(قادیانی و لاہوری جماعت میں دوسرا اختلاف)
دُوسرا اِختلاف اس بنیاد پر تھا کہ ہمارے نزدیک کوئی شخص، اس کا کتنا ہی بڑا مقام کیوں نہ ہو، وہ کتنے ہی بڑے دعوے لے کر کیوں نہ آئے، اس کا خدا سے کتنا ہی تعلق کیوں نہ ہو، لیکن اس کے باوجود وہ محمد رسول اللہﷺ کا کفش بردار ہی رہے گا، اس کے باوجود محمد رسول اللہa کا غلام ہی رہے گا، اس کے باوجود وہ دائرۂ اسلام کے اندر ہی رہے گا، اس کو کوئی نام دے لو، کیونکہ نام میں تو: (عربی)
ہر شخص اس کے لئے کوئی استعمال کرسکتا ہے۔
میں، آپ اس کے لئے کوئی اور لفظ استعمال کریں گے، اُردو میں اور کرلیں گے، کسی دُنیا کی اور زبان میں اس کے لئے کوئی اور ترجمہ کرلیں گے، تصوّر، حقیقت، اس کے پیچھے جو رُوح کارفرما ہوگی وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو، لیکن وہ محمد رسول اللہﷺ کی غلامی سے باہر نہیں جاسکتا اور یہی مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں محمد رسول اللہ کا غلام ہوں۔
اب دیکھئے! جو شخص محمد رسول اللہ کا غلام ہے، اس کو ماننے اور نہ ماننے کا تعلق کیا ہے؟ انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا، کسی ایک دور میں یہ بات نہیں کہی کہ: ’’جو شخص میرے 1522دعوے کا اِنکار کرتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔‘‘ تو دُوسرا اِختلاف ہمارا یہ تھا کہ ہم مرزا صاحب کے دعوے پر اِیمان لانے کے باوجود، خود ان کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کو یہ مقام نہیں دیتے تھے کہ وہ اسلام سے ہٹ کر، محمد رسول اللہﷺ کی غلامی سے نکل کر کوئی مستقل وجود نہیں جس کا ماننا اور نہ ماننا جزوِ اِیمان کے طور پر ہے۔ ہم ان کے ماننے کو جزوِ اِیمان تصوّر نہیں کرتے تھے۔