ کیسے؟​

سوال نمبر:۱۸… مرزاقادیانی (تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۲ ص۱۵۹، خزائن ج۱۵ ص۴۸۳) پر لکھتا ہے: ’’اس کے (یعنی مسیح موعود کے) مرنے کے بعد نوع انسان میں علت عقم سرایت کرے گی۔ یعنی پیدا ہونے والے حیوانوں اور وحشیوں سے مشابہت رکھیں گے اور انسانیت حقیقی صفحۂ عالم سے مفقود ہو جائے گی۔ وہ حلال کو حلال نہیں سمجھیں گے اور نہ حرام کو حرام، پس ان پر قیامت قائم ہوگی۔‘‘
فرمائیے! مرزاقادیانی کے وجود میں ’’مسیح موعود‘‘ کی یہ خاص علامت پائی گئی ہے؟ کیا ان کے مرنے کے بعد جتنے انسان پیدا ہوئے وہ سب وحشی ہیں؟ اور انسانیت صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہے؟ کیا کوئی بھی حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنے والا دنیا میں موجود نہیں؟
اگر مرزاقادیانی میں یہ علامت نہیں پائی گئی تو وہ مسیح موعود کیسے ہوئے؟ اور اگر پائی گئی ہے تو دور کے لوگوں کا تو قصہ جانے دیجئے۔ خود قادیانی جماعت کے بارے میں تمہارا کیا فتویٰ ہے؟ کیا یہ بھی وحشیوں کی جماعت ہے؟ کیا ان میں حقیقی انسانیت قطعاً نہیں پائی جاتی؟ اور ان کو حلال وحرام کی کچھ تمیز نہیں؟

کیا دجال قتل ہوگیا؟ اور اسلام کو ترقی مل گئی؟​

سوال نمبر:۱۹… مرزاقادیانی مسیح بنے تو انہوں نے اپنے گھر میں ’’دجال‘‘ بھی گھڑ لیا۔ یعنی پادری، یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ پادری تو دنیا میں پہلے سے موجود تھے۔ خود رسول اﷲ ﷺ کے زمانے سے بھی پہلے اور ان کے مشرکانہ عقائد ونظریات بھی پہلے سے چلے آرہے تھے۔ جس پر قرآن کریم گواہ ہے۔ مگر دجال کو تو قتل کرنا تھا، جب کہ مرزاقادیانی کو مرے ہوئے مکمل ایک صدی ہورہی ہے اور ان کا دجال ابھی تک دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے۔ مسیح موعود کی یہ علامت مرزاقادیانی پر کیوں صادق نہیں آتی؟
دوسرے دجال کو دنیا میں صرف چالیس دن رہنا تھا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آتا ہے۔ مگر مرزاقادیانی کے خود ساختہ دجال کا چلّہ ابھی تک پورا ہی ہونے میں نہیں آیا۔
تیسرے مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’میرا کام جس کے لئے میں اس میدان میں کھڑا ہوں، یہی ہے کہ میں عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑ دوں اور بجائے تثلیث کے توحید پھیلاؤں اور آنحضرت ﷺ کی جلالت اور عظمت اور شان دنیا پر ظاہر کر دوں۔ پس مجھ سے کروڑ نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علت غائی ظہور میں نہ آئے تو میں جھوٹا ہوں۔ پس دنیا کیوں مجھ سے دشمنی کرتی ہے۔ وہ میرے انجام کو کیوں نہیں دیکھتی۔ (اﷲتعالیٰ اس ذلت اور عبرتناک انجام سے بچائے۔ مرتب) اگر میں نے اسلام کی حمایت میں وہ کام کر دکھایا جو مسیح موعود اور مہدی موعود کو کرنا چاہئے تو پھر میں سچا ہوں اور اگر کچھ نہ ہوا اور میں مرگیا تو پھر سب گواہ رہیں کہ میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (اخبار البدر مورخہ ۱۹؍جولائی ۱۹۰۶ء)
دنیا گواہ ہے کہ مرزاقادیانی کے آنے کے بعد دین اسلام کو ترقی نہیں ہوئی۔ بلکہ ان کی کفریات کی وجہ سے تنزّل ہی ہوا ہے۔ حقیقت تو ہے کہ آج تک خود ان کی اپنی جماعت خارج از اسلام ہے۔ کیا قادیانی صاحبان سب دنیا کے ساتھ مرزاقادیانی کے جھوٹا ہونے کی گواہی نہیں دیں گے؟

مرزاقادیانی کے مسیح بننے کا امر مخفی کیوں؟​

سوال نمبر:۲۰… مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلا سکتا ہے۔ وہ ہر زمانہ میں برابر شائع ہوتی رہی۔‘‘ (کرامات الصادقین ص۲۰، خزائن ج۷ ص۶۲)
اب مرزاقادیانی کی یہ تحریر کہ: ’’ان اﷲ قادر علی ان یجعل عیسیٰ واحدا من امۃ نبیہ وکان ہذا وعدا مفعولا۰ یا اخوان ہذا ھوالامر الذی اخفاہ اﷲ من اعین القرون الاولیٰ‘‘ اﷲتعالیٰ اس پر قادر ہیں کہ اس امت محمدیہ سے ایک عیسیٰ بنائیں۔ یہ اﷲتعالیٰ کا پکا وعدہ تھا اور اس امر کو اسلام کے قرون اولیٰ سے مخفی کر دیا تھا۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۴۲۶، خزائن ج۵ ص۴۲۶)
اگر اس امت کے فرد کو مسیح بنانا تھا اور یہ قادیانیت کے ایمان کا بنیادی پتھر ہے تو اسے مخفی کیوں رکھا گیا؟

کیا عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے؟​

سوال نمبر:۲۱… قادیانی اگر کہیں کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے تو ان سے سوال کریں کہ کب؟ وہ کہیں گے کہ دو ہزار سال قبل تو آپ انہیں کہیں کہ ۱۸۸۴ء میں تو وہ زندہ تھے۔ حوالہ یہ ہے۔ مرزاقادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) پر لکھا ہے کہ: ’’جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ دونوں باتوں میں سے کون سی سچی اور کون سی جھوٹی ہے؟
مرزاقادیانی کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔
قادیانیو! تم کہتے ہو فوت ہوگئے۔ بتاؤ! مرزاقادیانی کی بات سچی ہے یا تمہاری؟ اگر مرزاقادیانی کی بات سچی ہے تو تم جھوٹے؟ اگر تمہاری بات سچی ہے تو مرزاقادیانی جھوٹا؟ تصفیہ مطلوب ہے؟

’’حدیث صحیح‘‘ اور مسیح موعود؟​

سوال نمبر:۲۲… مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے کہ: ’’احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۸، خزائن ج۲۱ ص۳۵۹)
احادیث کا لفظ جمع ہے۔ جمع قلت ایک سے دس تک اور جمع کثرت دس سے اوپر کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ احادیث صحیحہ نہیں بلکہ صرف ایک صحیح حدیث میں چودھویں صدی کا لفظ قادیانی دکھا دیں؟ کیا کوئی قادیانی صرف ایک حدیث دکھا سکتا ہے؟ اگر نہیں دکھا سکتا تو سوال یہ ہے کہ کیا کہہ سکتے ہیں کہ لفظ احادیث جمع قلت ہے اور جمع قلت کا اطلاق تین سے دس تک، تو مرزاقادیانی نے اپنی اس عبارت میں دس جھوٹ بولے؟ اگر نہیں تو احادیث صحیحہ امت مسلمہ کے سامنے لاؤ؟

حدیث صحیح اور تیرھویں صدی کا لفظ؟​

سوال نمبر:۲۳… مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے کہ: ’’احادیث صحیحہ پکار پکار کر کہتی ہیں کہ تیرھویں صدی کے بعد ظہور مسیح ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۳۴۰، خزائن ج۵ ص۳۴۰)
احادیث جمع ہے حدیث کی۔ قادیانی حضرات کسی ایک حدیث صحیح میں ظہور مسیح کے لئے تیرھویں صدی کا لفظ دکھادیں۔ قیامت تک نہیں دکھا سکتے۔ مرزاقادیانی نے صریح کذب بیانی سے کام لیا ہے۔ یہ مرزاقادیانی کا واضح جھوٹ ہے۔ تو کیا مرزاقادیانی کے افتراء علی الرسول میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟
قادیانیو! اگر مرزاقادیانی کو ’’افتراء علی الرسول ( ﷺ)‘‘ سے بچانا ہے تو حدیث صحیح پیش کرو؟ ورنہ مانو کہ مرزاقادیانی جھوٹا تھا۔

کیا سلف کے کلام میں ’’لفظ نزول من السماء‘‘ نہیں؟​

سوال نمبر:۲۴… مرزاقادیانی نے تحریر کیا کہ: ’’سلف کے کلام میں مسیح کے لئے ’’نزول من السماء‘‘ کا لفظ نہیں آیا۔‘‘
(انجام آتھم ص۱۴۸، خزائن ج۱۱ ص۱۴۸)
حالانکہ حدیث میں عبداﷲ بن عباسرضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ’’اَخِیْ عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ (کنزالعمال ج۱۴ ص۶۱۹، نمبر۳۹۷۲۶)‘‘
(فقہ اکبر ص۸) میں حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا کلام موجود ہے۔ کیا یہ دو حوالے مرزاقادیانی کے دجل کے لئے شاہد عادل نہیں ہیں؟ تو پھر بتائیں! کہ کیا مرزاقادیانی نے حضور ﷺ اور جمیع سلف پر جھوٹ نہیں بولا؟

کیا مرزاقادیانی مفتری اور کذاب ہے؟​

سوال نمبر:۲۵… مرزاقادیانی ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں قسم کھا کر کہتا ہے کہ: ’’اﷲتعالیٰ نے مجھے مسیح موعود اور مسیح ابن مریم بنادیا تھا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱، خزائن ج۵ ص۵۵۱)
لیکن اس کے برعکس ’’ازالہ اوہام‘‘ میں کہتا ہے کہ میں مسیح موعود نہیں بلکہ مثیل مسیح ہوں اور یہ کہ جو شخص میری طرف مسیح ابن مریم کا دعویٰ منسوب کرے وہ مفتری اور کذاب ہے۔ چنانچہ ’’علمائے ہند کی خدمت میں نیازنامہ‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے: ’’اے برادران دین وعلمائے شرع متین! آپ صاحبان میری ان معروضات کو متوجہ ہوکر سنیں، کہ اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ جس کو کم فہم لوگ ’’مسیح موعود‘‘ خیال کر بیٹھے ہیں۔ یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے منہ سے سنا گیا ہو۔ بلکہ یہ وہی پرانا الہام ہے جو میں نے خدائے تعالیٰ سے پاکر ’’براہین احمدیہ‘‘ کے کئی مقامات پر بتصریح درج کردیا تھا۔ جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہوگا۔ میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں۔ جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے۔ بلکہ میری طرف سے عرصہ سات یا آٹھ سال سے برابر یہی شائع ہورہا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
سوال یہ ہے کہ جب مرزاقادیانی ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں درج عبارت کی رو سے خود کہتا ہے کہ خدا نے مجھے مسیح ابن مریم بنادیا ہے تو ’’ازالہ اوہام‘‘ کی عبارت کی رو سے خود مفتری اور کذاب ثابت ہوا یا نہیں؟ اور یہ کہ جو لوگ مرزاقادیانی کو مسیح موعود کہتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے بقول ’’کم فہم لوگ‘‘ ہیں یا نہیں؟

مرزاقادیانی نے دس برس تک مسیحیت کیوں چھپائے رکھی؟​

سوال نمبر:۲۶… مرزاقادیانی (اعجاز احمدی) میں لکھتا ہے: ’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانۂ دراز ہے۔ بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔ تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی (مرزاقادیانی) مسیح موعود ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
اس کے برعکس (آئینہ کمالات اسلام) میں لکھتا ہے: ’’وواﷲ قد کنت اعلم من ایام مدیدۃ اننی جعلت المسیح ابن مریم۰ وانی نازل فی منزلہ ولکن اخفیتہ نظراً الی تاویلہ بل مابدلت عقیدتی وکنت علیہا من المستمسکین وتوقفت فی الاظہار عشرسنین‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱، خزائن ج۵ ص۵۵۱)
ترجمہ: ’’اور اﷲ کی قسم! میں ایک مدت سے جانتا تھا کہ مجھے مسیح ابن مریم بنادیا گیا ہے، اور میں اس کی جگہ نازل ہوا ہوں۔ لیکن میں نے اس کو چھپائے رکھا۔ اس کی تاویل پر نظر کرتے ہوئے بلکہ میں نے اپنا عقیدہ بھی نہیں بدلا۔ بلکہ اسی پر قائم رہا اور میں نے دس برس اس کے اظہار میں توقف کیا۔‘‘
ان دونوں بیانوں میں تناقض ہے۔ ’’اعجاز احمدی‘‘ میں کہتا ہے کہ بارہ برس تک مجھے خبر نہیں تھی کہ خدا نے بڑی شدومد سے مجھے مسیح موعود قرار دیا ہے اور ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں کہتا ہے کہ اﷲکی قسم! میں جانتا تھا کہ مجھے مسیح موعود بنادیا گیا ہے۔ لیکن میں نے اس کو دس برس تک چھپائے رکھا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو ماں کی گود میں دودھ پینے کی حالت میں مخالفین کے سامنے اعلان فرمادیا تھا۔ ’’ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتانِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا (مریم:۳۰) ‘‘ {کہ میں اﷲ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا۔}
بتائیے! مرزاقادیانی کی ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صحیح ہے اور کون سی غلط؟ کون سی سچی ہے اور کون سی جھوٹ؟

کیا نبی وحی الٰہی سے جاہل ہوتا ہے؟​

سوال نمبر:۲۷… مرزاقادیانی (اعجاز احمدی) میں لکھتا ہے: ’’خدا نے میری نظر کو پھیر دیا۔ میں براہین کی اس وحی کو نہ سمجھ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بناتی ہے۔ یہ میری سادگی تھی جو میری سچائی پر ایک عظیم الشان دلیل تھی۔ ورنہ میرے مخالف مجھے بتلادیں کہ میں نے باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا تھا۔ بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا؟ اور کیوں براہین میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا؟‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۴)
اس عبارت میں مرزاقادیانی اقرار کرتا ہے کہ اس نے خدا کی وحی کو بارہ برس تک نہیں سمجھا اور خدا کی وحی کے خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا عقیدہ لکھ دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جو شخص بارہ برس تک وحی الٰہی کا مطلب نہ سمجھے اور وحی الٰہی کے خلاف بارہ برس تک جھوٹ بکتا رہے۔ کیا وہ مسیح موعود ہوسکتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی شخص کا وحی الٰہی کے خلاف جھوٹ بکنا اس کے جھوٹا ہونے کی عظیم الشان دلیل ہے، یا مرزاقادیانی کے بقول اس کی سچائی کی؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں دس برس لکھا۔ یہاں بارہ برس کا ذکر ہے تو دس اور بارہ میں سے کون سا عدد صحیح ہے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ جو وحی الٰہی کو نہ سمجھ سکے وہ نبی یا مسیح موعود بننے کے لائق ہے؟
اگر نہیں تو پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی نبی نہیں۔ مسیح نہیں بلکہ جاہل مرکب تھا؟ اس معمہ کو حل کریں اور اجر عظیم پائیں۔

پھر مرزاقادیانی پر مسیحیت کا الزام کیوں؟​

سوال نمبر:۲۸… مرزاقادیانی (ازالہ اوہام) میں لکھتا ہے: ’’یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اوّل درجہ کی پیش گوئی ہے۔ جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ تواتر کا اوّل درجہ اس کو حاصل ہے۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰)
مرزاقادیانی کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی متواتر ہے۔ ادھر مرزاقادیانی کا کہنا یہ ہے کہ: ’’میں نے یہ دعویٰ ہر گز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں، جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
پس جو لوگ مرزاقادیانی کو آنحضرت ﷺ کی متواتر پیش گوئی کا مصداق قرار دیتے ہیں کہ مرزاقادیانی مسیح ہے تو کیا وہ مفتری اور کذاب ہیں یا نہیں؟ نیز خود مرزاقادیانی تواتر، اجماعی عقیدہ، صحاح کی پیش گوئیوں کی خلاف ورزی کر کے مفتری اور کذاب ہوا یا نہیں؟

’’مسیح موعود ‘‘کی شش علامات کس آیت اور کس حدیث میں؟​

سوال نمبر:۲۹… مرزاقادیانی (اربعین نمبر۳ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۴۰۴) پر لکھتا ہے: ’’لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیش گوئیاں پوری ہوتیں۔ جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو:
۱… اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔
۲… وہ اس کو کافر قرار دیں گے۔
۳… اور اس کے قتل کے فتوے دئیے جائیں گے۔
۴… اور اس کی سخت توہین کی جائے گی۔
۵… اور اس کو دائرۂ اسلام سے خارج اور
۶… دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔‘‘
مسیح موعود کی یہ چھ علامتیں جو مرزاقادیانی نے قرآن مجید اور حدیث سے منسوب کی ہیں۔ قرآن کریم کی کس آیت اور کس حدیث میں لکھی ہیں؟ اس کا حوالہ دیجئے؟
ورنہ سوال یہ ہے کہ کیا مرزاقادیانی قرآن کی طرف نسبت کر کے اﷲتعالیٰ پر افتراء اور احادیث کی طرف نسبت کر کے حضور ﷺ پر افتراء کر کے بہت سے جھوٹوں کا مرتکب نہیں ہوا؟

مرزاقادیانی کی مسیحیت کی علامات اور احادیث؟​

سوال نمبر:۳۰… مرزاقادیانی کا مسیح موعود ہونا آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے مطابق ہے یا خلاف؟ اگر مطابق ہے تو برائے مہربانی وہ احادیث جن میں مرزاقادیانی کی علامات بیان فرمائی گئیں ہیں۔ مع حوالہ کتب تحریر فرمائیں؟
اگر کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں جس میں مرزاقادیانی کی مسیحیت کی علامات بیان نہیں ہوئیں اور یقینا نہیں ہوئیں۔ تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے حضور ﷺ کی معصوم ہستی پر جھوٹ بولا؟ اور مستحق جہنم ہوا؟

کیا قادیانیوں کے نزدیک مرزا قادیانی بڑا جھوٹا ہے؟​

یا … پچاس برس تک جھوٹ بولنے والامسیح بن سکتا ہے؟​

سوال نمبر:۳۱… مرزا غلام احمد قادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ چہارم) میں (سورۂ صف:۱۰) کے حوالہ سے لکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ چنانچہ لکھتا ہے: ’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ‘‘ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ درحاشیہ ص۴۹۸،۴۹۹، خزائن ج۱ص۵۹۳)
مرزا قادیانی کی عبارت غور سے پڑھ کر صرف اتنا بتائیے! کہ مرزا قادیانی نے قرآن کریم کے حوالہ سے جو لکھا، کہ عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ یہ سچ تھا یا جھوٹ؟ صحیح تھا یا غلط؟

ایک اہم نکتہ​

مرزا قادیانی ۱۸۹۱ء تک کہتا رہا، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے۔ اس کے بعد یہ کہنا شروع کیا کہ وہ مرگئے ہیں۔ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ مسلمان اور قادیانی دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ ان دونوں متضاد خبروں میں ایک سچی تھی اور دوسری جھوٹی۔ قادیانی کہتے ہیں کہ پہلی جھوٹی تھی اور دوسری سچی۔ مسلمان کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی پہلی خبر کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے سچی تھی، اور بعد والی خبر وفات کی جھوٹی تھی۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ایک خبر سچی اور ایک جھوٹی اور یہ طے شدہ امر ہے کہ: ’’جھوٹی خبر دینے والا شخص جھوٹا کہلاتا ہے۔ لہٰذا دونوں فریق اس پر متفق ہوئے کہ مرزا قادیانی جھوٹا تھا۔‘‘

ایک اور قابل غور نکتہ​

یہ تو آپ نے ابھی دیکھا کہ دونوں فریق مرزا قادیانی کے جھوٹا ہونے پر متفق ہیں۔ آئیے! اب یہ دیکھیں کہ دونوں میں کون سا فریق مرزا قادیانی کو ’’بڑا جھوٹا‘‘ مانتا ہے۔
مسلمان کہتے ہیں کہ ابتداء سے ۱۸۹۱ء تک مرزا قادیانی اپنی زندگی کے پچاس برس تک سچ بولتا رہا۔آخری سترہ سالوں میں وفات مسیح کا عقیدہ ایجاد کرکے اس نے جھوٹ بولنا شروع کیا۔ اس کے برعکس قادیانیوں کا کہنا یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنی زندگی کے پچاس برس تک جھوٹ بکتا رہا۔ اس لئے کہ قادیانیوں کے نزدیک پہلے والی خبر جھوٹ تھی اور آخری سترہ سال میں اس نے سچ بولا۔
خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے نزدیک مرزا قادیانی کے سچ کا زمانہ پچاس سال، اور جھوٹ کا زمانہ صرف آخری سترہ سال، اور قادیانیوں کے نزدیک مرزا قادیانی کے جھوٹ کا زمانہ پچاس سال، اور اس کے سچ کا زمانہ صرف سترہ سال ہے۔ بتائیے! دونوں میں سے کس فریق کے نزدیک مرزا قادیانی بڑا جھوٹا نکلا؟ قادیانی اس نکتہ پر ضرور غور کریں۔

 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

ایک اور لائق توجہ نکتہ​

مسلمان کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی پچاس سال تک سچ کہتا رہا، کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے۔ لیکن پھر شیطان نے اس کو بہکادیا اور شیطان کے بہکانے سے یہ کہنے لگا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نہیں آئیں گے۔ بلکہ میں خود مسیح موعود بن گیا ہوںاور قادیانی کہتے ہیں گو وہ پچاس سال تک جھوٹ بکتا رہا کہ عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے۔ لیکن پھر اس پچاس سال کےجھوٹے کو اﷲ تعالیٰ نے (نعوذباﷲ) مسیح موعود بنادیا۔ کیا کسی کی عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ پچاس سال تک جھوٹ بولنے والا ’’مسیح موعود‘‘ بن جائے؟

ایک اور دلچسپ نکتہ​

اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ مسلمان اور قادیانی دونوں فریق اس پر متفق ہیں کہ مرزا قادیانی جھوٹا تھا۔ ادھر مرزا قادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ مسیح موعود ہے۔ ظاہر ہے کہ جھوٹا آدمی جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرے گا تو وہ ’’مسیح کذاب‘‘ کہلائے گا۔ لہٰذا دونوں فریق اس پر بھی متفق ہوئے کہ مرزا قادیانی مسیح کذاب تھا۔

کیا وفات مسیح کا بھید صرف مرزا قادیانی پر کھلا؟​

سوال نمبر:۳۲… مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ: ’’وفات مسیح کا بھید صرف مجھ پر کھولا گیا ہے۔‘‘
(اتمام الحجۃ ص۳،خزائن ج۸ص۲۷۵)
مرزا قادیانی نے:
۱… اپنی پہلی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ میں قرآن مجید سے استدلال کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے تشریف لائیں گے۔
۲… ’’ازالہ اوہام‘‘ میں کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر قرآن کی تیس آیات دلیل ہیں۔ اور یہ کہ وفات مسیح پر اجماع صحابہe ہے۔
۳… اب اس کتاب ’’اتمام الحجتہ‘‘ میں کہا کہ وفات مسیح کا بھید صرف مجھ پر کھولا گیا۔
اس بات پر دو سوال وارد ہوتے ہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام قرآن مجید کی رو سے زندہ تھے تو پھر تیس آیات وفات مسیح پر دلیل کیسے؟ ان دو باتوں میں سے ایک صحیح ایک غلط؟ اگر وفات مسیح پر اجماع تھا تو پھر بھید کیا؟ دونوں باتوں میں سے ایک صحیح ایک غلط۔ اور اگر تینوں اقوال کو سامنے رکھا جائے تو اس کی تثلیث کو کون حل کرے؟

کیا مسیح، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرزا قادیانی ہے؟​

سوال نمبر:۳۳… مرزا غلام احمد قادیانی نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں لکھا تھا کہ (سورۂ صف:۱۰) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں پیش گوئی ہے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے اس پیش گوئی میں ابتداء ہی سے مجھے بھی شریک کررکھا ہے۔
اس کے برعکس اعجاز احمدی میں لکھتا ہے کہ براہین احمدیہ میں: ’’مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے کہ:’’ھوالذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ (صف:۱۰)‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۷، خزائن ج۱۹ص۱۱۳)
مرزا قادیانی کے یہ دونوں بیان آپس میں ٹکراتے ہیں۔ کیونکہ ’’براہین‘‘ میں کہتا ہے کہ اس پیش گوئی کا مصداق عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ لیکن اﷲتعالیٰ نے مجھے بھی اس میں شریک کررکھا ہے اور ’’اعجاز احمدی‘‘ میں کہتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا اس پیش گوئی میں کوئی حصہ نہیں۔ بلکہ میں (مرزا قادیانی) ہی اس کا مصداق ہوں، اور لطف یہ کہ دونوں جگہ اپنے الہام کا حوالہ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کون سی بات سچی اور کون سی جھوٹی؟ اور کون سا الہام صحیح ہے اور کون سا غلط؟ اگر پہلا الہام صحیح ہے تو مرزا قادیانی مسیح نہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اگر دوسرا الہام صحیح ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح نہیں بلکہ مرزا قادیانی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دونوں آیتوں میں سے کونسی صحیح اور کونسی غلط ہے؟۔ نیز دونوں میں سے کونسی شخصیت صحیح اور کونسی غلط؟۔ پھر غلط ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟۔
قادیانیو! مرزا قادیانی کا پیش کردہ معمہ حل کرکے اپنے اوپر اور امت مسلمہ کے وجود پر رحم کرو۔

کیا مسیح موعود اور علماء کا تصادم آیت یا حدیث میں ہے؟​

سوال نمبر:۳۴… مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ: ’’ ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیش گوئیاں پوری ہوتیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ وہ اس کو کافر قرار دیں گے اور اس کے قتل کے ایسے فتویٰ دئیے جائیں گے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ص۱۷، خزائن ج۱۷ص۴۰۴)
قرآن مجید میں ایسی پیش گوئی کہاں ہے؟۔ قرآن واحادیث پر مرزا کا صریح الزام اور جھوٹ ہے۔ احادیث پر مطلع ہونا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ قرآن مجید تو عامتہ المسلمین کے ہر فرد کی دسترس میں ہے۔ سینکڑوں بار اس کی تلاوت کا شرف حاصل ہوا۔ ایک لفظ مسیح وعلماء کے تصادم کے متعلق قرآن مجید میں موجود نہیں۔ کیا قادیانی ایسی قرآنی آیت کی نشاندہی کرکے مرزا قادیانی کے دامن کو کذب کی آلودگی سے بچاسکتے ہیں؟۔اگر نہیں تو پھر صحیح مسیح کو مان کر داخل اسلام ہوجائو۔

مرزا قادیانی حقیقی مسیح کیسے؟​

سوال نمبر:۳۵… قادیانیوں کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی کی وہی حیثیت ہے جو مسلمانوں کے نزدیک حقیقی مسیح ابن مریم علیہ السلام کی۔ گویا کہ مسلمانوں کے نزدیک جس مسیح ابن مریم علیہ السلام نے دوبارہ تشریف لانا ہے۔ وہ قادیانیوں کے نزدیک مرزا قادیانی کی شکل میں آگیا ہے۔ بقول قادیانی جماعت کے کہ مرزا قادیانی حقیقی مسیح کی جگہ پر آگیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ نے حقیقی مسیح کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ وہ بعد نزول کے ۴۵سال دنیا میں گزاریں گے۔ جبکہ مرزا قادیانی نے ۱۸۹۱ء میں مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور ۱۹۰۸ء میں جہنم واصل ہوگیا تو یوں مرزا قادیانی کے دعویٰ مسیحیت کی مدت کل تقریباً سترہ یا ساڑھے سترہ سال بنتی ہے تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی مسیح کیسے ہوا؟
اگر مرزا قادیانی حقیقی مسیح نہیں اور یقینا نہیں تو حقیقی مسیح کیوں نہیں مانتے؟
آخر تمہاری کیا مجبوری ہے؟

کیا دوزرد چادروں سے دو بیماریاں مراد ہیں؟​

سوال نمبر:۳۶… مسیح علیہ السلام کے متعلق ہے کہ نزول کے وقت دو زردرنگ کی چادریں پہنی ہوںگی۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خواب میں جو زردرنگ کی چادریں دیکھے۔ اس سے مراد دو بیماریاں ہوتی ہیں۔ لیکن کیا حدیث شریف جس میں مسیح کی آمد کے وقت دو چادروں کا ذکر ہے۔ اس حدیث میں کسی خواب کا ذکر ہے۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر قادیانی کی یہ تحریف دجل کا شاہکار ہے یا نہ؟

کیا علامات مسیح علیہ السلام ومہدی علیہ السلام مرزا میں ہیں؟​

سوال نمبر:۳۷… قادیانی جماعت کے لئے نزول مسیح علیہ السلام وآمد سیدنا مہدی علیہ الرضوان کی احادیث کو ماننا اور رد کرنا دونوں دشوار ہیں۔ اگر یہ روایات غلط ہیں اور مسیح ومہدی نے نہیں آنا تو مرزاقادیانی کی چھٹی ہوگی۔ اگر ان دونوں نے آنا ہے تو ان کی علامات کو مسیح کا نام عیسیٰ، بغیر باپ، ماں کا نام مریم، جائے نزول دمشق، کوئی ایک علامت مسیح جو حدیث میں بیان ہوئی۔ مرزا میں نہ پائی گئی۔ اس طرح مہدی کہ ان کا نام محمد والد کا نام عبداﷲ، مدینہ میں پیدائش، مکہ میں آمد، دمشق میں ورود۔ مرزاقادیانی میں ایک علامت بھی مہدی کی جو احادیث میں بیان ہوئی نہ پائی گئی۔ مرزاقادیانی نے قادیانی جماعت کو عجیب مخمصہ میں مبتلا کر دیا کہ وہ نہ تو احادیث کا انکار کر سکتے ہیں۔ نہ مان سکتے ہیں۔ اس مخمصہ کا نام قادیانیت کا گورکھ دھندہ ہے۔ خدارا خود کو بھی اور امت مسلمہ کو بھی اس مخمصہ سے نکالو۔ ورنہ اعلان کرو کہ مرزاقادیانی نے جھوٹ بولا ہے۔

مرزاقادیانی کی پہچان اپنی علامات میں​

سوال نمبر:۳۸… (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۸۸، خزائن ج۲۱ ص۳۵۹) پر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا۔‘‘
احادیث صحیحہ کا لفظ کم ازکم تین احادیث پر بولا جاتا ہے۔ لہٰذا مسیح موعود کی ان دو علامتوں کہ:
۱… صدی کے سر پر آئے گا اور
۲… چودھویں صدی کا مجدد ہوگا۔
کو جو مرزاقادیانی نے احادیث صحیحہ کے حوالے سے لکھا ہے، کے بارے میں کم ازکم تین تین احادیث کا حوالہ دیجئے؟

کیا مرزاقادیانی ۱۳۳۵ھ تک زندہ رہا؟​

سوال نمبر:۳۹… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’دانیال نبی بتاتا ہے کہ اس نبی آخرالزمان کے ظہور سے جب بارہ سو نوے برس گذر جائیں گے تو وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا اور ۱۳۳۵ھ تک اپنا کام چلائے گا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۱۷ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۹۲)
مرزاقادیانی اگر مسیح موعود تھے تو ۱۳۳۵ھ تک زندہ رہتے۔ لیکن وہ تو ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۸ء میں انتقال کر گئے۔ تو اس حوالہ کے لحاظ سے وہ اپنے دعویٰ مسیح موعود میں سچے نہ ہوئے۔ ہے کوئی قادیانی ماں کا لال، جو اس مشکل سے مرزاقادیانی کو نکالے؟

دمشق کا کون سا معنی صحیح ہے؟​

سوال نمبر:۴۰… مرزاقادیانی (آئینہ کمالات اسلام ص۴۵۶) پر کہتا ہے کہ: ’’دمشق سے مراد دمشق شہر کیونکر مراد ہوسکتا ہے۔ کیا حضور ﷺ علماء کے ساتھ دمشق گئے؟ اور وہاں جاکر ان کو مینارہ اور موضع نزول مسیح دکھایا ہے؟ یا اس مقام کا نقشہ بنا کر دکھایا؟ دمشق کے کئی معنی ہیں۔ یہ کنعان کی نسل کے سردار کے لئے بولا جاتا ہے۔ ناقہ اور جمل کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ مرد چابک دست کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی معنی ہیں۔ اس خاص معنی (یعنی شہر) میں کیا خاص بات ہے کہ علماء اس پر اصرار کرتے ہیں اور دیگر معانی سے اعراض کرتے ہیں۔‘‘
یہاں پر قادیانیوں سے سوال ہے کہ مرزاقادیانی نے دمشق کے کئی معنی بیان کئے۔ شام کا شہر، کسی قوم کا سردار، ناقہ، جمل، ہوشیار آدمی، کون سا معنی۔ لیکن مرزاقادیانی نے ان معنوں سے یہ متعین نہیں کیا کہ حدیث میں لفظ دمشق سے کیا مراد ہے۔ قادیانی وہ معنی متعین کر دیں کہ حضور ﷺ نے جب حدیث میں مسیح علیہ السلام کے اترنے کی جگہ کے لئے دمشق کا لفظ، منارۃ البیضاء کا لفظ بولا، تو اس سے حضور ﷺ کی مراد کیا تھی؟۔ شہر دمشق یا کچھ اور؟

مرزاقادیانی اپنے دام میں… نزول کا معنی اترنا ہے پیدائش نہیں​

سوال نمبر:۴۱… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’مجھ پر ظاہر کیاگیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے۔ جس میں دمشق والی مشہور خاصیت پائی جاتی ہو اور خداتعالیٰ نے مسیح کے اترنے کی جگہ (پیدائش کی نہیں) جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصل مسیح نہیں (بلکہ نقلی) جس پر انجیل نازل ہوئی تھی۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۶، خزائن ج۳ ص۱۳۵)
اس میں کئی چیزیں توجہ طلب ہیں۔ خداتعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کے اترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا، اترنے کی جگہ نہ کہ پیدائش کی، مرزاقادیانی نے خود تسلیم کر لیا۔ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں تو کیا نقلی مسیح مراد ہے؟ وہ مسیح جس پر انجیل نازل ہوئی تھی۔ مرزامسیح علیہ السلام کے نزول سے اپنی پیدائش مراد لیتا ہے۔ نزول کا معنی پیدائش تو کیا انجیل بھی پیدا ہوئی تھی؟

کیا مرزاقادیانی قرآن کا معجزہ ہے؟​

سوال نمبر:۴۲… مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’قرآن شریف اگرچہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ مگر ایک کامل کے وجود کو چاہتا ہے کہ جو قرآن کے اعجازی جواہر پر مطلع ہو، اور وہ اس تلوار کی طرح ہے جو درحقیقت بے نظیر ہے۔ لیکن اپنا جوہر دکھلانے میں ایک خاص دست وبازو کی محتاج ہے۔ اس پر دلیل شاید یہ آیت ہے کہ ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ پس وہ ناپاکوں کے دلوں پر معجزہ کے طور پر اثر نہیں کر سکتا۔ بجز اس کے کہ اس کا اثر دکھلانے والا بھی قوم میں ایک موجود ہو اور وہ وہی ہوگا جس کو یقینی طور پر نبیوں کی طرح خداتعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہوگا… ہاں قرآن شریف معجزہ ہے۔ مگر وہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک ایسا شخص ہو جو اس معجزہ کے جوہر ظاہر کرے اور وہ وہی ہوگا جو بذریعہ الٰہی کلام کے پاک کیا جائے گا۔‘‘ (نزول المسیح ص۱۰۸تا۱۱۲، خزائن ج۱۸ ص۴۸۶تا۴۹۰)
قادیانیوں سے سوال یہ ہے کہ: ’’وہ وہی ہوگا جس کو یقینی طور پر نبیوں کی طرح خداتعالیٰ کا مکالمہ ومخاطبہ نصیب ہوگا۔‘‘ اس کے پیش نظر فرمائیں۔ قرآنی تلوار کے جوہر کے لئے نبیوں کی طرح کا آدمی مکالمہ ومخاطبہ سے سرفراز چودہ سو سال میں کون کون سے ہیں اور پھر مرزاقادیانی کے بعد کون کون؟ اور آئندہ کون کون ہوںگے؟۔ اگر نہیں تو پھر مان لیا جائے کہ سب چرب لسانی اور الفاظ کا گورکھ دھندہ صرف آپ کے ایمان کو ضائع کرنے کا خطرناک جال ہے اور کچھ نہیں؟

کیا مرزاقادیانی نے یہود کی بے گناہی بیان نہیں کی؟ اور قرآن مجید کو غلط نہیں کہا؟​

سوال نمبر:۴۳… مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’یہود خود یقینا اعتقاد نہیں رکھتے کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۲۰۵، خزائن ج۲۱ ص۲۷۸)
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ سورۃ نساء آیت نمبر۱۵۸ میں قرآن مجید نے یہود کا قول یوں نقل کیا ہے۔ ’’اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ‘‘ تحقیق ہم نے ہی عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا۔ کیا مرزاقادیانی نے ایک ایسا جھوٹ نہیں بولا؟ جس سے قرآن مجید کے دعویٰ کی تکذیب لازم آتی ہے؟ اگر قرآن مجید کی تکذیب نہیں کی تو پھر کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہود کی صفائی پیش کر کے یہود کی طرح مغضوب، مطرود، ملعون، ذلت زدہ ہوا؟

کیا مرزاقادیانی لعنتی اور بدذات تھا؟​

سوال نمبر:۴۴… مرزاقادیانی قسم اٹھا کر دھڑلے سے جھوٹ بولتا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ: ’’ واﷲ قد کنت اعلم من ایام مدیدۃ اننی جعلت المسیح بن مریم وانی نازل فی منزلہ ولکنی اخفیت… وتوقفت فی الاظہار الیٰ عشر سنین ‘‘ (دیکھئے اس کی کتاب آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱، خزائن ج۵ ص ۵۵۱)
ملاحظہ فرمائیں کہ قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ خدا کی قسم میں جانتا تھا کہ مجھے مسیح ابن مریم بنادیا گیا ہے۔ مگر میں اسے چھپاتا رہا۔
جب اس کے برعکس (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳) میں لکھتا ہے: ’’مجھے بارہ سال تک کوئی پتہ نہ چلا کہ خدا کی وحی مجھے مسیح ابن مریم بنارہی ہے۔‘‘ بتلائیے! مرزاقادیانی کا یہ حلفیہ بیان درست ہے یا بلاحلف۔ ایک میں ہے کہ مجھے پتہ تھا۔ مگر میں نے ظاہر کرنے میں ۱۰سال تاخیر کر دی۔ دوسری جگہ ہے کہ مجھے پتہ ہی نہ تھا۔ اسی طرح بارہ سال گذر گئے۔ فرمائیے کون سی بات درست ہے؟
یہ تو ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی نے قسم اٹھا کر غلط بیانی کی ہے۔ اب خود مرزاقادیانی کے بقول ایسی بات کے متعلق نتیجہ بھی سماعت فرمائیے۔ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ:
۱… ’’جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۲۳۷، خزائن ج۱۸ ص۶۱۵، نسیم دعوت ص۸۷، خزائن ج۱۹ ص۴۵۳)
۲… ’’خدا کا نام لے کر جھوٹ بولنا سخت بدذاتی ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۴۰، نزول مسیح ص۱۰،۱۱، خزائن ج۱۹ ص۳۸۸،۳۸۹)
اب اس فتویٰ کی روشنی میں جناب قادیانی لعنتی اور بدذات ثابت ہوئے۔ فرمائیے بدذات اور لعنتی فرد کسی بھی اچھے منصب کا مستحق ہوسکتا ہے؟ کیا اسے مہدی یا مجدد، ملہم یا مسیح وغیرہ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

کیا نبی برائی کو مستحکم کرنے آتا ہے یا مٹانے؟​

سوال نمبر:۴۵… مرزاقادیانی جب بڑھاپے میں پہنچ گیا تو اس کا نکاح ’’نصرت جہاں بیگم‘‘ سے ہوا۔ نصرت جہاں نے بڑھاپے میں مرزاقادیانی سے نکاح کیا وہ قادیانیوں کی ام المؤمنین کہلاتی ہے اور وہ غریب عورت جس کا مرزاقادیانی کے ابتدائی دن سے زندگی کا رشتہ جڑا، وہ صرف ’’پھجے دی ماں‘‘ رہ گئی۔ یہ معاشرہ میں بڑے جاگیرداروں کی بیماری ہے کہ وہ پہلی عورت کو اہمیت نہیں دیتے۔ دوسری پسند کی شادی کرتے اور اسے بیگم صاحبہ قرار دیتے ہیں۔ معاشرہ کی اس بیماری وعیب کو مرزاقادیانی نے ختم کرنے کی بجائے خود عمل پیرا ہوئے۔ گویا نئے نبی صاحب نے معاشرہ کی بیماری پر اپنی تقلید کی مہر لگادی اور اس عیب وبرائی کو اپنے عمل سے مزید مستحکم کر دیا۔ کیا نبی عیب وبرائی کو مٹانے کے لئے آتے ہیں یا مستحکم کرنے کے لئے؟

کیا مرزاقادیانی کی وحی، وحی ربانی ہے یا شیطانی؟​

سوال نمبر:۴۶… وحی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ (ابراہیم:۴)‘‘ اور کوئی رسول نہیں بھیجا ہم نے مگر بولی بولنے والا اپنی قوم کی تاکہ ان کو سمجھائے۔ اس فرمان الٰہی کے مطابق مرزاقادیانی کو تمام تر وحی پنجابی زبان میں ہونی چاہئے تھی۔ مگر مرزاقادیانی کی وحی:
۱…انگلش۔ ۲…اردو۔ ۳…عربی۔ ۴…فارسی۔ ۵…سنسکرت۔ ۶…عبرانی۔ ۷…پنجابی کے فقرات۔
پر مشتمل ہے۔ اب اگر یہ سچ ہے تو مرزاقادیانی کی وحی ربانی نہیں بلکہ شیطانی ہے۔نیز بتائیں! کیا مرزاقادیانی کی یہ ساتوں زبانیں تھیں؟ یا اس کی قوم کی تھیں؟ اگر نہیں تو پھر کہہ دو کہ مرزاقادیانی نے قانون الٰہی کی تکذیب کر کے ایک نہیں کئی جھوٹ اپنے اوپر چسپاں کئے؟

کیا قرآن میں مرزاقادیانی کا نام ابن مریم ہے؟​

سوال نمبر:۴۷… مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے کہ: ’’اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘
(تحفۃ الندوہ ص۵، خزائن ج۱۹ ص۹۸)
قادیانی حضرات پورے قرآن مجید میں کہیں دکھا سکتے ہیں کہ: ’’ایہا المرزا سمیتک ابن مریم‘‘ کہیں لکھا ہوا ہو۔ نہیں اور یقینا نہیں تو مرزاقادیانی کے کذاب اور مفتری علیٰ اﷲ ہونے میں کیا کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟

کیا قرآن میں ہے کہ جسم عنصری آسمان پر نہیں جاسکتا؟​

سوال نمبر:۴۸… مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’قل سبحان ربی ہل کنت الا بشراً رسولاً‘‘ یعنی جب کافروں نے آنحضرت ﷺ سے آسمان پر چڑھنے کی درخواست کی کہ یہ معجزہ دکھلائیں کہ مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ جائیں تو ان کو یہ جواب ملا کہ ’’قل سبحان ربی‘‘ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس بات سے پاک ہے کہ اپنے عہد اور وعدہ کے برخلاف کرے۔ وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ کوئی جسم عنصری آسمان پر نہیں جائے گا۔ ‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۲۲۴، خزائن ج۲۱ ص۴۰۰)
اس پر ہمارا قادیانیوں سے سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ بات کس جگہ کس آیت میں ہے کہ کوئی جسم عنصری آسمان پر نہیں جائے گا؟

کیا یہ مرزاقادیانی کی حماقت نہیں؟​

سوال نمبر:۴۹… مرزاقادیانی نے تحریر کیا کہ: ’’میرا دعویٰ مسیح موعود کا نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
حالانکہ اسی کتاب میں لکھا کہ: ’’اگر یہ عاجز مسیح موعود نہیں تو پھر آپ لوگ مسیح موعود کو آسمان سے اتار کر دیکھائیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۵۴،۱۸۵، خزائن ج۳ ص۱۷۹،۱۸۹)
اب ایک کتاب میں دو باتیں ایک دوسرے کے مخالف ومتضاد ہیں۔ کیا قادیانی، مرزا کی حماقت پر اب بھی توجہ نہیں فرمائیں گے؟

کیایہ مرزاقادیانی کی نامعقول حرکت نہیں؟​

سوال نمبر:۵۰… مرزاقادیانی نے تحریر کیا کہ: ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
مرزاقادیانی نے اپنی رسالت سے خداتعالیٰ کی سچائی کو باندھ دیا۔ گویا مرزاقادیانی رسول قادیان نہیں تو خدا بھی سچا نہیں۔ قادیانی بتائیں کہ مرزاقادیانی کا ایسا کرنا ان کے نزدیک معقول امر ہے یا غیرمعقول حرکت۔ اگر غیرمعقول ہے اور یقینا غیرمعقول تو پھر قادیانی اس غیرمعقول اور عقل کے کورے انسان کو نبی مان رہے ہیں؟ کیا نبی کی یہی شان ہے؟

کیا مرزاقادیانی اب بھی ملعون نہیں؟​

سوال نمبر:۵۱… مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’سمعت ان بعض الجھّال یقولون ان المہدی من بنی فاطمۃ‘‘ میں نے سنا بعض جاہلوں سے کہ وہ کہتے ہیں بیشک مہدی علیہ السلام بنی فاطمہ سے ہوںگے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ حاشیہ، خزائن ج۱۶ ص۲۴۱)
’’ ان المہدی من ولد فاطمۃ ‘‘ یہ حدیث شریف میں واقع ہے۔ اس فرمان رسالت ﷺ کو مرزاقادیانی جاہلوں کا قول بتاتا ہے۔ اب اس ملعون قادیان کا یہ فتویٰ براہ راست آنحضرت ﷺ پر ہے۔ جو سرتاپا اہانت پیغمبر ﷺ کو شامل ہے۔ کیا قادیانی مرزاقادیانی کے اس ملعون قول کو دیکھ کر قادیانیت کو ترک کرنے کی جرأت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ کیا اﷲ کا سچا نبی اپنے سے پہلے نبی کی شان میں ایسی گستاخی کا ارتکاب کر سکتا ہے؟

کیا غیرنبی، نبی سے افضل ہوسکتا ہے؟​

سوال نمبر:۵۲… لاہوری مرزائیوں سے سوال کریں کہ کیا غیرنبی کسی نبی سے افضل ہوسکتا ہے؟۔ ان کا جواب یقینا نفی میں ہوگا تو پھر ان کے سامنے مرزاقادیانی کا یہ حوالہ پڑھیں: ’’خدا نے اس امت میں مسیح موعود بھیجا۔ جو اس سے پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
اس حوالہ سے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کی شان حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام سے زیادہ ہے۔ اگر مرزاقادیانی نبی نہیں تھا تو غیر نبی کا نبی سے افضل ہونا لازم آتا ہے۔ جب کہ لاہوری بھی مانتے ہیں کہ غیرنبی، نبی سے افضل نہیں ہوسکتا۔ تو ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کا لاہوریوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس حوالہ میں جزوی فضیلت کی بھی نفی ہے۔ تمام شان میں یعنی من کل الوجوہ بہت بڑھ کر۔

کیا مرزاقادیانی کو مثیل محمد ﷺ کہہ سکتے ہو؟ العیاذ باﷲ!​

سوال نمبر:۵۳… مرزاقادیانی نے اپنے کو مثیل محمد ﷺ بھی قرار دیا۔ جیسا کہ اس کی تمام کتب میں ہے۔ قادیانی ویب سائٹ پر ’’کلمتہ الفصل‘‘ مرزابشیراحمد پسر مرزاقادیانی کا تو شاید کوئی صفحہ اس سے خالی نہیں۔ اب توجہ فرمائیے کہ رحمت عالم ﷺ تو دشمنوں کے مقابلہ میں پہاڑ پر کھڑے ہو کر فرماتے ہیں۔ ’’ہل وجدتمونی صادقا اوکاذبا۰ قالوا جربناک مرارا ماوجدنا فیک الا صدقا وعدلا‘‘ معاذ اﷲ اگر مرزاقادیانی مثیل تھا تو ایسے ہوتا۔ مگر وہ تو دادا کی اس زمانہ کی سات سو روپیہ کی رقم ادھر ادھر کے کاموں میں اڑا کر خیانت کا مرتکب ہوا۔ کیا اس کو مثیل کہہ سکتے ہیں؟

مرزاقادیانی بارہ برس تک کفر میں کیوں؟​

سوال نمبر:۵۴… مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے: ’’ان اﷲ لا یترکنی علیٰ خطاء طرفۃ عین ویعصمنی من کل حین ویحفظنی من سبل الشیطان‘‘ بے شک اﷲ مجھے غلطی پر لمحہ بھر بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور مجھے ہر غلط اور جھوٹ سے محفوظ فرمالیتا ہے۔ نیز شیطانی راستوں سے میری حفاظت فرماتا ہے۔‘‘ (نور الحق ص۸۶، خزائن ج۸ ص۲۷۲)
اور پھر دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں: ’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانۂ دراز ہے۔ بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے اس رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گذر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی گئی۔ ورنہ میرے مخالف بتلا دیں کہ باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا۔ بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا اور کیوں براہین احمدیہ میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳،۱۱۴)
اب قادیانی حضرات فرمائیں کہ:
۱… مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ کہ لمحہ بھر خداتعالیٰ مجھے غلطی پر قائم نہیں رکھتا۔
۲… مرزاقادیانی کا یہ اعتراف کہ بارہ برس تک عرصہ دراز رسمی عقیدہ پر جما رہا۔
۳… براہین میں خدا کی وحی کے خلاف لکھ دیا۔
کیا قادیانیوں کے ہاں بارہ برس ایک لمحہ سے کم ہے؟ خدا کی وحی کے خلاف بارہ برس چلنے والا شخص اس قابل ہے کہ اسے مذہبی مقتداء مانا جائے اور پھر مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے کہ: ’’مجھے اپنی وحی پر مثل قرآن پختہ یقین ہے۔ اگر اس میں ایک دم (لمحہ) بھی شک کروں تو کافر ہو جاؤں۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
تو کیا یہ بارہ سال تک کافر بنارہا؟ خدا لمحہ بھر غلطی پر نہیں رہنے دیتا تو پھر بارہ سال کفر کی دلدل میں مرزاقادیانی کیوں پھنسا رہا؟

کیا اﷲتعالیٰ مرزاقادیانی کے مرید؟ (العیاذ باﷲ)​

سوال نمبر:۵۵… مرزاقادیانی کا الہام ہے کہ: ’’بایعنی ربی‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۷۱، تذکرہ ص۴۲۰، طبع سوم)
مرزاقادیانی نے اس کا ترجمہ کیا: ’’اے رب میری بیعت قبول فرما۔‘‘ مرزاقادیانی کا یہ ترجمہ کسی طور پر صحیح نہیں۔ اس کا سیدھا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ میرے رب نے میری بیعت کی۔ قادیانی بتائیں کہ کیا وہ اﷲ تعالیٰ کو مرزاقادیانی کا مرید سمجھتے ہیں؟ کیا مرزاغلام احمد قادیانی نے اس میں اﷲ تعالیٰ گستاخی کا ارتکاب نہیں کیا؟

کیا مرزاقادیانی مریم تھا؟ تو اس کا شوہر کون؟​

سوال نمبر:۵۶… مرزاقادیانی نے (اربعین نمبر۲ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۳۵۳) پر اپنا الہام نقل کیا۔ ’’یا مریم اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘ اس کا ترجمہ (اربعین نمبر۲ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۳۶۴) میں یوں کیا۔ ’’اے مریم تو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو۔‘‘ تیرے دوست کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ پھر مریم کی بیوی کا کیا معنی؟ کیا عورت کی بیوی ہوتی ہے؟ اگر ’’زوج‘‘ کا معنی شوہر ہو تو مرزاقادیانی کا شوہر کون؟ نیز مرزامریم ہے تو سر پر پگڑی اور چہرے پر داڑھی کا کیا بنے گا؟ کیا خواتین کے لئے پگڑی اور داڑھی شرعاً وفطرتاً ہے؟

کیا سچے پیغمبر کے کئی نام ہوئے؟​

سوال نمبر:۵۷… مرزاقادیانی کا الہام ہے:
۱… ’’یا آدم اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘
۲… ’’یا احمد اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۳۵۳)
اس کا ترجمہ خود کرتا ہے کہ: ’’اے آدم تو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو۔ اے احمد تو تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۳۶۴)
ان دونوں الہاموں کے ترجمہ میں مرزاقادیانی نے ’’تیرے دوست‘‘ کا لفظ ترجمہ میں شامل کیا۔ یہ الہام کے کس لفظ کا حصہ ہے؟ نیز کیا مرزاقادیانی کا نام احمد اور آدم تھا؟ کیسے اور کیونکر؟ پھر غلام احمد نام کا کیا بنے گا؟ اور جو بندہ اپنا نام ونسب تبدیل کر دے کیا وہ حلالی رہ سکتا ہے؟ ان سوالات کو مدنظر رکھ کر بتائیں کہ کیا ایسا شخص پر جنت کا الہام اور جنت میں داخل ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو قادیانی ذریت اس دھوکا سے کیوں نہیں نکلتی؟

مرزاقادیانی کی تحقیق عجیب اور اس کا مبلغ علم​

سوال نمبر:۵۸… حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ رحم کے سامنے ایک انڈا جسے ادوم کہتے ہیں موجود ہوتا ہے۔ مخالطت کے وقت ماء الحیات کا کوئی ذرہ جسے سپرم کہتے ہیں۔ اس انڈے سے مل جائے تو وہ ایک دوسرے کو مضبوطی سے گرفت میں لے لیتے ہیں اور سرک کر رحم میں چلے جاتے ہیں۔ پھر رحم کا منہ بند ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ولادت تک کوئی سپرم اس میں داخل نہیں ہوسکتا۔ لیکن مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’اﷲتعالیٰ فرماتا ہے’’ اُوْلَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلَہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ‘‘ یعنی حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع (حمل) تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ ٹھہر جائے۔ اس صورت میں نسب ضائع ہو گی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں۔‘‘ (آریہ دھرم ص۲۱، خزائن ج۱۰ ص۲۱)
اس پر سوال یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ایک ایسی بات کہی جو سراسر خلاف عقل اور کذب محض ہے۔ کیا بالفرض حمل کی حالت میں ’’دوسرے کا نطفہ ٹھہر جائے‘‘ پہلے حمل کے چار ماہ بعد دوسرا حمل ہو جائے۔ دو ماہ کے بعد تیسرا حمل ہو جائے اور پھر ایک ماہ کے بعد چوتھا اور ہر بچہ نو ماہ کے بعد پیدا ہو تو غریب بیوی سارا سال بچے جنتی رہی۔ یہ ہے مرزاقادیانی کے علوم وفنون کا شاہکار۔ چنانچہ لکھتا ہے۔ ’’میں زمین کی باتیں نہیں کہتا… بلکہ وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے منہ میں ڈالا ہے۔‘‘ (پیغام صلح ص۴۷، خزائن ج۲۳ ص۴۸۵)
کیا حالت حمل میں حمل ٹھہر جاتا ہے؟ اگر ٹھہر جاتا ہے تو مذکورہ عبارت کی تحقیق کا کیا بنے گا؟ نیز بالفرض حمل ٹھہر جائے تو کیا ضروری ہے؟ ایک حمل ہو تو سابقہ کی وضع ہو جائے؟ ساتھ حمل، ساتھ وضع؟ شاید قادیانی ذریت کو۔ ہو تو ہو کسی اور کو تو اس کا دعویٰ نہیں؟

کیا یہ مرزاقادیانی کا قرآن پر بہتان نہیں؟​

سوال نمبر:۵۹… مرزاقادیانی نے لکھا: ’’خسف القمر والشمس فی رمضان۰ فبأی الاء ربکما تکذبان‘‘ الاء سے مراد میں ہوں اور پھر میں نے ایک دالان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ اس میں چراغ روشن ہے۔ گویا رات کا وقت ہے اور اسی الہام مندرجہ بالا کو چند آدمی چراغ کے سامنے قرآن شریف کھول کر اس سے یہ دونوں فقرے نقل کر رہے ہیں۔ گویا اسی ترتیب سے قرآن شریف میں وہ موجود ہے اور ان میں سے ایک شخص کو میں نے شناخت کیا کہ میاں نبی بخش رفوگر امرتسری ہے۔ (ریویو برمباحثہ چکڑالوی ص۴، خزائن ج۱۹ ص۲۰۹ حاشیہ)
فرمائیے! مرزاقادیانی کا یہ الہام وکشف صحیح ہے یا غلط؟ اور پھر دیکھئے یہ ملعون قرآن شریف پر افتراء کرتا ہے اور پھر اس پیوند کاری کی روایت کے لئے رفوگر کا انتخاب بھی قابل توجہ ہے؟

کیا مرزاقادیانی مہدی ہے؟​

سوال نمبر:۶۰… مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کی نسبت آواز آئے گی کہ ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔‘‘ (شہادت القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ ص۳۳۷)
دوسری جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’اگر مہدی کا آنا مسیح ابن مریم کے زمانہ کے لئے ایک لازم غیرمنفک ہوتا اور مسیح کے سلسلہ ظہور میں داخل ہوتا تو دو بزرگ شیخ اور امام حدیث یعنی حضرت محمد اسماعیل صحیح بخاری اور حضرت امام مسلم صاحب صحیح مسلم اپنے صحیحوں سے اس واقع کو خارج نہ رکھتے۔ لیکن جس حالت میں انہوں نے اس زمانہ کا تمام نقشہ کھینچ کر آگے رکھ دیا اور حصر کے طور پر دعویٰ کر کے بتلادیا کہ فلاں فلاں امر کا اس وقت ظہور ہوگا۔ لیکن امام محمد اسماعیل بخاری نے مہدی کا نام تک بھی تو نہیں لیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۱۸، خزائن ج۳ ص۳۷۸)
اب ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ پہلے حوالہ میں مرزاقادیانی بڑے شدومد سے کہتے ہیں کہ مہدی کے متعلق بخاری میں روایت ہے۔ دوسرے حوالہ میں کہتے ہیں کہ مہدی کا بخاری نے نام نہیں لیا۔ دونوں باتیں مرزاقادیانی کی ہیں۔ جو آپس میں متعارض ہیں۔ دونوں سچی نہیں ہوسکتیں۔ اب قادیانی بتائیں کہ مرزاقادیانی کی کون سی بات جھوٹی ہے۔

کیا مرزاقادیانی خودغرض تھا؟​

سوال نمبر:۶۱… مرزاقادیانی نے لکھا: ’’میری رائے یہ ہے کہ استخارہ تقویٰ کے بہت قریب ہے۔ کیونکہ وارث مفقود الخبر ہے اور ہمیں یقین نہیں کہ وہ مر چکا ہے یا زندہ ہے۔ پس اس کی جائیداد کو میت کے ترکہ کی طرح تقسیم کرنے میں عجلت روا نہیں۔ پس بہتر یہ ہے کہ اس معاملہ پر بحث ختم کی جائے۔ تاکہ عالم الغیب اور ذوالجلال آپ سے مشورہ کر لوں اور یقینی راہ پالوں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)
مرزاقادیانی کی یہ عبارت پکارپکار کر نہیں چیخ وچلّا کر اعلان کر رہی ہے کہ مرزااحمد بیگ نے جب ہبہ نامہ پر دستخطوں کے لئے مرزاقادیانی سے درخواست کی۔ چونکہ ہبہ نامہ غلام حسین مفقود الخبر کی زمین کی بابت تھا۔ اس لئے استخارہ کیا گیا کہ وہ غلام حسین زندہ ہے یا مردہ۔ اگر زندہ ہے تو ہبہ نامہ پر دستخط کر کے اس کی زمین کسی اور کو منتقل کرنا روا نہیں ہے۔ اگر مردہ ہے تو ہبہ نامہ پر دستخط نہ کر کے جائز وارث کو محروم کرنا روا نہیں۔ جب ’’عالم الغیب رب ذوالجلال سے مشورہ‘‘ کیا تو رب نے جواب دیا کہ محمدی بیگم کے رشتہ کی بابت بات کر۔ اگر رشتہ کر دیں تو ہبہ نامہ پر دستخط کر دو۔ گویا غلام حسین مفقود الخبر مرگیا ہے۔ اگر رشتہ نہ کریں تو ہبہ نامہ پر دستخط نہ کریں۔ گویا غلام حسین مفقود الخبر زندہ ہے۔ ہمارا قادیانیوں سے درد بھرے دکھے دل سے سوال ہے کہ کیا واقعی آپ اس جواب کو خدائی جواب سمجھتے ہیں یا کافر، ناہنجار، مرزاقادیانی کی زناری اور خود غرضی فراڈ ودھوکہ کی انوکھی مثال؟ اب آپ کی مرضی کہ خداتعالیٰ پر غلط جواب کا الزام لگا کر جہنم کا راستہ اختیار کریں یا مرزاقادیانی کے فراڈ پر محمول کر کے مرزاقادیانی کو جہنم روانہ کریں؟

کیا مرزا قادیانی کے نزدیک ’’اعور‘‘ کا معنی کانا نہیں؟​

سوال نمبر:۶۲… مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ ’’دجال کے اعور یعنی ایک آنکھ سے کانا ہونے سے مراد یہ ہے کہ دینی اور دنیوی علوم کی دونوں آنکھوں میں سے اس قوم (انگریز) کی ایک آنکھ روشن ہوگی اور دوسری ناکارہ اور یہ ظاہر ہے کہ افرنگ کو زمینی علوم میں نہایت درجہ کی مہارت حاصل ہے۔ لیکن روحانیت سے بے بہرہ ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۰۱، خزائن ج۳ص۳۶۹ملخص)
لیکن حدیث میں جہاں دجال کے اعور ہونے کا ذکر ہے وہاں اﷲ تعالیٰ کے اعور ہونے کی نفی ہے، تو اﷲ تعالیٰ کے اعور نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟۔ کیا خدا تعالیٰ کی نسبت دینی ودنیوی علوم میں مہارت ہونے یا نہ ہونے کے سوال کا بھی تصور ہوسکتا ہے؟۔
پھر اسی حدیث شریف میں حضور علیہ السلام نے دجال کے اعور ہونے کے بارہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو کسی شبہ میں نہیں چھوڑا۔ بلکہ فرمایا کہ ایک آنکھ انگور کے ابھرے ہوئے دانہ کی مانند ہوگی اور ساتھ نمونہ بھی بتادیا کہ ابن قطن کو دیکھو۔ پس دجال کی آنکھ اس کی آنکھ کی مانند ہوگی۔ مرزا قادیانی روایت کے اس حصہ کو شیر مادر کی طرح ہضم کرگئے۔ کیوں؟

کیا قرآن مجید میں ’’قادیان‘‘ کا نام ہے؟​

سوال نمبر:۶۳… مرزا قادیانی اپنے کشف کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’قادیان کا نام قرآن مجید میں درج ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۷،خزائن ج۳ص۱۴۰)
الحمد سے لے کر والناس تک پورے قرآن مجید میں کہیں قادیان کا نام ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو قادیانی حضرات ارشاد فرمائیں کہ مرزا قادیانی نے صریح کذب بیانی کی یا نہیں؟

کیا مرزا قادیانی آدم زاد نہیں؟​

سوال نمبر:۶۴… مرزا قادیانی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ؎
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(درثمین اردوص۱۱۶، از مرزا غلام احمدقادیانی، براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷، خزائن ج۲۱ص۱۲۷)
محققین حضرات کہتے ہیں کہ ’’نہ آدم زاد‘‘ میں ’’نہ‘‘ کا لفظ عطف کی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔ گویا ’’کرم خاکی‘‘ کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے اور ’’آدم زاد‘‘ کے ساتھ بھی۔ اب مطلب یہ ہوگا کہ نہ تو میں مٹی کا کیڑا ہوں اور نہ ہی آدم زاد (یعنی بندے دا پتر) یہ جملہ منفیہ اگر نہ بنایا جائے تو اگلے مصرع ’’ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار‘‘ میں اثبات اور حصر سمجھ میں نہیں آسکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ مرزا قادیانی بقول خود نہ مٹی کا کیڑا ہے ’’نہ بندے دا پتر‘‘ تو پھر نبی کیسے؟۔ نیز ’’جائے نفرت‘‘ اور ’’عار‘‘ کی تعیین بھی آپ کے ذمہ ہے؟۔ پھر انسان کے تحت مرد وعورت دونوں داخل ہوتے ہیں۔ متعین کرو کہ مرد کی ہے تو کونسی اور عورت کی ہے تو کونسی؟۔ پھر حکم لگایا جائے؟۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

کیا مرزا قادیانی شراب پیتا تھا؟​

سوال نمبر:۶۵… مرزا قادیانی نے اپنے ایک مرید کے ہاتھوں لاہور سے عمدہ قسم کی شراب ’’ٹانک وائین‘‘ منگوائی۔ کیا مرزائی اس بات کا انکار کرسکتے ہیں؟ (خطوط امام بنام غلام ص۵ ، از حکیم محمدحسین بٹالوی)
کیا شراب پینے والا نبی، مسیح، مہدی، مجدد، ملہم من اﷲ بن سکتا ہے؟۔
جبکہ قرآن بتلاتا ہے کہ شراب پینا شیطانی عمل ہے اور احادیث بتلاتی ہیں کہ شرابی جنت میںنہیں جائے گا۔ اس کی دنیا میں نماز قبول نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ!
جب شرابی اس قدر خدا کی رحمت سے بعید ہوتا ہے تو مرزا قادیانی اتنا مقرب کیسے بنا؟ کہ نبی، مہدی، مسیح موعود بن بیٹھا؟
کیا مرزا قادیانی کے آنے سے جہاد منسوخ ہوگیا؟
سوال:۶۶… آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اس کے برعکس کہا کہ جہاد منسوخ ہوگیا۔ چنانچہ مرزا قادیانی ’’ضمیمہ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ؎
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
(تحفہ گولڑویہ ضمیمہ ص۴۱، خزائن ج۱۷ص۷۷،۷۸)
سوال یہ ہے کہ کیا قادیانی قرآن وسنت کی روشنی میں جہاد بالسیف کی منسوخی پر کوئی عقلی اور نقلی دلیل پیش کرسکتے ہیں؟۔ جو اہل عقل کی دانست میں بھی آسکے؟
نیز مرزا قادیانی کے اس شعر سے پتہ چل رہا ہے کہ مرزا قادیانی کا نبوت تشریعہ کا دعویٰ تھا۔ مرزائیو! تم کہتے ہو غیر تشریعی کا؟ تو سوال یہ ہے کہ مرزا قادیانی سچا ہے یا تم؟ اور مرزا قادیانی کے مذکورہ دعویٰ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنے آپ کو حضور ﷺ سے افضل سمجھتا تھا۔ کیونکہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جہاد قیامت تک! اور مرزا لعین کہتا ہے کہ منسوخ۔
تو اب بتائو! مرزا قادیانی کے کفر اور دجل میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟

کیا نبی گھر کی طعن وتشنیع سے خوف کھا کر سرکاری ملازمت کرتا ہے؟​

سوال نمبر:۶۷…
۱… ’’حضرت صاحب (مرزاقادیانی) اپنے گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لئے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جا کر رہائش اختیار کر لی اور گزارہ کے لئے ضلع کچہری میں ملازمت بھی کر لی۔‘‘ (تحفہ شہزادہ ویلز ص۵۳)
۲… ’’جب آپ تعلیم سے فارغ ہوئے تو اس وقت حکومت برطانیہ پنجاب میں مستحکم ہوچکی تھی اور لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب اس گورنمنٹ کی ملازمت میں ہی عزت ہے۔ اس لئے شریف خاندانوں کے نوجوان اس کی ملازمت میں داخل ہو رہے تھے۔ حضرت صاحب بھی اپنے والد صاحب کے مشورہ سے سیالکوٹ بحصول ملازمت تشریف لے گئے۔‘‘
(سیرۃ مسیح موعود ص۱۳، روایت نمبر۴۹)
یہ دونوں عبارتیں مرزامحمود خلیفہ قادیان کی تحریر کردہ ہیں۔ پہلی عبارت میں ہے۔ گھر والوں کے طعن سے قادیان کو چھوڑ کر باہر چلے گئے اور سیالکوٹ میں ملازمت کر لی۔ دوسری عبارت میں ہے کہ والد صاحب کے مشورہ سے گئے۔ ان دونوں میں سچ کون سا ہے اور جھوٹ کون سا؟ پھر اس کے ساتھ یہ عبارت ملا لی جائے۔
۳… ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت صاحب (مرزاقادیانی) تمہارے دادا کی پنشن (مبلغ سات صد روپے) وصول کرنے گئے۔ تو پیچھے پیچھے مرزاامام دین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو وہ آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت صاحب اس شرم کے مارے گھر نہیں آئے۔ بلکہ سیالکوٹ پہنچ کر ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ (پندرہ روپیہ ماہوار) پر ملازم ہوگئے۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۴۳، روایت نمبر۴۹)
پہلی عبارت مرزامحمود، میں ہے گھر والوں کے طعنوں سے ملازمت دی۔
دوسری عبارت مرزامحمود، میں ہے والد صاحب کے مشورہ سے ملازمت کی۔
تیسری عبارت مرزابشیر بحوالہ زوجہ مرزاقادیانی میں ہے کہ سات صدروپیہ پنشن کے اڑا کر کھا گئے۔ مارے شرم کے قادیان آنے کی بجائے سیالکوٹ جاکر قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے۔
ان تینوں باتوں میں سے کون سی بات سچی ہے؟ ہے کوئی قادیانی جو مرزاقادیانی کے باپ، مرزا کے دو بیٹوں، مرزا کی گھر والی کی ان باتوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے بتا سکے؟ کہ ان تینوں باتوں میں سے کس بات میں کذب محض ہے اور کس کی بات سچی ہے؟ نیز نبی کی متوکلانہ زندگی ہوتی ہے اور امت کو توکل کی تعلیم دیتا ہے۔ تو پھر مرزاقادیانی تو نبی معلوم نہیں ہوتا؟ اگر نبی ہے تو سرکار انگریزی کا ملازم کیوں؟ جب کہ انگریز دشمن خدا اور دشمن رسول ﷺ ہے اور یہ بھی نقاب کشائی کریں کہ کیا نبی پنشن وصول کر کے آوارہ گردی کرتا ہے؟ وہ نفس پرست، گناہوں کا عادی، نفسیاتی مریض تو ہوسکتا ہے مگر نبی؟

کیا ریل گاڑی دجال کا گدھا ہے؟​

سوال نمبر:۶۸… مرزاقادیانی نے کہا کہ: ’’ازاں جملہ ایک بڑی بھاری علامت دجال کی اس کا گدھا ہے۔ جس کے بین الاذنین (دو کانوں کے درمیانی فاصلہ) کا اندازہ ستر باع اور ریل گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ لازمی ہوتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۳۰، خزائن ج۳ ص۴۹۳)
کانوں کے درمیان کا فاصلہ ستر باع (قریباً ۱۴۰گز) ہوگا۔ مرزاقادیانی کانوں کے درمیان کا فاصلہ سے مراد سر اور دم کی لمبائی لیتے ہیں۔ ہے کوئی اس کا جواز؟
پھر گدھے کا رنگ سفید بیان کیاگیا۔ گاڑیوں کی رنگت ہر جگہ سفید ہو تو یہ بھی فٹ نہیں آتا۔ چلو۔ ایک کان سے مراد سر دوسرے کان سے مراد دم۔ ریل دجال کا گدھا، رنگ سفید، چلو اس کو چھوڑ دیں۔ دجال کی سواری ریل۔ اس پر جو سوار ہوئے وہ کون؟ پھر مرزاقادیانی مر کر بھی دجال کے گدھے پر سوار ہوکر قادیان گیا۔ سواری دجال کی، سوار ہوئے مرزاقادیانی۔ رہ گئی مرزاقادیانی کے دجال بننے میں کوئی کسر؟ اس کو کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔

جو بخاری شریف پر جھوٹ باندھے وہ مسیح کیسے؟​

سوال نمبر:۶۹… (شہادت القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ ص۳۳۷) پر لکھتا ہے: ’’اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان احادیث پر عمل کرنا چاہئے۔ جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔ مثلاً ’’صحیح بخاری‘‘ کی وہ احادیث جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری شریف میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کی نسبت آواز آئے گی کہ: ’’ ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی ‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے۔ جو ایسی کتاب میں درج ہے۔ جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔‘‘
ہمارے سامنے صحیح بخاری کا جو نسخہ ہے۔ اس میں تو حدیث: ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ ہمیں کہیں نہیں ملی۔ لیکن جس طرح مرزاقادیانی کے گھر میں قرآن کریم کا ایسا نسخہ تھا۔ جس میں: ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ لکھا تھا۔ (ازالہ اوہام ص۷۶،۷۷، خزائن ج۳ ص۱۴۰ حاشیہ) اسی طرح شاید ان کے مسیح خانہ میں کوئی نسخہ صحیح بخاری کا ایسا بھی ہو۔ جس میں سے دیکھ کر مرزاقادیانی نے یہ حدیث لکھی ہو۔ بہرحال اگر مرزاقادیانی نے ’’صحیح بخاری شریف‘‘ کا حوالہ صحیح دیا ہے تو ذرا اس صفحہ کا عکس شائع کر دیں، اور اگر جھوٹ دیا ہے تو یہ فرمائیے کہ جو شخص صحیح بخاری جیسی معروف ومشہور کتاب پر جھوٹ باندھ سکتا ہے وہ اپنے دعویٰ مسیحیت میں سچا کیسے ہو گا؟ کیونکہ مرزاقادیانی ہی کا ارشاد ہے کہ: ’’ایک بات میں جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری بات میں بھی اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)
لہٰذا مرزاقادیانی تمام تر دعاوی میں جھوٹا تھا! اگر سچا ہے تو قادیانی اس کا سچ ثابت کریں؟ اور بخاری شریف میں حوالہ دکھائیں؟

مرزاقادیانی کی ’’سلطان القلمی‘‘ یا جہالت؟​

سوال نمبر:۷۰… مرزاقادیانی نے (اعجاز المسیح ٹائٹل، خزائن ج۱۸ ص۱) پر لکھا: ’’وقد طبع فی مطبع ضیاء الاسلام فی سبعین یوماً من شہر رمضان‘‘ کہ یہ کتاب مطبع ضیاء الاسلام میں ماہ رمضان کے ستردنوں میں چھپی ہے۔‘‘ حالانکہ رمضان کے دن انتیس یا تیس ہوتے ہیں۔ ستردن کبھی نہیں ہوسکتے۔ سلطان القلم کی فصاحت وبلاغت پر قادیانی کیا کہتے ہیں؟ جس شخص کی علمی سطح یہ ہو کیا اسے جاہل کہہ سکتے ہیں؟ اگر کہنے کی اجازت ہے تو تمہیں عار کیوں؟

مرزاقادیانی ’’رجل فارس‘‘ کیسے؟​

سوال نمبر:۷۱… مرزاقادیانی مغل تھا۔ اس نے رجل فارس ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ اب مشکل یہ تھی کہ مغل کبھی ’’فارس النسل‘‘ نہیں رہے تو مرزاقادیانی نے کہا: ’’میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام الٰہی کے اور کچھ ثبوت نہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۸، خزائن ج۱۷ ص۱۱۶)
اب سوال یہ ہے کہ مرزاقادیانی کے دعاوی صحیح تھے یا غلط۔ اس کو جانچنے کے لئے ضروری تھا، دیکھا کہ وہ ان شرائط پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ شرائط میں سے یہ کہ رجل فارسی تب ثابت ہوتا کہ فارسی النسل ہوتا۔ وہ ہے نہیں۔ اس کے لئے ثبوت میں پیش کرتا ہے اپنی وحی کو جو سرے سے ہمارے نزدیک ناقابل تسلیم ہے۔ اس لئے مسٹر فارسی النسل ہی نہیں تو ’’رجل فارس‘‘ کیسے؟۔

کیا مرزا یزیدی؟ اور قادیان پلید جگہ ہے؟​

سوال نمبر:۷۲… مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے: ’’واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اﷲ یہ ظاہرکیاگیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھاگیا ہے۔ جس میں ایسے لوگ رہتے ہوں جو یزیدی الطبع ہیں اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔ جن کے دلوں میں اﷲ اور رسول کی کچھ محبت نہیں اور احکام الٰہی کی کچھ عظمت نہیں۔ جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشوں کو معبود بنارکھا ہے اور اپنے نفس امارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی ان کی نظر میں سہل اور آسان امر ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۶،۶۷ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۳۵،۱۳۶)
مرزاقادیانی نے اپنا الہام بیان کیا کہ: ’’اخرج منہ الیزیدیون یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۲ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۳۸)
’’اخرج‘‘ کا معنی پیدا کئے گئے؟ چلو جانے دیں۔ پیدا ہوئے قادیان میں مرزاقادیانی بھی کیا وہ بھی یزیدی؟ چلو اسے بھی جانے دیں۔ حیرت تویہ ہے کہ مرزاقادیانی اس کتاب میں لکھتا ہے کہ: ’’کشف میں دیکھا میرا بھائی مرزاغلام قادر قرآن مجید میں پڑھ رہا ہے۔ ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام قرآن شریف میں درج کیاگیا ہے۔ مکہ، مدینہ اور قادیان۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۷، خزائن ج۳ ص۱۴۰ حاشیہ)
پہلی عبارت میں قادیان کو دمشق سے تشبیہ دے کر ان کی مذمت کی۔ دوسری عبارت میں مکہ، مدینہ کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کو مقدس بنایا تو ان دونوں باتوں سے کون سی بات صحیح ہے؟
پھر اگر یہ پلید جگہ ہے تو پلید لوگوں! خود بدولت کا آنا، ایسے لوگ تھے اس کے آباؤ اجداد چلو مرزاقادیانی کو مبارک ہو اور اگر یہ مقدس شہر ہے تو پھر وہ جو دمشق والی تاویل کر کے خود مسیح بنے تھے وہ ختم ہوگئی۔ چلو یہ بھی مرزاقادیانی کو مبارک ہو؟

کیا خدا کا ’’حیّ‘‘ ہونا مرزے کی وحی ماننے پر موقوف ہے؟​

سوال نمبر:۷۳… مرزاقادیانی نے کہا کہ اﷲتعالیٰ اگر الہام نہ کرے تو اس کا یہ معنی کہ اس کی زبان کو مرض لاحق ہوگئی ہے۔
ہے’کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہوگئی ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۴۴، خزائن ج۲۱ ص۳۱۲)
اس عبارت میں دعویٰ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ زندہ ہے۔ زندہ خدا کو کلام کرنا چاہئے اور خلاصہ یہ کہ اس خدا نے چودہ سو سال میں کسی سے کلام نہیں کی۔ (اس لئے کہ خود مرزاقادیانی کے نزدیک اس عرصہ میں کوئی نبی نہیں ہوا) صرف اور صرف مرزاقادیانی سے کلام کی۔ پھر مرزاقادیانی کے بعد بھی کسی پر وحی نبوت نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرزاقادیانی پر وحی نبوت کو مانا جائے تو خدازندہ ہے۔ ورنہ خدا کو مردہ کہنا پڑے گا۔ زندہ خدا کی تمام قدرت گویا مرزاقادیانی کے ماننے نہ ماننے پر موقوف ہو گئی۔ آخر اس کی کوئی وجہ؟
نیز بالفرض مان لیا جائے کہ خداتعالیٰ کی تمام ترقدرت مرزاقادیانی کے ماننے پر ہے تو مرزاقادیانی کے بعد کیا وحی جاری ہے یا نہیں؟ اگر جاری ہے تو کس پر؟ اگر جاری نہیں تو العیاذ باﷲ! پھر خدا زندہ نہیں؟ قادیانی نمک حلالی کریں اور مرزاقادیانی کا پیچھا چھڑائیں۔

مفسر بننے، صاحب تقویٰ ہونے کا معیار مرزاقادیانی کو ماننا؟​

سوال نمبر:۷۴… ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی مرزاقادیانی کے مرید تھے۔ انہوں نے تفسیر لکھی تو مرزاقادیانی نے اس کی تعریف میں کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب (عبدالحکیم پٹیالوی) کی تفسیر القرآن بالقرآن ایک بے نظیر تفسیر ہے۔ جس کو ڈاکٹر عبدالحکیم خان بی۔اے نے کمال محنت کے ساتھ تصنیف فرمایا ہے۔ نہایت عمدہ شیریں بیان اس میں قرآنی نکات خوب بیان کئے گئے ہیں۔ یہ تفسیر دلوں پر اثر کرنے والی ہے۔‘‘ (اخبار بدر مورخہ ۹؍اکتوبر ۱۹۰۳ء)
یہی ڈاکٹر صاحب مرزاقادیانی کے کرتوت دیکھ کر مرزاقادیانی سے باغی ہوگئے۔ مرزاقادیانی اور قادیانیت پر چار حرف بھیج کر مسلمان ہوگئے تو اب اس تفسیر کے متعلق کہا۔ ’’ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب کا اگر تقویٰ صحیح ہوتا تو وہ کبھی تفسیر لکھنے کا نام نہ لیتا۔ کیونکہ وہ اس کا اہل ہی نہیں تھا۔ اس کی تفسیر میں ذرہ برابر روحانیت نہیں اور نہ ہی ظاہری علم کا حصہ۔‘‘
(اخبار بدر مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ء)
قادیانی حضرات! اس دورخے شخص کا رخ صحیح کردیں۔ کیا اب بھی مرزاقادیانی کے دجل وفریب میں کوئی شبہ ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ جو شخص مرزاقادیانی کو مانتا ہو وہ صاحب علم بھی ہے اور تفسیر لکھنے کا اہل بھی؟ اور جو نہ مانے تو وہ بے علم ہے۔ تفسیر لکھنے کا اہل بھی نہیں اور اس میں تقویٰ بھی نہیں؟ کیا تقویٰ اور تفسیر لکھنے، اہل علم میں سے ہونے کے لئے معیار مرزاقادیانی ہے؟ اگر معیار مرزا قادیانی کو ماننا ہے تو کیا سابقہ تیرہ صدیوں کے مفسرین جنہوں نے مرزا قادیانی کا نام بھی نہیں سنا تھا وہ قابل اعتماد رہے یا نہیں؟

کیا مرزاقادیانی کی بڑھتی ہوئی ترقی معکوس ہوگئی؟​

سوال نمبر:۷۵… مرزاقادیانی نے تحریر کیا کہ: ’’تین ہزار یا اس سے بھی زیادہ اس عاجز کے الہامات کی مبارک پیش گوئیاں جو امن عامہ کے مخالف نہیں پوری ہوچکی ہیں۔‘‘ (حقیقت المہدی ص۱۵، خزائن ج۱۴ ص۴۴۱)
یہ تحریر اس کی مورخہ ۲۱؍فروری ۱۸۹۹ء کی ہے۔ دیکھئے (خزائن ج۱۴ ص۴۷۲) لیکن اس تحریر کے پونے تین سال بعد مورخہ ۵؍نومبر ۱۹۰۱ء میں (ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰) تحریر کیا: ’’پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیش گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں۔‘‘
اب ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۸۹۹ء میں مرزاقادیانی کی تین ہزار پیش گوئیاں پوری ہوچکی تھیں۔ اس کے پونے تین سال بعد پوری شدہ پیش گوئیوں کی تعداد ڈیڑھ سو ہوگئی۔ یہ ترقی معکوس کے علاوہ مرزاقادیانی کے کذب پر کھلا نشان نہیں؟ کیا قادیانی مرید ان عبارتوں کے واضح تضاد وکذب بیانی سے مرزاقادیانی کے دامن کو بچا سکتے ہیں؟

کیا فلاسفہ کی پیروی نادانی ہے؟​

سوال نمبر:۷۶… مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’نیا اور پرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے خاکی جسم کے ساتھ کرۂ زمہریر تک بھی پہنچ سکے… بلندی پر… زندہ رہنا ممکن نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۷، خزائن ج۳ ص۱۲۶)
اس حوالہ میں فلسفیوں کے فلسفہ کو بنیاد بنا کر سیدنا مسیح علیہ السلام کی وفات پر استدلال کر رہا ہے۔ لیکن (کشتی نوح ص۲۲، خزائن ج۱۹ ص۲۴) پر لکھا: ’’تمہیں اس دنیا کے فلسفیوں کی پیروی مت کرو اور ان کو عزت کی نگاہ سے مت دیکھو کہ یہ سب نادانیاں ہیں۔ سچا فلسفہ وہ ہے جو خدا نے تمہیں اپنے کلام میں سکھلایا ہے۔‘‘
اب قادیانی فرمائیں کہ مرزا قادیانی پہلے حوالہ میں فلسفیوں کے قول سے استدلال کر رہا ہے۔ دوسرے میں فلسفیوں کی پیروی سے انکار کر رہا ہے۔ کیا مرزاقادیانی کی مثال اس عیار کی طرح نہیں؟ کہ مطلب کی بات جھوٹی گھڑے اور مطلب کے خلاف کی حقیقت کو بھی جھٹلادے؟ مرزاقادیانی کی اس دورخی کا قادیانیوں کے پاس کوئی علاج ہے؟ اس موقعہ پر مرزاقادیانی کا یہ حوالہ بھی مدنظر رہنا مفید ہوگا جو (ازالہ اوہام ص۸۶۲، خزائن ج۳ ص۵۷۲) میں ہے۔ ’’جھوٹے پر ہزار لعنت نہ سہی پانچ سو سہی۔‘‘ کیسے رہا؟

کیا تمام علیہم السلام نے مرزاقادیانی کے بارے میں خبر دی؟​

سوال نمبر:۷۷… مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے کہ: ’’تمام نبیوں نے ابتداء سے آج تک میرے لئے خبریں دی ہیں۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۶۲، خزائن ج۲۰ ص۶۴)
سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا مسیح ابن مریمعلیہ السلام تک تمام انبیاء علیہ السلام سے رحمت عالم ﷺ کی بشارت دینے اور مدد کا وعدہ تو اﷲتعالیٰ نے لیا۔ مرزاقادیانی نے اس اعزاز کو آنحضرت ﷺ سے سلب کر کے اپنے لئے ثابت کر رہا ہے۔ کیا ساری دنیا کے قادیانی مل کر مرزاقادیانی کے اس دعویٰ کو سچا ثابت کر سکتے ہیں؟۔ نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر مرزاقادیانی کے کذاب اعظم ہونے میں کوئی شبہ باقی رہ جاتا ہے؟

پیش گوئی پوری نہ ہونے کی کوئی شکل؟​

سوال نمبر:۷۸… مرزاقادیانی نے کہا کہ محمدی بیگم سے میرا نکاح ہوگا، وہ نکاح نہ ہوا۔ مگر قادیانی کہتے ہیں کہ پیش گوئی پوری ہوگئی۔ قادیانیوں سے سوال یہ ہے کہ ’’محمدی بیگم‘‘ سے مرزاقادیانی کا نکاح ہو جاتا تو بھی پیش گوئی پوری اور اگر نکاح نہیںہوا تو بھی پیش گوئی پوری، تو پیش گوئی کے پورا نہ ہونے کی کون سی شکل تمہارے نزدیک ہوسکتی ہے؟

گھر کا معنی اور کشتی کی توسیع​

سوال نمبر:۷۹… مرزاقادیانی کو طاعون کے زمانہ میں الہام ہوا: ’’انی احافظک کل من فی الدار‘‘یعنی میں ہر اس شخص کی حفاظت کروں گا جو اس گھر میں رہتا ہے۔ مرزاقادیانی اس گھر کی تشریح کرتا ہے۔

گھر کا معنی​

’’ہر ایک جو تیرے گھر کی چاردیواری میں ہے۔ میں اس کو بچاؤں گا۔ اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک وخشت کے گھر میں بودوباش رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں۔ میرے روحانی گھر میں داخل ہیں۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۰، خزائن ج۱۹ ص۱۰)
مرزاقادیانی کو الہام ہوا تھا کہ میں تیرے گھر والوں کی حفاظت کروں گا اور مرزاقادیانی نے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ گھر سے مراد خاک وخشت کا گھر نہیں بلکہ روحانی گھر ہے اور میری تعلیم پر صدق دل سے عمل کرنے والے جہاں کہیں بھی ہوں۔ اس گھر میں شامل ہیں۔ اس عبارت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل حوالہ غور سے پڑھئے۔
’’چونکہ آئندہ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ طاعون ملک میں پھیل جائے اور ہمارے گھر کے بعض حصوں میں مرد رہتے ہیں اور بعض حصہ میں عورتیں۔ اس لئے مکان میں سخت تنگی واقع ہے اور آپ لوگ سن ہی چکے ہیں کہ اﷲ جل شانہ نے لوگوں کے لئے جو اس گھر کی چاردیواری میں رہتے ہیں۔ حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا ہے۔ ہمارے ساتھ والامکان اس وقت قیمتاً مل رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ مکان دو ہزار تک مل سکتا ہے۔ چونکہ خطرہ ہے کہ طاعون کا زمانہ قریب ہے اور یہ گھر وحی الٰہی کی خوشخبری کی رو سے اس طوفان میں بطور کشتی کے ہوگا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ آئندہ کشتی میں نہ کسی مرد کی گنجائش ہے اور نہ عورت کی۔ اس لئے اس کشتی کی توسیع کی ضرورت پڑی۔ لہٰذا اس کی وسعت میں کوشش کرنی چاہئے۔‘‘ (یعنی چندہ دینا چاہئے) (کشتی نوح ص۷۶، خزائن ج۱۹ ص۸۶)
ناظرین! کیا اب بھی مرزاقادیانی کے دنیادار اور دنیاپرست ہونے میں کوئی شبہ باقی ہے؟۔ ایک طرف تو گھر سے مراد روحانی گھر بتاتے ہیں اور دوسری طرف خاک وخشت والے مکان کی وسعت کے لئے چندہ مانگ رہے ہیں۔ کیا قادیانی یہ معمہ حل کریں گے؟

ٹیکہ کے مقابلہ میں الہام اور ایام طاعون میں احتیاط​

سوال نمبر:۸۰… مرزاقادیانی نے اپنے الہام اور ٹیکہ کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہمیں تو اپنے الہام پر کامل یقین ہے کہ جب افسران گورنمنٹ ہمیں ٹیکہ لگانے آئیں گے تو ہم اپنا الہام ہی پیش کر دیں گے۔ میرے نزدیک تو اس الہام کی موجودگی میں ٹیکہ لگانا گناہ ہے۔ کیونکہ اس طرح تو ثابت ہوگا کہ ہمارا ایمان اور بھروسہ ٹیکہ پر ہے۔ اﷲتعالیٰ کے کرم اور وعدہ پر نہیں۔‘‘ (ملفوظات مرزا حصہ چہارم، پنجم ص۲۵۶)
مرزاقادیانی کی اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر وہ الہام حفاظت از طاعون کی موجودگی میں ٹیکہ وغیرہ دنیاوی اور مادی احتیاط سے کام لیں گے تو الہام الٰہی سے بے یقین ثابت ہوں گے۔ ناظرین مندرجہ عبارت کو ذہن نشین رکھئے اور صاحبزادہ مرزابشیر احمد ایم۔اے کا مندرجہ ذیل بیان پڑھئے کہ: ’’طاعون کے ایام میں حضرت مسیح موعود فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جاکر ڈالتے تھے۔ نیز گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے۔ تاکہ ضرر رساں جراثیم مر جاویں اور آپ نے بہت بڑی آہنی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی۔ جس میں کوئلے اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور تمام دروازے بند کر دئیے جاتے تھے۔ اس کی اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جب انگیٹھی کے ٹھنڈا ہو جانے کے ایک عرصہ بعد کمرہ کھولا جاتا تھا تو کمرہ اندر بھٹی کی طرح تپتا ہوتا تھا۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۹، بروایت نمبر۳۷۹)
اور سنئے! ’’حضور کو بٹیر کا گوشت بہت پسند تھا۔ مگر جب سے پنجاب میں طاعون کا زور ہوا بٹیر کھانا چھوڑ دیا۔ بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعونی مادہ ہوتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی ج۲ ص۱۳۲، بروایت نمبر۴۴۴)
اور سنئے! ’’وبائی ایام میں حضرت صاحب اتنی احتیاط فرماتے کہ اگر کسی خط کو جووبا والے شہر سے، آتا چھوتے تو ہاتھ ضرور دھو لیتے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء)
مرزائیو! اگر ٹیکہ لگانے سے الہام الٰہی پر ایمان نہیں رہتا تو یہ احتیاطیں کرنے والا کون ہوا؟ فرق صرف یہ ہے کہ ٹیکہ لگوانے سے خطرہ تھا کہ لوگ اعتراض کریں گے اور یہ احتیاطیں اندرون خانہ ہوتی تھیں۔ جہاں سب کے سب جی حضورئے ہوتے تھے۔ کیا سچا انسان اسی شان کا مالک ہوتا ہے؟

’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال‘‘ کے الہام سے مرزا انکاری، بیٹا اقراری​

سوال نمبر:۸۱… انبیاء علیہ السلام کو سب سے پہلے اپنے الہام پر ایمان ہوتا ہے اور وہ ’’بلغ ما انزل‘‘ کے تحت مامور ہوتے ہیں کہ خدا کا الہام بلاکم وکاست لوگوں تک پہنچا دیں۔ خواہ انہیں اس جرم کی پاداش میں بھڑکتی ہوئی آگ یا تختہ دار سے ہمکنار ہونا پڑے۔ مگر افسوس کہ مرزاقادیانی اس مقام پر بھی بالکل فیل نظر آتے ہیں۔ ۱۸۶۰ء کے زمانہ میں ایک دفعہ انہیں الہام ہوا تھا کہ سلطنت برطانیہ ۷،۸سال تک کمزور ہو جائے گی۔ الہام کے اصل الفاظ یہ تھے کہ: ’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعدازاں ایام ضعف واختلال‘‘ ان کے کسی مرید نے یہ الہام مولانا محمدحسین بٹالوی کو بتادیا اور انہوں نے اپنے اخبار ’’اشاعۃ السنہ‘‘ میں شائع کر دیا۔ پس پھر کیا تھا۔ مرزاقادیانی کو فکر پڑ گئی کہ انگریز بہادر ناراض ہوکر خودکاشتہ پودا کی جڑ ہی نہ اکھڑوا دے۔ فوراً ایک رسالہ ’’کشف الغطاء‘‘ لکھ مارا۔ جس کے ٹائٹل پر بحروف جلی لکھا کہ: ’’یہ مؤلف تاج عزت جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام اقبالہا کا واسطہ ڈال کر بخدمت گورنمنٹ عالیہ انگلشیہ کے اعلیٰ افسروں اور معزز حکام سے باادب گذارش کرتا ہے کہ براہ غریب پروری وکرم گستری اس رسالہ کو اوّل سے آخر تک پڑھا جائے یا سنا جائے۔‘‘
پھر ’’صفحہ ب‘‘ پر الہام مذکورہ سے انکار کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے اپنی عاجزانہ عرض کو گورنمنٹ پر ظاہر کروں کہ مجھے اس شخص کے ان خلاف واقعہ کلمات سے کس قدر صدمہ پہنچا ہے اور کیسے درد رساں زخم لگے ہیں۔ افسوس کہ اس شخص نے عمداً اور دانستہ گورنمنٹ کی خدمت میں میری نسبت نہایت ظلم سے بھرا ہوا جھوٹ بولا ہے اور میری تمام خدمات کو برباد کرنا چاہا ہے۔ خدا جھوٹے کو تباہ کرے۔‘‘
گویا مرزاقادیانی نے خوب زوروشور سے الہام مذکورہ کا انکار کر دیا۔ چونکہ مولانا بٹالوی کے پاس مرزاقادیانی کی کوئی تحریر متعلقہ الہام نہیں تھی۔ اس لئے انہیں خاموش ہونا پڑا اور عرصہ ۲۵سال تک اس الہام پر انکار کا پردہ پڑا رہا۔ مگر ’’نہاں ماند کجا رازے کزد سازند محفلہا‘‘ کہی ہوئی بات کو چھپانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہو ہی جایا کرتی ہے۔ مذکورہ الہام کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ مرزاقادیانی نے انکار کیا اور دعا کی کہ: ’’جھوٹے کو خدا تباہ کرے۔‘‘ مگر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ مرزابشیر احمد ایم۔اے نے (سیرۃ المہدی ج۱ ص۷۵، روایت نمبر۹۶) پر تسلیم کر لیا کہ حضرت صاحب کو واقعی یہ الہام ہوا تھا۔
اب ناظرین یہ بتائیں کہ مرزاقادیانی کو کیا کہیں؟۔ مرزائیو! یہ کیا بات ہے؟ کہ باپ اپنے الہام سے منکر ہے اور صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ الہام واقعی ہوا تھا۔ ذرا سوچ سمجھ کر جواب دینا۔

کیا جاہل محض مقتداء بن سکتا ہے؟​

سوال نمبر:۸۲… مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’میرا اپنا عقیدہ جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھا ہے۔ ان الہامات کی منشاء سے جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔ صریح نقیض میں پڑا ہو اہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۴۲، خزائن ج۱۹ ص۲۷۲)
دوسری جگہ مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’پرلے درجہ کا جاہل جو اپنے کلام میں متناقض بیانوں کو جمع کرے اور اس پر اطلاع نہ رکھے۔‘‘ (ست بچن ص۲۹، خزائن ج۱۰ ص۱۴۱)
نیز لکھا کہ: ’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
قادیانی حضرات خود توجہ فرمائیں! کہ مرزاقادیانی اپنے الہامات میں صریح نقیض کا معترف ہے اور متناقض الکلام کو پرلے درجہ کا جاہل اور جھوٹا قرار دیتا ہے تو جاہل اور جھوٹے شخص کو اپنا مقتداء ماننا کیا عقلمندی کے خلاف نہیں ہے؟

کیا نبی کا فرشتہ جھوٹ بول سکتا ہے؟​

سوال نمبر۸۳… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۳۳۲، خزائن ج۲۲ ص۳۴۶) پر لکھا: ’’مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۵ء کو میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔ میرے سامنے آیا اور اس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا؟ اس نے کہا نام کچھ نہیں۔ میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔ اس نے کہا میرا نام ہے ٹیچی ٹیچی۔‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نام کچھ نہیں تھا تو یہ کیوں کہا کہ میرا نام ٹیچی ہے؟۔ اگر نام ٹیچی تھا تو یہ کیوں کہا کہ میرا نام کچھ نہیں؟۔ دو باتوں سے ایک بات ہی سچی ہوسکتی ہے دوسری جھوٹ۔ تو قادیانی فرمائیں! کہ مرزاقادیانی کتنا مقدس نبی تھا؟۔ جس کا فرشتہ بھی جھوٹ بولتا تھا۔

’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ یا نفسانی تحقیقات​

سوال نمبر:۸۴… مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’مرد کی بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہو جائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کاروائی(؟) کا ہے۔ بے کار اور معطل ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ کاروائی کی کل(؟) مرد کو دی گئی ہے۔ اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)
اس عبارت میں دو جگہ سوالیہ نشان(؟) لگائے گئے ہیں۔ قادیانیوں سے سوال ہے کہ وہ مرزاقادیانی کی ذہنیت
کا اندازہ فرمائیں؟ اور پھر سوچیں کہ یہ خیالات جس کتاب میں لکھے گئے۔ اس کا نام آئینہ کمالات اسلام رکھا ہے؟ کیا اسلام اور دینی شخص کے ذہنی کمالات ایسے ہی ہوتے ہیں؟ یا نفسیاتی مریض کے؟

کیا ماہ صفر چوتھا اسلامی مہینہ ہے؟​

سوال نمبر:۸۵… مرزاقادیانی نے تحریر کیا کہ: ’’صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں میں چوتھا مہینہ ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۴۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱۸)
کیا اس سے بڑھ کر جہالت کی اور بات ہوسکتی ہے۔ جس کا مرتکب مرزاقادیانی ہورہا ہے؟۔ مرزائی بتائیں کہ اسلامی مہینوں میں صفر چوتھا مہینہ ہے؟۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو قادیانی فیصلہ کر کے بتائیں کہ مرزاقادیانی عالم تھا یا جاہل؟ اگر جاہل تھا اور پکی بات ہے جاہل تھا تو نبی کیسے؟

کیا سورۂ لہب میں ابی لہب سے مراد مرزاقادیانی کی تکفیر کرنے والے ہیں؟​

سوال نمبر:۸۶… مرزاقادیانی نے لکھا: ’’غرض براہین احمدیہ کے اس الہام میں سورہ ’’لہب کی پہلی آیت کا مصداق اس شخص کو ٹھہرایا ہے۔ جس نے سب سے پہلے خدا کے مسیح موعود پر تکفیر اور توہین کے ساتھ حملہ کیا۔ یہ تفسیر سراسر حقانی ہے اور تکلف اور تصنع سے پاک ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۷۵، خزائن ج۱۷ ص۲۱۶)
’’تبت یدا‘‘ کی یہ تفسیر جو مرزاقادیانی نے کی ہے۔ پوری امت میں سے کسی بھی مفسر، مجدد نے بھی یہ تفسیر کی ہے؟۔ نہیں اور یقینا نہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ ملعون قادیان پورے قرآن مجید کو اپنے اوپر فٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ نیز یہ کہ یہ سورۃ حضور ﷺ کے دشمن کے متعلق تھی۔ مرزاقادیانی نے اپنے مخالف پر فٹ کر دی۔ یہ تحریف وتلبیس، دجل وافتراء کا وہ نمونہ ہے کہ پوری قادیانیت اس کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔ کیا ہے ہمت؟

کیا انگلش ناخواندہ ملازم؟ اور انگریزی الہامات ’’آئی لو یو‘‘وغیرہ کیسے؟​

سوال نمبر:۸۷… مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:’’میں انگریزی خواں نہیں ہوں اور بکلی اس زبان سے ناواقف ہوں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۰۴، خزائن ج۲۲ ص۳۱۷)
اس کے برعکس مرزاقادیانی کا اپنا بیٹا بشیراحمد ایم۔اے لکھتا ہے: ’’سیالکوٹ ملازمت کے زمانہ میں مولانا الٰہی بخش چیف محرر مدارس کی کوشش سے کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ کمشنر سرجن پنشنر ہیں۔ استاذ مقرر ہوئے۔ مرزاقادیانی نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۱۵۵،روایت نمبر۱۵۰، حیات النبی ج۱ ص۶۰)
’’میں انگریزی خواں نہیں۔ بلکہ اس زبان سے ناواقف ہوں۔‘‘ یہ قول مرزاقادیانی کا ہے۔ اس کے گھر کے بھیدی کہتے ہیں کہ انگریزی کی ایک دو کتابیں پڑھیں۔ اب مرزاقادیانی کی راست بازی پر قادیانی سردھنیں۔ الٹ پلٹ بیہودہ احمقانہ انگلش الہام انہیں ایک دو کتابوں کی کرشمہ سازی ہے اور بس؟
اگر انگلش نہیں پڑھی تو الہام کیسے سمجھ لیتا تھا؟ پھر جن استاذوں کے نام مرزے کی کتابوں میں ہیں۔ یا قادیانی کتب میں ہیں۔ نکال دئیے جائیں؟ تاکہ اسے نبی ماننے والوں کو دھوکا نہ ہو؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

کیا غیرزبانی الہام برحق ہونے کی دلیل؟​

سوال نمبر:۸۸… مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:’’اور یہ بات بالکل غیرمعقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
اس کے برعکس خود لکھا کہ: ’’زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
انگریزی، عبرانی، سنسکرت کے الہامات کی توضیح وترجمہ کے لئے مرزاقادیانی اپنے مرید ’’میرعباس علی شاہ‘‘ سے مدد طلب کرتا تھا۔ (مکتوبات احمدیہ ج۱ ص۶۸)
اب مرزاقادیانی کی اس غیرمعقولیت وبیہودگی کے متعلق مریدان مرزا کیا ارشاد فرماتے ہیں؟۔ پھر خود مرزاقادیانی نے غیرزبانوں میں اپنے الہامات کو اپنے منجانب اﷲ ہونے کی دلیل قرار دیا۔
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
جو بیہودہ امر ہو وہ منجانب اﷲ ہونے کی دلیل؟ کیا فرمایا مرزاقادیانی نے؟

بوقت دعویٰ پیٹ میں اب اولاد جوان؟​

سوال نمبر:۸۹… مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’جو لوگ میرے دعویٰ کے وقت ابھی پیٹ میں تھے۔ اب ان کی اولاد بھی جوان ہوگئی ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۴۵، خزائن ج۲۱ ص۳۱۳)
یہ لغو مبالغہ کی بہترین مثال ہے۔ کیونکہ ہر صورت میں تو پیٹ والے افراد کم ازکم چالیس سال کی عمر کے ہونے چاہئیں۔ حالانکہ مرزاقادیانی کا دعویٰ ۱۸۸۰ء سے بھی تسلیم کیا جائے تو ۱۹۰۸ء تک صرف اٹھائیس سال بنتے تھے۔ کیا ابھی پیٹ والے جوان ہوئے نہ کہ ان کی اولاد؟۔ قادیانی بتائیں کہ مرزاقادیانی کے اونٹ کی کون سی کل سیدھی ہے؟۔

کیا ’’بکر وثیب‘‘ والی پیش گوئی پوری ہوئی؟​

سوال نمبر:۹۰… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’خداتعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی۔ خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے اور یا خداتعالیٰ بیوہ کر کے اس کو میری طرف لے آئے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۹)
کیا وہ لڑکی مرزاقادیانی کے نکاح میں آئی؟۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر یہ کتنی بیہودہ بات ہے کہ کہا جائے کہ وہ پیش گوئی پوری ہوگئی؟

کیا راست باز کا کام لعنت کرنا؟​

سوال نمبر:۹۱… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۳۵۶، خزائن ج۳ ص۴۵۶) پر لکھا ہے کہ: ’’لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں، مؤمن لعان نہیں ہوتا۔‘‘
دوسری جگہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (نور الحق ص۱۱۸تا۱۲۲، خزائن ج۸ ص۱۵۸تا۱۶۲) میں نمبرشمار کر کے ایک ہزار مرتبہ صرف ’’لفظ لعنت‘‘ لکھا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے حوالہ کے مطابق ’’لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔ مؤمن لعان نہیں ہوتا‘‘ اور دوسرے حوالہ کے مطابق مرزاقادیانی نے ایک ہزار مرتبہ لعنت کی ہے تو کیا مرزائی بتائیں گے کہ مرزاقادیانی جھوٹا اور کذاب تھا؟ صدیق اور راست باز نہ تھا؟ دوسرا یہ کہ مرزاقادیانی لعنت کرنے کی وجہ سے خود مؤمن نہ رہا کیا خیال ہے؟

کیا نبی گالیاں دیتا ہے؟​

سوال نمبر:۹۲… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے مخالفین کو حروف تہجی کے اعتبار سے سینکڑوں گالیاں دی ہیں۔ کیا قادیانی بتائیں گے کہ مرزاغلام احمد قادیانی جیسی فصاحت اپنے لئے مانگنے پر تیار ہیں؟ اور گالیاں دینا شریف آدمی کا کام ہے یا بازاری آدمی کا؟
حالانکہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔‘‘ میں گالیاں دینے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ گالیاں دینا نبی کا کام اور اس کی صفت نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مرزاقادیانی گالیاں دے تو بھی نبی؟ کیا قادیانی شرافت گالیوں کی اجازت دیتی ہے؟

کیا مرزاقادیانی کی جماعت بے تہذیب، درندہ صفت؟​

سوال نمبر:۹۳… مرزاغلام احمد قادیانی اپنی کتاب (شہادۃ القرآن ص۲، خزائن ج۶ ص۳۹۶) پر لکھتا ہے: ’’مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں بلکہ بعض میں ایسی بے تہذیبی ہے۔ اگر میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے۔‘‘ اب قادیانی بتائیں کہ وہ درندہ رہنا پسند کریں گے؟ یا مرزاغلام احمد قادیانی کو چھوڑ کر اشرف المخلوقات بننا پسند فرمائیں گے؟
نیز مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کو بے تہذیب وغیرہ کہا ہے۔ کیا اب مرزائیوں میں تہذیب آچکی ہے؟ جب کہ مرزاقادیانی کی موجودگی میں نہیں تھی؟ اگر تمہیں کچھ تہذیب اور سمجھ ہے؟ تو مرزاقادیانی کی جماعت کو کیوں نہیں چھوڑتے؟ وہ تمہیں بے تہذیب وغیرہ لکھے اور تم اسے نبی مانو؟۔ واقعی تمہاری حس اور شعور ختم ہوچکا ہے۔

کیا نبی امتی کی تقلید کر سکتا ہے؟​

سوال نمبر:۹۴… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (ملفوظات ج۹ ص۱۷۰) پر لکھا ہے کہ: ’’سوہمارے نزدیک سب سے اوّل قرآن مجید ہے۔ پھر احادیث صحیحہ جن کی نسبت تائید کرتی ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ان دونوں میں نہ ملے تو پھر میرا مذہب یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جاوے۔ کیونکہ ان کی کثرت اس بات کی دلیل ہے کہ خداتعالیٰ کی مرضی یہی ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی اپنی کتاب (ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ص۲۰۷) پر لکھتا ہے کہ: ’’اس وحی الٰہی میں اﷲ نے میرا نام محمد رکھا اور رسول بھی۔‘‘
معلوم ہوا مرزاقادیانی مدعیٔ نبوت ہے اور پھر ایک نبی کا یہ کہنا کہ قرآن وسنت کے بعد حنفی مذہب پر عمل کیا جائے۔
کیا اس سے غیرنبی کا نبی پر فائق ہونا لازم نہیں آتا؟ کیا مرزاقادیانی کا یہ کہنا نبوت کے منصب کی توہین نہیں؟ کیا نبی کا امتی کی تقلید کرنا یہ نبی کی توہین نہیں؟

کیا نبی بدعت پر عمل کرتا ہے؟​

سوال نمبر:۹۵… مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (ملفوظات ج۲ص۲۰۸) پر لکھا ہے کہ: ’’لوگوں نے جو اپنے نام حنفی شافعی وغیرہ رکھے ہیں یہ سب بدعت ہیں۔‘‘
نیز اس نے اپنی کتاب (ملفوظات ج۹ص۱۷۰) پر لکھا ہے کہ: ’’میرا مذہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جائے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ ایک جگہ مرزا قادیانی حنفی نام کو بدعت کہہ رہا ہے اور دوسری جگہ خود حنفی مذہب کی تائید کررہا ہے۔ کیا نبی بدعت کو ختم کرنے کے لئے آتے ہیں یا اپنے قول وعمل سے اس کی تائید کرتے ہیں؟

مرزا قادیانی نماز کس وقت پڑھتا تھا؟​

سوال نمبر:۹۶… مرزا قادیانی نے اپنی کتاب (اربعین ضمیمہ نمبر۳،۴ ص۴، خزائن ج۱۷ص۴۷۱) پر لکھا ہے کہ: ’’بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں میرے شامل حال ہیں۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ مرزا قادیانی دن یا رات میں سو سو دفعہ پیشاب کرتا تھا۔ کوئی قادیانی بتاسکتا ہے کہ مرزا قادیانی کس وقت نماز پڑھتا تھا؟۔ کھانا کھاتا تھا۔ بیوی کے پاس جاتا تھا۔ کتابیں لکھتا تھا۔ مریدوں کو ملتا تھا۔ سوتا تھا؟۔ جبکہ کثرت پیشاب کی وجہ سے ضعف بھی ہوجاتا تھا؟

کیا اب بھی مرزا قادیانی کا انکار کفر ہے؟​

سوال نمبر:۹۷… مرزا قادیانی کہتا ہے کہ: ’’ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)
سوال یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی مدعی نبوت ہے۔ کیا قرآن وسنت کی روشنی میں نبی کا انکار کفر نہیں؟ اگر کفر نہیں ہے تو پھر مرزاقادیانی کے انکار کرنے سے مسلمان کافر کیوں؟

جو معجزہ کو مسمریزم کہے وہ کون؟​

سوال نمبر:۹۸… مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’یہ اعتقاد بالکل مشرکانہ اور فاسد خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونک مار کر ان کو سچ مچ کے جانور بنادیتا تھا۔ بلکہ یہ صرف عمل التراب (مسمریزم) تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۲، خزائن ج۳ ص۲۶۳)
حالانکہ قرآن مجید میں ہے: ’’ اِنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہٖ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ (آل عمران:۴۹) ‘ ‘ {کہ میں بنا دیتا ہوں تم کو گارے سے پرندہ کی شکل پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو ہو جاتا ہے وہ اڑتا جانور اﷲ کے حکم سے۔}
اب سوال یہ ہے کہ بقول مرزاقادیانی اگر یہ عمل التراب ہے جسے وہ مسمریزم کہتا تھا تو کیا قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ مسمریزم کو اپنے نبی کا معجزہ قرار دے رہے ہیں؟ پھر اگر قرآن مجید سچا ہے تو مسیح کا مٹی کے پرندے بنا کر پھونک مارنا اور ان کا اڑنے لگ جانا معجزہ ہے تو معجزہ کو مسمریزم کہنے والا کون ہے؟ مسلمان یا کافر؟ قادیانی جواب دیں۔

اﷲ کا فرمان سچا یا مرزاقادیانی کی بکواس؟​

سوال نمبر:۹۹… مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’حضرت مسیح کے عمل مسمریزم سے وہ مردے زندہ ہوتے تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۱، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
حالانکہ قرآن مجید میں ہے: ’’ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ (آل عمران:۴۹) ‘‘ {اور جلاتا ہوں مردے اﷲ کے حکم سے۔}
اس آیت میں مردوں کو باذن الٰہی زندہ کرنا مسیح علیہ السلام کا معجزہ قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ مرزاقادیانی ملعون اسے مسمریزم قرار دیتا ہے۔ قادیانی حضرات فرمائیں؟ کہ کیا اﷲتعالیٰ صحیح فرماتے ہیں کہ مردے زندہ کرنا واقعی مسیح علیہ السلام کا معجزہ تھا یا مرزاقادیانی صحیح کہتا ہے کہ وہ مسمریزم تھا؟ مرزائی حضرات فیصلہ فرمائیں کہ کون صحیح ہے۔ اﷲ تعالیٰ یا مرزاقادیانی؟

کیا قابل نفرت عمل اﷲ کو پسند؟​

سوال نمبر:۱۰۰… مرزاقادیانی نے لکھا: ’’اگر یہ عاجز (مرزاقادیانی) اس عمل (مسمریزم/عمل التراب) کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خداتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم(علیہ السلام ) سے کم نہ رہتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
مرزاقادیانی نے پہلے حوالوں میں مسیح کے معجزات کو مسمریزم وعمل التراب کہا۔ اس حوالہ میں اس مسمریزم وعمل التراب کو مکروہ وقابل نفرت کہا۔ قادیانی حضرات فرمائیں؟ کہ کیا قابل نفرت ومکروہ عمل اﷲتعالیٰ اپنے نبیوں کے ہاتھوں پر ظاہر کرتا تھا؟۔ پھر قرآن میں اسے اپنا انعام قرار دے کر اپنے نبی کو فرماتا ہے کہ میں نے یہ انعام کیا۔ یہ انعام کیا۔ واہ! اگر وہ انعام الٰہی تھے تو قابل نفرت اور مکروہ نہیں۔ اگر مکروہ ہیں تو انعام الٰہی نہیں؟۔ مرزائی بتائیں کہ اﷲتعالیٰ کا کلام قرآن سچا ہے یا مرزاقادیانی؟

کیا اﷲتعالیٰ نبیوں کو قابل نفرت عمل کا حکم دیتے تھے؟​

سوال نمبر:۱۰۱… مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’مسیح ابن مریم باذن وحکم الٰہی الیسع نبی کی طرح اس عمل التراب (مسمریزم) میں کمال رکھتے تھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۸، خزائن ج۳ ص۲۵۷)
مرزاقادیانی نے عمل التراب یعنی مسمریزم کو مکروہ وقابل نفرت کہا۔ پھر اس حوالہ میں کہا کہ مسیح ابن مریم اﷲتعالیٰ کے حکم سے اس عمل ومسمریزم میں کمال رکھتے تھے۔ تو کیا اﷲتعالیٰ قابل نفرت ومکروہ اعمال کرنے کا اپنے نبیوں کو حکم دیتے تھے؟ اور وہ نبی ان قابل نفرت ومکروہ اعمال میں کمال حاصل کر لیتے تھے؟

اگر نبی سچا تو پیش گوئیاں کیوں ٹلیں؟​

سوال نمبر:۱۰۲… مرزاقادیانی نے لکھا: ’’ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں۔‘‘
(کشتی نوح ص۵، خزائن ج۱۹ ص۵)
نیزمرزاقادیانی نے لکھا: ’’عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں جھوٹی نکلیں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۴، خزائن ج۱۹ ص۱۲۱)
قادیانی بتائیں؟ کہ خود مرزاقادیانی کو اعتراف ہے کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ناممکن ہے کہ ٹل جائیں۔ پھر کہتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں غلط نکلیں؟۔ کیا اس کا یہ معنی نہیں کہ مرزاقادیانی کے نزدیک سیدنا مسیح علیہ السلام اﷲتعالیٰ کے سچے نبی نہ تھے۔ ورنہ ان کی پیش گوئیاں کیوں جھوٹی نکلتیں؟ (معاذ اﷲ)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

باب پانزدہم … متفرق قادیانی سوالات کے جوابات​

قادیانیوں کا کلمہ پڑھنا کیسے؟
سوال نمبر:۱… مرزائی کہتے ہیں کہ جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں، نماز تمہارے جیسی پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قبلہ کی طرف رخ بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں اور مسلمانوں کی طرح جانور ذبح کرتے ہیں، تو پھر ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب نمبر:۱… مسلمان ہونے کے لئے پورے اسلام کو ماننا ضروری ہے۔ جب کہ کافر ہونے کے لئے پورے اسلام کا انکار کرنا ضروری نہیں۔ دین کے کسی بھی ایک مسئلہ اور ایک جزء کے انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے۔ اگر کسی نے دین کے ایک ضروری مسئلہ کا انکار کر دیا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ چاہے کروڑ دفعہ وہ کلمہ کیوں نہ پڑھتا ہو۔ یا نمازی، حاجی اور زکوٰۃ دینے والا کیوں نہ ہو۔ اس کی مثال یوں ہے: جیسے ایک دیگ میں چار من دودھ ہو، اس کے پاک ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پورے کا پورا پاک ہو۔ ناپاک ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ چارمن شراب اس میں ڈالی جائے تب وہ ناپاک اور پلید ہو۔ بلکہ ایک تولہ شراب سے بھی چارمن دودھ ناپاک ہو جائے گا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دین کے کسی ایک امر اور کسی ایک مسئلہ کا انکار کر دے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
مرزائی صرف کسی ایک مسئلہ کا نہیں۔ کئی ضروریات دین کا انکار کرتے ہیں۔ اس لئے وہ کافر ہیں۔ مسلمانوں کو دھوکہ اور فریب دینے کے لئے چاہے وہ کروڑ دفعہ ہی کلمہ کیوں نہ پڑھیں تب بھی کافر ہیں۔
جواب نمبر:۲… مسیلمہ کذاب اور اس کی پارٹی کے لوگ نماز پڑھتے تھے، اور اذان دیتے تھے۔ کلمہ بھی پڑھتے تھے، اور مسلمانوں کے قبلہ کی طرف رخ بھی کرتے تھے۔ مسلمانوں کا ذبیحہ بھی کھاتے تھے۔ غرض یہ کہ تمام مسلمانوں کا اور مسیلمہ کذاب کا دین کے دیگر مسائل میں اختلاف نہ تھا۔ صرف ایک مسئلہ میں اختلاف تھا، وہ یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے تھے کہ حضور ﷺ ہی نبی ہیں اور آخری نبی ہیں۔ جب کہ مسیلمہ کہتا تھا حضور ﷺ بھی نبی ہیں اور حضور ﷺ کے بعد میں بھی نبی ہوں، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے ارشاد فرمایا: مسیلمہ! تو نے حضور ﷺ کے بعد جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر کے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ اب تیری کوئی نیکی نیکی نہیں رہی۔ جھوٹی نبوت کے دعویٰ کے بعد تو کافر ہے۔ اب نہ تیرے کلمہ کا اعتبار نہ نماز وغیرہ کا! اس لئے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے ساتھ جنگ کی اسے اور اس کی پارٹی کو جہنم رسید کیا۔
بعینہ اسی طرح مرزاقادیانی ملعون کا دعویٰ نبوت کاذبہ، اور مرزائیوں کا اسے نبی مان لینا یہ وہ جرم عظیم ہے۔ جس کے ہوتے ہوئے مرزاقادیانی ملعون کی اور مرزائیوں کی کوئی نیکی نیکی نہیں رہی۔ جس طرح مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والے باوجود کلمہ پڑھنے کے کافر ہوئے۔ اسی طرح مرزائی بھی کلمہ پڑھنے کے باوجود کافر ہیں۔
جواب نمبر:۳… مرزائیوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہم مسلمانوں والا کلمہ پڑھتے ہیں، غلط ہے! اس لئے کہ کلمہ کا مفہوم مسلمانوں کے نزدیک اور ہے، اور قادیانیوں کے نزدیک اور۔ وہ اس طرح کہ کلمہ طیبہ کے دوسرے جز ’’محمد رسول اﷲ‘‘( ﷺ) سے مسلمانوں کے نزدیک صرف اور صرف حضور سرورکائنات، خاتم النّبیین ﷺ کی ذات اقدس ہی ہے۔ اس مفہوم میں کسی اور کی شراکت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب کہ قادیانیوں کے نزدیک کلمہ طیبہ کے اس دوسرے جز ’’محمد رسول اﷲ‘‘ سے مراد مرزاقادیانی ملعون ہوتا ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی کا بیٹا ’’مرزابشیر احمد‘‘ اپنی کتاب ’’کلمتہ الفصل‘‘ میں لکھتا ہے: ’’مسیح موعود (مرزاغلام احمد قادیانی۔ ناقل) کی بعثت کے بعد ’’محمد رسول اﷲ‘‘ کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہوگئی۔ لہٰذا مسیح موعود کے آنے سے نعوذ باﷲ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کا کلمہ باطل نہیں ہوتا بلکہ اور بھی زیادہ شان سے چمکنے لگ جاتا ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۵۸)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ کلمہ طیبہ کا مفہوم قادیانیوں کے نزدیک اور ہے اور مسلمانوں کے نزدیک اس عبارت والا مفہوم نہیں ہے۔
نیز اسی کتاب کے مذکورہ بالا صفحہ پر آگے لکھتا ہے: ’’پس مسیح موعود (مرزاقادیانی) خود ’’محمد رسول اﷲ‘‘ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمد رسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۵۸)
یہ عبارت بھی پکارپکار کر ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ مرزائیوں کے نزدیک ’’محمد رسول اﷲ‘‘ سے مراد مرزاقادیانی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کلمہ طیبہ میں مسلمان ’’محمد رسول اﷲ‘‘ سے مراد رحمت عالم حضور خاتم النّبیین ﷺ ہی کی ذات اقدس کو لیتے ہیں اور مرزائی مرزاقادیانی کو۔
معلوم ہوا مسلمانوں کا کلمہ اور اس کا مفہوم اور ہے اور مرزائیوں کا کلمہ اور اس کا مفہوم اور ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد تھا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد کا نام بھی محمد تھا۔ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے کا نام بھی محمد ہے۔ اب فرض کیجئے۔ یہ تینوں ایک مجلس میں موجود ہوں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے والد آکر کہیں: محمد! تو اس سے مراد ان کا اپنا بیٹا ’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ ہوگا اور اگر بالفرض! اسی مجلس میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آکر کہیں: محمد! تو اس سے ان کا اپنا شاگرد ’’امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ مراد ہوگا، اور اگر اسی مجلس میں حضرت سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ آکر کہیں: محمد! تو اس سے مراد ان کا اپنا بیٹا ’’محمد بنوری‘‘ ہوگا۔
دیکھیں! تینوں شخصیتوں نے لفظ ایک ہی بولا: محمد! لیکن ہر ایک کی مراد اس لفظ سے علیحدہ علیحدہ اشخاص تھے۔ اسی طرح سمجھیں! مسلمان جب ’’محمد رسول اﷲ‘‘ بولتے ہیں تو اس سے مراد رحمتہ للعالمین، حضور خاتم النّبیین ﷺ کو لیتے ہیں اور جب مرزائی ’’محمد رسول اﷲ‘‘ بولتے ہیں تو اس سے مراد مرزاقادیانی ملعون کو لیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کلمہ طیبہ اور اس کا مفہوم مسلمانوں کے نزدیک اور ہے اور مرزائیوں کے نزدیک جدا۔
جواب نمبر:۴… مرزائیوں کا یہ کہنا کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں۔ پھر ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے۔ بعینہ یہی سوال مرزائیوں سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب مسلمان کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں تو مرزائی مسلمانوں کو کافر کیوں کہتے ہیں؟ جیسا کہ مرزاقادیانی کا ایک مکتوب (جو ڈاکٹر عبدالحکیم خان کے نام مارچ ۱۹۰۶ء میں لکھا تھا) ’’تذکرہ‘‘ میں درج ہے اس میں لکھا ہے: ’’خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
(تذکرہ ص۶۰۷، مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
اسی طرح مرزاقادیانی کا بیٹا اور قادیانی جماعت کا دوسرا سربراہ ’’مرزابشیرالدین محمود‘‘ اپنی کتاب ’’آئینہ صداقت‘‘ میں لکھتا ہے: ’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
اور ایسے ہی مرزاقادیانی کا بیٹا مرزابشیراحمد ایم۔اے اپنی کتاب ’’کلمتہ الفصل‘‘ میں لکھتا ہے: ’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ علیہ السلام کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا، یا عیسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر محمد ﷺ کو نہیں مانتا اور یا محمد ﷺ کو مانتا ہے مگر مسیح موعود (مرزامردود۔ ناقل) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۱۰)
قادیانیوں کی مذکورہ بالا تینوں عبارتوں سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک مسلمان ہزاردفعہ ہی کیوں نہ کلمہ پڑھتے ہوں۔ لیکن مرزاقادیانی کو نہیں مانتے۔ (اگرچہ اس کا نام بھی نہیں سنا) تو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ ایک شخص یا کئی افراد باوجود اس کے کہ کلمہ پڑھتے ہیں کافر ہوسکتے ہیں اور یہ امر قادیانیوں کے ہاں بھی مسلم ہے تو اسی مسلمہ ضابطہ کے تحت مرزائی ہزاربار کلمہ پڑھتے ہوں۔ مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت کو ماننے کی وجہ سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ان کا کلمہ پڑھنا، کلمہ کا بورڈ لگانا انہیں کفر سے نہیں بچا سکتا۔

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ​

سوال نمبر:۲… ایک موقع پر حضرت اسامہرضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو قتل کرنا چاہا۔ اس نے فوراً کلمہ پڑھا۔ لیکن حضرت اسامہرضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا۔ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ عرض کیا۔ جس کے جواب میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے کلمہ پڑھنے کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا؟ حضرت اسامہرضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اس نے ڈر کے مارے کلمہ پڑھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہل شققت قلبہ‘‘ (کیا تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا؟) کہ وہ ڈر کے مارے پڑھ رہا ہے؟ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کل قیامت کے دن اس کے بارے میں پوچھ ہوئی تو میں اسامہرضی اللہ عنہ کے اس فعل سے بری ہوں گا۔
مرزائی استدلال
مرزائی اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو ہمارے کلمہ پڑھنے کا بھی اعتبار ہونا چاہئے۔ کیا مسلمانوں نے ہمارے دل چیر کر دیکھ لئے ہیں؟ کہ ہم اوپر سے کلمہ پڑھتے ہیں؟ اور ہمارے دل میں کچھ اور ہوتا ہے؟
جواب نمبر:۱… ایک شخص جب کلمہ پڑھتا ہے تو اسے موقع ملنا چاہئے کہ وہ اپنے فعل اور طرز عمل سے ثابت کر دکھائے کہ اس نے یہ کلمہ دل سے پڑھا ہے یا صرف زبان سے۔ نیز یہ ثابت کر دے کہ میں خلاف اسلام کاموں سے بری ہوں۔ چونکہ زبان دل کی ترجمان ہے۔ اب اس کا طرز عمل بتلائے گا کہ اس کا دل اور زبان ایک ہے یا نہیں؟ رہا واقعہ حضرت اسامہرضی اللہ عنہ کے قتل کا؟ تو چونکہ حضرت اسامہرضی اللہ عنہ نے اس آدمی کو موقع ہی نہیں دیا تھا کہ وہ اپنے فعل اور طرز عمل سے ثابت کر دے کہ میں نے یہ کلمہ دل سے پڑھا ہے یا زبان سے؟ اس لئے حضور ﷺ نے اس پر نکیر (ناپسندیدگی) فرمائی۔

مرزائی فریب​

قادیانی حدیث پاک کے مذکورہ واقعہ سے ہرگز یہ استدلال نہیں کر سکتے کہ ہم تو کلمہ پڑھتے ہیں یہ محض ان کا دھوکہ اور فریب ہے کہ غلط استدلال کی آڑ میں ہم اپنے آپ کو اور مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت کو بچالیں گے۔
ایں خیال است ومحال است وجنوں
عرصہ ٔ دراز سے مسلمانوں نے مرزائیوں کو موقع فراہم کیا اور آج بھی مرزائیوں کو موقع دیا ہوا ہے کہ وہ اپنے فعل اور طرز عمل سے یہ ثبوت پیش کرتے اور کریں کہ ہمارا دل اور زبان ایک ہے۔ مگر قیامت یہ ہے کہ مرزائیوں کا ’’لٹریچر‘‘ اور ان کا طرز معاشرت، اور بودوباش یہ بتارہی ہے کہ زبانی حد تک کلمہ پڑھنے کے باوجود ان کے دل میں عقیدۂ ختم نبوت نہیں۔ بلکہ انکار ختم نبوت اور اجراء نبوت ہے۔ علیہم السلام کی تنقیص وتوہین ان کے دلوں میں موجود ہے۔ جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ وہ ایک جھوٹے مدعی نبوت مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی ، مسیح موعود، اور مہدی معہود اور پتہ نہیں کیا کیا مانتے ہیں۔ تو مرزائی اپنے طرز عمل سے تو یہ بتلا رہے ہیں کہ ہمارا دل اور زبان ایک نہیں۔ لہٰذا کروڑوں بار بھی کلمہ پڑھیں، نمازیں پڑھیں، تب بھی کافر ہیں۔ ان کے اس کلمہ پڑھنے کا کوئی اعتبار نہیں۔ لہٰذا مرزائیوں کا حدیث حضرت اسامہرضی اللہ عنہ سے استدلال کرنا باطل اور اپنے آپ کو حضرت اسامہرضی اللہ عنہ کے مقتول پر قیاس کرنا ’’قیاس مع الفارق‘‘ ہے۔
ببیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا
جواب نمبر:۲… مشہور واقعہ زبان زد خاص وعام ہے کہ رحمت عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک یہودی اور دوسرا منافق (بشرنامی جو بظاہر کلمہ گو ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا) ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ بشرنامی منافق (جو بظاہر اسلام اور کلمہ گو ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا) نے یہودی سے کہا کہ حضور ﷺ کا فیصلہ تو آپ کے حق میں ہوا۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ ہم یہ فیصلہ حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کرائیں۔ بشر منافق کی اندرونی سازش تھی کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ یہودی کو قتل کر دیں گے، یا میرے حق میں فیصلہ کر دیں گے۔ کیونکہ میں کلمہ گو جو ہوں۔ یہودی نے کہا ٹھیک!
چنانچہ دونوں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کیس عرض کیا، یہودی نے حضور ﷺ کا فیصلہ بھی سنایا کہ آپ ﷺ نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا ہے۔ لیکن یہ منافق نہیں مانتا۔ اس کے کہنے پر فیصلہ آپ کے پاس لے آئے ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا حضور ﷺ نے فیصلہ اس طرح فرمادیا ہے؟ کہا: جی ہاں! یہ سن کر حضرت عمررضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے، تلوار ہاتھ میں لی اور یہ فرماتے ہوئے کہ جو حضور ﷺ کے مبارک فیصلہ کو نہ مانے اس کا فیصلہ عمررضی اللہ عنہ کی تلوار کرے گی۔ تشریف لائے اور بشر منافق کا سر گردن سے الگ کر دیا۔ اس پر نہ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ: عمررضی اللہ عنہ ! تم نے کیوں قتل کیا؟ اور نہ ہی اﷲ رب العزت نے فرمایا کہ عمررضی اللہ عنہ نے غلط کیا ہے۔ بلکہ وحی الٰہی نازل ہوئی: ’’ فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجَا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (نساء:۶۵) ‘‘ {سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مؤمن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں۔ اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے۔}
اسی واقعہ کے تحت ’’روح المعانی‘‘ اور (معارف القرآن ج۲ ص۴۶۱) میں ہے کہ بشر نامی منافق کے ورثاء نے حضور ﷺ کی عدالت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی دائر کیا، تو وحی الٰہی نے نہ صرف یہ کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بری کر دیا۔ بلکہ تاقیامت مسلمانوں کے لئے یہ دستور العمل قرار پایا کہ جو شخص حضور ﷺ کے فیصلہ کو نہ مانتا ہو چاہے وہ کلمہ بھی کیوں نہ پڑھتا ہو وہ مؤمن نہیں۔ لہٰذا اس کی گردن ماری جائے۔ اس کے کلمہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس واقعہ کے تناظر میں حضرت اسامہرضی اللہ عنہ کے واقعہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ حضرت اسامہرضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کو باوجود کلمہ پڑھنے کے موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے طرز عمل سے ثابت کرتا کہ میرے دل میں کیا ہے؟۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کلمہ پڑھنے والے بشر منافق کو اسی وجہ سے قتل کر دیا کہ اس کے طرز عمل نے بتادیا تھا کہ کلمہ صرف اس کی زبان کی حد تک ہے۔ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے ظاہری طور پر کلمہ پڑھتا ہے۔ اس کے دل میں کفر ہی کفر ہے۔
یہی حال مرزائیوں کا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں لینے کے لئے لسانی اور زبانی طور پر کلمہ کی رٹ لگاتے ہیں۔ اندر مرزاقادیانی کو ماننے کی وجہ سے کفر ہی کفر رکھتے ہیں ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

حضرت ابومحذورہرضی اللہ عنہ کی اذان، اور قبول اسلام!​

سوال نمبر:۳… ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت بلالرضی اللہ عنہ اذان دے رہے تھے۔ حضرت ابومحذورہرضی اللہ عنہ جو ابھی چھوٹے بچے تھے۔ اسلام بھی ابھی تک قبول نہیں کیا تھا۔ انہوں نے حضرت بلالرضی اللہ عنہ کے ساتھ (نقل اتارتے ہوئے) اذان دینی شروع کی۔ جب حضرت بلالرضی اللہ عنہ نے اذان مکمل کر لی، تو حضور ﷺ نے حضرت ابومحذورہرضی اللہ عنہ کو بلاکر اذان کے کلمات کہلوائے۔ آپ ﷺ کی محبت اور کمال دیکھئے۔ جونہی کلمات اذان ختم ہوئے تو حضرت ابومحذورہرضی اللہ عنہ نہ صرف یہ کہ مسلمان ہوئے بلکہ شرف صحابیت بھی حاصل کر لیا۔

مرزائی استدلال​

اس واقعہ سے مرزائی یہ استدلال کرتے ہیں کہ ابومحذورہرضی اللہ عنہ نے ابتدائً بحالت کفر اذان کہی تھی۔ چلو! ہم آئین کے اعتبار سے کافر ہی سہی! تو ہمیں بھی کفر کی حالت میں اذان کہنے کی اجازت ہونی چاہئے؟
جواب… قرآن وسنت کی روشنی میں پوری کائنات کے قادیانی زندہ اور مردہ سبھی مل کر ایک واقعہ بھی ایسا ثابت نہیں کر سکتے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی کافر کو نماز کے لئے اذان کہنے کی اجازت دی ہو؟ یا کسی کافر نے نماز کے لئے اذان دی ہو؟ جس دن حضرت ابومحذورہرضی اللہ عنہ نے حضرت بلالرضی اللہ عنہ کی اذان کی نقل اتاری تھی۔ اس دن بھی نماز کے لئے اذان حضرت بلالرضی اللہ عنہ نے ہی دی تھی۔ حضرت ابومحذورہرضی اللہ عنہ نے تو صرف نقل اتاری تھی۔
ہاں! اس حدیث شریف کی رو سے اگر مرزائی استدلال کرنا چاہتے ہیں تو آئیں! ایک دفعہ تعلیم کی غرض سے اذان کے کلمات کہہ لیں اور مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت پر لعنت بھیج کر مسلمان ہو جائیں۔ لیکن وہ اذان فقط تعلیم کے لئے ہوگی! نماز کے لئے نہیں! ہاں! مسلمان ہو جانے کے بعد زندگی بھر اذان دینے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں ؎
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے
مگر! کسی بھی کافر کو نماز کے لئے اذان کہنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔

بزرگوں کے ’’خلاف شرع‘‘ اقوال حجت نہیں​

سوال نمبر:۴… ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ وغیرہ کتب میں لکھا ہے کہ بعض بزرگوں سے یہ اقوال صادر ہوئے کہ میں نبی ہوں، میں محمد ہوں۔ میں خدا ہوں وغیرہ وغیرہ! اگر مرزاقادیانی نے بھی کہہ دیا ہے تو اس پر فتویٔ کفر کیوں؟
جواب… بزرگان دین اور حضرات صوفیاء کرام کے ہاں ایک خاص اصطلاح ہے۔ جسے ’’شَطْحِیَّات‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بزرگان دین وصوفیاء کرام پر کچھ باطنی حالات گذرتے ہیں۔ جو ایک بے خودی اور مدہوشی کی حالت ہوتی ہے۔ اس حالت میں ان سے بعض ایسے کلمات نکل جاتے ہیں جو کتاب وسنت اور قواعد شریعت کے خلاف ہوتے ہیں۔ جب ہوش میں آتے ہیں تو ایسے کلمات سے توبہ واستغفار کر لیتے ہیں۔ نیز ان بزرگان وصوفیاء کرام نے اپنی اپنی کتب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہماری ان بے اختیارانہ باتوں پر کوئی شخص ہرگز عمل پیرا نہ ہو۔ بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ جو ہمارے طریق سے واقف نہیں اس کے لئے ہماری ان کتب کا مطالعہ کرنا بھی جائز نہیں۔ اسی طرح ہمارا کشف والہام بھی کسی پر حجت نہیں۔
خلاصہ یہ کہ بزرگان دین کی اس طرح کی باتیں خلاف شرع ہوتی ہیں۔ جو کسی کے لئے بھی حجت نہیں ہوتیں۔ جب کہ نبی کی ہر بات شریعت ہوتی ہے اور قابل حجت! جس کے مانے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ جو نہیں مانے گا وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہوگا، اور خود نبی بھی اپنی اطاعت واتباع کی تعلیم وتلقین کرتا ہے۔ دیکھئے! قرآن پاک نے بھی رسولوں اور نبیوں سے متعلق اصول سمجھایا: ’’ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (نساء:۶۴) ‘‘ {اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا۔ مگر اسی واسطے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کی جائے۔}
رہے مرزاقادیانی کے اقوال؟ تو وہ مرزائیوں کے لئے تو حجت ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے نبی مانتے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے مرزاقادیانی کے اقوال حجت شرعیہ نہیں! اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک مرزاقادیانی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور کافر کا قول مسلمانوں کے لئے کسی طرح بھی حجت شرعیہ نہیں بن سکتا۔ خلاصۂ جواب یہ ہے کہ اگر کسی بزرگ نے معذوری یا مدہوشی کی حالت میں کہہ دیا ہے کہ میں نبی ہوں۔ میں محمد ہوں وغیرہ تو اس کا یہ قول حجت شرعیہ نہیں ہے تو جن کتابوں میں اس طرح کے اقوال ہیں۔ ان کتابوں میں ان بزرگوں کی تعلیمات وتلقینات اپنے مریدین کے لئے یہ موجود ہیں کہ تم نے مجھے قتل کیوں نہ کیا؟ کیا نبی اس طرح کہتا ہے؟
ہم مرزائیوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرزاقادیانی نے اپنی پوری زندگی میں یا اپنی کتابوں میں کہیں اشارۃً یا کنایتہ یا صریحاً کوئی ایک جملہ لکھا ہے؟ کہ مجھے ان دعاوی (میں نبی ہوں، میں محمد ہوں، میں آدم ہوں، میں عیسیٰ ہوں۔ وغیرہ) کی وجہ سے قتل کر دیا جائے؟ بلکہ اپنی بات نہ ماننے والوں کو کافر، دائرۂ اسلام سے خارج، کتیوں، خنزیروں کی اولاد، کنجریوں کی اولاد کہتا رہا۔ کیا ولی اس طرح کہا کرتا ہے؟ یا مرزاقادیانی نے یہ باتیں معذوری اور مدہوشی میں کہی ہیں؟ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ کسی بزرگ نے یا کسی ولی نے اپنی زندگی میں اس طرح کہا ہو تو مرزائیوں پر لازم ہے دکھائیں؟ لہٰذا تذکرۃ الاولیاء وغیرہ کتب میں موجود ان بزرگوں کے اقوال ہمارے لئے حجت شرعیہ نہیں ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو معذور، اور مرزاقادیانی اور اس کے پیروکاروں کو کافر سمجھا جائے گا۔

قادیانی جماعت برابر بڑھ رہی ہے​

کیا یہ مرزاقادیانی کے سچا ہونے کی علامت ہے؟​

سوال نمبر:۵… اﷲتعالیٰ جھوٹے مدعیٔ نبوت کو مہلت نہیں دیتا۔ جب کہ مرزاقادیانی کی جماعت مرزائیہ برابر بڑھ رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی سچا تھا۔
جواب… یہ اصول سراسر غلط ہے کہ اﷲتعالیٰ جھوٹے کو مہلت نہیں دیتا۔ دیکھئے! شیطان سے بڑھ کر اور کون جھوٹا ہوگا؟ وہ کب سے مہلت پر ہے اور تاقیامت مہلت پر رہے گا۔ کیا یہ شیطان کے سچا ہونے کی دلیل ہے؟ رہا جھوٹا مدعی نبوت؟ تو دنیا میں مرزاقادیانی سے قبل ایک نہیں بے شمار جھوٹے مدعیٔ نبوت گذرے ہیں۔ جنہوں نے طویل زندگی پائی ہے۔ مثلاً ایران میں ایک شخص صالح بن طریف ہوا۔ وہ دعویٔ نبوت کے بعد سنتالیس (۴۷) سال تک زندہ رہا۔ اور اس کی اولاد نے تین سو سال تک حکومت کی۔ کیا یہ اس کے سچا ہونے کی دلیل ہے؟ ان جھوٹے مدعیان نبوت کے مہلت پانے کی تفصیل دیکھنی ہو تو مولانا ابوالقاسم محمد رفیق دلاوری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’ائمہ تلبیس‘‘ دیکھ لیں۔ جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ان مدعیان نبوت نے دعویٰ نبوت کے بعد عرصہ تک مہلت پائی ہے۔ کیا یہ ان کے سچا ہونے کی دلیل ہے؟ یہ یاد رکھیں کہ صادق کے صدق اور کاذب کے کذب میں کسی مدت دعویٰ کو قطعاً دخل نہیں۔ جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا؟۔
یہ ضرور ہے کہ جھوٹ ایک دن ختم ہو جاتا ہے اور جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والے ہزار ترقیوں کے باوجود آخر ختم ہوگئے۔ آج ان کا کوئی نام لیوا موجود نہیں۔ قادیانیت بھی ’’انشاء اﷲ‘‘ اسی طرح اپنے انجام کو پہنچے گی۔ ایک وقت آئے گا کہ پوری دنیا میں ان کا نام ونشان تک نہ ہوگا۔ انشاء اﷲ!
ذرا توجہ تو کریں! ایک وہ وقت بھی تھا کہ پاکستان میں مرزاقادیانی کو کافر کہنے پر مقدمے بنتے تھے۔ آج ’’الحمدﷲ‘‘ وہ وقت ہے کہ کوئی مرزاقادیانی ملعون کو مسلمان کہے تو جیل جانا پڑتا ہے۔ اتنا بڑا انقلاب آیا کہ مرزائیوں کا نام چوڑھوں کے ساتھ لکھا گیا۔ جو پاکستان میں اپنے اقتدار کے خواب دیکھتے تھے۔ مرزائی سازشیں کرتے اور دن گنا کرتے تھے۔ آج ان کے چیف گرو مرزا مسرورکو پاکستان میں قدم رکھنے کی سکت نہیں۔ وہ آج بھی صلیب پرست عیسائیوں کے زیرسایہ ’’لندن‘‘ میں زندگی گذار رہے ہیں۔ جس طرح ان کا جھوٹا مدعیٔ مسیحیت (مرزاقادیانی) عیسائیوں کا آلہ کار بنا تھا۔ اسی جھوٹے مدعی مسیحیت کے جھوٹے پیروکار آج انہی صلیب پرستوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ ان کے سرپرست، فیصلہ قادیانی عدالت کرے کہ یہ مرزاقادیانی کے سچا ہونے کی علامت ہے یا جھوٹا ہونے کی؟

دیوبندی، بریلوی وغیرہ کے ایک دوسرے پر فتوے اور قادیانی​

سوال نمبر:۶… دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث ایک دوسرے پر فتوے لگاتے ہیں۔ اگر ہم پر فتویٰ لگا دیا تو ہم کیسے کافر ہوگئے؟ یہ تو ان کی عادت ہے۔
جواب نمبر:۱… دیوبندی، بریلوی وغیرہ پر قادیانیت کو قیاس کرنا ’’قیاس مع الفارق‘‘ ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلام کے فرقے ہیں اور قادیانی کفر کے داعی ہیں۔ دیوبندی، بریلوی کے بعض لوگوں نے اگر ایک دوسرے پر فتویٰ لگایا تو غلط فہمی یا بدنیتی کی بناء پر۔ جب کہ دوسرا فریق اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ جیسے بریلوی حضرات نے کہا کہ دیوبندی گستاخ رسول ہیں۔ دیوبندیوں نے کہا کہ ہم گستاخ رسول نہیں۔ بلکہ ہم تو گستاخ رسول کو کافر سمجھتے ہیں۔ گستاخ رسول واجب القتل ہے۔ تو دیوبندیوں نے ان کے اس فتویٰ کو قبول نہیں کیا۔ سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ بلکہ اسے اپنے اوپر بہت بڑا الزام قرار دیا۔ دیوبندی اگر الزام کو قبول کرتے کہ واقعی ہم گستاخ رسول ہیں تو واقع میں کافر ہو جاتے۔ غرضیکہ ایک دوسرے کے فتویٰ کو الزام قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ بخلاف مرزائیوں کے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا جو کفر ہے قادیانیوں نے اس کافرانہ دعویٰ کو قبول کر کے کفر کے فتویٰ کو اپنے اوپر تسلیم اور لاگو کیا۔
مرزاقادیانی نے حضرات علیہم السلام کی توہین کی جو کفر ہے۔ مرزائیوں نے اس کفر کو شریعت سمجھ کر اپنے اوپر چسپاں کر لیا۔ مرزاقادیانی نے نصوص قطعیہ کا انکار کیا جو کہ کفر ہے۔ مرزائیوں نے اسے اپنے ایمان کا حصہ بنا کر اپنے کفر کو اور پختہ کر لیا۔
غرضیکہ دیگر فرقوں کا اختلاف ایسا ہے۔ جیسے ایک مقدمہ میں مختلف وکلاء اپنے اپنے دلائل دیتے ہیں۔ جو قانون کو مانتے ہیں تو ان کا یہ اختلاف وکیلوں جیسا اختلاف ہے۔ جیسے ایک وکیل کہے کہ میں قانون کو یوں سمجھا ہوں۔ دوسرا کہے کہ میری نظر میں قانون یہ کہتا ہے تو ان کا یہ اختلاف سمجھ اور فہم کا اختلاف ہے۔ قانون کو سب مانتے ہیں۔ جیسے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسلام کے وکیل ہیں۔ اسی طرح دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، قادری، نقشبندی، چشتی، سہروردی، بھی اسلام کے وکیل ہیں۔ ان سب کا راستہ ختم نبوت کے تاجدار، گنبد خضراء کے مکین حضرت محمد عربی ﷺ کی طرف جاتا ہے۔ یہ سب حضور ﷺ کے قدمین شریفین کی وابستگی کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔
اب ایک دوسرا گروہ یا فریق (یعنی جماعت مرزائیہ) جو سرے سے قانون کو ہی نہیں مانتا۔ بلکہ قانون سے بغاوت کرتا ہے۔ ان کا اختلاف اصول اور قانون سے بغاوت کا اختلاف ہے۔ جیسے بینا اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح قانون کو ماننے والا اور قانون سے بغاوت کرنے والا بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ بلکہ قانون کا باغی اور قانون کا منکر لائق تعزیر وواجب القتل ہے۔
جواب نمبر:۲… نبی کے بدلنے سے امت بدل جاتی ہے۔ مثلاً چار آدمی ہوں۔ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ پایا۔ ان پر ایمان لائے۔ تو یہودی کہلائے۔ اب ان چار میں سے تین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ پایا۔ ان پر ایمان لائے تو یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت سے نکل کر عیسائیت میں داخل ہوگئے۔ پھر ان تین میں سے دو آدمیوں نے حضور اقدس ﷺ کا زمانہ پایا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد رحمت عالم ﷺ کو اپنا نبی تسلیم کر لیا تو یہ دونوں عیسائیت سے نکل کر اسلام میں داخل ہو گئے اور مسلمان کہلائے۔ ان میں سے کسی نے پہلے نبی کا انکار نہیں کیا۔ مگر ایک سچے نبی کے بعد دوسرے سچے نبی کو مانتے ہی پہلے سچے نبی کی امت سے نکل کر نئے سچے نبی کی امت میں داخل ہوگئے۔ خدانہ کرے اب ایک شخص حضور ﷺ کے بعد کسی اور نبی کو مان لیتا ہے تو حضور ﷺ کے بعد نئے شخص کو نبی مانتے ہی حضور ﷺ کی امت میں نہیں رہے گا۔ یہی حال مرزائیوں کا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو چھوڑ کر مرزاقادیانی کو اپنا (جھوٹا) نبی تسلیم کیا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب ’’دافع البلاء‘‘ میں دعویٰ کیا ہے اور لکھا ہے: ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
اس دعویٔ مذکور کی وجہ سے مرزاقادیانی کافر ہے۔ جب قادیانیوں نے اسے اپنا نبی تسلیم کر لیا تو اب یہ بھی مسلمان نہ رہے۔ حضور ﷺ کی امت سے نکل گئے۔ قادیانی اور مرزائی یا غلام احمدی، غلامی،اور غلمدی ہوگئے۔ بالفاظ دیگر یوں سمجھیں۔ دیوبندی، بریلوی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی وغیرہ ایسے ہیں جیسے ایک باپ کی اولاد۔ ہزاراختلاف سہی لیکن باپ تو ایک ہے۔ رشتہ تو ایک ہے۔ آپس میں رشتے کے اعتبار سے بھائی بھائی ہیں۔ لیکن ایک اور شخص جس نے اپنا باپ ہی علیحدہ بنالیا ہو تو یہ ان کا کچھ نہیں لگتا۔ کیونکہ اس کا باپ ہی الگ ہے۔ دیوبندی، بریلوی، وغیرہ اختلاف چاہے کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو جائے یا بعض اغراض پرست قوتیں انہیں آپس میں کیوں نہ لڑادیں اور یا دین دشمن حکومتیں ان میں اختلاف کو ہوادیں اور ان میں سے ایک کو دوسرے کے مقابل لاکھڑا کر دیں تو اعلیٰ فہم رکھنے والے حضرات اسے عارضی یاوقتی حالات کا سانحہ سمجھ کر صرف نظر کر لیتے ہیں۔ تو تکار اور غلط فہمی کا شکار نہیں ہو جاتے۔ کیونکہ ہیں جو ایک دوسرے کے بھائی اور ایک باپ کی اولاد۔
بخلاف اس شخص کے جس کا باپ الگ ہو۔ ان کا آپس میں کوئی رشتہ نہ ہو۔ بلکہ وہ شخص جوان بھائیوں کے باپ کا بھی دشمن ہو۔ اب یہ دشمن شخص جب ان کے باپ کی عزت پر حملہ کرے گا تو تمام بھائی اپنے اپنے اختلافات کو بھول کر جمیع قسم کے تنازعات چھوڑ کر باپ کے دشمن کے مقابلہ میں ایک ہو جائیں گے۔ تو یہ روزمرہ کے واقعات میں دیوبندی، بریلوی اختلافات لاکھ سہی۔ جب مرزاغلام احمد قادیانی دجال وکذاب جیسے دشمن شخص نے ان کے روحانی والد حضرت محمد عربی ﷺ کے منصب ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا، اور آپ ﷺ کی عزت وناموس پر حملہ کر کے مذاق اڑایا تو دیوبندی، بریلوی وغیرہم حلالی بھائیوں کی طرح ایک ہوکر اپنے عظیم روحانی والد کے دشمن اور منکرین ومخالفین کے خلاف صف آراء ہوگئے، اور مار مار کر ان کا منہ بگاڑ دیا اور انہیں اپنی صفوں سے نکال کر دنیا کو بتا دیا، کہ دیوبندی، بریلوی اختلافات سے قادیانیت ومرزائیت، غلام احمدیت وغلمدیت کو ہرگز ہرگز فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔
جواب نمبر:۳… قادیانیوں کو اگر دیوبندی، بریلوی اختلاف نظر آتا ہے، تو یہ اپنے اختلافات اور فتویٰ جات کو کیوں نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اپنے اختلافات سے استدلال کیوں نہیں کرتے۔ لاہوری مرزائیوں نے کہا، کہ مرزاقادیانی نبی نہیں تھا۔ قادیانی مرزائیوں نے ان کے خلاف غیرنبی کو نبی مان کر کفر کا ارتکاب کیا۔ قادیانی مرزائیوں نے کہا، کہ مرزاقادیانی نبی تھا تو ان (قادیانیوں) کے بقول لاہوری مرزائیوں نے ایک نبی کو نہ مان کر کفر کیا۔ تو اس لحاظ سے لاہوری مرزائیوں کے نزدیک قادیانی مرزائی کافر، اور قادیانی مرزائیوں کے نزدیک لاہوری مرزائی کافر۔

خس کم جہاں پاک شد​

خلاصہ یہ کہ قادیانی ذرّیت امت مسلمہ کے اختلاف کو نظیر بناتے وقت، اور ان سے استدلال کرتے وقت اپنے کفریہ عقائد اور فتویٰ جات کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟
الزام ہم ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
سچ ہے کہ لینے کا پیمانہ اور، دینے کا پیمانہ اور!بددیانتی کی سب سے بڑی علامت یہی ہے۔ فافہم!

جھوٹے نبی کا جھوٹا فرشتہ​

سوال نمبر:۷… مرزاقادیانی کے فرشتے کا نام کیا تھا؟​

جواب… مرزاقادیانی کے فرشتے کا نام ٹیچی تھا۔ مرزاقادیانی نے خود اپنی کتاب ’’حقیقت الوحی‘‘ میں لکھا ہے: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔ میرے سامنے آیا اور اس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا اس نے کہا نام کچھ نہیں۔ میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔ اس نے کہا۔ میرا نام ہے ٹیچی! ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں۔ یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۳۲، خزائن ج۲۲ ص۳۴۶)
اس سے ہمارا استدلال یہ ہے کہ مرزاقادیانی مرزائیوں کے نزدیک نبی تھا، تو نبی کا خواب بھی شریعت میں حجت ہوتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب اور بیدار ہونے کے بعد اس پر عمل کرنا قرآن مجید میں مذکور ہے۔ امتی کا خواب غلط ہوسکتا ہے۔ نبی کا خواب غلط نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ نبی اور امتی کی نیند میں فرق ہے۔ امتی کی نیند ناقض وضو ہوتی ہے۔ نبی کی نیند ناقض وضو نہیں ہوتی۔ امتی جب سوتا ہے تو اس کی آنکھیں بھی سو جاتی ہیں اور دل بھی سو جاتا ہے۔ بخلاف نبی کے کہ نبی جب سوتا ہے تو اس کی آنکھیں تو سو جاتی ہیں مگر اس کا دل یاد الٰہی میں مشغول ہو جاتا ہے۔
چنانچہ بخاری شریف میں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’ اِنَّ عَیْنَیَّ تَنَا مَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ (بخاری ج۱ ص۱۵۴) ‘‘ {کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔}
مرزائیوں کے نزدیک جب مرزاقادیانی نبی تھا، تو مرزاقادیانی کا مذکورہ بالا خواب بھی مرزائیوں کے لئے حجت ہے۔ مرزاقادیانی نے فرشتہ سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا میرا نام کچھ نہیں ہے۔ جب دوبارہ مرزاقادیانی نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔ تب اس پر فرشتہ نے کہا کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ پہلی بار سوال کرنے پر کہا کہ کچھ نام نہیں۔ دوبارہ پوچھنے پر کہا کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ اگر اس کا کچھ نام نہیں تھا تو یہ کیوں کہا؟ کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ اگر نام ٹیچی تھا تو یہ کیوں کہا؟ کہ میرا نام کچھ نہیں۔ دونوں باتوں میں سے ایک سچی ہے دوسری جھوٹی۔ دونوں باتیں سچی نہیں ہوسکتیں۔ اب مرزائی بتائیں کہ وہ نبی کتنا مقدس ہوگا؟ جس کا فرشتہ بھی جھوٹ بولتا تھا۔ کیا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رحمت عالم ﷺ تک کبھی کسی نبی پر آنے والے فرشتے نے جھوٹ بولا؟ اور پھر وہ بھی نبی کے سامنے؟ نیز یہاں پر ’’توریہ‘‘ کی تاویل بھی نہیں چل سکتی۔ کیونکہ ’’تُوَرِیَہ‘‘ کے لئے فتنہ وفساد یا جان کا خطرہ لاحق ہونا ضروری ہے، اور یہاں فرشتہ کے لئے وہ ’’توریہ‘‘ کا مقام نہیں تھا۔

کیا مرزاقادیانی مجدد تھا؟​

سوال نمبر:۸… بعض مرزائی کہتے ہیں کہ ہم مرزاقادیانی کو نبی نہیں مانتے بلکہ وہ مجدد تھا۔
جواب… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب ’’دافع البلاء‘‘ میں لکھا ہے: ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
اسی طرح مرزاقادیانی نے اپنی دوسری کتاب ’’حقیقت الوحی‘‘ میں لکھا ہے: ’’اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں۔ تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطاء نہیں کی گئی اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
مرزاقادیانی کی بے شمار عبارتوں میں سے دو عبارتیں آپ کے سامنے ہیں۔ جن میں مرزاقادیانی نے کہا، کہ میں نبی اور رسول ہوں۔ مرزائی کہتے ہیں کہ وہ نبی نہیں تھا۔ اب مرزائی بتائیں؟ کہ تم سچے ہو یا مرزاقادیانی؟ نیز مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کے بعد اس کو کافر نہ کہنے والا شخص بھی کافر ہوگا۔ چہ جائیکہ کوئی اسے مجدد مانتا ہو۔

کیا حضور ﷺ کے دشمنوں سے نرمی کرنا سنت نبوی ہے؟​

سوال نمبر:۹… مرزائی، اور مرزائی نواز طبقہ عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزائیوں کے ساتھ شدت والا معاملہ نہیں کرنا چاہئے۔ حضور ﷺ نے ہمیشہ اپنے دشمنوں سے درگذر والا معاملہ کیا۔ تو اب حضور ﷺ کی سنت کا تقاضا یہ ہے، کہ آپ ﷺ کے دشمنوں سے درگذر والا معاملہ کیا جائے، نہ کہ ان کے ساتھ شدت برتی جائے۔
جواب… ایک ہے ذات، اور ایک ہے دین۔ جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے تو اپنی ذات کے لئے شدت کے بجائے درگذر والا معاملہ کرنا چاہئے۔ مگر دین کے لئے بعض اوقات شدت لازمی ہو جاتی ہے۔ حضور ﷺ اگر اپنے دشمنوں کو معاف فرمادیتے تھے، تو یہ آپ ﷺ کی ذات کا مسئلہ تھا۔ چونکہ حضور ﷺ کی ذات پاک ہمارے لئے صرف دین کا حصہ ہی نہیں، بلکہ سراپا دین ہے، اور دین کے معاملہ میں درگذر کرنا مداہنت ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک حضور ﷺ کے دشمنوں کے ساتھ نرمی یا رعایت کرنا قطعاً جائز نہیں، بلکہ حضور ﷺ کے دشمنوں کے مقابلہ میں ’’اشداء علی الکفار‘‘ کا نمونہ بننا چاہئے۔ مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ: جس طرح حضور ﷺ کے ساتھ محبت رکھنا ایمان کی علامت اور نشانی ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کے دشمن کے ساتھ بغض رکھنا یہ بھی ایمان کی علامت اور نشانی ہے۔ حضور ﷺ کا صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق ارشاد ہے: ’’ مَنْ اَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّیْ أَحَبَّہُمْ وَمَنْ اَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِیْ اَبْغَضَہُمْ (مشکوٰۃ ص۵۵۴) ‘‘ {جو شخص صحابہe سے محبت رکھتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے۔}
نیز ’’ اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہِ ‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے۔
اب آئیے! اس طرف کہ آیا کبھی صحابیرضی اللہ عنہ کے سامنے کسی بدبخت نے حضور ﷺ کی توہین کی ہو؟ (نعوذ باﷲ) اور اس صحابیرضی اللہ عنہ نے اسے برداشت کر لیا ہو؟۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف یہ تو ہے کہ کسی صحابیرضی اللہ عنہ کے سامنے حضور ﷺ کی کسی شخص نے توہین کی تو صحابیرضی اللہ عنہ نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر حضور ﷺ کی عزت کا تحفظ کیا۔

واقعہ نمبر:۱​

۱… اسلامی تاریخ میں یہ واقعہ بھی بڑا سنہری ہے، کہ ایک دفعہ ایک صحابیرضی اللہ عنہ کو پھانسی پر لٹکایا جارہا تھا، تو کفار نے اس سے کہا کہ کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے؟ کہ تجھے چھوڑ دیا جائے؟ اور تیری جگہ تیرے نبی( ﷺ) کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے؟ (نعوذ باﷲ) تو جواب میں صحابیرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھانسی پر لٹکایا جانا درکنار، اگر مجھے یہ کہہ دیا جائے کہ ہم تجھے چھوڑ دیتے ہیں، اور تیری جگہ تیرے نبی( ﷺ) کو کانٹا چبھودیتے ہیں تو میں پھانسی پر لٹکنا گوارا کر لوں گا۔ لیکن اپنے نبی( ﷺ) کو کانٹا چبھانا گوارا نہیں کر سکتا۔
نیز اس کے علاوہ (تبلیغی نصاب ص۱۷۰) پر ہے: ’’کہ جب عروہ بن مسعود ثقفی نے حضور ﷺ سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ اشراف کی جماعت نہیں دیکھتا۔ یہ اطراف کے کم ظرف لوگ تمہارے ساتھ ہیں۔ مصیبت پڑنے پر سب بھاگ جائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ پاس کھڑے ہوئے تھے۔ یہ جملہ سن کر غصے میں بھر گئے اور ارشاد فرمایا۔ تو اپنے معبود ’’لات‘‘ کی پیشاب گاہ کو چاٹ۔ کیا ہم حضور ﷺ سے بھاگ جائیں گے؟ اور آپ ﷺ کو چھوڑ دیں گے؟‘‘

واقعہ نمبر:۲​

نیز اس کے علاوہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’معارف القرآن‘‘ میں سورۂ ممتحنہ کی پہلی آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ’’بخاری شریف‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’مکہ مکرمہ کی ایک مغنیہ عورت ’’سارہ نامی‘‘ مدینہ منورہ میں آئی ہوئی تھی۔ جب وہ مدینہ سے جانے لگی تو ’’حاطب بن ابی بلتعہرضی اللہ عنہ ‘‘ نے اسے کفار کے نام ایک خط دیا۔ جو حضور ﷺ کے مکہ مکرمہ پر خفیہ حملہ کرنے کے ارادہ پر مشتمل تھا۔ حضور ﷺ نے حضرت علیرضی اللہ عنہ ، ابومرثدرضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن عوامرضی اللہ عنہ تینوں حضرات کو حکم دیا کہ سارہ کے پاس ایک خفیہ خط ہے جو وہ مکہ مکرمہ لے جارہی ہے۔ وہ تمہیں ’’روضۂ خاخ‘‘ پر ملے گی۔ حضرت علیرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے گھوڑوں پر بیٹھ کر اس کا تعاقب کیا۔ ٹھیک وہ ہمیں اسی مقام پر ملی جس مقام کا حضور ﷺ نے فرمایا تھا۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ خط دے دو۔ اس نے انکار کیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں۔ حضرت علیرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہم نے دل میں سوچا کہ حضور ﷺ کا فرمان غلط نہیں ہوسکتا۔ خط ضرور اس کے پاس ہے۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا کر اس کی تلاشی لی۔ مگر خط نہ ملا۔ ہم نے اسے کہا کہ خط دے دو۔ ورنہ تیرے کپڑے پھاڑ کر خط لے لیں گے۔ اس پر گھبرا کر اس نے خط دے دیا۔‘‘
(معارف القرآن ج۸ ص۳۹۹، ۴۰۰، بخاری ج۲ ص۶۱۲)
غرضیکہ نبی ﷺ کی ہر بات کو سچا ماننا، آپ کی عزت وناموس کا تحفظ کرنا، حتیٰ کہ ماں باپ، آل اولاد، عزیزواقارب، جان ومال سب سے زیادہ آپ ﷺ کی ذات سے محبت کرنا مؤمن ہونے کے لئے ضروری ہے۔ حدیث پاک: ’’لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین (بخاری ج۱ ص۷)‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان مرمٹے۔ مگر آپ ﷺ کی توہین کو برداشت نہ کرے۔ غرضیکہ آپ ﷺ کا دشمنوں کو معاف فرمانا یہ آپ ﷺ کا ذاتی معاملہ تھا۔ حضور ﷺ کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا یہ ہمارے لئے اہم دینی امر ہے۔ ذاتی دشمن کو معاف کرنے کا ہمیں حق ہے۔ نبی ﷺ کے دشمنوں کو معاف کرنا شریعت اس کی امت کو اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جو شخص معاذ اﷲ! توہین رسالت کا ارتکاب کرے اس کی توبہ قبول نہیں۔ اس پر قاضی سزا نافذ کرے گا۔

 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزاقادیانی کی موت ہیضہ سے​

سوال نمبر:۱۰… کیا مرزاقادیانی ہیضہ سے مرا تھا؟
جواب… مرزاقادیانی نے اپنے خسر ’’میر ناصر‘‘ کو آخری بات یہ کہی تھی کہ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے کوئی بات نہیں کہی۔ اگر افتراء ہے تو مرزاقادیانی کا۔ سرور ولطف یہ ہے کہ جب پیدا ہوا تو بہن کی ٹانگوں سے سر ملایا ہوا تھا۔ جب مرا تو آخری جھوٹ بول کر مرا۔ اب اگر جھوٹ ہے تو حوالہ طلب کریں۔ میں دکھانے کو تیار ہوں۔
(حیات ناصر ص۱۴) پر مرزاقادیانی کے خسر، نام نہاد صحابی اپنے خودنوشت حالات میں تحریر کرتے ہیں: ’’آپ (مرزاقادیانی) کا حال دیکھا، تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میرصاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘ اور (سیرت المہدی ج۱ ص۱۱) پر مرزاقادیانی کی بیوی کی روایت ہے کہ: ’’حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا۔ (اوپر سے ڈال رہے تھے نیچے سے نکل رہا تھا) مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے، اور آپ آرام سے لیٹ کر سوگئے اور میں بھی سوگئی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لئے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم اب سو جاؤ۔ میں نے کہا کہ نہیں میں دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے۔ اس لئے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام (پاخانہ کا) کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا، اور پھر ایک اور قے آئی جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا۔ (پاؤں کہاں تھے اور نیچے کیا تھا) اور حالت دگرگوں ہوگئی۔‘‘
اب دست اور قے، قے اور دست کا باربار حملہ یہ ہیضہ نہیں تو کیا تھا؟۔
پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری کی روایت ہے کہ: ’’مورخہ ۲۶؍مئی کو مرزاقادیانی کو ہیضہ نے آن گھیرا۔ ڈاکٹر نے ایسی دوائی دے دی کہ نجاست کا رخ جو نیچے کی طرف تھا اوپر کو ہوگیا اور بیت الخلاء (جو چارپائی کے پاس بنایا تھا) میں جان نکل گئی۔‘‘ (ضیائے حرم دسمبر ۱۹۷۴ء، ایمان پرور یادیں ص۳۸)
مرزائی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اگر مرض ہیضہ ہوتا تو ڈاکٹر آپ کے لئے سرٹیفکیٹ نہ دیتے۔ حالانکہ انہوں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ ہیضہ نہیں اور پھر ریل پر بک کراکر ان کو لاہور سے قادیان لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں کے سرٹیفکیٹ کو تو مرزائی مانتے ہیں۔ مگر مرزاقادیانی کا اپنا حکم، قول مبارک، مقدس فرمان جو آخری تھا جو اپنے صحابی کو ارشاد فرمایا کہ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کو نہیں مانتے۔ پھر یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح مرزاقادیانی کی پنجابی نبوت کا کاروبار چل گیا اسی طرح ڈاکٹر سے سرٹیفکیٹ بھی لے لیا ہوگا۔ باقی رہا کہ ریل میں بک ہوگئے۔ بک تو ہوئے پیسے دے کر۔ پیسے دے کر کیوں ہوئے اس میں حکمت ہے۔
وہ یہ کہ مرزاقادیانی نے کہا کہ میں مسیح ہوں، دجال انگریز ہیں۔ یاجوج ماجوج امریکہ اور روس ہیں اور دجال کا گدھا ریل گاڑی ہے۔ مرزاقادیانی ریل گاڑی کو دجال کا گدھا کہتا تھا۔ مگر مسیح صاحب دجال کے گدھے پر عمر بھر سواری کرتے رہے، اور آخری سفر بھی دجال کے گدھے پر کیا۔ اچھا مسیح ہے۔ جو دجال کے گدھے پر عمر بھر سواری کی، اور آخری سفر بھی لاش کا اس سے کرایا گیا۔ کیا مرزاقادیانی کی کذب کے لئے یہ بات کافی نہیں؟

کیا قادیانیوں کو گالیاں دی جاتی ہیں؟​

سوال نمبر:۱۱… قادیانیوں کو گالیاں دی جاتی ہیں؟
جواب… ہم کبھی کبھار گفتگو میں مرزاقادیانی کی کتابوں سے اس کی ’’مقدس زبان‘‘ کے نمونے پیش کرتے ہیں تو مرزائی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مولوی صاحبان گالیاں دیتے ہیں۔ مگر میرا دعویٰ ہے کہ ساری کائنات کے بدزبان لوگوں کا عالمی کنونشن بلایا جائے تو بدزبانوں کے ’’عالمی چمپئن شپ‘‘ کا اعزاز مرزاقادیانی کو ملے گا۔ اس لئے کہ الف سے لے کر یا تک کوئی ایسی گالی نہیں جو مرزاقادیانی نے اپنے مخالفین کو نہ دی ہو۔ اس سلسلہ میں ہمارے بزرگ رہنما مولانا نور محمدخان سہارن پوریؒ کا رسالہ جو ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے مرکزی دفتر ملتان پاکستان نے بھی شائع کیا ہے۔ جس کا نام ہے ’’مغلظات مرزا‘‘ اور دوسرا رسالہ جس کا نام ہے ’’مرزاقادیانی کا حسن کلام‘‘ ہمارے ساتھی جناب اشتیاق احمد جو لاہور پاکستان کے معروف ناول نگار ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے۔ وہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوگا کہ مرزاقادیانی کے اخلاق واطوار کیا تھے؟۔ مرزاقادیانی کی کتاب (آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر ہے: ’’تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ وینتفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا۰ الذین ختم اﷲ علی قلوبہم فہم لا یقبلون‘‘ میری ان کتابوں کو تمام مسلمان محبت وشفقت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور مجھے قبول کرتے ہیں اور میرے دعوؤں کی تصدیق کرتے ہیں۔ مگر کنجریوں کی اولاد جن کے دلوں پر اﷲتعالیٰ نے مہر کر دی ہے وہ مجھے نہیں مانتے۔‘‘
تو اس کتاب میں مرزاقادیانی نے اپنے نہ ماننے والے مسلمانوں کو کنجریوں کی اولاد کہا ہے، اور پھر لطف یہ کہ اس کا اپنا بیٹا مرزافضل احمد مرزاقادیانی کو نہیں مانتا تھا۔ تو مرزاقادیانی کے فتویٰ کے مطابق وہ بھی کنجری کا بیٹا ہوا۔ جب اس کی ماں کنجری ہوئی تو ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کی بیوی کنجری تھی۔ جس کی بیوی کنجری ہو وہ خود کون ہوگا؟ اور جو کنجر کو نبی مانیں وہ کون ہوںگے؟ مسلمانوں پر فتویٰ لگایا اور خود اس کی زد میں آگئے۔ مرزائی کہتے ہیں کہ: ’’ذریۃ البغایا‘‘ کا معنی کنجریوں کی اولاد نہیں۔ بغیہ کا معنی کنجری، بدکار ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’وما کانت امک بغیا‘‘ جب مریم علیہا السلام بیٹا لائیں تو یہودیوں نے کہا کہ آپ کی ماں تو ایسی نہ تھی۔
مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (انجام آتھم ص۲۸۲، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) پر ’’ابن مغایا‘‘ کا نیچے خود ترجمہ کیا ہے: ’’نسل بدکاراں۔‘‘
اور (نور الحق ج۱ ص۱۲۳، خزائن ج۸ ص۱۶۳) پر ’’ذریۃ البغایا‘‘ کا معنی خود کیا ہے: ’’خراب عورتوں کی نسل۔‘‘
اسی طرح مرزاقادیانی نے (خطبہ الہامیہ ص۴۹، خزائن ج۱۶ ص۴۹) پر ’’رقص البغایا‘‘ کا معنی کیا ہے۔ ’’رقص زنان بازاری۔‘‘
(لجتہ النور ص۹۲، خزائن ج۱۶ ص۴۲۸) پر ’’البغی‘‘ کا معنی ’’زن فاحشہ‘‘ (لجتہ النور ص۹۲، خزائن ج۱۶ ص۴۲۸) پر ’’البغایا‘‘ کا معنی ’’زنان بازاری، ہمچوزنان بازاری‘‘ (لجتہ النور ص۹۳، خزائن ج۱۶ ص۴۲۹) پر ’’ان البغایا ‘‘ کا معنی ’’زنان فاحشہ‘‘ (لجتہ النور ص۹۴، خزائن ج۱۶ ص۴۳۰) پر ’’البغایا‘‘ کا معنی ’’زنان فاسقہ‘‘ (لجتہ النور ص۹۴، خزائن ج۱۶ ص۴۳۰) پر ’’نطفۃ البغایا‘‘ کا معنی ’’نطفہ زنان بازاری‘‘ (لجتہ النور ص۹۵، خزائن ج۱۶ ص۴۳۱) پر ’’ان البغایا‘‘ ’’زنان فاحشہ‘‘ کیا ہے۔ دیکھئے (لجتہ النور ص۹۲تا۹۵، خزائن ج۱۶ ص۴۹،۴۲۸تا۴۳۱)
اب ان تصریحات کے بعدکوئی شخص کہے کہ مرزاقادیانی نے مسلمانوں کو کنجریوں کی اولاد نہیں کہا یا یہ کہ: ’’ذریۃ البغایا‘‘ کا معنی کنجریوں کی اولاد نہیں تو ہم قادیانیوں کو ذریۃ البغایا کہتے ہیں۔ وہ آ مین کہہ دیں۔ اب سوائے اس کے کہ ہم اس کی ہدایت کے لئے دعا کریں اور کیا کہہ سکتے ہیں؟

کیا علماء سخت بیان ہیں؟​

سوال نمبر:۱۲… آپ لوگ سخت بیانی سے کیوں کام لیتے ہیں؟
جواب… چور ہمیشہ زبان نرم اور آہستہ قدم سے کام لیتا ہے، اور جس کے گھر پر ڈاکہ پڑے وہ چیختا چلاتا ہے۔ مرزائیوں کی مثال چوروں کی ہے۔ جو ایمانوں پر ڈاکہ زنی کرتے ہیں اور ہماری مثال اس شخص کی ہے کہ جس کے گھر پر ڈاکہ پڑے۔ آپ مسلمانوں پر ڈاکہ زنی کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث پر ظلم کرتے ہیں۔ اس لئے ہم سے بعض اوقات سخت بیانی ہو جاتی ہے۔

کیا قادیانی بااخلاق ہیں؟​

سوال نمبر:۱۳… قادیانی لوگ نرم زبان والے ہیں۔ قادیانی اخلاق کے آپ بھی قائل ہو گئے؟
جواب… صرف ہم نہیں بلکہ مرزاقادیانی بھی آپ کی جماعت کے اخلاق کا قائل تھا۔ لیجئے! یہ کتاب ہے، نام ہے ’’شہادت القرآن‘‘ مرزاقادیانی کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کے ملحقہ اشتہار میں، آپ کی جماعت کے اوّلین جو آپ کے عقیدہ کے مطابق مرزاقادیانی کے صحابہ تھے۔ ان کے متعلق مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے: ’’اشتہار التوائے جلسہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۳ء اخی مکرم حضرت مولوی نورالدین سلمہ اﷲ تعالیٰ بارہا مجھ سے یہ تذکرہ کر چکے ہیں، کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیت اور تہذیب اور پاک دلی اور پرہیزگاری اور دلی محبت باہم پیدا نہیں کی۔ سو میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہوکر، اور اس عاجز سے بیعت کر کے، اور عہد توبہ نصوح کر کے، پھر بھی ویسے کج دل ہیں، کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں۔ وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے ’’السلام علیک‘‘ نہیں کر سکتے۔ چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنیٰ خود غرضی کی بنا پر لڑتے ہیں، اور ایک دوسرے سے دست بدامن ہوتے ہیں، اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کر لیتے ہیں، اور کھانے پینے کی قسموں پر نفسانی بحثیں ہوتی ہیں۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں ہیں بلکہ بعض میں ایسی بے تہذیبی ہے، کہ اگر ایک بھائی ضد سے اس کی چارپائی پر بیٹھا ہے تو وہ سختی سے اس کو اٹھانا چاہتا ہے اور اگر نہیں اٹھتا تو چارپائی کو الٹا دیتا ہے اور اس کو نیچے گرادیتا ہے۔ پھر دوسرا بھی فرق نہیں کرتا اور وہ اس کو گندی گالیاں دیتا ہے اور تمام بخارات نکالتا ہے۔ یہ حالات ہیں جو میں اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں۔ تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے۔ ‘‘ (شہادۃ القرآن ص۹۹،۱۰۰، خزائن ج۶ ص۳۹۵،۳۹۶)
اسی طرح مرزاآنجہانی نے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۷، خزائن ج۲۱ ص۱۱۴) پر اپنے مریدوں کے بارے میں لکھا ہے: ’’ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز ان میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلاء کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں، اور بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متأثر ہو جاتے ہیں، اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں۔ جیسے کتا مردار کی طرف۔‘‘
تو جناب! مرزاقادیانی کے زمانہ کے قادیانی لوگوں کی یہ حالت تھی اور جو قادیانی لوگ مرزاقادیانی کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے متعلق مرزاقادیانی کا یہ فرمان ہے جو (تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۲ ص۱۵۹، خزائن ج۱۵ ص۴۸۳) پر شیخ ابن عربیؒ کی پیش گوئی پر بحث کرتے ہوئے مسیح موعود کی یہ خاص علامت ذکر فرماتے ہیں کہ: ’’اس کے بعد یعنی اس (مسیح موعود) کے مرنے کے بعد نوع انسانی میں علت عقم (بانچھ پن) سرایت کرے گی۔ یعنی پیدا ہونے والے حیوانوں اور وحشیوں سے مشابہت رکھیں گے اور انسانیت حقیقی صفحۂ عالم سے مفقود ہو جائے گی۔ وہ حلال کو حلال نہیں سمجھیں گے اور نہ حرام کو حرام، پس ان پر قیامت قائم ہوگی۔‘‘
ظاہر ہے کہ ہمارے نزدیک تو مرزاقادیانی مسیح موعود نہیں۔ لہٰذا ہمارے نزدیک تو اس پیش گوئی کا ابھی وقت نہیں آیا۔ لیکن آپ لوگ مرزاقادیانی کو مسیح موعود تسلیم کرتے ہیں تو آپ کو یہ مسیح موعود کی خاصیت بھی تسلیم کرنا ہوگی۔ گویا آپ کے نزدیک مرزاقادیانی کی وفات مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کے بعد جتنے مرزائی پیدا ہوئے وہ سب حیوانوں اور وحشیوں سے مشابہ ہیں۔ اگر مرزاقادیانی آپ کے نزدیک راست باز تھا تو پھر اس کا فتویٰ بھی تسلیم کریں۔
فرمائیے! مزاج کیسے ہیں؟ وہ تو مرزاقادیانی کا قادیانیوں کے بارہ میں فتویٰ تھا۔ اب وہ جو اپنے متعلق ارشاد فرماتے ہیں وہ بھی ملاحظہ ہو۔ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷، خزائن ج۲۱ ص۱۲۷) پر لکھا کہ ؎
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
اس میں مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو کہا ہے کہ میں آدم زاد نہیں ہوں۔ یعنی ’’بندے دا پتر‘‘ ہی نہیں۔

نتیجہ​

مرزاقادیانی کے زمانہ کے قادیانی درندوں سے بدتر، تہذیب، مرزاقادیانی کے بعد کے قادیانی وحشی، حیوان اور مرزاقادیانی خود انسان کا بیٹا نہیں یہ ہیں مرزائی اخلاق؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مرزاقادیانی اور تضادات مرزا
سوال نمبر:۱۴… مرزاقادیانی نے عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف کی ہے تو جس شخص کی وہ تعریف کرے۔ اس کی تنقیص کیسے کر سکتا ہے؟
جواب نمبر:۱… مرزاقادیانی تسلیم کرتا ہے کہ: ’’شریر انسانوں کا طریق ہے کہ ہجو کرنے کے وقت پہلے ایک تعریف کا لفظ لے آتے ہیں۔ گویا وہ منصف مزاج ہیں۔‘‘ (ست بچن ص۱۳، خزائن ج۱۰ ص۱۲۵) چنانچہ مرزاقادیانی کا بھی یہی حال تھا۔
اس نے (سیرۃ المہدی ج۳ ص۲۲۰) پر روایت نمبر۸۰۱ میں بیان کیا ہے: ’’مولوی محمد ابراہیم بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ ایک دفعہ میں نے مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی اﷲتعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے۔ اس پر حضور (مرزاقادیانی) نے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت توڑنے کے لئے ماں کا ذکر کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے۔ جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں۔ ’’بھر جائی کا نئے سلام آکھنا واں‘‘ جس سے مقصود ’’کانا‘‘ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ناکہ سلام کہنا۔ اس طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیت ہے نہ کہ مریم کی صدیقیت کا اظہار۔‘‘
اسی شرارت اور بدباطنی کے تحت مرزاقادیانی آنجہانی، حضرت مسیح کی تعریف کیا کرتا تھا۔
جواب نمبر:۲… ہمارا یہی مؤقف ہے کہ مرزاقادیانی جھوٹا تھا۔ جھوٹے آدمی کے کلام میں تناقض ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی کا روزبروز، صبح وشام، قدم بقدم مؤقف بدلنا پینترا تبدیل کرنا اس کی عادت تھی۔ جن لوگوں کی مرزاقادیانی کی کتابوں پر نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ کس طرح مرزاقادیانی کے کلام میں تناقض ہے۔ اس عنوان پر مرزاقادیانی کی رد میں اس کی تحریرات کی روشنی میں امت نے کافی کتابیں لکھی ہیں۔ کذبات مرزا، تضادات مرزا، مرزاقادیانی کی تردید کا ایک مستقل عنوان ہے۔

کیا مرزاقادیانی پر زنا کا الزام ہے؟​

سوال نمبر:۱۵… مرزائی کہتے ہیں کہ اخبار ’’الفضل‘‘ کی عبارت (کہ مرزاقادیانی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے تھے) مرزاقادیانی پر الزام ہے زنا کا۔
جواب… الزام ہم نے مرزاقادیانی پر لگایا نہیں، پڑھ کر سنایا ہے۔ اس پر زنا کا الزام تو اس کے مرید نے جو اس کو مسیح موعود اور ولی اﷲ لکھتا ہے اس نے لگایا، اور اس کے مقدس بیٹے نے پڑھ کر خط سنایا۔ ہم جس وقت یہ حوالہ دیتے ہیں تو مرزائی اس سے بہت چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم صرف حوالہ دیتے ہیں۔ اگر یہ حوالہ پڑھنا قصور ہے تو سب سے بڑا قصوروار مرزامحمود تھا جس نے خط پڑھ کر سنایا، خط لکھنے والا مرزائیوں کا اپنا آدمی تھا۔ جس نے خط میں مرزا کو ولی اﷲ اور مسیح موعود لکھا ہے۔ اس کا مرزا کو مسیح موعود اور ولی اﷲ لکھنا دلیل اس بات کی ہے کہ وہ آدمی ہمارا نہیں مرزائیوں کا تھا اور وہ یہ لکھتا ہے کہ مرزاقادیانی کبھی کبھی (ذائقہ بدلنے کے لئے) زنا کر لیا کرتے تھے۔
ہم قادیانیوں سے درخواست کریں گے کہ کیا تاریخ الانبیاء میں ایک مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ اس نبی پر ایمان لانے والوں نے، یا پیروکاروں نے، اپنے نبی پر زنا کا الزام لگایا ہو؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو مرزاقادیانی کے پیروکاروں، اس کے ماننے والوں کا، بالفاظ دیگر بزعم خود مرزاقادیانی کے صحابیوں کا مرزاپر الزام لگانا کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ جھوٹا تھا۔ اگر سچا ہوتا تو کبھی امت کی طرف سے اس پر زنا کا الزام نہ لگتا۔

کیا قادیانی یا قادیانیوں کو خنزیر کہنا جائز ہے؟​

سوال نمبر:۱۶… اگر کوئی شخص مرزاقادیانی کی گستاخیوں کو دیکھ کر اس کو خنزیر کہہ دے تو کیا اس کو ایسا کہنا درست ہوگا؟
جواب نمبر:۱… قرآن مجید کی نص قطعی ہے کہ نافرمان لوگوں کے لئے قرآن مجید میں ’’اولئک کالانعام بل ہم اضل‘‘ (یہ لوگ جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں) ہے۔ پس جانوروں میں خنزیر بھی شامل ہے تو قرآن کی نص قطعی سے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی اور اس جیسے اور لوگوں کو خنزیر جیسے جانور سے تشبیہ دے دی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
جواب نمبر:۲… خنزیر تو کیا مرزائی خنزیروں سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ اس لئے کہ اگر کہیں اسلامی حکومت قائم ہو تو اس میں خنزیر پالنا جرم ہوگا۔ لیکن دور دراز کے جنگلوں میں خنزیر کو تلاش کر کے قتل کرنا اسلامی مملکت کے ذمہ نہیں، مل جائے تو قتل کر دو۔ تلاش کر کے قتل کرنا ضروری نہیں۔ جبکہ مرتد اور زندیق کو تلاش کر کے قتل کرنا اسلامی حکومت کے ذمہ ہے۔ اس لئے کہ خنزیر، سانپ، بچھو وغیرہ جان کے دشمن ہیں اور زندیق ومرتد ایمان کے دشمن ہیں۔ جس طرح جان سے زیادہ ایمان قیمتی ہے۔ اسی طرح ان متذکرہ جانوروں سے زندیق ومرتد اور زیادہ خطرناک ہیں اور یہی حکم مرزاقادیانی وقادیانیوں کا ہے۔
جواب نمبر:۳… قادیانی ہم پر الزام لگانے سے قبل یہ کیوں نہیں سوچتے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے بھی اپنی کتاب (نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳) پر اپنے دشمنوں کو جنگل کا خنزیر کہا ہے۔ اگر مرزاقادیانی اپنے مخالفین کو خنزیر کہے تو قادیانیوں کے لئے شریعت، اور اگر مسلمان جواب آں غزل کے طور پر یہ اعزاز مرزاقادیانی کو واپس کر دیں تو قابل اعتراض آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سر بستہ نہ یہ رسوائیاں ہوتیں

مرزاقادیانی کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر زنا کا الزام​

سوال نمبر:۱۷… یہ بھی ذہن میں رہے کہ مرزاقادیانی کے زنا کے اس حوالہ سے مرزائی بہت چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہی الزام مرزاقادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر لگائے تو اس سے مرزائیوں کی رگ حمیّت نہیں پھڑکتی۔ مرزائی یہ کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں کی۔
جواب… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (دافع البلاء آخری ٹائٹل ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰) پر لکھا ہے کہ: ’’لیکن مسیح علیہ السلام کی راست بازی اپنے زمانے میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوأ تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس کا یہ نام رکھنے، سے مانع تھے۔‘‘
مرزاقادیانی کی اس عبارت سے چار باتیں ثابت ہوئیں۔
۱… مسیح شراب پیتا تھا۔
۲… فاحشہ عورت اپنی بدکاری کے مال سے خریدا ہوا عطر ان کے سر پر لگاتی تھی۔
۳… فاحشہ عورتیں اپنے ہاتھوں اور سر کے بالوں سے مسیح کے جسم کو چھوتی تھیں۔
۴… غیرمحرم جوان عورت مسیح علیہ السلام کی خدمت کیا کرتی تھی۔
ان گناہوں میں ملوث ہونے کے باعث مسیح علیہ السلام کا نام قرآن میں حصور نہیں رکھا گیا۔ اس عبارت میں دو چیزیں قابل توجہ ہیں۔
۱… مرزاقادیانی نے عیسائیوں کی کتابوں سے مسیح علیہ السلام پر الزام نہیں لگایا۔ بلکہ مسیح علیہ السلام کے دامن کو داغ دارکرنے کے لئے قرآن سے استدلال کیا ہے۔ (معاذ اﷲ)
۲… پھر استدلال بھی کیسا بودا اور بیہودہ ہے۔ اگر قرآن مجید نے مسیح علیہ السلام کے ان گناہوں کے باعث ان کو حصور نہیں کہا تو قرآن مجید میں باقی علیہم السلام ، حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام خود حضرت محمد ﷺ کو بھی حصور نہیں کہاگیا۔ کیا ان کو بھی حصور نہ کہنے کی یہی وجہ تھی۔ نعوذ باﷲ! کہ ان سے بھی یہی گناہ ہوا ہے۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ازلی، بدبخت، بدترین دشمن تھا۔ آپ کی والدہ کے متعلق مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکے رکھا اور پھر بزرگان قوم کے نہایت اسرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸)
لکھا ہے کہ: ’’حضرت مسیح علیہ السلام ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ ۲۲برس کی مدت تک نجاری کا کام کرتے رہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۴)
لکھا ہے کہ: ’’آپ کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور بہنیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھیں۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۷، خزائن ج۱۹ ص۱۸ حاشیہ)
مرزاقادیانی نے حضرت مسیح کے خاندان کے متعلق لکھا کہ: ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ آپ کی تین نانیاں اور دادیاں زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
یہاں اس حوالہ میں دادیاں کا لفظ توجہ طلب ہے۔ دادی اس کی ہوتی ہے جس کا دادا ہو اور دادا اس کا ہوتا ہے جس کا باپ ہو۔ مرزاقادیانی حضرت مسیح کی دادیاں کے لفظ لکھ کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ آپ بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے۔ مرزاقادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات کے متعلق لکھا ہے: ’’مسیح کا چال چلن کیا تھا ایک کھاؤ پیو شرابی نہ زاہد نہ عابد نہ حق کا پرستار، متکبر خود بین اور خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۳ ص۲۱)
مسیح علیہ السلام کے معجزات کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
مرزاقادیانی نے اسی پر لکھا ہے کہ : ’’آپ کے ہاتھ میں سوائے فریب اور مکر کے کچھ نہ تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
لکھا ہے: ’’ہائے کس کے آگے ماتم لے جائیں کہ حضرت عیسیٰ کی تین پیشین گوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۴، خزائن ج۱۹ ص۱۲۱)
مرزاقادیانی نے سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو دل آزار وافسوسناک، اندوہناک، شرمناک قابل نفرت توہین کی ہے۔ اس پر استاذ محترم مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کا مستقل رسالہ ہے۔ (احتساب قادیانیت کی جلد اوّل میں شائع شدہ ہے) جس کا نام ہے۔ ’’حضرت مسیح علیہ السلام مرزاقادیانی کی نظر میں‘‘ اس کا مطالعہ کیا جائے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

خود مدعی مسیحیت، تو مسیح کی توہین کیسے؟​

سوال نمبر:۱۸… مرزاقادیانی خود مسیح موعود ہونے کے مدعی تھے تو وہ مسیح علیہ السلام کی کس طرح توہین کے مرتکب ہوسکتے ہیں؟
جواب… پہلے تو مرزائی یہ بتلائیں کہ مرزاقادیانی نے (ازالہ اوہام ص۱۹۹، خزائن ج۳ ص۱۹۷) پر لکھا: ’’ممکن ہے دس ہزار مسیح آجائیں اور ان میں سے ایک دمشق میں نازل ہو جائے۔ ہاں اس زمانہ کا میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے۔‘‘
اور پھر اس طرح (ازالہ اوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲) پر لکھا ہے کہ: ’’اس عاجز نے جس نے مثیل مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں۔ میں نے یہ ہرگز دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں جو شخص یہ الزام میرے پر لگائے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے۔‘‘
مرزاقادیانی کے اس فرمان کو قادیانی باربار پڑھیں وہ کہتا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں نہ کہ مسیح موعود۔ جو مجھے مسیح کہے وہ کم فہم مفتری اور کذاب ہے۔ اسی کتاب کے ٹائٹل پر دیکھیں کہ مرزاقادیانی کو مسیح موعود کہاگیا ہے۔ اب مرزائی ارشاد فرمائیں کہ اندر کی بات صحیح ہے یا ٹائٹل کی یا یہ کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور اس کا جواب مرزائیوں کے ذمہ ہے۔
۲… اس (ازالہ اوہام ص۶۷۴، خزائن ج۳ ص۴۶۴) میں ایک اور الہام مرزاقادیانی نے اپنا لکھا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے کہا۔ ’’انا جعلناک المسیح ابن مریم‘‘ اب دیکھیں۔ اس کتاب (ازالہ اوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲) پر جو مسیح کہے وہ کم فہم مفتری وکذاب اور اسی کتاب (ازالہ اوہام ص۴۶۴، خزائن ج۳ ص) پر کہا کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے مسیح ابن مریم بنایا۔ اگر یہ الہام صحیح ہے تو اﷲ نے مسیح بنایا اور یہ کہتا کہ جو مجھے مسیح کہے وہ کم فہم۔ مفتری وکذاب تو یہ فتویٰ خدا پر مرزاقادیانی کا ہوا۔ اگر الہام غلط ہے تو مرزائیت کی ساری عمارت دھڑام سے گر گئی۔ اب مرزائی فیصلہ کریں کہ ایک ہی کتاب کی دو باتوں سے کون سی جھوٹی ہے؟
مرزاقادیانی نے لکھا ہے۔ میں مثیل مسیح ہوں۔ مگر کشتی نوح میں لکھا ہے کہ میں عیسیٰ ابن مریم ہوں۔ اب قادیانی بتائیں کہ ازالہ والی بات صحیح ہے یا کشتی نوح والی اور پھر لطف یہ کہ مسیح ابن مریم بننے کے لئے مرزاقادیانی نے جو کہانی تراشی ہے۔ وہ عجیب ہی عبرت آموز اور حیاء سوز ہے۔
مرزاقادیانی نے (کشتی نوح ص۴۶،۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰) پر لکھا ہے کہ: ’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ پر نفخ کی گئی اور باستعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا۔ آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔‘‘
اور اس سے اگلے صفحہ۵۱ پر دردزہ اور کھجور کا بھی ذکر ہے۔ اب مرزائی فیصلہ کریں کہ اس نے ازالہ میں کہا کہ میں مثیل مسیح ہوں اور اس حوالہ میں کہا کہ میں مسیح ہوں۔ کیا اس سے مرزاقادیانی کے اس طرز عمل سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس کے دل میں چور تھا۔ جیسے چور ہر قدم گھر والوں کو سویا ہوا پاکر چوری کے لئے اٹھاتا ہے۔ یہی کیفیت مرزا کی دماغی بناوٹ کی تھی۔ اب ظاہر ہے کہ ان دو میں سے ایک صحیح اور ایک غلط مرزائی فیصلہ کریں کہ مرزا نے کون سی بات صحیح کہی ہے اور کون سی غلط اور یہ بھی یاد رہے کہ جھوٹا نبی نہیں ہوسکتا۔ یہاں ایک سوال یہ بھی رہ جاتا ہے کہ مرزاقادیانی کو حمل کیسے ٹھہرا؟(اسلامی قربانی ص۱۴) پر مرزاقادیانی کے مرید باصفا نے حضرت صاحب کا ایک کشف لکھ کر اس معمہ کو حل کر دیا۔ حضرت صاحب نے ’’ایک دفعہ اپنے کشف کی یہ حالت بیان کی کہ گویا آپ عورت ہیں اور خداتعالیٰ نے آپ سے قوت رجولیت کا اظہار کیا۔ سمجھنے والے کے لئے اشارہ کافی ہے۔‘‘
اﷲ رب العزت کے متعلق یہ دریدہ دہنی یاوہ گوئی پھر خود حاملہ خود ہی خود سے پیدا ہوگئے بقلم خود ہوگئے۔ یہ میں ولد میں کے معمہ کو حل کرنا مرزائیوں کے ذمہ ہے۔ باقی رہا مرزائیوں کا یہ کہنا کہ وہ کس طرح مسیح کی توہین کے مرتکب ہوئے یہ تو ممکن ہی نہیں، بات امکان کی نہیں۔ یہاں تو مسئلہ وقوع کا ہے کہ وہ توہین کے مرتکب ہوئے۔ اس کا باعث مندرجہ ذیل ہے۔
۱… مرزاقادیانی کے مسیح بننے کے لئے ضروری تھا کہ وہ مسیح علیہ السلام کی صفات کا حامل ہوتا۔ مرزاقادیانی اس درجہ پر پہنچ نہیں سکتا تھا تو ان کا درجہ کم کر کے اپنے درجہ اور سطح پر ان کو لے آیا کہ جیسے میں ہوں ویسے ہی مسیح تھے۔ (نعوذ باﷲ)
۲… آئینہ میں انسان کو اپنی شکل نظر آتی ہے۔ مرزاقادیانی اپنے کردار کے آئینہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھتا تھا۔ اس لئے ان کی توہین کا مرتکب ہوتا تھا۔
۳… مسیح بننے کے باعث رقابت کے مرض کا شکار ہو کر واہی تباہی بکنی شروع کر دی کہ چلو میں ان جیسا نہیں تو وہ میرے جیسے تھے۔ مرزاقادیانی کو مرض لاحق تھا۔ جب تک حضرت مسیح علیہ السلام کی کسی بھی پہلو سے توہین نہ کر لیتا اسے چین نہ آتا۔
(ازالہ اوہام ص۳۱۲، خزائن ج۳ ص۲۵۸ حاشیہ) پر مرزاقادیانی نے لکھا ہے۔ ’’یہ عاجز اس عمل کو اگر مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خداتعالیٰ کے فضل اور توفیق سے امید قوی رکھتا تھا۔ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘ اور پھر آگے لکھا کہ: ’’ابن مریم استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم رہنے کے بارے میں ان کی کاروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب ناکام رہے۔‘‘ (استغفراﷲ)
اور اسی کتاب (ازالہ اوہام ص، خزائن ج۳ ص۲۹۹) پر ہے کہ: ’’مسیح کو دعوت حق میں قریباً ناکامی رہی۔‘‘
یہ ہے مرزاقادیانی کی خود نمائی اور مسیح علیہ السلام کے بارے میں اس کی تنقیص کا انداز۔ یا شاطرانہ چال، چلو ان کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرو۔ پھر ایک اور امر کی طرف توجہ کرنا انتہائی ضروری ہے کہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ظاہر امر ہے کہ اس میں نبوت تو درکنار شرافت تک قریب نہ بھٹکنے پائی تھی تو مرزاقادیانی نے نبوت کا ایسا تصور دیا کہ الامان۔
یہ مرزاقادیانی نے اپنی (تریاق القلوب ص۶۷، خزائن ج۱۵ ص۲۷۹) پر لکھا ہے کہ: ’’ایک شخص جو قوم کا چوہڑا یعنی بھنگی ہے اور ایک گاؤں کے شریف مسلمان کی ۳۰،۴۰سال سے خدمت کرتا ہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا ہے اور ان کے پاخانوں کی نجاست اٹھاتا ہے اور ایک دو دفعہ چوری میں بھی پکڑا گیا ہے اور چند دفعہ زنا میں بھی گرفتار ہوکر اس کی رسوائی ہوچکی ہے اور چند سال جیل خانہ میں قید بھی رہ چکا ہے۔ چند دفعہ ایسے برے کاموں پر گاؤں کے نمبرداروں نے اس کو جوتے بھی مارے ہیں اور اس کی ماں اور دادیاں اور نانیاں ہمیشہ سے ایسے نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مردار کھاتے اور گوہ اٹھاتے ہیں۔ اب خداتعالیٰ کی قدرت پر خیال کر کے ممکن ہے کہ وہ ایسے کاموں سے تائب ہوکر مسلمان ہو جائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ خداتعالیٰ کا ایسا فضل اس پر ہو کہ رسول اور نبی بھی بن جائے۔‘‘
اس عبارت سے مرزاقادیانی کی تکنیک (ڈھنگ) کو سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ جس منصب کا دعویٰ کرتا ہے۔ اگر اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا تو اس منصب کو کم کر کے اپنے اوپر فٹ کرنے لگتا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے منصب پر فائز ہونے کے لئے اسے مسیحی شان اور بزرگی کی ضرورت تھی۔ اس کو پورا نہ کر سکا تو مسیح علیہ السلام کی تنقیص کر کے اسے اپنے برابر لاکھڑا کیا اور یا ان کو اتنا گرایا کہ خود ان سے افضل ہونے کا مدعی ہوگیا۔ یہ اس کے حسد اور رقابت کی دلیل ہے۔
چنانچہ (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰) پر لکھتا ہے: ’’کہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے۔‘‘ (نعوذ باﷲ)

حضرت مریم کو صدیقہ کہا تو توہین کیسے؟​

سوال نمبر:۱۹… مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں حضرت مریم کو صدیقہ لکھا ہے تو جس کو وہ صدیقہ لکھے اس کی توہین کا کس طرح مرتکب ہوسکتا ہے؟
جواب… (سیرۃ المہدی ج۳ ص۲۲۰) پر ہے: ’’مولوی ابراہیم بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی خدمت میں پیش ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی اﷲتعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے۔ اس پر حضور (مرزاقادیانی) نے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسیٰ کی الوہیت توڑنے کے لئے ماں کا لفظ استعمال کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے کہ جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں۔ بھرجاکانیئے میں سلام آکھناںواں، جس سے مقصود کانا ثابت کرنا ہوتا ہے۔ نہ سلام کہنا۔‘‘
اس طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیت ہے۔ نہ کہ مریم کی صدیقیت کا اظہار۔
مرزاقادیانی کی یہ کمینگی کسی تبصرہ کی محتاج نہیں۔ اب آپ فرمائیں کہ کیا مرزاقادیانی وقعتہً حضرت مریم کے صدیقہ ہونے کا قائل تھا؟

مرزاقادیانی نے مسیح کے متعلق جو کچھ کہا الزامی طور پر کہا​

سوال نمبر:۲۰… مرزاقادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ کہا وہ الزامی رنگ میں ہے۔ یہودیوں کے اس نے الفاظ ذکر کئے۔ جیسے (چشمہ مسیحی ص۴، خزائن ج۲۰ ص۳۳۶) پر اس کی صراحت ہے کہ: ’’ہمارے قلم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو کچھ خلاف شان ان کے نکلا ہے وہ الزامی جواب کے رنگ میں ہے اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کئے ہیں۔‘‘
جواب… ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی اور یہودی بغض عیسیٰ علیہ السلام میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ یہودی استاد ہیں تو مرزا ان کے شاگرد۔ مگر مرزاقادیانی اب بھی بغض عیسیٰ علیہ السلام میں یہودیوں کی سنت پر عمل پیرا ہے۔ دو کردار ہیں ایک دشمنان مسیح یہود کا، دوسرا کردار ہے وکالت مسیح کا، جو قرآن ادا کر رہا ہے۔ مرزاقادیانی کس کردار کو ادا کر رہا ہے؟ وہ آپ کے سامنے ہے۔

یسوع، مسیح، ابن مریم ایک ہیں​

سوال نمبر:۲۱… مرزاقادیانی نے انجیلی یسوع کے متعلق یہ الفاظ کہے ہیں نہ کہ حضرت مسیح کے متعلق۔
جواب… ہم نے جو حوالہ جات عرض کئے ہیں۔ ان میں صراحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام لے کر ان کو گالیاں دی ہیں۔ اس کے باوجود اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس نے یسوع کے متعلق یہ کہا ہے تو بھی وہاں مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب(توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲) پر لکھا ہے کہ: ’’یسوع، مسیح ابن مریم ایک شخص کے نام ہیں۔‘‘ پس ثابت ہوا کہ جہاں اس نے یسوع کی توہین کی ہے۔ وہاں بھی مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔

مسیح کے متعلق جو کہا جواباً وتردیداً کہا​

سوال نمبر:۲۲… مرزاقادیانی نے عیسائیوں کے رد میں ایسے لکھا۔ اس لئے کہ وہ ہمارے نبی علیہ السلام کی توہین کرتے ہیں تو مرزاقادیانی نے الزامی رنگ میں مسیح علیہ السلام کے بارے میں ایسا لکھ دیا ہے۔
جواب… تمام علیہم السلام کی عزت وتوقیر اور ان پر ایمان لانا بموجب ’’لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ‘‘ ان میں تفریق نہ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے کسی ایک نبی کی توہین کا مرتکب بھی کافر ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے نبی علیہ السلام کی عزت بچانے کے لئے کسی دوسرے نبی پر الزام تراشی کرے یہ بھی کفر ہے۔ باقی یہ مستقل بحث ہے کہ مرزاقادیانی حضور علیہ السلام کی عزت کا محافظ تھا۔ یا سب سے بڑا دشمن، ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ مرزاقادیانی سے بڑھ کر اور کوئی بدبخت بھی آپ ﷺ کی عزت وناموس کا اتنا دشمن نہیں ہے۔ جتنا مرزاقادیانی دجال تھا۔

مرزاقادیانی نے فرضی مسیح کو کہا​

سوال نمبر:۲۳… مرزاقادیانی نے فرضی مسیح کی توہین کی ہے نہ کہ حقیقی کی؟
جواب… اگر فرضی نبی کو گالیاں دینا جائز ہے تو کیا ہم مرزاقادیانی کو الّو کا پٹھہ کہہ سکتے ہیں۔ اگر اس پر قادیانی سیخ پا ہوئے تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم نے فرضی غلام احمد قادیانی کو گالی دی ہے۔ اس طرح تو فساد کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا کہ جو مرزائیوں سے بھی بند نہ ہوسکے گا۔ دوسرا یہ کہ اگر فرضی اور خیالی مسیح کو گالیاں دی ہیں تو وہ عیسائیوں کے لئے حجت اور قابل تسلیم کیسے ہوں گے؟
تاہم! عام آدمی کے لئے بھی چاہے کسی کو فرضی تصور کیا جائے۔ گالیاں دینا شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں۔

انجیل کے حوالہ سے کہا​

سوال نمبر:۲۴… مرزاقادیانی نے انجیل کے حوالہ سے بات کی ہے۔
جواب… مرزاقادیانی نے (چشمہ معرفت ص۲۵۵، خزائن ج۲۳ ص۲۶۶) پر لکھا ہے کہ: ’’تورات اور انجیل محرّف، مبدّل کتابیں ہیں۔‘‘ محرّف ومبدّل کتابوں سے تحریف شدہ حوالہ جات لے کر کسی نبی کو تختہ مشق بنانا کہاں کی شرافت ہے۔

مسیح کے بہن بھائی کا ذکر ’’ انما المؤمنون اخوۃ ‘‘ کے درجہ میں​

سوال نمبر:۲۵… مرزاقادیانی نے جہاں مسیح علیہ السلام کی بہنوں یا بھائیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ ’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٗ‘‘ کے تحت کہا ہے نہ کہ حقیقی طور پر۔
جواب… مرزاقادیانی نے (کشتی نوح ص۱۷، خزائن ج۱۹ ص۱۸ حاشیہ) پر لکھا ہے کہ ’’آپ کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور بہنیں تھیں۔‘‘ تو اب مرزاقادیانی نے ’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٗ‘‘ کے تحت نہیں کہا۔ بلکہ حقیقی طور پر ان کی بہنیں اور بھائی مراد لیتے ہیں۔ جو شرعاً نہ صرف غلط بلکہ دجل وتلبیس کا مرقع ہیں۔

دشمنوں کے اعتراض نقل کئے​

سوال نمبر:۲۶… کیا دشمنوں کے اعتراض نقل کرنے جرم ہیں؟
جواب… مرزائیوں کے نزدیک اگر دوسروں کے اعتراض نقل کرنا جرم نہیں تو ہمیں بھی یہ حق ہے کہ مرزاقادیانی کے دشمنوں نے مرزاقادیانی کے متعلق جو اعتراض کئے ہم بھی ان کو نقل کر سکیں۔ مرزاقادیانی کے زمانہ میں جن لوگوں نے مرزاقادیانی کے متعلق جو کہا اور مرزاقادیانی نے خود اپنی کتاب میں اسے نقل کیا ہے وہ ہم عرض کر دیں۔ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۱۸۱، خزائن ج۲۲ ص۱۸۸) پر لکھا ہے: ’’ازاں جملہ یہ امر قابل تذکرہ ہے کہ عبدالحکیم خان نے اپنے ہم جنسوں کی پیروی کر کے میرے پر یہ الزام لگائے ہیں کہ میں جھوٹ بولتا رہا ہوں اور میں دجال ہوں اور حرام خور ہوں اور خائن ہوں اور اپنے رسالہ المسیح الدجال میں طرح طرح کی میری عیب شماری کی ہے۔ چنانچہ میرا نام شکم پرست، نفس پرست، متکبر، دجال، شیطان، جاہل، مجنوں، کذاب، سخت، حرام خور، عہد شکن، خائن رکھا ہے اور دوسرے کئی عیب لگائے ہیں۔‘‘
مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۱، خزائن ج۲۲ ص۴۵۳) پر لکھا ہے کہ: ’’مولوی محمد حسین بٹالوی نے جب جرأت کے ساتھ زبان کھول کر میرا نام دجال رکھا اور میرے پر فتویٰ کفر لکھوا کر صدہا پنجاب وہندوستان کے مولویوں سے مجھے گالیاں دلوائیں اور مجھے یہود ونصاریٰ سے بدتر قرار دیا اور میرا نام کذاب، مفسد، دجال، مفتری، مکار، ٹھگ، فاسق، فاجر، خائن رکھا۔‘‘
اب مرزائی بتائیں کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں کے اعتراض سے مرزاقادیانی استدلال کر سکتے ہیں تو پھر مرزاقادیانی پر جن مخالفین نے اعتراض کئے وہ آپ کے ہاں کیوں قابل قبول نہیں؟ نیز اگر مرزاقادیانی کے نزدیک دشمنوں کے اعتراض نقل کرنا باعث اجر اور ثواب ہے۔ تو مرزاقادیانی کے مخالفین کے اعتراض اور القابات نقل کرنا ہمارے نزدیک بہت بڑا اجر رکھتا ہے کہ اسے دجال کہا جائے۔ کذاب، مفسد، حرام خور وغیرہ القابات نقل کئے جائیں۔

وہ مسیح جو ابنیت کا مدعی تھا​

سوال نمبر:۲۷… مرزاقادیانی نے اس مسیح کے متعلق سخت الفاظ کہے تھے۔ جس نے ابنیت کا دعویٰ کیا تھا۔
جواب… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (تحفہ قیصریہ ص۱۶، خزائن ج۱۲ ص۲۷۳) پر لکھا ہے کہ: ’’حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفارہ تثلیث وابنیت ہے۔ ایسے متنفر پائے جاتے ہیں تو گویا ایک بھاری افتراء ہے جو ان پر کیا گیا ہے۔‘‘ لیجئے! مرزاقادیانی نے خود تسلیم کر لیا کہ نصاریٰ کے غلط عقائد سے عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی تعلق نہیں۔ تو نصاریٰ کے ان غلط عقائد کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے ارتکاب کا جواز کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟

رحمت اﷲ کیرانوی وغیرہ​

سوال نمبر:۲۸… پہلے جیسے علماء، مولانا رحمت اﷲ کیرانوی نے بھی توجوابات دئیے ہیں عیسائیوں کو۔
جواب… کسی کو الزامی جواب دیتے وقت اگر کسی نبی کی تحقیر کا پہلو آگیا تو یہ کفر ہے۔ چاہے جواب دینے والا کوئی کیوں نہ ہو۔ جواب حقیقی ہو یا الزامی۔ علیہم السلام میں سے کسی ایک کی توہین وتحقیر کرنا کفر ہے۔ چنانچہ پہلے علماء نے ایسے قطعاً نہیں کیا۔ نیز یہ کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’حق بات یہ ہے کہ آپ (مسیح) سے کوئی معجزہ سرزد نہیں ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) تو ’’حق بات‘‘ کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ مرزاقادیانی اپنی طرف سے یہ بات کہہ رہا ہے نہ کہ الزامی طور پر۔

قادیانی اعتراضات کے مسکت جوابات​

عیسیٰ علیہ السلام کب فوت ہوئے؟​

سوال نمبر:۲۹… ایک بار قادیانی نے کہا کہ دیکھئے جی! حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو فوت ہوگئے۔ راقم نے عرض کیا کب فوت ہوئے۔ رحمت عالم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل یا بعد میں؟ قادیانی نے کہا کہ حضور علیہ السلام سے قبل مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے۔ راقم نے عرض کیا کہ مرزاقادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) پر لکھا ہے کہ: ’’جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔‘‘ یہ کتاب ۱۸۸۴ء میں مرزاقادیانی نے لکھی۔ معلوم ہوا کہ مسیح علیہ السلام ۱۸۸۴ء تک مرزاقادیانی کے بقول زندہ تھے۔ اس کے بعد کب فوت ہوئے۔ آپ بتادیں؟ یا لکھ دیں کہ مرزاقادیانی نے جھوٹ بولا ہے؟

ابن مریم کی جگہ ابن چراغ بی بی کیسے؟​

سوال نمبر:۳۰… ایک بار ایک قادیانی نے کہا کہ جی! عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ راقم نے عرض کیا کب؟ کہا حضور علیہ السلام سے پہلے۔
راقم… تو مرزاقادیانی کیسے مسیح ہوگیا؟
قادیانی… حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مسیح آئے گا تو مراد اس سے مرزا۔
راقم… بندۂ خدا! آپ کے بقول عیسیٰ علیہ السلام ، حضور علیہ السلام کی تشریف آوری سے پہلے فوت ہوگئے تو جو فوت ہوگئے ان کے متعلق حضور علیہ السلام کیسے فرماتے ہیں کہ وہ آئیں گے؟ اگر فرمایا کہ وہ آئیں گے تو اس کا معنی یہ کہ وہ فوت نہیں ہوئے۔ اچھا اگر آپ کے بقول مسیح کی جگہ مرزاقادیانی نے آنا تھا وہ آگئے۔
بہت اچھا تو دیانت وعقل کا تقاضہ ہے کہ جس نے آنا تھا اس کے آنے کا اعلان کیا جاتا۔ آنا مرزا بن چراغ بی بی نے تھا۔ لیکن اعلان کیا مسیح ابن مریم آئے گا۔ بھائی! تو جس کا اعلان ہوا وہی تشریف لائیں گے۔ اگر مرزاقادیانی نے آنا تھا تو اس کا اعلان ہوتا۔ قرآن وحدیث کے ذخیرہ میں ایک آیت، ایک حدیث دکھا دو۔ جس میں ہو کہ مرزاقادیانی بن چراغ بی بی آئے گا تو ہم مان لیں گے۔ وہ قادیانی مبہوت ہوگیا۔

مرزاقادیانی کا الہام قرآن کا ناسخ؟​

سوال نمبر:۳۱… ایک بار ایک قادیانی نے کہا کہ آپ کو مرزاغلام احمد قادیانی سے کیا ضد ہے کہ آپ اسے کافر کہتے ہیں۔ راقم نے عرض کیا۔ میاں ضد نہیں بلکہ ہم مرزاقادیانی کو اس لئے کافر کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے اپنے الہام سے قرآن مجید کو منسوخ کیا۔ اس لئے مرزاقادیانی نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر ومرتد ہے۔ قادیانی نے حیرت سے کہا وہ کیسے؟
راقم نے عرض کیا۔ مرزاقادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) پر تحریر کیا ہے: ’’ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِاالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ یہ آیت حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے۔ جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
براہین کی تصنیف کے وقت مرزاقادیانی کا مجدد، مامور اور ملہم من اﷲ ہونے کا دعویٰ تھا۔ اس وقت قرآن مجید سے استدلال کر کے کہا کہ گویا قرآن مجید کی رو سے مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ مرزاقادیانی کا بیٹا مرزامحمود کہتا ہے: ’’لیکن ۱۸۹۱ء میں ایک اور تغیر عظیم ہوا۔ یعنی حضرت مرزاصاحب کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ حضرت مسیح ناصری ( علیہ السلام ) جن کے دوبارہ آنے کے مسلمان اور مسیحی دونوں قائل ہیں وہ فوت ہو چکے… اور ان کی جگہ آپ (مرزاقادیانی) ہیں۔‘‘ (سیرۃ مسیح موعود ص۳۰، مصنفہ مرزامحمود)
مرزاقادیانی نے پہلے ۱۸۸۴ء میں قرآن مجید کی رو سے کہا کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ پھر ۱۸۹۱ء میں اپنے الہام کی رو سے کہا کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے تو گویا مرزاقادیانی کے الہام نے قرآن مجید کو منسوخ کر دیا؟ اتنی بات مرزاقادیانی کے کافر ہونے کے لئے کافی ہے۔

میں رانجھا ہوگئی؟​

سوال نمبر:۳۲… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷) پر لکھا ہے: ’’پھر اسی کتاب (براہین احمدیہ) میں اس مکالمہ کے قریب یہ وحی اﷲ ہے۔ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلٰی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ‘‘ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔‘‘
راقم نے ایک گفتگو میں یہ حوالہ پیش کیا۔ قادیانی مجیب نے کہا: ’’میں رانجھا، رانجھا کر دیں رانجھا ہوگئی‘‘ کہ مرزاقادیانی محمد ﷺ، محمد ﷺ کرتے کرتے محمد ﷺ ہوگیا۔ میرے لئے یہ جواب بہت ہی سوہان روح، ایک تو مرزاقادیانی کو معاذ اﷲ محمد رسول اﷲ ثابت کیا جارہا ہے اور استدلال میں کسی پنجابی شاعر کے شعر کا ایک ٹکڑا پیش کیا جارہا ہے۔ عوام سامعین دیہاتی، پنجابی ذوق کے، اب ان کو کس طرح اس دجل سے بچایا جائے؟ راقم نے کہا۔
راقم… (قادیانی سے) آپ کے والد نام
قادیانی… کیوں؟
راقم… میاں ہے تو بتا دو؟
قادیانی… کیا ضرورت پیش آگئی؟
راقم… میاں آپ سے والد کا نام پوچھا ہے کسی خاتون کا تو نہیں۔ اگر ہے کوئی تو بتادو؟
قادیانی… میرے والد کا نام گل خان۔
راقم… جیب سے نکالی تسبیح اور پھیرنی شروع کی۔ گل، گل، گل۔ ضرب پے ضرب، چل سو چل۔ گل ہی گل۔ قادیانی اور پبلک حیرت زدہ کہ مولوی صاحب نے یہ کیا شروع کر دیا۔ خیر جب تسبیح مکمل ہوگئی اور ان کی حیرت کا گراف بھی آخری ڈگری پر چلا گیا تو قادیانی نے کہا۔
قادیانی… یہ کیا؟
راقم… میں گل، گل کر دیں گل ہوگئی۔ میں آپ کا باپ آپ میرے بیٹے۔ تو حلالی بیٹے۔ باپ کے سامنے نہیں بولا کرتے۔ آپ مناظرہ کر رہے ہیں؟
قادیانی… اخلاق بھی کوئی چیز ہے؟
راقم… اخلاق کے باعث ہی کہا کہ میں آپ کا باپ، ورنہ تو کہتا کہ میں گل ، اور والدہ کو کہنا شام کو میرا انتظار کرے۔
قادیانی… مولوی صاحب! آپ بدتمیزی کر رہے ہیں۔
راقم… شریف آدمی! تم کہو کہ مرزاقادیانی محمد ﷺ تھا تو کوئی حرج نہیں۔ میں کہوں کہ میں تمہارا باپ، تو بداخلاقی۔ حالانکہ جو دلیل تم نے دی، وہی دلیل میری۔ اب یا مجھے اپنا باپ مانو یا تسلیم کرو کہ مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ میں محمد ﷺ ہوں۔ یہ اہانت رسول اﷲ ہے اور مرزاقادیانی کے کفر کی دلیل صریح۔ قادیانی کی گردن جھک گئی اور زبان رک گئی۔

قادیانی مسیلمہ کذاب؟​

سوال نمبر:۳۳… ایک مناظرہ میں قادیانی سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہے۔ لگا کہنے کہ ہم ان کو اہل کتاب سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی اس نے سوال کیا کہ مولوی صاحب آپ بھی بتا دیں کہ آپ احمدیوں (قادیانیوں) کو کیا سمجھتے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ہم آپ کے گرو مرزاقادیانی کو مسیلمہ کذاب کا بھائی اور قادیانیوں کو مسیلمہ کذاب کی پارٹی کی طرح کافر ومرتد سمجھتے ہیں۔

پٹواری نہیں بلکہ مفسرین؟​

سوال نمبر:۳۴… ایک قادیانی نے کہا مولوی صاحب! لفظ تُوَفّٰی کا معنی تو پٹواری، نمبردار کو بھی معلوم ہے کہ وہ مرنے والے کو متوفی لکھتے اور کہتے ہیں۔ پٹوار کے کاغذات اس پر شاہد ہیں۔ مولانا محمد امین اوکاڑوی نے فرمایا کہ آپ کے جھوٹے ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ آپ قرآنی الفاظ کے معانی پٹواریوں والے کرتے ہیں۔ جب کہ ہم کہتے ہیں قرآن کے معانی وہ کرو جو آج تک امت مسلمہ اپنے مسلّمات کی رو سے کرتی چلی آئی ہے۔

مرزاجاہل تھا؟​

سوال نمبر:۳۵… ایک دفعہ ایک مناظرہ میں ایک قادیانی نے کہا کہ مرزاقادیانی کو کم ازکم عالم ہی مان لیں۔ راقم نے کہا کہ مرزاقادیانی (خطبہ الہامیہ ص۴۹، خزائن ج۱۶ ص۴۹) پر لکھتا ہے کہ: ’’عید اس کا نام نہیں کہ بازاری عورتوں کے رقص کا شوق کیا جائے۔ ’’وبؤسہن وعناقہن‘‘ اور ان کا بوسہ گلے لپٹانا۔‘‘
بوسہ کی عربی مرزاقادیانی نے بؤسہن لکھی ہے۔ کیا دنیا میں کسی عرب نے لفظ بوسہ کو عربی شمار کیا ہے۔ بوسہ اردو کا لفظ ہے۔ اسے عربی میں گھسیڑنا مرزاقادیانی کی فصاحت وبلاغت کا ہی کرشمہ قرار دیا جاسکتا ہے اور اس سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مرزاقادیانی کتنا بڑا جاہل تھا۔ جسے اردو الفاظ کی عربی تک نہ آتی ہے۔ اس سے اس کی جہالت مآبی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

مرزاقادیانی دنیا کا سب سے بڑا جاہل؟​

سوال نمبر:۳۶… ایک دفعہ ایک مناظرہ میں ایک قادیانی نے کہا کہ اور کچھ نہیں مرزاقادیانی کو عالم ہی مان لیں۔ راقم نے کہا کہ میر ادعویٰ ہے کہ مرزاقادیانی دنیا کا سب سے بڑا جاہل تھا۔ اس پر وہ قادیانی بھنّا گیا۔ راقم نے دوسرا وار کیا کہ مرزاقادیانی تو رہے اپنی جگہ، میرے نزدیک تو آپ بھی جاہل ہیں۔ یہ سنتے ہی اس کے تن بدن کو آگ لگ گئی۔ اس کے کچھ کہنے سے قبل، راقم نے کہا کہ اگر آپ کچھ جانتے ہیں تو اسلامی مہینوں کے نام بتائیں۔ اس نے کہا۔ محرم، صفر، ربیع الاوّل، راقم نے کہا آپ غلط کہتے ہیں۔ صفر دوسرا مہینہ نہیں چوتھا ہے۔ اب وہ کہے دوسرا، راقم عرض کرے کہ چوتھا۔ اس پر اسے آیا غصہ۔ مارے غصہ کے کانپتے ہوئے کہا کہ کون الّو کا پٹھہ کہتا ہے کہ صفر چوتھا مہینہ ہے۔ راقم نے کہا کہ مرزاقادیانی نے (تریاق القلوب ص۴۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱۸) پر لکھا ہے۔ اب اس بیچارے کی کیفیت دیدنی تھی۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ مرزاقادیانی کو عالم ثابت کرنا چاہتا تھا۔ خود الّو کا پٹھہ مان لیا۔

شیطان کے ماننے والے بہت؟​

سوال نمبر:۳۷… ایک بار مناظرہ میں قادیانی لاجواب ہوگیا تو اس نے چال چلی کہ مولوی صاحب چلو آپ کے نزدیک مرزاقادیانی جھوٹا ہی سہی۔ لیکن اتنا تو مانیں کہ مرزاقادیانی کے ماننے والے بہت ہیں۔ راقم نے کہا کہ یہ کوئی دلیل نہیں۔ ماننے والے تو شیطان کے بھی بہت ہیں۔

دنیا میں مرزاقادیانی کا ایک بھی ماننے والا نہیں؟​

سوال نمبر:۳۸… ایک بار دوسرے مناظرہ میں قادیانی مناظر نے کہا کہ مرزاقادیانی کے ماننے والوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اور یہ کہ ہماری تعداد اتنی ہے۔ راقم نے کہا کہ میاں صاحب میرا دعویٰ یہ ہے کہ: ’’پوری دنیا میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو مرزاقادیانی کو اس کے تمام دعاوی میں سچا مان کر ان پر عمل بھی کرتا ہو۔‘‘ اس پر وہ قادیانی ایسا آگ بگولا ہوا کہ لگا اچھلنے۔ ہاتھ ہلائے، گردن گھمائے، ایسی تیزی دکھائی کہ پٹھے پر ہاتھ رکھنا مشکل ہوگیا۔ مولوی صاحب! آپ کا ایسا بدیہہ البطلان دعویٰ کہ تعجب ہے کہ لوگوں نے آپ ایسے شخص کو میرے سامنے لا کر بٹھا دیا۔ لوگو! دیکھو میں قادیانی، میرا باپ قادیانی، میری ماں، میرا خاندان، میرے چک کے لوگ اور جو میرے ساتھ آئے۔ یہ سب مرزاصاحب کو اس کے تمام دعاوی میں سچا مان کر اس کے ہر قول وفعل پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ راقم نے عرض کیا میاں صاحب میرے دعویٰ کے الفاظ پھر سنیں۔ پوری دنیا میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو مرزاقادیانی کو اس کے تمام دعاوی میں سچا مان کر ان پر عمل بھی کرتا ہو۔ اگر یہ غلط ہے تو سنئے: مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے کہ: ’’میں حجر اسود ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۴۴۵)
اسی طرح مرزاقادیانی نے دوسری جگہ لکھا ہے: ’’ انی واﷲ فی ہذا الامر کعبۃ المحتاج کما ان فیمکۃ کعبۃ الحجاج وانی انا الحجر الاسود الذی وضع لہ القبول فی الارض والناس یمسّہٖ یتبرکون ‘‘ خدا کی قسم جیسے مکہ حجاج کا کعبہ ہے۔ میں محتاجوں کا کعبہ ہوں اور میں وہ حجر اسود ہوں جس کی زمین پر مقبولیت رکھ دی گئی اور لوگ اس کو تبرک کے طور پر چھوتے ہیں۔ (الاستفتاء ص۴۱، ملحقہ حقیقت الوحی، خزائن ج۲۲ ص۶۶۳)
قادیانی… ہاں میں مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ ہم موجود سب قادیانی مانتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو اﷲ تعالیٰ نے حجر اسود بنایا۔ وہ حجر اسود تھے۔ راقم نے عرض کیا کہ حجر اسود کو سامنے سے سنٹر میں چوما جاتا ہے۔ تم نے سامنے سے مرزاقادیانی کی سنٹر کی کون سی جگہ کو چوما ہے؟ تمہارے باپ نے، ان تمام سے ایک آدمی کہہ دے کہ میں نے اسے سنٹر میں چوما ہے تو میرا دعویٰ غلط۔ اس پر اس قادیانی نے صرف بغلیں جھانکتے نہیں بلکہ دوڑنے میں عافیت تلاش کی۔

قرآن میں ربوہ؟​

سوال نمبر:۳۹… ایک بار قادیانی مناظر نے کہا کہ مولانا آپ ہمارا کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے شہر کا نام قرآن میں لکھا ہے۔ ربوہ۔
راقم نے کہا میاں صاحب! آپ تو فرماتے ہیں کہ قادیانیوں کے شہر کا نام قرآن مجید میں لکھا ہے۔ میرے نزدیک تو قادیانیوں کا نام بھی قرآن مجید میں لکھا ہے۔ وہ مناظر لگا کہنے مولانا آپ بہت وسیع ظرف ہیں۔ پڑھیں قرآن مجید کی آیت میں کہاں ہمارا نام لکھا ہے۔ راقم نے کہا میاں صاحب صرف قادیانیوں کا نہیں، لاہوری مرزائیوں کا بھی قرآن مجید میں نام ہے۔
قادیانی … مولانا آپ کے منہ میں گھی شکر۔ آیت تلاوت فرمائیں۔ آپ کی وسیع ظرفی پر تو فدا ہونے کو دل کرتا ہے۔ آیت تلاوت کریں۔
راقم… میاں! میری زبان پر اعتماد کر لو۔ قادیانیوں اور لاہوریوں، دونوں کا نام لکھا ہے۔
قادیانی… مولانا کرم فرمائیے۔ وہ آیت تلاوت کریں۔
راقم… ’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم! حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ‘‘
میتہ مردار سے مراد لاہوری اور خنزیر سے مراد قادیانیوں کا بیان ہے،۔ دونوں کا تذکرہ ہوا۔
قادیانی… مولوی صاحب کچھ خدا کا خوف کرو۔ جب قرآن مجید اترا تھا، قادیانی تھے؟
راقم… جب قرآن مجید اترا تھا یہ ربوہ تھا؟
قادیانی… واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔
راقم… چلو مجھ سے بھی ہوگئی۔
قادیانی… سوری۔
راقم… سوری دے آ۔ اب بس کر۔ تمہارے لئے بہت ہوگئی ہے۔ اس سے زیادہ کیا تمہاری خدمت کروں۔

مرزا کو ماننا​

سوال نمبر:۴۰… ایک بار مناظرہ میں قادیانی مناظر غصہ میں آکر لگا دعویٰ کرنے کہ مولوی صاحب اگر آج مرزاکو نہیں مانتے تو کل وقت آئے گا کہ آپ کو ماننا پڑے گا۔ راقم نے کہا میاں صاحب! دھمکی کیوں لگاتے ہو۔ کل کیا ہوتا ہے میں تو ابھی مرزاقادیانی کو مانتا ہوں۔
قادیانی… مرزاصاحب کو آپ کیا مانتے ہیں؟
راقم… الّو کا چرخہ! پاگلوں کا چیئرمین مانتا ہوں۔ وہ اس طرح کہ جس کو دائیں بائیں پاؤں کے جوتے کی تمیز نہ تھی۔ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۵۳)، جس کو صدری اور کوٹ کے بٹنوں کی تمیز نہ تھی۔ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۱۲۶) جس کو اوپر کے کاج اور نیچے کے کاجوں کی تمیز نہ تھی۔ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۱۲۶) جو ایک ہی جیب میں گڑ اور مٹی کے ڈھیلے رکھتا تھا۔ (مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ ص۶۷) جس کی واسکٹ کی جیب میں اڑھائی سیر کی اینٹ رکھی رہتی تھی اور اسے معلوم نہ ہوتا تھا۔ (مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ طبع چہارم ص ق) فرمائیے یہ عقلمند انسان تھا یا الّو کا چرخہ اور پاگلوں کا چیئرمین تھا؟ فبھت الذی کفر!

مرزا کی دو سچی باتیں​

سوال نمبر:۴۱… ایک بار مناظرہ میں قادیانی مناظر جب باالکل لاجواب ہوگیا تو اپنی خفت مٹانے کے لئے کہنے لگا۔ مولوی صاحب، کیا مرزاقادیانی نے کوئی صحیح بات بھی کہی ہے یا سب ہی غلط تھیں؟ تو راقم نے کہا کہ ہاں مرزاقادیانی نے سچی بات بھی کہی اور خوب کہی۔ وہ یہ کہ مرزا نے کہا:
کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷، خزائن ج۲۱ ص۱۲۷)
اس شعر میں مرزاقادیانی نے کہا کہ میں مٹی کا کیڑا ہوں اور آدم کی اولاد نہیں۔ یعنی انسان زادہ نہیں ہوں۔ یہ باالکل صحیح کہا کہ واقعی مرزاقادیانی کا کوئی کام بندے دے پتراں والا نہ تھا۔ اس پر وہ قادیانی ایسا کھسیانا ہوا کہ لگا کہنے، اچھا اور کوئی صحیح بات نہیں کہی؟ راقم نے کہا کہ اور بھی صحیح بات کہی۔ وہ یہ کہ مرزاقادیانی نے کہا حضور علیہ السلام کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر ہے۔ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۱)
پھر کہا کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی ورسول ہیں۔ (ملفوظات احمدیہ ج۱۰ ص۱۲۷)
دعویٰ رسالت کر کے خود اپنے فتویٰ کی رو سے خود کافر ہوگیا۔ قادیانی مناظر بے چارہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن لگا کہنے اچھا بس؟
راقم نے کہا کہ نہیں، مرزاقادیانی نے ایک اور صحیح بات کہی کہ میرے مخالف کنجریوں کی اولاد۔
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷،۵۴۸)
تو مرزاقادیانی کا بیٹا فضل احمد اس کو نہیں مانتا تھا تو مرزاقادیانی کے فتویٰ کے مطابق وہ کنجری کا بیٹا، اس کی ماں مرزا کی بیوی تھی… تو جو کنجری کا خاوند ہو وہ بھی … اور جو … کو نبی مانیں یا مصلح یا مجدد یا مسیح وہ بھی … اس پر وہ قادیانی دم بخود ہو کر ناخنوں سے زمین کھودنے لگ گیا۔

مرزاقادیانی کو صاحب کیوں نہیں کہتے؟​

سوال نمبر:۴۲… ایک بار ایک قادیانی نے کہا کہ مرزاقادیانی کو آپ لوگ صاحب کیوں نہیں کہتے؟ اندرا گاندھی صاحبہ، اوباما صاحب، جناب پرویز مشرف سب کو صاحب کہتے ہو تو مرزاقادیانی کو صاحب کیوں نہیں کہتے۔ راقم نے عرض کیا کہ کیا آج تک کسی قادیانی نے شیطان کو صاحب کہا، ابوجہل یا فرعون کو صاحب کہا ہے۔ کیا آپ کہتے ہیں کہ رات شیطان صاحب خواب میں میرے پاس تشریف لائے تھے۔ کہنے لگا نہیں، شیطان کو تو کوئی صاحب نہیں کہتا۔ راقم نے عرض کیا کہ شیطان صرف شیطان تھا۔ مرزاقادیانی سپر شیطان تھا۔ شیطان نے صرف سیدنا آدم علیہ السلام کی اہانت کی تھی۔ مرزاقادیانی نے تمام علیہم السلام کی اہانت کی ہے۔ جب آپ شیطان کو صاحب نہیں کہتے، تو میں سپر شیطان کو کیسے صاحب کہوں؟۔

کیا کبھی ایسے ہوا؟​

ذیل میں مرزا قادیانی کی سات عبارتیں پیش خدمت ہیں۔ قادیانی براہ کرم بتائیں کہ کیا کسی نبی نے کسی فیصلہ کے لئے اپنے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے؟۔
۱… ’’اگر میعاد گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو تو میرے گلے میں رسی اور پائوں میں زنجیر ڈالنا اور مجھے ایسی سزا دینا کہ تمام دنیا میں کسی کو نہ دی گئی ہو۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۳، خزائن ج۵ص۵۷۴)
۲… ’’اور اگر یہ تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔ اگر تیری نظروں میں، میں مردود اور ملعون اور دجال ہی ہوں۔ جیسا مخالفوں نے سمجھا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ص۱۱۶)
۳… ’’اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی تو میں ہر سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جائے۔ روسیاہ کیا جائے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔‘‘
(جنگ مقدس ص۱۸۸،خزائن ج۶ص۲۹۳)
۴… ’’میرے مالک میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے ثناء اﷲ کی زندگی میں ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر۔ موت قتل کی رو سے واقع نہ ہو۔ بلکہ محض بیماری کے ذریعہ سے ہو۔ مثلاً طاعون سے یا ہیضہ سے۔‘‘ (ضمیمہ نزول المسیح ص۱۸،خزائن ج۱۹ص۱۲۲)
۵… ’’مجھے جھوٹا قرار دے کر ہلاک کیا تو میں جھوٹے ہونے کی حالت میں کسی پیشگوئی اور امامت کو نہیں چاہتا۔ بلکہ اس حالت میں ایک یہودی سے بھی بدتر ہوں گا اور ہر ایک کے لئے جائے عار ننگ۔‘‘
(ضمیمہ نزول المسیح ص۲۰، خزائن ج۱۹ص۱۲۴)
۶… ’’اﷲ تعالیٰ کے کسی نبی نے تو کجا خدا کے کسی مقربین نے بھی اس قسم کی کوئی پیش گوئی نہیں کی کہ اگر
میں اتنی عمر پاکر مروں تو میں سچا ہوں گا۔ ورنہ تم مجھے جھوٹا سمجھنا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲، خزائن ج۳ص۳۴۲)
۷… ’’اگر میں اس پیش گوئی میں کاذب نکلا تو ہر ایک سزا کے بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ اس بات پر راضی ہوں۔ مجھے گلہ میں رسہ ڈال کر پھانسی (سولی) پر کھینچا جائے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۶۵۱،خزائن ج۵ص۶۵۱)
تمت بالخیر!
 
Top