(قادیانی و لاہوری جماعت میں تیسرا اختلاف)
تیسرا اِختلاف ہمارا اُن کے ساتھ یہ تھا کہ مرزا صاحب نے یہی تلقین ہمیں کی تھی کہ جو شخص
لا اِلٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ
کا اِقرار کرے، اعمال میں اس کے کتنا ہی سقم ہو، غلطیاں ہوں، معتقدات میں بھی اس سے کچھ قصور ہوں، وہ گنہگار ضرور ہے، وہ قابلِ مؤاخذہ ضرور ہے، وہ قابلِ گرفت ضرور ہے، لیکن وہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا۔ دُوسرے لفظوں میں ہم نے تکفیرالمسلمین کے نقطئہ نگاہ کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہ ہمارا تیسرا اِختلاف تھا ربوہ والوں کے ساتھ کہ ہم مسلمانوں کو، خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اہلِ سنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اہلِ تشیع سے تعلق رکھتے ہوں، وہ ان کے شکمی جو فرقے ہیں، ان سے تعلق رکھتے ہوں، کسی جہت سے، کسی رنگ میں بھی ہم اُن لوگوں کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں مانتے۔ نہ صرف یہ، بلکہ ہماری زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ اس بات میں صَرف ہوا ہے، ہم نے جو لٹریچر دُنیا میں پیدا کیا ہے، ہمارے بزرگوں نے جو لٹریچر دُنیا کو دِیا ہے، اس کا ایک بہت بڑا حصہ اس چیز پر صَرف ہوا ہے کہ مسلمانوں کی تکفیر سے اِجتناب کرو۔ اس سلسلے میں مجھے اِجازت دیجئے کہ میں آپ کو جماعت لاہور کا جو اس بارے میں تصوّر ہے، تکفیرالمسلمین کے بارے میں، وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں۔
تکفیرالمسلمین کے سلسلے میں ہمارا مسلک یہ ہے، جس پر ہم، جیسا کہ میں نے عرض کیا، قولاً فعلاً آج سے نہیں، آج سے دس سال پہلے سے نہیں، ۱۹۵۳ء کے فسادات کے وقت سے، بلکہ اپنے آغاز سے لے کر اَب تک بڑی مضبوطی کے ساتھ، بڑے اِستحکام کے ساتھ قائم ہیں اور جو ہمارے منشور کا ایک بنیادی نکتہ ہے۔ جو اَخبارات ہمارے سلسلے 1523کی طرف سے شائع ہوتے ہیں، اس کے Heading پر ہم یہ لفظ لکھتے ہیں کہ: ’’ہم تکفیر المسلمین کو تسلیم نہیں کرتے‘‘
اور یہ ہمارے منشور کا ایک بنیادی نکتہ ہے کہ کسی کلمہ گو، اہلِ قبلہ کو دائرۂ اسلام سے باہر قرار دینا بڑی جسارت، بڑا بھاری جرم اور سخت گناہ کی بات ہے۔ اس سے اِتحادِ عالم اسلامی پارہ پارہ ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کے دُشمنوں کے ہاتھ اس سے مضبوط ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (عربی)
کہ جو شخص شعائرِ اِسلامی کا اِظہار کرتے ہوئے تمہیں السلام علیکم کہے، اُسے یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں۔ حضرت نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث ہے، صحیح بخاری اور مسلم میں موجود ہے، اور وہ متفق علیہ حدیث ہے کہ جسے کسی نے بھی غلط نہیں کہا: (عربی)
جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے وہ کفر سزا کے طور پر ان دونوں میں سے ایک پر آپڑتا ہے، ۔ اسی طرح دُوسری ایک حدیث ہے: (عربی)
کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر مت کرو۔ قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرمﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول مسلمانوں کی تکفیر کو کس قدر ناپسند فرماتے ہیں اور اس جرم کی کیسی خطرناک سزا تجویز کی گئی ہے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ کفر اُلٹ کر اُس کہنے والے ہی پر آپڑتا ہے۔ اس قدر سخت سزا کیوں تجویز کی گئی؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ تاآں مسلمان اس خطرناک طریق سے جو اِسلامی وحدت کو پارہ پارہ کردینے والا ہے، مجتنب رہے۔ حدیث میں ہے:
(عربی)
یہ بخاری کی حدیث ہے۔ یعنی: ’’جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے، ہمارا ذَبیحہ کھائے، تو وہ مسلمان ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلعم کی امان ہے۔‘‘
1524قرآن مجید اور اَحادیثِ رسول کے ان کھلے کھلے اِرشادات کے ہوتے ہوئے، یہ صحیح طریق نہیں کہ دُوسروں کے بارے میں موشگافیاں کرکے، بدظنیاں کرکے، متشابہات کے پیچھے پڑکے اور شکوک وشبہات سے کام لے کر اُنہیں کافر قرار دینے لگ جائیں۔ حضرت خاتم النّبیینﷺ فرماتے ہیں: (عربی)
یعنی قیامت کے روز اُمتِ محمدیہ کی کثرت میرے لئے وجہ فخر ہوگی۔ پس ایسا کوئی اقدام جس سے اُمتِ محمدیہ کا دائرہ سکڑتا ہو اور اُس سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کی تعداد کم ہوتی ہو، دُرست طریق نہیں، ہم دُنیا میں یہ مؤمن بنانے کے لئے آئے ہیں، کافر بنانے کے لئے نہیں آئے۔
اُمتِ محمدیہ پر، ہمارا نقطئہ نگاہ یہ ہے، کہ بہت سے مصائب آئے، اندرونی فسادات ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے ہی میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے بیت المال میں زکوٰۃ دینے سے اِنکار کردیا۔ حضرت عثمانؓ مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھ شہید ہوئے۔ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان برادرانہ جنگیں ہوئیں، لیکن کیا پاک باطن وہ لوگ تھے۔ حضرت حیدرکرارؓ نے اس شدید مخالفت کے باوجود یہی فرمایا، جو ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ کے طور پر ہے، کہ یہ ہمارے بھائی ہیں، جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے، ہم انہیں کافر نہیں کہتے۔ یہ اُس خلیفہ راشد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے جو ظاہری اور باطنی دونوں خلافتیں اپنے اندر جمع رکھتا تھا۔
جنابِ والا! یہ خوارج کی جماعت تھی جس نے سب سے پہلے مسلمانوں میں تکفیر کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد تکفیربازی کے مشغلے نے اس قدر ترقی کی کہ بڑے بڑے اولیاء اور ربانی علماء بھی اس قسم کے فتوؤں سے نہ بچ سکے۔ اگر اس قسم کے فتوؤں کی بنیاد پر مسلمانوں کی مردُم شماری کی جائے تو پوری دُنیائے اسلام میں شاید ایک متنفس بھی ایسا نہیں ملے گا جسے دائرۂ اسلام میں شمار کیا جاسکے۔ تکفیر کے فتوؤں کی ارزانی دیکھنی ہو تو فتوؤں کے اُس انبار پر نظر ڈالئے جو حضراتِ مقلدین نے وہابیوں اور دیوبندیوں پر 1525لگائے ہیں۔ شیعہ حضرات سُنّیوں کے متعلق جو خیالات رکھتے ہیں، اُن کے بیان کی حاجت نہیں۔ بریلویوں اور بدایونیوں کے بارے میں حضراتِ اہلِ حدیث کے جو فتوے ہیں، اُن سے کون واقف نہیں۔ مختصر یہ کہ ہر فرقہ دُوسرے فرقے کے علماء کے نزدیک کافر ہے۔ ہم نہیں چاہتے…یہ بھی ہمارا مسلک ہے… ہم نہیں چاہتے کہ فتاویٰ کا وہ انبار آپ کے سامنے پیش کرکے آپ کے اوقاتِ گرامی کا حرج کریں۔ ایسے مہروں سے مزین فتوے جتنی تعداد میں آپ چاہیں، بازاروں میں آپ کو مل سکتے ہیں۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: آپ سے تو پوچھا تھا کہ کس چیز پہ آپ کا اِختلاف ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں نے گزارش یہ کی ہے کہ ہمارا اِختلاف اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی تکفیر کرنی جائز نہیں ہے۔ جو شخص اس بارے میں ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا مسلک وہی ہے جو حضرت اِمام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ اگر کسی شخص میں ننانوے(۹۹) وجوہ کفر بھی پائے جائیں اور صرف ایک وجہ اِیمان آپ اُس میں دیکھیں تو تب بھی اُس شخص کو کافر نہ کہیں۔ یہ ہمارا اِختلاف ہے جو اہلِ ربوہ سے ہمیں ہوا۔ یہ میں اب تک آپ کی خدمت میں تین اِختلاف پیش کرچکا ہوں۔