• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کے فیصلے پر قادیانی اعتراضات کے جوابات

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
پہلا اعتراض ۔

قادیانی 1974ء سے لیکر اب تک قومی اسمبلی کے فیصلے پر یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ اگر یہ کاروائی شائع ہوجائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہوجائے گا ۔ قومی اسمبلی کی یہ کاروائی اب اوپن ہونے سے قادیانی کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا ۔ لیکن حیرت ہے کہ اس خبر سے قادیانیوں کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی ہے ۔ کیونکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار مرحوم نے ایک سوال پر کہ " قادیانیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ روداد شائع ہوجائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہوجائے گا " کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ
" سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، یہ کاروائی ان کے خلاف جاتی ہے ، ویسے وہ اپنا شوق پورا کرلیں ، ہمیں کیا اعتراض ہے ۔ ان دنوں ساری اسمبلی کی کمیٹی بنا دی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ ساری کاروائی سکیرٹ ہوگی تاکہ لوگ اشتعال میں نہ آئیں ۔ میرے خیال میں اگر یہ کاروائی شائع ہوگئی تو لوگ قادیانیوں کو ماریں گے " ( انٹرویو نگار منیر احمد منیر ایڈیٹر " ماہنامہ آتش فشاں " لاہور مئی 1994ء )

لیکن اس کے برعکس قادیانیوں کو معلوم ہونا چاہئیے کہ اس کاروائی کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کا کوئی ایک رکن بھی قادیانی نہیں ہوا ۔ کس رکن قومی اسمبلی نے کاروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا ۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے اجلاس سے واک آؤٹ نہیں کیا ۔ کس رکن قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی حمایت نہیں کی ۔ اس کے برعکس نہ صرف تمام ارکان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا بلکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کی ٹیم میں شامل ایک معروف قادیانی " مرزا سلیم اختر " چند ہفتوں بعد قادیانیت سے تائب ہوکر مسلمان ہوگیا ۔ حالانکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر پوری ٹیم کے ساتھ مکمل تیاری سے بڑی خوشی سے قومی اسمبلی گیا ۔ اس کے اسمبلی کے اندر داخل ہونے کا انداز بڑا فاتحانہ ، تکبرانہ اور تمسخرانہ تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ میں تاویلات اور شکوک و شبہات کے زریعے اسمبلی کو قائل کر لوں گا مکر بری طرح ناکام رہا ۔ قادیانی قیادت نے قومی اسمبلی کے تمام اراکین میں 180 صفحات پر مشتمل کتاب " محضر نامہ " تقسیم کی جس میں اپنے عقائد کی بھر پور ترجمانی کی ۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر " دعا" کے عنوان سے لکھا ہے " دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جانب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا نور فراست عطاء فرمائے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن وسنت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں "
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قادیانیوں کی دعا قبول ہوئی تو وہ قومی اسمبلی کا یہ فیصلہ قبول کیوں نہیں کرتے ؟ اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو وہ جھوٹے ہیں ۔

دوسرا اعتراض

قادیانی اعتراض کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی اس کاروائی کو ان کیمرہ خفیہ کیوں رکھا گیا ، یہ کاروائی اخبارات میں روزانہ کیوں شائع نہ ہوئی ؟
اس سوال کا جواب قومی اسمبلی کے اس وقت کے اسپیکر جناب صاحبزادہ فاروق علی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا :۔
" بحث اور کاروائی کے دوران ایسی باتوں کے پیش آنے کا بھی امکان تھا کہ اگر منظر عام پر آئیں تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی ۔ قادیانی فرقوں کے رہنماؤں کو بھی بلانا تھا ۔ ان کا نکتہ نظر بھی سننا تھا ، ظاہر ہے وہ کچھ کہتے ، مسلمانوں کو ہرگز اتفاق نہ ہوتا ۔ لہذا کاروائی خفیہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ نازک اور حساس ہے ۔ مسلمان جان بھی قربان کردینا ایک انتہائی معمولی بات سمجھتا ہے لہذا کسی بھی خطرناک جذباتی صورتحال سے بچنے کے لئے اس کاروائی کو خفیہ رکھنا ہی مناسب تھا ۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ امت کو جو والہانہ عشق ہے ، اس کو زبان و قلم سے بیان کرنا ناممکن ہے ۔ اس خفیہ بحث کا فیصلہ کھلا تھا اور اس فیصلے سے ملت اسلامیہ آج تک مطمئن ہے " ( قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان سے اختر کاشمیری صاحب کا انٹرویو ، روزنامہ " جنگ " جمعہ میگزین 3 تا 9 ستمبر 1982ء )


تیسرا اعتراض


قادیانی کہتے ہیں کہ فیصلہ یکطرفہ تھا ۔

قادیانیوں کی یہ بات لاعلمی اور تعصب پر مبنی ہے ، انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ قرارداد حزب اختلاف کی طرف سے پیش ہوئی تھی اور حزب اقتدار پارٹی کے علاوہ اسمبلی میں اور بھی بہت سی پارٹیاں موجود تھیں اگر یہ یکطرفہ سیاسی فیصلہ تھا تو کیوں کسی جماعت نے اختلاف نہیں کیا اور پھر یہ کہ جمہوری نظام حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ، لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا فیصلہ شاید دنیا جمہوریت کا واحد اور منفرد واقعہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ میں آکر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لئے بلایا ۔ جہاں اٹارنی جنزل جناب یحییٰ بختیار نے اس پر قادیانی کفریہ عقائد کے حوالے سے جرح کی ، مرزا ناصر نے اپنے تمام عقائد و نظریات کا نہ صرف برملا اعتراف کیا بلکہ تاویلات کے زریعے ان کا دفاع بھی کیا ۔ لہذا ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے تیرہ دن کی طویل بحث و تمحیص کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا لیکن اس کے باوجود آج بھی قادیانی خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم نہیں کرتے ۔

چوتھا اعتراض

قادیانی اکثر کہتے ہیں کہ اس وقت اراکین اسمبلی کی اکثریت زانی اور شرابی تھی ۔ انہیں کوئی حق حاصل نہ تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کرتے ۔

قادیانیوں مجھے یہ بتاوُ کہ تمہارا خلیفہ کیا جاہل تھا تم لوگوں کو اس سے زیادہ عقل ہے کیوں نہ اس وقت تمہارے خلیفہ نے اس وقت اسمبلی کا بائیکاٹ کیا ؟ کیا انہیں زبردستی وہاں لے جایا گیا تھا ؟ حالانکہ وہ تو گیا ہی اپنی پلٹون کے ساتھ اس لیئے تھا کہ قومی اسمبلی جو بھی فیصلہ کرے گی ہمیں قبول ہوگا ۔ عجیب بات ہے کہ اگر قادیانیوں کو پارلیمنٹ غیر مسلم اقلیت قرار دے تو زانی اور شرابی اور اگر سپریم کورٹ انہیں کافر قرار دے تو یہ کہہ دیتے ہو کہ یہ تو انگریزی قانون پڑھے ہوئے ہیں انہیں شریعت کا کیا علم اور اگر علماء اکرام تم لوگوں کو غیر مسلم کہیں تو یہ اعتراض کہ ان کا تو کام ہی یہی ہے ۔

مطلب کہ تسی جوتیاں ای کھانیاں نے ۔
 
آخری تدوین :
Top