• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی غیر مسلم ہیں!

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ٹھیک 39(40) سال قبل 1974 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے لاہوری و قادیانی مرزائیوں کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہدکو تسلیم کرتے ہوئے ایک قرار داد ِ اقلیت کے ذریعے غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا اِس سے پہلے پاکستان میں مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والوں کو کافر کہنا جرم تھا لیکن 7۔ ستمبر 1974 کے بعد مرزا قادیانی اور اس کے ماننے والوں کو مسلمان کہنا جرم قرار دیا گیا اور اس آئینی قرار داد ِ اقلیت پر اس رکن اسمبلی نے بھی دستخط کیے تھے جس نے 1973 کے آئین کی تشکیل کے وقت اختلاف کرتے ہوئے اس پر دستخط نہیں کیے تھے گویا یہ قرار داد ِ اقلیت 1973 کے آئین سے بھی زیادہ متفق علیہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو برٹش ایمپائر نے اپنی ضرورت کے تحت کھڑا کیا !

مرزا غلام قادیانی خود لکھتے ہیں کہ ”میرے والد غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے۔ گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ ک±رسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے۔1857 میں انہوں نے سرکار انگریزی کی خدمت گزار ی میں پچاس گھوڑے مع پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دئیے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کواس قسم کی مدد کا عندالضرورت وعدہ بھی دیا اور سرکار انگریزی کے حکام ِ وقت سے بجا آوری خدمات عمدہ عمدہ چٹھیات خوشنودی مزاج ان کو ملی تھیں، چنانچہ سر لیپل گریفن صاحب نے اپنی کتاب ”رئیسانِ پنجاب “میں ان کا تذکرہ کیا ہے غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دلعزیز تھے اور بسااوقات ان کی دلجوئی کے لیے حکامِ وقت ڈپٹی کمشنر ان کے مکان پر آکر اِن سے ملاقات کرتے تھے۔“
(اشتہار واجب الاظہار مورخہ 30 ستمبر 1897 ?ءصفحہ 3 تا 6 ملحقہ بکتاب البریہ)

ہندوستان کے تمام مکاتب فکر نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد ونظر یات کا بغور جائزہ لینا شروع کیا تاہم سب سے پہلے علماءلدھیانہ نے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والوں پر کفرکا فتویٰ صادر کیا۔جس کی ہندوستان کے تمام مکاتب فکر نے تائید وتقلید کی علامہ اقبال مرحوم نے قادیانیت کو یہودیت کا چربہ قرار دیا مولانا ظفر علی خان مرحوم نے اس مسئلہ پر عوامی بیداری پیدا کی اور سیاسی محاسبہ شروع کیا،محدث العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری رحمتہ اللہ علیہ نے رجال کار کو منظم کرنے کے لیے مجلس احرار ِ اسلام کی سرپرستی فرمائی،سید عطاءاللہ شاہ بخاری کو ”امیر شریعت “کے خطاب سے نوازا پانچصد علماءحق نے حضرت امیر شریعت کی بیعت کی ، فتنہ قادیانیت جس کو اسلام کے نام پر متعارف کرواکر زندقہ و اِرتداد پھیلا یا جارہا تھا کے سدباب کے لیے مجلس احرار ِاسلام نے شعب? تبلیغ تحفظ ختم ِنبوت قائم کیا گیا،حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہم سمیت چوٹی کی مذہبی قیادت نے اس شعبہ تبلیغ کی عملی سر پرستی فرمائی پاکستان بن گیا تو قادیانی پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارنے کی تیاری کرنے لگے،مرزا بشیر الدین محمود آنجہانی نے 1952 کو احمدیت کا سال قرار دیا اور صوبہ بلوچستان کو احمدی اسٹیٹ بنانے کی باتیں منظر عام پر آنے لگیں ،موسیو ظفر اللہ خاں قادیانی وزیر خارجہ نے سرکاری حیثیت میں کراچی میں احمدیت کو زندہ اور اسلام کو مردہ مذہب قرار دیا۔اس سے پہلے مجلس احرار ِ اسلام کی تجویز پر تمام مکاتب فکر دستوری خاکے 22۔ نکات میں ترمیم کرکے تیسواں 23) واں (نکتہ منظور کر چکے تھے کہ لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو ملک کی ساتویں اقلیت قرار دیا جائے جس کا تذکرہ بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ”قادیانی مسئلہ “ میں کر چکے ہیں۔
تین مطالبات:
٭ظفر اللہ خاں سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے ٭مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور سول وفوج کے کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایا جائے۔یہ تین مطالبات ملک کی مذہبی قیادت نے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم ِنبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم سے اہل اقتدار کو پیش کیے۔مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے مسترد کردیے گئے ،مطالبات کی منظوری کے لیے پر±امن تحریک چلی، تحریک مقدس تحفظ ختم ِنبوت کو ریاستی طاقت سے کچل دیا گیا۔مال روڈ سمیت لاہور ،ملتان،کراچی ، سیالکوٹ،گوجرانوالہ ،ساہیوال اور دیگر شہروں میں دس ہزار فرزندان ِاسلام کے سینے گو لیوں سے چھلنی کر دیے گئے تب سید عطا ءاللہ شاہ بخاری نے فرمایا کہ ” میں اس تحریک کے ذریعے ایک ٹائم بم چھپا کر جا رہا ہوں جو اپنے ٹائم پر ضرور پھٹے گا میں زندہ رہا تو خود دیکھ لوں گا۔ورنہ میری قبر پر آکر بتا دینا ! …“حکمرانوں نے پورے ریاستی جبر کے ساتھ تحریک کو کرش کردیا سکندر مرزا اقتدار کے نشے میں بری طرح بد مست تھے کہنے لگے کہ یہ کا بینہ کی غلطی ہے کہ ا±س نے ان ملاوّں کو پھانسی نہیں دی ،ہمارے مشورے کے مطابق پندرہ بیس علماءکو گولیوں سے اڑا دیا جاتا تو ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جاتی ،جس روز صبح دولتانہ وزارت بر خاست کی گئی اس رات گورنمنٹ ہاﺅس لاہور میں سکندر مرزا کا ایک ہی بول تھا ،مجھے یہ نہ بتاﺅ فلاں جگہ ہنگامہ فرو ہو گیا یا فلاں جگہ مظاہرہ ختم ہو گیا ،مجھے یہ بتاﺅ وہاں کتنی لاشیں بچھائی ہیں، کوئی گولی بیکار تو نہیں گئی؟ عبدالرب نشتر ،شورش کاشمیری کے بہترین دوست تھے ،شورش کی ان سے اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی تو فرمایا ”جن لوگوں نے شیدائیان ِ ختم ِنبوت کو شہید کیا اور ان کے خون سے ہولی کھیلی میں اندر کے راز دار کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ ان پر کیا بیت رہی ہے؟ اور کون کن حادثات و سانحات کا شکار ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب کا اطمینان سلب کرلیا اور ان کی روحوں کوسر طان میں مبتلا کر دیا ہے “
ادھر تحریک ختم ِنبوت اپنے مدارج طے کرتی رہی اور احرارو ختم ِنبوت کا قافلہ سخت جان ہمت سے آگے بڑھتا رھا تاآنکہ 29۔مئی 1974 ? کو نشتر میڈیکل کالج کے طلباء(یاد رہے یہ طلبہ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان تھے اور کل پاکستان سیر کے لیے جارہے تھے) اپنے سیاحتی سفر سے بذریعہ ٹرین واپس آرہے تھے ،کہ چناب نگر سابق ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں نے ان پر اس لیے حملہ کردیا کہ طلباءنے ٹرین پر جاتے ہوئے اسٹیشن پر ”ختم ِنبوت زندہ باد“کے نعرے لگا ئے تھے۔پھر کیا تھا ایک آگ لگ گئی اور شاہ جی کا خواب شر مندہ تعبیر ہونے لگا۔مجلس تحفظ ختم ِنبوت کی میزبانی میں حضرت مولاناسید محمد انور شاہ کاشمیری رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد خاص حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمتہ اللہ علیہ کی امارت وقیادت میں 1953 کی طرح تمام مکاتب فکر اور بعض سیاسی زعما ایک ہوگئے۔

دیکھتے ہی دیکھتے تحریک نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، حتیٰ کے شیعہ کمیونٹی کے مراکز ختم ِنبوت زندہ باد کی فضا سے گونج اٹھے ،حکومت نے بتھیرے جتن کیے لیکن تحریک دن بد ن زور پکڑتی گئی۔بالآخر 22 اراکین قومی اسمبلی نے مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیے جانے کے حوالے سے قرار داد پیش کی اور ان سب کی نمائندگی حضر ت مولانا شاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ نے کی 15 اراکین قومی اسمبلی نے بعد میں تائید مزید کی۔13۔دن فریقین مسلم۔قادیانی کے مو¿قف کوپوری طرح سنا گیا اور قومی اسمبلی میں درج ذیل بل ترمیم پیش کیا گیا :

ہر آگاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازاں درج اغراض کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے۔
لہٰذا بذریعہ حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔
1۔ مختصر عنوان اور آغاز نفاذ
1) ( یہ ایکٹ آئین ) ترمیم دوم ایکٹ 1974ء کہلائے گا۔
2) ( یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔)
3)۔آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم :اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جِسے بعدازیں آئین کہا جائے گا،دفعہ 106 کی شق 3میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین ”اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے اشخاص جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں“درج کیے جائیں گے۔
3۔آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم :آئین کی دفعہ 260 میں شق نمبر2 کے بعد حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی ،یعنی ”شق نمبر 3 : جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،جو آخری نبی ہیں،کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مفہوم میں یا کسی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کونبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے ،وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لیے مسلمان نہیں ہے۔“

بیان اغراض ووجوہ جیسا کہ تمام ایوان کی خصوصی کمیٹی کی سفارش کے مطابق قومی اسمبلی میں طے پایا ہے ،اس بل کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرنا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے ،اسے غیر مسلم قرار دیا جائے۔
دستخط
عبدالحفیظ پیرزادہ
وزیر انچارج
اِس تاریخی قرار داد کی متفقہ طور پر منظوری کے بعد وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوان میں اِس قرار داد کی منظوری کے حوالے سے تاریخی خطاب کیا جو الگ سے پڑھنے بلکہ سمجھنے کے قابل ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے ،خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔

اس قرار داد کے بعد لوئر اور اپر کورٹس نے اِس قرار داد کے حق میں کئی تاریخی فیصلے دیے، 27۔ فروری 1976 ?ئ کو پیپلزپارٹی کی حکومت کی طرف سے رکاوٹوں اور گرفتاریوں کے باوجود ربوہ کے پہلے باضابطہ عالمی اسلامی مرکز ”جامع مسجد احرار “ کا سنگ بنیاد رکھا گیا قائد احرار سید ابومعاویہ ابو ذر بخاری ، سید عطاءالمحسن بخاری ، بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی مرحومین اور ملک رب نواز ایڈووکیٹ نے خطاب کیا،سید ابو ذربخاری کو دوران تقریر اور سید عطاء المحسن بخاری کو نماز جمعتہ المبارک کی امامت کے بعد گرفتار کر لیا گیا یہ منظر دیدنی تھا جس نے 1934 میں قافلہ احرارکے قادیان میں داخلے کی یاد تازہ کردی۔ 1984 ?ءمیں قائد تحریک ختم ِنبوت حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میںتحریک چلی اور صدر محمد ضیاءالحق مرحوم نے اسلامی شعائر کے استعمال سے قادیانیوں کو روکنے کے لیے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کیا جو بعد میں تعزیرات پاکستان کا حصہ بنا۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امتناع قادیانیت ایکٹ پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ سول اور فوج میں بے شمار اہم عہدﺅں پر قادیانی براجمان ہیں چناب نگر (ربوہ) میں قادیانیوں کی اجارہ داری ہے۔ انور ورک نامی سکہ بند قادیانی ایف آئی اے کے ڈائر یکٹر جنرل کے منصب پر مسلط ہے ،قادیانی اقتدار پر شب خون مارنے کے لیے بین اقوامی سطح پرلابنگ اور سازشوں میں مصروف ہیں، حکمرانوںاورسیاسی جماعتوں کو ملک کے حال پر رحم کرنا چاہیے اور قادیانی اور قادیانی نواز حلقوں کی سرپرستی ختم کرنی چاہیے ،تحریک ختم ِنبوت سے وابستہ جماعتوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چا ہیے ،1953،1974، 1984 کی طرز پر تحریک ختم ِنبوت کو از سر نو منظم کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو تحفظ نامو س رسالت اور تحفظ ختم ِنبوت سے متعلقہ قوانین کے دفاع کے لیے مل جل کر جدوجہد کرنے کی توفیق سے نوازے!
آمین یا رب العالمین !
 
Top