قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۸)
2544آیت نمبر۸: ’’
وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبعون ہذا صراط مستقیم
(الزخرف:۶۱)‘‘ {اور یقینا وہ (عیسیٰ علیہ السلام) یقینی نشانی ہیں قیامت کی، سو شک نہ کرو اس میں، اور میری تابعداری کرو۔ یہ سیدھی راہ ہے۔}
اس آیت میں صاف صاف بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور دوبارہ تشریف لانا قیامت کی دلیل ہے۔ جس کا ذکر ہم عنقریب کریں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ!
۱… قرآن پاک کی آیات کی تصریحات کے بعد اس میں کیا شک رہ سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا ان کا نزول قیامت کی نشانی ہے۔
۲… احادیث بھی آگے چل کر آپ پڑھیں گے۔ لیکن یہاں خاص مناسبت کی وجہ سے ایک اور روایت درج کرتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ’’جس رات حضور ﷺ کو معراج ہوئی اس رات سرور عالم ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔ قیامت کا تذکرہ چلا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے علم سے انکار کر دیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی انکار کر دیا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نمبر آیا انہوں نے فرمایا کہ وقوع قیامت کا علم تو سوائے خدا کے کسی کو نہیں اور جو عہد میرے ساتھ ہے وہ اتنا ہے کہ قرب قیامت میں دجال خارج ہو گا۔ میں نازل ہو کر اس کو قتل کروں گا۔‘‘ (ابن ماجہ، مسند احمد، حاکم، ابن جریر اور بیہقی بحوالہ درمنثور)
۳… حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ سے درمنثور میں روایت ہے کہ وہ علم للساعۃ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت سے پہلے تشریف لانا مراد لیتے ہیں۔
۴… 2545امام حافظ (ابن کثیرؒ ج۷ ص۴۰۶) نے اپنی تفسیر میں اور امام فخرالدین رازیؒ مجدد صدی ششم نے (تفسیر کبیر جلد نمبر۱۴ جز۱۷ ص۲۲۲) میں اس آیت کریمہ کے تحت انہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع کی اور ان کے نزول کو قرب قیامت کی نشانی قرار دیا۔