
غلام احمد قادیانی اپنی مذکورہ بالا کتاب حقیقت نبوت کے صفحہ 90 پر یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ کل انسانوں کے کمالات مجموعی طور پر ہمارے رسول میں جمع ہیں۔ اسی لئے آپ کل کے لئے مبعوث ہوئے اور تمام جہانوں کے لئے آپ رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے پھر قرآن میں یہ ارشاد بھی ہوا کہ آپاخلاق کی عظیم بلندیوں پر فائز ہیں۔ مرزا قادیانی نے ان قرآنی آیات کا حوالہ دے کر آپ کو مجموعہ کمالاتِ انسانی تسلیم کیا اور لکھا کہ ”رسالت اور نبوت کی علتِ نمائی رسول اللہ پر ختم ہوئی اور یہی ختم نبوت کے معنی ہیں کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پر آ کر اس کا خاتمہ ہو گیا“۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے ان دلائل کے بعد غلام احمد قادیانی جب خود کو نبی کے طور پر پیش کر دیتا ہے تو کیا اب حضور نبی کریم تمام جہانوں کے لئے رحمت نہیں رہے۔ کیا اب حضرت محمداخلاق کی عظیم بلندیوں پر فائز نہیں رہے۔ کیا اب غلام احمد قادیانی کذاب، آپ کو کل انسانوں کے کمالات کا نمونہ تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ جو قرآن کے مطابق ایک کامل انسان پر ختم ہو گیا تھا، اب کیسے جاری ہو گیا۔ غلام احمد قادیانی نے عقلی طور پر نئی شریعت، نئے الہام اور نئی نبوت کو محال اور ناممکن قرار دیا تھا۔ پھر مرزا قادیانی نے خلافِ عقل اپنی نبوت کا اعلان کیسے کر دیا۔ مرزا غلام احمد نے اپنی ایک کتاب تبلیغ رسالت کی جلد دوم میں تحریر کیا کہ”ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں“۔ مرزا قادیانی نے اپنی ایک اور کتاب حمامة البشریٰ میں لکھا کہ” مجھے کہاں حق پہنچتا ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے خارج ہو جاﺅں اور قومِ کافرین میں شامل ہوجاﺅں“۔
مرزا قادیانی کی ان تحریروں پر اپنی طرف سے کوئی تبصرہ کئے بغیر اگر ان تحریروں کے مطابق ہی غلام احمد قادیانی کا مقام متعین کیا جائے تو مرزا کے دعوی¿ نبوت کے بعد نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہ کہا جائے گا کہ اس نے دعوی¿ نبوت کر کے خود اپنے اوپر لعنت بھیج ڈالی ہے اورخود کو نبی قرار دے کر کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور ختم نبوت سے اپنا ایمان ختم کر لیا ہے اور اپنے قول کے مطابق اسلام سے خارج ہو کر قومِ کافرین میں شامل ہو گیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے ہر دعویٰ میں تضاد اور تناقض تھا اور یہ بات مرزا قادیانی نے خود تسلیم کی ہے کہ راست باز اور عقلمند کے کلام میں تضاد نہیں ہوتا۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ جھوٹے کے کلام میں تناقض (ایک دوسرے کی ضد) ضرور ہوتا ہے۔
آئیے اب مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوﺅں کے تضادات کا اپنی جانب سے کوئی تبصرہ کئے بغیر جائزہ لیں۔ دعوی¿ مسیح موعود کے بارے میں مرزا قادیانی کے متضاد خیالات۔ تحفہ¿ گولڑویہ میں مرزا قادیانی نے لکھا کہ”میں مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں پیشگوئیاں ہیں“۔
پھر اپنی کتاب ازالہ اوہام میں یہ لکھ دیا کہ”اس عاجز نے جو مثیلِ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں“۔
ان دو متضاد دعوﺅں میں سے کس دعوے کو درست سمجھا جائے۔ مرزا قادیانی کو مسیح موعود خیال کرنے والے کم فہم ہیں یا یہ متضاد دعوے کرنے والا خود فہم و عقل سے محروم ہے۔ مرزا قادیانی نے ایک کتاب میں لکھا کہ آنے والا ابنِ مریم نبی نہیں ہو گا۔ دوسری کتاب میں بالکل برعکس یہ لکھ ڈالا کہ آنے والا مسیح موعود نبی ہو گا۔ ایک کتاب میں تحریر کیا کہ خدا نے مسیح بن باپ پیدا کیا ہے ظاہر ہے قرآن سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدا ہوئے لیکن مرزا قادیانی نے اپنی ایک اورکتاب میں یہ لکھا کہ حضرت مسیح کا باپ یوسف نجار تھا اور حضرت مسیح کے اور بھی حقیقی بھائی تھے۔ پھر مرزا قادیانی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے ہیں اور ان کا جسم عنصری آسمان پر جانا اور پھر کسی وقت زمین پر آنا یہ سب تہمتیں ہیں لیکن مرزا قادیانی نے اپنی اس تحریر کے یکسر خلاف دوسری کتاب میں یہ تحریر کیا کہ بائبل اور ہماری احادیث کی رو سے مسیح ابن مریم کا اپنے وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا ثابت ہے۔ (جاری)
بشکریہ نوائے وقت