• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کا الگ شمار)

3059تو ایک درخواست آپ لوگوں نے ان کی منظور کر لی اور شاید کل اس پر پوری منظوری آجائے۔ ایک دوسری چیز یہ ہے کہ انہوں نے، مرزاغلام احمد نے ۱۹۰۱ء میں حکومت سے درخواست کی تھی کہ ہمارے ماننے والوں کو مردم شماری میں الگ لکھا جائے۔ وہ درخواست بہرحال انگریزوں نے منظور کر لی۔ لیکن ۱۹۳۱ء تک اس پر عمل درآمد ہوا، ۱۹۴۱ء میں نہیں ہوا۔ ایک میری گزارش ہے کہ اس درخواست پر ہم دوبارہ عملدرآمد شروع کریں اور ان کی مردم شماری الگ سے ہو۔
ایک مغالطہ انہوں نے… یعنی اتنی صریح بہت سی غلط بیانیاں کی ہیں۔ لیکن بالکل واضح طور پر اٹارنی جنرل صاحب کے سوال کے جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ ہم سیاسی جماعت نہیں ہیں۔ اب میں اس سلسلے میں صرف چند اقتباسات آپ کو سنادیتا ہوں۔ (مداخلت)
جناب چیئرمین: میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ میں کسی معزز ممبر کو بند نہیں کروں گا، بالکل، جتنی مرضی ہے تقریر کریں جی، اب کوئی خیال نہیں ختم نبوت کا۔ نوبجتے ہیں تو گھڑیاں دیکھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ نہیں جی! بالکل آج ساری رات بیٹھیں گے۔ اب دین کے ساتھ محبت کہاں گئی ہے؟ مولانا صاحب! آپ تقریر کریں۔ ٹھیک ہے جی! بیٹھیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں مختصراً اس چیز کو ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ یہ سیاسی جماعت نہیں ہیں، یہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا۔ یہ خالص سیاسی جماعت ہیں، اور ایسی سیاسی جماعت جو تشدد کے ذریعے، خون خرابے کے ذریعے حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلہ میں میں چاہتا ہوں کہ چند اقتباسات پیش کروں۔ کہتے ہیں: 3060’’پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں سیاست نہیں وہ نادان ہیں، وہ سیاست کو سمجھتے ہی نہیں۔ جو شخص یہ نہیں مانتا کہ خلیفہ کی بھی سیاست ہوتی ہے وہ خلیفہ کی بیعت ہی کیا کرتا ہے۔ اس کی کوئی بیعت نہیں اور اصل بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاست گورنمنٹ کی سیاست سے بھی زیادہ ہے۔ پس اس سیاست کے مسئلے کو اگر میں نے باربار بیان نہیں کیا تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ میں نے اس سے جان بوجھ کر اجتناب کیا ہے۔ آپ لوگوں کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ خلافت کے ساتھ سیاست بھی ہے اور جو شخص یہ نہیں مانتا وہ جھوٹی بیعت کرتا ہے۔‘‘
(الفضل، ۱۳؍اگست ۱۹۲۶ئ)
پھر لکھتے ہیں، دوسرا قول ہے: ’’غرض سیاست میں کوئی غیردینی فعل نہیں۔ بلکہ یہ دینی مقاصد میں شامل ہے۔ اب پھر سیاسی بات آتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک احمدی یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصے کے اندر ہی خواہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں۔ لیکن بہرحال وہ عرصہ غیرمعمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا، ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہو جائے گی۔ جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ ان سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت عجزوانکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کر رہے ہوں گے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ئ)
اس کے بعد ہے کہ: ’’میرا خیال ہے کہ ہم حکومت سے صحیح تعاون کر کے جس قدر جلد حکومت پر قابض ہو سکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں۔‘‘ یہ ۱۹۳۵ء کا ہے، جب انگریزوں سے تعاون کی بات چل رہی تھی۔
3061جناب چیئرمین: چوہدری ممتاز صاحب، میاں مسعود احمد صاحب اور محمد اسلم صاحب واپس تشریف لے آئیں۔ شہزادہ صاحب! آپ بھی تشریف لے آئیں۔ یہ کوئی بات نہیں ہے کہ کتابیں ہاتھ میں اٹھائیں اور دروازوں کی طرف چل دئیے۔ آپ فرمائیں جی! شہزادہ صاحب آپ بھی تشریف رکھیں۔ دروازے بند کر دیں، باہر سے لاک کر دیں۔ چلیں جی، انصاری صاحب! فرمائیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ کہتا ہے کہ…
ملک محمد اختر: سر! میں جاسکتا ہوں؟
جناب چیئرمین: ہاں! آپ جائیں وجہ معقول ہے، بڑی معقول وجہ ہے۔ دروازے بند کر دیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ’’پس نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا (چارج) سپرد کیا جانا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے۔‘‘
جناب چیئرمین: بیگم شیریں وہاب صاحبہ جاسکتی ہیں۔ صرف بیگم شیریں وہاب صاحبہ۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ’’ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے‘‘ کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔
میاں محمد عطاء اﷲ: پوائنٹ آف آرڈر، سر! عورتوں کے ایک جیسے حقوق ہیں، پھر عورتیں بھی نہیں جاسکتیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، آپ تقریر کرنے دیں ان کو۔ There is reason for that.
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ مارچ ۱۹۲۲ء کا ہے۔ تفصیل اس وقت نہیں رہی۔ اس کے بعد ۱۹۳۵ء کا ہے: 3062’’اس وقت اسلام کی ترقی خداتعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ یاد رکھو سیاسیات، اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ وتعلیم کے ذریعے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں ہم اسلام کی ساری تعلیم جاری نہیں کر سکتے۔‘‘
یعنی حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش سیاست سے علیحدگی کے باوجود۔ اب آگے لکھتے ہیں کہ: ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیداکرے۔ ایک ایسی تبدیلی جو ایک قلیل ترین عرصے میں اسے دوسری قوتوں پر غالب کر دے۔‘‘
یہ ۱۹۴۹ء کا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اب یہاں کون سی قوتیں ہیں جن پر وہ غلبہ چاہتے ہیں، یہ ایوان کے معزز ممبران خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ پھر آگے ہدایت ہے کہ: ’’پاکستان میں اگر ایک لاکھ احمدی سمجھ لیے جائیں تو نو ہزار (۹۰۰۰) احمدیوں کو فوج میں جانا چاہئے۔ فوجی تیاری نہایت اہم چیز ہے۔ جب تک آپ جنگی فنون نہیں سیکھیں گے کام کس طرح کریں گے۔‘‘
یہ آپ لوگوں کے علم میں ہوگا کہ فرقان بٹالین جس کو لیاقت علی خان مرحوم نے Disband کیا تھا، اس کے متعلق بڑا پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس نے بڑا کام کیا ہے۔ تو اس کے لئے جو تمغے تقسیم ہوئے وہ ربوہ کے سیکرٹریٹ کے اندر ہوئے۔
آگے موجودہ خلیفہ جو ہیں ان کا ارشاد ہے: ’’میں تمام جماعت کو جو یہاں موجود ہے اور پوری دنیا کو کامل یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ آئندہ پچیس (۲۵)‘‘ تیس (۳۰) سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہونے والا ہے۔ وہ دن قریب ہے جب دنیا کے بہت سے ممالک کی اکثریت اسلام (یعنی قادیانیت) قبول کر چکی ہوگی۔ دنیا کی سب طاقتیں مل کر اس انقلاب 3063کو نہیں روک سکیں گی۔‘‘
بہرحال یہ بے شمار ہیں۔ آگے ظفر اﷲ صاحب کی تقریر ہے…
جناب چیئرمین: آپ نے جو لکھ کر دینا تھا وہ نہیں دیا آپ نے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، جناب! اس کاکوئی وقت نہیں ہے۔ اب ظفر اﷲ صاحب کی تقریر کہ: ’’اگر احمدیہ جماعت برسراقتدار آجائے تو امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں گے، دولت کو ازسرنو تقسیم کیا جائے گا، سود پر پابندی لگا دی جائے گی اور شراب نوشی ممنوع قرار دی جائے گی۔‘‘
یہ بہرحال حکومت کا قصہ ہے۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ: ’’حکومت ہمارے پاس نہیں کہ ہم جبر کے ساتھ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور ہٹلر یا میسولینی کی طرح جو شخص ہمارے حکموں کی تعمیل نہ کرے اسے ملک سے نکال دیں اور جو ہماری باتیں سنے اوران پر عمل کرنے پر تیار نہ ہو اسے عبرتناک سزا دیں۔ اگر حکومت ہمارے پاس ہوتی تو ہم ایک دن کے اندر اندر یہ کام کر لیتے۔‘‘
یہ تو بہرحال ہے۔ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جماعت احمدیہ کے ہاتھ جب حکومت آئے گی تو جو لوگ احمدیت سے باہر ہوں گے ان کی حیثیت چوہڑوں اور چماروں کی ہو گی۔ بہرحال یہ حکومت آنا اور حکومت کی کوشش کرنا اور اس کے لئے تیاری کرنا، جیسا کہ میں نے اس روز کہا تھا کہ ’’ایک لاکھ سائیکل سوار اور دس لاکھ گھوڑ سوار اور نیزہ باز اور اتنی عورتیں‘‘ یہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔
اس سب کے باوجود جو دنیا میں زیادہ سے زیادہ فیاضانہ سلوک ہو سکتا ہے اس راستے کو سوچ رہے ہیں ہم۔ لیکن اس کے ساتھ یہ لازمی ہے کہ ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جائے اور جب جو تجویزیں وہاں ہیں: 3064’’وہ لوگ جو واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے وہ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ سب کچلے جائیں گے۔ صرف باقی ہم رہ جائیں گے۔ ہر ایک کو موت نظر آرہی ہے اور صرف ہم کو زندگی دکھائی دے رہی ہے۔ کیونکہ ہمارے متعلق کہا گیا ہے کہ آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔ پس دوسری بادشاہتوں کو خطرہ ہے کہ وہ ٹوٹ جائیں گی۔ مگر ہمیں امید ہے کہ بادشاہت ہمیں دی جائے گی۔ حکمران ڈر رہے ہیں کہ ان کی حکومت جاتی رہے گی۔ مگر ہم خوش ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں دی جائے گی۔‘‘ (مداخلت)
مولانامحمد ظفر احمد انصاری: توبہرحال! اس کو صرف ریکارڈ پر لانا پیش نظر تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ معزز ممبران کا بہت سا وقت میں نے لیا ہے۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے دوبارہ ان چیزوں کو پیش کرنے کا موقع دیا۔ شکریہ!
Mr. Chairman: Thank you very much. Any honourable member who would like to speak?
Member: No.
Mr. Chairman: Any honourable member who wants to speak?
اگر کسی نے اپنے کسی بیان میں کوئی تصحیح کرنی ہے یا دوبارہ کوئی Add کرنا ہے؟
جناب محمود اعظم فاروقی: میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جناب چیئرمین: آپ رہنے دیں۔ اگر آپ کریں گے تو پھر یہ ڈسکشن ہوگی اس پر، آپ رہنے دیں۔ میں ان سے پوچھ رہا ہوں۔
3065مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب سپیکر صاحب! ایک گزارش مجھے کرنی ہے کہ یہ ساری چیز ریکارڈ میں آرہی ہے۔ میرے خیال میں یہ پوری کارروائی ہاؤس کمیٹی کے ریکارڈ میں آئے گی۔
جناب چیئرمین: ہم جب ریکارڈ Complete کریں گے تو یہ باتیں Omitt کر دیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہی میں کہہ رہا تھا کہ جو چیزیں اس سے متعلق ہیں…
جناب چیئرمین: نہیں، صرف وہ کریں گے، باقی جو یہ ہمارے ریمارکس ہیں آپ کے، یا اپنی ڈسکشن جو کراس ایگزامینیشن سے پہلے ہوئی تھی یا بعدمیں ہوئی تھی، That we shall not make part of the record. یہ ریکارڈ ہم نے پبلیش کرنا ہے، اس کو اناؤنس کرنا ہے۔ That will take some time until and unless we correct it, Sir. کیونکہ یہ جو باتیں ہیں یہ پبلک میں نہیں جائیں گی۔
ایک رکن: نہیں جائیں گی؟ٌ
جناب چیئرمین: اسی واسطے انہوں نے اعتراض کیا ہے کہ شاید یہ ریکارڈ پر نہ آجائیں۔
جناب محمود اعظم فاروقی: جناب! مجھے ایک گھنٹہ بولنے کی اجازت دیں۔
Mr. Chairman: Is the House prepared to grant him leave to speak for one hour?
Members: No, no.
Dr. S. Mahmood Abbas Bokhari: Sir, he can speak in the lobby, if he likes it.
Mr. Chairman: Before we rise for tomorrow, I want to place it again on the...
3066مولانا عبدالحق: فرمائیں جی! فرمائیں۔
ایک رکن: جناب! بیٹھنے دیں ان کو، بیٹھ جائیں گے۔
جناب چیئرمین: تو کل کے لئے میں عرض کروں، میں سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ ہماری Almost last meeting ہے اور آپ تمام دوستوں نے، حضرات نے، ممبران نے اس کو نہ صرف ایک ڈیوٹی سمجھ کے بلکہ اس کو اپنا ایک جزو ایمان سمجھ کے یہ فرض سرانجام دیا ہے۔ اس کے لئے میں آپ کا نہ صرف مشکور ہوں۔ بلکہ آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے ملک کے نام اور جمہوریت کی بقاء کے لئے اڑھائی مہینے بیٹھ کر خدمت کی ہے اور میں اس سے زیادہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ Recommendations آپ کے سامنے آنی ہیں اور مجھے انشاء اﷲ تعالیٰ امید ہے بلکہ مجھے پہلے دن سے یہی امید تھی کہ اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم اس میں Unanimously متفقہ طور پر کوئی نہ کوئی چیز ہاؤس کے سامنے لائیں گے۔ تو کل صبح سیشن نہیں ہوگا۔ اس واسطے کہ کسی ڈیبیٹ کی ضرورت نہیں۔ ڈیبیٹ ختم ہوچکا ہے۔ تمام ضروری مراحل طے ہو چکے ہیں۔ نیشنل اسمبلی کو Recommendations پیش ہو جائیں گی۔ آپ نے ان کا Explanation سن لیا، اٹارنی جنرل کی تقریر بھی سن لی، کتابوں کے حوالہ جات اور تمام Formalities پوری ہو چکی ہیں۔ اب کل قومی اسمبلی میں بل پیش ہوگا۔ کل ڈھائی بجے سیشن ہوگا۔ ممکن ہے اسٹنڈنگ کمیٹی کا اجلاس بھی ہو۔ ابھی ڈسکشن جاری ہیں۔ بل لیجسلیشن کی صورت میں آئے گا۔ ہم نے ریکارڈ بھی Prepare کرنا ہے۔ کل ڈھائی بجے اسپیشل کمیٹی کا اجلاس ہوگا۔
For legislation or whatever positive or nagative has to be done. The Special Committee will last for about one hour or two hours for finalising recommendations; and then, at 4:30, recommendations shall be presented to the National Assembly which will hold an open session. The National Assembly meets always in open session. But because of the 3067gravity of the situation and the prevailing political condition in the country, we would be strict in the admission not only to the galleries but to the premises of the Assembly even. Passes will be issued only to the family members of the M.N.A's or their relatives. This restriction will be only for tomorrow. This restriction will apply even to the admission in the cafeteria or inside Gate No.3 and 4. Definitely there will be restrictions, and I am sorry for the inconvenience to the honourable members. They will be allowed to come in without any bag in hand. Such things will be avoided under all circumstances. It is for the information of the honourable members. Cards will be issued to them. I am again thankful and grateful to you. Thank you very much.
(قانون سازی کے لئے یا جو کچھ بھی اس میں تبدیل کرنا پڑے۔ خصوصی کمیٹی ایک گھنٹے یا دو گھنٹوں تک برقرار رہے گی تاکہ تجاویز کو حتمی شکل دی جاسکے اور پھر ساڑھے چار بجے ان تجاویز کو قومی اسمبلی کے اوپن سیشن میں پیش کیا جائے گا۔ اس میں تجاویز کو حتمی شکل دی جائے گی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہمیشہ اوپن سیشن ہوتا ہے۔ لیکن صورتحال کی نزاکت اور ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر ہم نہ صرف گیلریوں میں بلکہ اسمبلی کے حدود اربعہ میں بھی داخلے پر سختی کریں گے۔ پاس صرف ایم۔این۔ایز کے اہل خانہ اور ان کے رشتہ داروں کو جاری کئے جائیں گے۔ یہ پابندی صرف کل کے لئے ہوگی۔ اس پابندی کا اطلاق کیفے ٹیریا میں اور گیٹ نمبر۳،۴ میں داخلے پر بھی ہوگا۔ یقینا ان پابندیوں سے معزز اراکین کو پریشانی ہوگی۔ جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ انہیں ہاتھ میں کسی بیگ وغیرہ کے بغیر آنا ہوگا۔ ایسی چیزوں سے ہر صورت میں اجتناب کیا جائے گا۔ یہ معزز اراکین کی معلومات کے لئے میں نے بتایا۔ انہیں کارڈ جاری کئے جائیں گے۔ میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کا بے حد شکریہ!)
The Special Committee of the whole House adjourned to meet at half past two of the clock, in the afternoon, on Saturday, the 7th September, 1974.
(قومی اسمبلی کے مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء ہفتہ اڑھائی بجے شام تک کے لئے ملتوی ہوا)
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قومی اسمبلی میں اکیسواں دن

3071THE NATIONAL ASSEMBLY OF PAKISTAN
(قومی اسمبلی پاکستان)
----------
PROCEEDINGS
OF
THE SPECIAL COMMITTEE OF THE WHOLE HOUSE HELD IN CAMERA TO CONSIDER THE QADIANI ISSUE.
----------
OFFICIAL REPORT
Saturday, the 7th September. 1974.
(کل ایوانی خصوصی کمیٹی بند کمرے کی کارروائی)
(۷؍ستمبر ۱۹۷۴ئ، بروز ہفتہ)
----------

The Special Committee of the Whole House met in Camera in the Assembly Chamber, (State Bank Building), Islamabad, at half past two of the clock, in the afternoon. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس اسمبلی چیمبر (سٹیٹ بینک بلڈنگ) اسلام آباد بند کمرے میں اڑھائی بجے دوپہر جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی زیرصدارت منعقد ہوا)
----------
(Recitation from the Holy Quran)
(تلاوت قرآن شریف)
----------

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
3072QADIANI ISSUE- GENERAL DISCUSSION
Mr. Chairman: It is very pleasant to find the House full after two and a half months. It was full on the 30th of June and credit to all those honourable members who have remained sitting here for two and a half months. There might be slight inconvenience to those persons to whom cards have been issued because we will open the gates of the Assembly when we conclude this at 4:30. So they will have to wait outside, those persons to whom the cards have been issued, and I think we must have a tea break for about fifteen minutes. Then we will meet at about 3:20 pm.
----------
[The Special Committee adjourned for tea break to meet at 3:20 pm.]
----------
[The Special Committee re-assembled at 3:40 pm., Sahibzada Farooq Ali in the Chair.]
----------
Mr. Chairman: Yes, Mr. Law Minister. I would request the honourable members to be attentive. One hundred and seventeen members are present.
Mr. Abdul Hafeez Pirzada (Minister for Law and Parliamentary Affairs): Mr. Chairman, three months of an ordeal before the Special, Committee of the National Assembly and 90 years of history, full of agony, of the Muslims of the Sub- continent is about to come to an end.
When this question arose soon after the 29th of May, no one could even have remotely imagined that this august body would be burdened with the onerous task of resolving a highly complicated and intricate issue involving religious sentiments of millions of Muslims in the Sub-continent and all over the world. Today, it is the victory of the democracy and the democratic institutions and democratic norms and traditions. That is why I say that an agonising chapter comes to an end. The issue with greater vengeance did arise in the Sub-Continent on previous occasions 3073also. There have been confrontations and 'munazras'. There have been killings. There have been serious riots and law and order situations, and at least on one occasion in the past democratic Governments were toppled and Martial Law was imposed in the country because of disturbances arising out of the same issue.
Sir, this is not the occasion to make a long speech. We have sat here day in and day out, but I would be failing in my duty if I did not pay a tribute to the members of this august House. Never before in the history of parliamentary democracy in South-East Asia has a democratic institution like the Parliament or the National Assembly undergone such an experience. We have parliamentary democracy in the newly created State of Bangla Desh. We have parliamentary democracy in Sri Lanka. We have parliamentary democracy in India. These, Sir, are countries in South-East Asia which have had parliamentary democracy in one form or other; even Bangla Desh when it was with us; but you shall not find a precedent of this nature in the parliamentary history of any of these countries. Under heavy odds, very provocative and offensive conditions, my colleagues, you the members of this august House, sat here patiently and objectively to arrive at a national decision, and the issue was referred to you so that you could arrive at a decision, not of an individual but a decision of the nation of Pakistan, whose representatives you are and whose mandate you hold, by virtue of which you call yourself the National Assmebly or the Special Committee of the National Assembly of Pakistan.
We have heard this matter for the last three months. I must confess my own ignorance from the point of view that I did not know about this issue as deeply as some other members. Having heard it at length, we can feel why a muslim had such a deep and emotional reaction to this issue. One thing that emerged as a result of our deliberations and sittings and discussions is that our concept as popularly understood by Muslims of the finality of Prophethood of Mohammad (peace be upon him) is a fundamental article of faith of all Muslims, and no matter what happens, this fundamental article of faith of the finality of Prophethood cannot be compromised by Muslims in any sense. That is why I said, Sir, that this was not an issue of the Government, this was not an issue of the Opposition; we had to treat it as a national issue, and the nation could ill afford to divide itself on such a vital issue and therefore, 3074the effort of the Government, through the Government leader, the Prime Minister of Pakistan, as also all our friends who sit across the floor, was to look and search for a consensus so that the nation should not be divided on such a vital issue and the decision of the National Assembly should come unanimously and by consensus.
It is my proud privilege on behalf of the majority party and my friends there who have authorised me to move a Resolution to state before this august Committee that such consensus and unanimity has been arrived at. Sir, in a few minutes, the members of this august House shall have before them a proposed resolution that I intend to move on behalf of my self, Maulana Mufti Mahmood, Maulana Shah Ahmad Noorani Siddiqi, Prof. Ghafoor Ahmad, Mr. Ghulam Faruq, Ch. Zahur Ilahi and Sardar Moula Bakhsh Soomro. In this resolution, we have given the draft of recommendations that we would like to make. Now, Sir, this contains the recommendations. This has to be distributed along with the copy of the Consitution Amendment Bill.
Mr. Chairman: That too is bieng circulated.
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: This should not be circulated separately. Sir, now I have got the original copy. I would like to place it for the purpose of record. Sir, what we propose for the consideration of the Committee and adoption by it, in the form of recommendation, is a resolution which contemplates constitutional measures, which contemplates legislative, administrative and procedural measures, and which also contains a reiteration of assurance of safety, security and safeguard of life, liberty, property, honour and fundamental rights of all citizens of Pakistan irrespective of the community that they belong to. Constitutional amendments I will explain and so also legislative and procedural amendments that we recommend. Before that, I would like to say that as soon as these recommendations are approved by this august House, which I am confident will be unanimous as would appear from the moving of this resolution, we will convert ourselves immediately thereafter into the National Assembly and I will take before the National Assembly the recommendations of the Committee, which, on approval, would entitle the moving of the Constitution Amendment Bill. We hope that in today's sitting we would pass the Constitution Amendment Bill and today it would be 3075transmitted to the Senate and we hope that the Senate would also pass it today so that the Chapter should stand closed today.
Now, Sir, the constitutional amendments that I recommend on behalf of myself and my friends are two-fold, that the Constitution of Pakistan be amended to include a definition of a person who is not a Muslim. This definition should come by an addition of a clause to Article 260. There are two clauses in Article 260 of the Constitution. This article deals with definition and we would like to add clause (3) to this Article to give the definition of a non-Muslim as under:
"(3) A person who does not believe in the absolute and unqualifed finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) the last of the Prophets, or claims to be a prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him), or recognizes such a claimant as a prophet or a religious reformer, is not a Muslim for the purposes of the Constitution or law."
Sir, the second amendment that we propose in the Constitution is related to Article 106, clause (3), which deals with reservation of seats in Provincial Assemblies for communities, over and above the general seats that have been prescribed, and the amendment that I propose in clause (3) of Article 106 is that at the end of the word or after the word 'communities', the following words be added:
"Communities and persons of the Qadiani Group or the Lahori Group who call themsleves Ahmadis."
This is second amendment.
Sir, let me make it absolutely clear that Article 20 of our Constitution gives fundamental right of freedom to profess, propagate and practice one's own religion and every community shall be at liberty to do so, to profess, propagate and parctice their own religion, but, as I said, Muslims' Finality of Prophethood, as would be defined in article 260 of the Constitution, is an article which is fundamental in faith. Therefore, we propose to 3076recommend that the Pakistan penal Code should be amended in section 295 (a) by the addition of an Explanation. There is already a clause in the Pakistan Penal Code which prohibits people from propagating religion in a manner so as to be offensive to other religious beliefs. Therefore, all Muslims because we cannot stop others from practising or professing or propagating their own religion- but if a person is a Muslim, then we have to see that all Muslims who profess, practise or propagate against the concept of Finality of Prophethood Muhammad (peace be upon him) as set out in clause (3) of Article 260 shall be punishable under the section.
Sir, naturally, with these amendments, there will be consequential procedural amendments or changes in law or rules or forms or parctices, such as the National Registration act and the Electoral Rules, and it would also be a recommendation for consideration that such consequential amendments may be made by the Government at relevant time because there might be some laws where entries might have to be changed, giving entries of people etc, and of persons and so on and so forth.
Lastly, Sir, I would like to say that we have ourselves given the Constitution by consensus. In this Constitution, we have not only given fundamental rights to the citizens but we have also guaranteed these rights, and it is the responsibility of the nation as well as of the State, both combined, the State and the nation, to see to it that all rights, whether they relate to property, liberty, life and honour or whether they be fundamental rights, as given by the Constitution, are fully protected, irrespective of cast, creed or community that a person belongs to and, therefore, this also goes without saying that the controversy has come to an end, the nightmare is coming to an end. Therefore, we shall all recommend and also practise ourselves in a manner so as to safeguard, secure and fully protect those rights guaranteed to each and every citiszen. This is the sum total of our recommendation.
Thank you very much.
Mr. Chairman: The Committee of the Whole House appoves the resolution and the recommendations?
All Members: Yes.
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
3077RESOLUTION TO DECLARE THE QADIANI GROUP AND THE LAHORI GROUP AS NON-MUSLIMS
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Sir, I will now formally move it. Sir, I beg to move:
Sir, I beg to move:
"That the Special Committee of the whole House approves and passes unanimously the following resolution:
"The Special Committee of the whole House of the National Assembly unanimously resolves that the following recomendations be sent to the National Assembly for consideration and adoption.
The Special Committee of the Whole House, assisted by its Steering Committee and Sub-Committee, having considered the resolutions before it or referred to it by the National Assembly and after perusal of the documents and examination of the witnesses, including the heads of Sadar Anjuman-i-Ahmadia, Rabwah, and Anjuman-i-Ahmadia Ishaat-i-Islam, Lahore, respectively unanimously makes the following recommendations to the National Assembly:
(A) That the Constitution of Pakistan be amended as follows:
(i) That in Article 106 (3) a reference be inserted to persons of the Qadiani Group and the Lahori Group (who call themselves 'Ahmadis');
(ii) That a non -Muslim may be defined in a new clause in Article 260.
To give effect to the above recommendations, a draft Bill unanimously agreed upon by the Special Committee is appended.
(B) That the following Explanation be added to section 295-A of the Pakistan Penal Code:
3078"Explanation. A Muslim who professes, practises or propagates against the concept of the finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) as set out in clause (3) of Article 260 of the Constitution shall be punishable under this section."
(C) That consequential legislative and procedural amendments may be made in the relevant laws, such as the National Registration Act, 1973, and the Electoral Rules, 1974.
(D) That the life, liberty, property, honour and fundamental rights of all citizens of Pakistan, irrespective of the communities to which they belong, shall be fully protected and safeguarded."
Sd/- Abdul Hafeez Pirzada,
Maulvi Mufti Mahmood,
Maulana Shah Ahmad Noorani Siddiqi,
Prof. Ghafoor Ahmad,
Mr. Ghulam Faruq,
Ch. Zahur Elahi,
Sardar Moula Bukhsh Soomro."."
Mr. Chairman: The motion moved is:
"That the Special Committee of the whole House approves and passes unanimously the following resolution:
"The Special Committee of the Whole House of the National Assmebly unanimously resolves that the following recomendations be sent to the National Assembly for consideration and adoption.
The Special Committee of the Whole House, assisted by its Steering Committee and Sub-Committee, having considered the resolutions before it or referred to it by the National Assembly and after perusal of the documents and examination of the witnesses, including the heads of Sadar Anjuman-i-Ahmadia, Rabwah, and Anjunam-i-Ahmadia Ishaat-i-Islam, Lahore, respectively unanimously makes the following recommendations to the National Assembly:
(A) 3079That the Constitution of Pakistan be amended as follows:
(i) That in Article 106 (3) a reference be inserted to persons of the Qadiani Group and the Lahori Group (who call themselves 'Ahmadis');
(ii) That a non -Muslim may be defined in a new clause in Article 260.
To give effect to the above recommendations, a draft Bill unanimously agreed upon by the Special Committee is appended.
(B) That the following Explanation be added to section 295-A of the Pakistan Penal Code:
"Explanation. A Muslim who professes, practises or propagates against the concept of the finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) as set out in clause (3) of Article 260 of the Constitution shall be punishable under this section."
(C) That consequential legislative and procedural amendments may be made in the relevant laws, such as the National Registration Act, 1973, and the Electoral Rules, 1974.
(D) That the life, liberty, property, honour and fundamental rights of all citizen of Pakistan, irrespective of the communities to which they belong, shall be fully protected and safeguarded."
Sd/- Abdul Hafeez Pirzada,
Maulvi Mufti Mahmood,
Maulana Shah Ahmad Noorani Siddiqi,
Prof. Ghafoor Ahmad,
Mr. Ghulam Faruq,
Ch. Zahur Elahi,
Sardar Moula Bukhsh Soomro."."
3080Mr. Chairman: The question is:
"That the Special Committee of the whole House approves and passes unanimously the following resolution:
"The Special Committee of the Whole House of the National Assmebly unanimously resolves that the following recomendations be sent to the National Assembly for consideration and adoption.
The Special Committee of the Whole House, assisted by its Steering Committee and Sub-Committee, having considered the resolutions before it or referred to it by the National Assembly and after perusal of the documents and examination of the witnesses, including the heads of Sadar Anjuman-i-Ahmadia, Rabwah, and Anjunam-i-Ahmadia Ishaat-i-Islam, Lahore, respectively unanimously makes the following recommendations to the National Assembly:
(A) That the Constitution of Pakistan be amended as follows:
(i) That in Article 106 (3) a reference be inserted to persons of the Qadiani Group and the Lahori Group (who call themselves 'Ahmadis');
(ii) That a non -Muslim may be defined in a new clause in Article 260.
To give effect to the above recommendations, a draft Bill unanimously agreed upon by the Special Committee is appended.
(B) That the following Explanation be added to section 295-A of the Pakistan Penal Code:
"Explanation. A Muslim who professes, practises or propagates against the concept of the finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) as set 3081out in clause (3) of Article 260 of the Constitution shall be punishable under this section."
(C) That consequential legislative and procedural amendments may be made in the relevant laws, such as the National Registration Act, 1973, and the Electoral Rules, 1974.
(D) That the life, leberty, property, honour and fundamental rights of all citizen of Pakistan, irrespective of the Communities to which they belong, shall be fully protected and safeguarded."
Sd/- Abdul Hafeez Pirzada,
Maulvi Mufti Mahmood,
Maulana Shah Ahmad Noorani Siddiqi,
Prof. Ghafoor Ahmad,
Mr. Ghulam Faruq,
Ch. Zahur Elahi,
Sardar Moula Bukhsh Soomro."."
The motion was adopted unanimously.
----------
SECRECY OF THE PROCEEDINGS
The Chairman: Before I adjourn the Special Committee and convert itself into the National Assembly, I just want to remind the honourable members that they are in possession of the documents and the proceedings of the House Committee. All these papers are confidential and secret papers and shall not be published and shall not be leaked out or shall not be told about to any person unless and until the Assembly authorises the publication of such record as it deems fit.
In the end I would also like to thank all the honourable members irrespective of which party they belong to.
مولانا غلام غوث ہزاروی: جناب والا! میں عرض کرتا ہوں کہ اب کیا ضرورت ہے اشاعت پر پابندی کی؟
3082جناب چیئرمین: جب چیئرمین بول رہا ہو تو نہیں بولنا چاہئے کسی معزز ممبر کو۔
جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: مولانا صاحب! میں آپ کو سمجھاؤں گا کہ ہم نے اس ہاؤس کمیٹی کی طرف سے رپورٹ پیش کرنی ہے تجاویز کے لئے جو ہم نے کارکردگی کی ہے۔
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! اس کے علاوہ کئی باتیں ہیں۔ مثلاً میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ آپ بیت الخلاء کی باتیں کرتے رہے ہیں۱؎۔ Corrections کریں گے تو پھر اس کے بعد کریں گے۔
Dr. Mubashir Hasan (Minister for Finance, Planning and Development): Sir, why should secret session proceedings be published unless the Assembly decides otherwise?
Mr. Chairman: Yes, I may quote a precedent. These proceedings are just like the proceedings of the Constitution Committee, which have not been published and which have not been authorised to be published.
So before we adjourn this Committee sine die and it becomes functus officio I would like to place on record my thanks to all the honourable members irrespective of which side they belong to, and my special thanks to the Attorney- General, the Law Minsister and all those persons.
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Sir, we are all thankful to the Attorney- General for the labour that he put in. I would like it to be placed on record unanimously.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ سمجھنے میں غلطی لگی ورنہ مولانا غلام غوث ہزاروی نے بیت الخلاء میں بھنگی کے طرز عمل سے مرزاقادیانی کے طرز عمل کا موازنہ کر کے مرزاقادیانی کے چہرے پر اس کے کذب کو خوب واضح کیا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Mr. Chairman: I would like to place it on record that I share the sentiments expressed by the Law Minister. Also, thanks are due to those members who have been regularly attending the Special Committee meetings. I want to specially place on record my thanks specially to those faces which I see today. I also thank them. We will meet at 4:30.
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: One thing more, Sir. I would now request the honourable members to be here punctually at 30834:30 p.m. Because we are meeting as National Assembly, whereafter presentation of these recommendations which have been unanimously approved by the House Committee, I would be introducing straightaway the Constitution Amendment Bill and, therefore, every member will be needed for the passage of this Bill.
Mr. Chairman: At 4:30 we meet as National Assembly. Thank you very much.
----------
[The Special Committee of the Whole House adjourned sine die.]
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی مسئلہ پر عمومی بحث)
جناب چیئرمین: یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اڑھائی ماہ بعد بھی ایوان بھرا ہوا ہے۔ ایوان ۳۰؍جون۱۹۷۴ء کو بھرا ہوا تھا اور اس کا سہرا معزز اراکین کو جاتا ہے جو اڑھائی ماہ سے مسلسل ان اجلاسات میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ ان افراد کو تھوڑی دقت ضرور ہوئی ہوگی۔ جنہیں کارڈ جاری کئے گئے ہیں، کیونکہ ہم اسمبلی کے گیٹ اسی وقت کھولیں گے جب ہم ساڑھے چار بجے اس اجلاس کو ختم کریں گے۔ لہٰذا جن لوگوں کو کارڈ جاری کئے گئے ہیں انہیں باہر انتظار کرنا ہوگا اور میرا خیال ہے کہ اب ہم تقریباً پندرہ منٹ کے لئے چائے کا وقفہ کرتے ہیں۔ پھر ہم سہ پہر تین بج کر بیس منٹ پر دوبارہ ملیں گے۔
----------
چائے کا وقفہ، خصوصی کمیٹی دوبارہ تین بج کر بیس منٹ پر ملے گی۔
----------
خصوصی کمیٹی کا اجلاس تین بج کر چالیس منٹ پر صاحبزادہ فاروق علی کی زیرصدارت شروع ہوا۔
----------
جناب چیئرمین: جی، جناب وزیرقانون! میں معزز اراکین سے درخواست کروں گا کہ وہ متوجہ ہو جائیں۔ ایک سو سترہ اراکین موجود ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
( جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب عبدالحفیظ پیرزادہ (وزیر برائے قانون وپارلیمانی امور): جناب چیئرمین! قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی تین ماہ سے جاری آزمائش اور برصغیر کے مسلمانوں کی ۹۰سالہ تاریخ کا دور ابتلاء ختم ہونے کو ہے۔
جب ۲۹؍مئی۱۹۷۴ء کے کچھ ہی عرصہ بعد یہ مسئلہ شروع ہوا اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس عظیم ادارے پر ایک ایسے نہایت پیچیدہ اور گنجلک مسئلے کے حل کی ذمہ داری ڈال دی جائے گی۔ جس کا تعلق برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے ہے۔ آج جمہوریت، جمہوری اداروں اور جمہوری اقدار وروایات کی فتح کا دن ہے۔ اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ تاریخ کے ایک المناک باب کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ برصغیر میں یہ مسئلہ پہلے بھی کئی موقعوں پر انتقامی جذبات کی پوری شدت کے ساتھ ابھرا ہے۔ بہت سے تصادم اور مناظرے ہوچکے ہیں۔ بہت سے لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ کئی ہنگامے اور بلوے ہو چکے ہیں اور ایک مرتبہ تو اسی مسئلے سے پیدا شدہ امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا اور مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔
جناب والا! یہ موقع نہیں ہے کہ کوئی طویل تقریر کی جائے۔ ہم یہاں دن رات بیٹھتے رہے اور یہ میری کوتاہی ہوگی اگر میں اس معزز ایوان کے اراکین کو خراج تحسین پیش نہ کروں۔ جنوبی مشرقی ایشیاء کی پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں کبھی پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی جیسا کوئی جمہوری ادارہ اس طرح کے تجربے سے نہیں گزرا۔ بنگلہ دیش کی نوزائیدہ ریاست میں پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ سری لنکا میں بھی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ انڈیا میں بھی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ جناب والا! یہ جنوبی ایشیاء کے وہ ممالک ہیں جہاں پارلیمانی جمہوریت کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے۔ حتیٰ کہ بنگلہ دیش میں بھی جو کبھی ہمارا حصہ تھا۔ لیکن آپ ان ممالک کی پارلیمانی تاریخ میں اسی طرح کی کوئی نظیر نہیں پائیں گے۔ بہت کٹھن حالات اور بہت اشتعال انگیز اور جارحانہ صورتحال میں میرے رفقائے کار اور اس معزز ایوان کے اراکین، آپ لوگ بہت تحمل اور غیرجانبداری سے بیٹھے تاکہ ایک قومی فیصلے تک پہنچا جا سکے۔ یہ مسئلہ آپ کو تفویض کیاگیا تاکہ آپ ایک فیصلہ کر سکیں۔ ایسا فیصلہ جو کسی فرد کا نہیں بلکہ پاکستانی قوم کا فیصلہ ہو جن کے نمائندے آپ ہیں اور جنہوں نے آپ کو اختیارات سونپے ہیں اور اسی وجہ سے آپ کا ادارہ ’’قومی اسمبلی‘‘ یا ’’قومی اسمبلی پاکستان کی خصوصی کمیٹی‘‘ کہلاتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جذباتی ردعمل کی وجہ اب سمجھ آئی)
ہم گزشتہ تین ماہ سے اس موضوع پر بات کر رہے ہیں۔ مجھے اس نقطۂ نظر سے اپنے عدم علم کا اعتراف کرنا ہے کہ میں اس مسئلے کو اتنا گہرائی سے نہیں جانتا جتنا کچھ دوسرے ارکان جانتے ہیں۔ پوری تفصیل سے اس مسئلے کو سننے کے بعد اب ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک مسلمان اس مسئلے سے متعلق اتنا گہرا اور جذباتی ردعمل کیوں ظاہر کرتا ہے۔ ہماری ان نشستوں، مباحث اور غور وفکر کا حاصل یہ ہے کہ ختم نبوت جیسا کہ جمہور مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے۔ تمام مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی جز ہے اور خواہ کچھ بھی ہو جائے مسلمان کسی بھی حوالے سے ختم نبوت کے اس بنیادی عقیدے کے معاملے میں لچک کے روادار نہیں ہوسکتے۔ جناب والا! اس لئے میں نے کہا کہ یہ حکومت یا حزب مخالف کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اسے ایک قومی مسئلے کے طور پر لینا چاہیئے۔ قوم اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اتنے سنگین مسئلے پر تقسیم ہو جائے اور اس لئے قائد حکومت جناب وزیراعظم پاکستان کے ذریعے حکومت اور اس ایوان میں براجمان تمام رفقاء کی یہی کوشش رہی کہ اتفاق رائے تک پہنچا جائے۔ اتنے اہم مسئلے پر قوم تقسیم نہ ہو اور قومی اسمبلی کا ایک متفقہ فیصلہ سامنے آئے۔
یہ میرے لئے ایک اعزاز ہے کہ میں اکثریتی پارٹی اور اپنے دوستوں جنہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے، کی جانب سے اس معزز کمیٹی کے سامنے یہ قرارداد پیش کروں کہ ہم اتفاق رائے تک پہنچ چکے ہیں۔ جناب والا! مجوزہ قرارداد جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں، ابھی چند ہی منٹوں میں اس معزز ایوان کے ارکان کے سامنے ہوگی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(متفقہ قرارداد چھ اراکین کی جانب سے)
یہ قرارداد میں اپنی طرف سے اور مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی، پروفیسر غفور احمد، جناب غلام فاروق، چوہدری ظہور الٰہی اور سردار مولا بخش سومرو کی جانب سے پیش کرتا ہوں۔ اس قرارداد میں ہماری تجاویز کا مسودہ موجود ہے۔ اب اس میں تجاویز موجود ہیں۔ اسے آئین میں ترمیمی بل کے ساتھ تقسیم کر دیا جائے۔
جناب چیئرمین: اسے بھی تقسیم کیا جارہا ہے۔
جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: اسے علیحدہ طور پر تقسیم نہ کیا جائے۔ جناب! اب میرے پاس اصل نسخہ موجود ہے۔ میں اسے ریکارڈ کے مقصد کے لئے رکھنا چاہوں گا۔ جناب والا! ہم کمیٹی کے غور اور منظوری کے لئے سفارشات کی شکل میں ایک قرارداد پیش کر رہے ہیں۔ جس میں آئینی، قانونی، انتظامی اور ضابطہ جاتی امور شامل ہیں اور اس میں پاکستان کے تمام شہریوں، قطع نظر اس بات سے کہ ان کا تعلق کس گروہ سے ہے، ان کی زندگی، آزادی، جائیداد، عزت اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی یاد دہانی موجود ہے۔ دستوری ترامیم کی میں وضاحت کروں گا اور ان کے ساتھ ساتھ قانونی اور ضابطہ جاتی ترامیم کی بھی جو ہم تجویز کر رہے ہیں۔ اس کارروائی سے قبل میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جیسے ہی یہ معزز ایوان ان تجاویز کو منظور کرتا ہے اور میں پر اعتماد ہوں کہ یہ منظوری اتفاق رائے سے ہوگی۔ جیسا کہ قرارداد پیش کرتے وقت ابھی ظاہر ہوجائے گا۔ ہم کمیٹی کی حیثیت کو فوراً قومی اسمبلی کی حیثیت سے بدل دیں گے اور میں کمیٹی کی سفارشات کو قومی اسمبلی کے سامنے پیش کروں گا۔ ان سفارشات کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ہم دستور میں ترمیم کا بل لا سکیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ آج کی نشست میں دستور میں ترمیم کا بل منظور کر لیں گے اور اسے سینٹ بھیج دیا جائے گا اور ہمیں توقع ہے کہ سینٹ بھی اسے آج ہی منظور کر لے گا اور اس طرح آج یہ باب بند ہو جائے گا۔
اب جناب میں اپنی اور اپنے دوستوں کی جانب سے جن دستوری ترامیم کی سفارش کرتا ہوں، وہ دو ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ دستوری ترمیم کے ذریعے اس شخص کی تعریف متعین کر دی جائے۔ جو مسلمان نہیں ہے یہ تعریف آرٹیکل ۲۶۰ میں ایک شق کے اضافے کی صورت میں ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل ۲۶۰ کی دو شقیں ہیں۔ یہ آرٹیکل تعریف سے متعلق ہے اور ہم اس آرٹیکل میں شق نمبر۳ کے اضافے کے ذریعے ’’غیرمسلم‘‘ کی حسب ذیل تعریف کا اضافہ کریں گے۔
’’(۳) ایسا شخص جو خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی حتمی اور غیرمشروط ختم نبوت کو نہیں مانتا، یا لفظ کے کسی بھی مفہوم اور وضاحت میں حضرت محمد ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا ایسے دعویدار کو نبی یا مذہبی مصلح مانتا ہے، اس آئین یا قانون کے مقاصد کے لحاظ سے وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
جناب والا! ہماری تجویز کردہ دوسری ترمیم آئین کے آرٹیکل ۱۰۶ کی شق نمبر۳ میں ہے۔ اس کا تعلق صوبائی اسمبلیوں میں عمومی نشستوں کے علاوہ مختلف گروہوں کی مخصوص نشستوں سے ہے اور آرٹیکل ۱۰۶ کی شق نمبر۳ میں تجویز کردہ ترمیم یہ ہے کہ لفظ گروہ کے بعد یا اس کے آخر میں حسب ذیل الفاظ کا اضافہ کر دیا جائے: ’’گروہ اور قادیانی گروپ کے افراد یا لاہوری گروپ جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں۔‘‘ یہ دوسری ترمیم ہے۔
جناب والا! مجھے یہاں بالکل واضح کر دینا چاہئے کہ ہمارے دستور کا آرٹیکل۲۰ اپنے مذہب کا اعلان کرنے، تبلیغ کرنے اور عمل کرنے کی آزادی کا بنیادی حق دیتا ہے اور ہر مذہبی گروہ کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اعلان کرے، تبلیغ کرے اور اس پر عمل کرے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا مسلمانوں کا ختم نبوت کا عقیدہ، جس کی تعریف آئین کے آرٹیکل۲۰ میں متعین ہوگی۔ بنیادی نوعیت کا عقیدہ ہے۔ لہٰذا ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ تعزیرات پاکستان میں اس طرح ترمیم کی جائے کہ دفعہ ۲۹۵(الف) میں ایک وضاحت کا اضافہ کیا جائے۔ تعزیرات پاکستان میں پہلے سے ایک شق موجود ہے جو مذہب کی اس انداز میں تبلیغ کی ممانعت کرتی ہے جو دوسروں کے مذہبی عقائد پر حملہ ہو۔ اس لئے تمام مسلمان… کیونکہ ہم دوسروں کو ان کے اپنے مذہب کا اعلان کرنے، عمل کرنے اور تبلیغ کرنے سے نہیں روک سکتے۔ لیکن اگر کوئی شخص مسلمان ہے تو ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ تمام ایسے مسلمان، جو عقیدہ ختم نبوت، جیسا کہ آرٹیکل ۲۶۰ شق نمبر۳ میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے، کے خلاف اعلان، عمل یا تبلیغ کرتے ہیں تو وہ اس دفعہ کے زیرتحت واجب التعزیر ہوں گے۔
جناب والا! ان ترامیم کے نتیجے میں فطری طور پر متعلقہ ضابطوں، قوانین اور قانونی رواج میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ مثلاً نیشنل رجسٹریشن ایکٹ اور الیکٹورال رولز وغیرہ اور ہم غور کے لئے تجویز کرتے ہیں کہ دستوری ترمیم کے نتیجے میں ہونے والی یہ قانونی تبدیلیاں حکومت مناسب وقت پر کرتی رہے۔ کیونکہ ایسے قوانین بھی ہوسکتے ہیں۔ جن میں لوگوں کی طرف سے انداراج کی تبدیلی ہونا ہو اور آخر میں جناب میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ آئین ہمارے اتفاق رائے سے بنا ہے۔ اس آئین میں ہم نے شہریوں کو نہ صرف بنیادی حقوق دئیے ہیں بلکہ ہم نے ان حقوق کی گارنٹی دی ہے اور یہ قوم اور ریاست دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی شخص کی ذات، مذہب اور عقیدے سے قطع نظر اس کی جائیداد، آزادی، زندگی اور آبرو اور دستور میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔لامحالہ اس تنازعے کا اختتام ہوچکا ہے اور اس کے ساتھ ہی بھیانک خواب بھی ختم ہو رہا ہے۔ اس لئے ہم سب شہریوں کو حاصل شدہ ان حقوق کے مکمل تحفظ کی تلقین بھی کریں اور ہمارا عمل بھی ان حقوق کی کامل پاسداری کرے گا۔ یہ تھی ہماری کل تجویز۔
آپ کا بہت شکریہ!
جناب چیئرمین: کیا مکمل ایوان کی یہ کمیٹی قرارداد اور سفارشات کو منظور کرتی ہے؟
تمام ارکان: جی ہاں!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی گروہ اور لاہوری گروہ کو غیرمسلم قرار دینے کے لئے قرارداد)
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: جناب! اب میں باضابطہ طور پر قرارداد پیش کروں گا۔
جناب عالی! میں قرارداد پیش کرنے کے لئے درخواست گزار ہوں: ’’کہ مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی حسب ذیل قرارداد منظور کرتی ہے اور اتفاق رائے سے قبول کرتی ہے۔
قومی اسمبلی کے مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی اتفاق رائے سے منظور کرتی ہے کہ حسب ذیل سفارشات کو غوروفکر اور منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں بھیج دیا جائے۔
مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی، سٹیرنگ کمیٹی اور ذیلی کمیٹی کی اعانت کے ساتھ، پیش کردہ یا قومی اسمبلی کی طرف سے سپرد کردہ قراردادوں پر غور وخوض اور دستاویزات کے مطالعے اور گواہان، جن میں انجمن احمدیہ ربوہ اور انجمن احمدیہ اشاعت اسلام، لاہور شامل ہیں، کو سننے کے بعد متفقہ طور پر قومی اسمبلی کے سامنے حسب ذیل سفارشات پیش کرتی ہے:
(الف) کہ دستور پاکستان میں درج ذیل طریق پر ترمیم کی جائے:
(i) کہ آرٹیکل (۳)۱۰۶ میں قادیانی گروہ اور لاہوری گروہ (جو خود کو ’’احمدی‘‘ کہتے ہیں) کے اشخاص کا حوالہ شامل کیا جائے۔
(ii) کہ آرٹیکل ۲۶۰ میں ایک نئی شق کے ذریعے غیرمسلم کی تعریف کا تعین کیا جائے۔
ان سفارشات کو روبہ عمل میں لانے کے لئے، خصوصی کمیٹی کا متفقہ طور پر منظور شدہ ایک ڈرافٹ بل لف کر دیا گیا ہے۔
(ب) کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵(الف) میں مندرجہ ذیل وضاحت کا اضافہ کر دیا جائے: ’’وضاحت: ایک مسلمان جو عقیدۂ ختم نبوت جیسا کہ اس کی وضاحت آئین کے آرٹیکل۲۶۰ کی شق(۳) میں کردی گئی ہے، کے منافی کوئی اعلان کرتا ہے یا عمل کرتا ہے یا تبلیغ کرتا ہے، اس دفعہ کے زیرتحت قابل تعزیر ہوگا۔‘‘
(ج) کہ اس دستوری ترمیم کے نتیجے میں ہونے والی قانونی اور ضابطہ جاتی ترامیم متعلقہ قوانین جیسے نیشنل رجسٹریشن ایکٹ ۱۹۷۳ء اور الیکٹورال رولز ۱۹۷۴ء میں کی جاسکتی ہیں۔
(د) کہ پاکستان کے تمام شہریوں کی زندگی، آزادی، جائیداد، عزت اور بنیادی حقوق کی بھرپور حفاظت بلالحاظ اس کے کہ وہ کسی خاص گروہ بندی سے تعلق رکھتے ہیں، کی جائے گی۔
دستخط شد: عبدالحفیظ پیرزادہ،
مولوی مفتی محمود،
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی،
پروفیسر غفور احمد،
جناب غلام فاروق،
چوہدری ظہور الٰہی،
سردار مولا بخش سومرو۔‘‘
تحریک اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی۔
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(کارروائی کا خفیہ رکھنا)
جناب چیئرمین: اس سے پہلے کہ میں خصوصی کمیٹی کو ملتوی کروں اور اسے قومی اسمبلی میں تبدیل کروں، میں معزز اراکین کو یہ یاددہانی کرانا چاہتاہوں کہ ان کے پاس ایوان کی اس کمیٹی کی کارروائی اور دستاویزات موجود ہیں۔ یہ تمام کاغذات بصیغہ راز اور خفیہ ہیں اور انہیں شائع نہیں کیا جائے گا، نہ ہی لیک آؤٹ کیا جائے گا اور نہ ہی کسی شخص کو ان کے متعلق بتایا جائے گا، جب تک اسمبلی اس ریکارڈ میں سے جتنا وہ مناسب سمجھے، شائع کرنے کی اجازت نہ دے دے۔
آخر میں، میں تمام معزز اراکین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، قطع نظر اس کے کہ وہ کس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مبشر حسن (منسٹر فار فائیننس پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ): جناب والا! جب تک اسمبلی خود فیصلہ نہ کرے خفیہ اجلاس کی کارروائی کیوں شائع کی جائے؟
(جناب چیئرمین: جی ہاں! میں ایک نظیر پیش کرتا ہوں۔ یہ کارروائی بالکل دستور ساز کمیٹی کی کاررائی کی طرح ہے، جسے شائع نہیں کیا گیا ہے اور جسے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس کمیٹی کو بلاتعین تاریخ ملتوی کریں اور یہ اپنا کردار ادا کرنے کے بعد ازخود تحلیل ہو جائے، میں تمام معزز اراکین قطع نظر اس کے کہ ان کا تعلق کس سے ہے، کا شکریہ ریکارڈ پر لانا چاہوں گا۔
جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: جناب ہم سب اٹارنی جنرل کے شکرگزار ہیں اس محنت کے لئے جو اس سلسلے میں انہوں نے کی۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ ہم سب کی طرف سے ریکارڈ پر آجائے۔
جناب چیئرمین: میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ میں بھی اس سلسلے میں وہی جذبات رکھتا ہوں جن کا اظہار وزیرقانون نے کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان اراکین کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے جو خصوصی کمیٹی کے اجلاسات میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ میں خاص طور پر ان لوگوں کا شکریہ بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں جن کے چہرے میں نے آج ہی دیکھے ہیں، میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم ساڑھے چار پر ملیں گے۔
جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: ایک بات اور، میں تمام معزز ممبران سے گزارش کروں گا کہ وہ ٹھیک ساڑھے چار یہاں پہنچ جائیں۔ کیونکہ ہم قومی اسمبلی کے طور پر مل رہے ہیں۔ اس کے بعد ایوان کی کمیٹی کی طرف سے متفقہ طور پر منظور شدہ سفارشات کو اس اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ میں سیدھا آئین میں ترمیمی بل پیش کروں گا۔ لہٰذا اس بل کی منظوری کے لئے ہر ممبر کی ضرورت ہوگی۔
جناب چیئرمین: ہم ساڑھے چار بجے قومی اسمبلی کے طور پر ملیں گے۔ آپ کا بہت شکریہ!
----------
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس بلاتعین تاریخ ملتوی ہوتا ہے)
----------
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top