لاہوری جماعت کا حلفیہ بیان
’’پیغام صلح‘‘ جماعت لاہور کا مشہور اخبار ہے۔ اس کی ۱۶؍اکتوبر۱۹۱۳ء کی اشاعت میں پوری جماعت کی طرف سے یہ حلفیہ بیان شائع ہوا:
’’معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سید ناوھا دینا حضرت مرزاغلام احمد صاحب مسیح موعود، مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی 1931صورت سے اخبار پیغام صلح کے ساتھ تعلق ہے۔ خداتعالیٰ کو جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ حاضر وناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود ومہدی معہود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دھندہ مانتے ہیں۔‘‘
(پیغام صلح ۱۶؍اکتوبر ۱۹۱۳ء ص۲، بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان جنوری ۱۹۴۲ء ص۱۳،۱۴)
اس حلفیہ بیان کے بعد لاہوری جماعت کے اصل عقائد سے ہر پردہ اٹھ جاتا ہے۔ لیکن جب مرزائیوں کے خلیفہ اوّل حکیم نورالدین کا انتقال ہوتا ہے اور خلافت کا مسئلہ اٹھتا ہے تو محمد علی لاہوری صاحب مرزابشیرالدین محمود کے ہاتھ بیعت کرنے اور خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کر کے قادیان سے لاہور چلے آتے ہیں اور یہاں اپنی الگ جماعت کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء کو مرزابشیرالدین خلیفہ دوم مقرر کئے گئے اور ۲۲؍مارچ ۱۹۱۴ء کو اس فیصلے سے اختلاف کرنے والی جماعت لاہور کا پہلا جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں جو قرارداد منظور کی گئی وہ یہ تھی:
’’صاحبزادہ صاحب (مرزابشیرالدین) کے انتخاب کو اس حد تک ہم جائز سمجھتے ہیں کہ وہ غیراحمدیوں سے احمد کے نام پر بیعت لیں۔ یعنی اپنے سلسلۂ احمدیہ میں ان کو داخل کر لیں۔ لیکن احمدیوں سے دوبارہ بیعت لینے کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے۔ اس حیثیت میں ہم انہیں امیر تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن اس کے لئے بیعت کی ضرورت نہ ہوگی اور نہ ہی امیر اس بات کامجاز ہوگا کہ جو حقوق واختیارات صدر انجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیئے ہیں اور اس کو اپنا جانشین قرار دیا ہے۔ اس میں کسی قسم کی دست اندازی کرے۔‘‘
(ضمیمہ پیغام صلح ۲۴؍مارچ ۱۹۱۴ء بحوالہ فرقان قادیان جنوری ۱۹۴۲ء ص۷)
اس قرارداد سے واضح ہے کہ لاہوری جماعت کو اس وقت نہ جماعت قادیان کے عقائد پر اعتراض تھا اور نہ وہ مرزابشیرالدین کو خلافت کے لئے نااہل قرار دیتے تھے۔ جھگڑا تھا تو اس بات 1932پر تھا کہ تمام اختیارات انجمن احمدیہ کو دئیے جائیں نہ کہ خلیفہ کو، لیکن جب مرزابشیرالدین محمود نے اس تجویز کو منظور نہ کیا تو محمد علی لاہوری نے لکھا:
’’خلافت کا سلسلہ صرف چند روزہ ہوتا ہے تو کس طرح تسلیم کر لیا جائے کہ اگر ایک شخص کی بیعت کر لی تو اب آئندہ بھی کرتے جاؤ۔‘‘
(پیغام صلح ۲؍اپریل ۱۹۱۴ء منقول از فرقان حوالہ بالا ص۷)
یہ تھا قادیانی اور لاہوری جماعتوں کا اصل اختلاف جس کی بناء پر یہ دونوں پارٹیاں الگ ہوئیں۔ اس سیاسی اختلاف کی بناء پر جب قادیانی جماعت نے لاہوری جماعت پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو لاہوری گروپ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے پرمجبور ہوا۔ چنانچہ جب جماعت لاہور نے اپنا الگ مرکز قائم کیا تو کچھ اپنی علیحدگی کو خوبصورت بنانے کی تدبیر، کچھ قادیانی جماعت کے بغض اور کچھ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی فکر کی وجہ سے اس جماعت نے اپنے سابقہ عقائد اور تحریروں سے رجوع اور توبہ کا اعلان کئے بغیر، یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم مرزاغلام احمد کو نبی نہیں بلکہ مسیح موعود، مہدی اور مجدد مانتے ہیں۔