لاہوری جماعت کی حقیقت
مولوی مفتی محمود:
مرزائی صاحبان کی لاہوری جماعت، جس کے بانی محمد علی لاہوری صاحب تھے۔ بکثرت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتی۔ بلکہ مسیح موعود مہدی اور مجدد مانتی ہے۔ اس لئے اس پر ختم نبوت کی خلاف ورزی کے الزام میں کفر عائد نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ جس شخص کا جھوٹا دعویٔ نبوت ثابت ہوچکا ہو۔ اسے صرف نبی ماننا ہی نہیں، سچا ماننا اور واجب الاطاعت سمجھنا بھی کھلا کفر ہے۔ چہ جائیکہ اسے مسیح موعود، مہدی اور مجدد اور محدث (صاحب الہام) قرار دیا جائے۔ جیسا کہ پیچھے بیان کیا جاچکا ہے۔ کسی شخص کا دعویٔ نبوت جو دو حریف مذہب پیدا کرتا ہے، وہ اسے سچا ماننے والوں اور جھوٹا ماننے والوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو جماعت اسے سچا قرار دیتی ہے وہ ایک مذہب کی پیروقرار پاتی ہے اور جو جماعت اس کی تکذیب کرتی ہے وہ دوسرے مذہب میں شامل ہوتی ہے۔ لہٰذا جب مرزاغلام احمد قادیانی کا مدعی نبوت ہونا روز روشن کی طرح ثابت ہو چکا تو اب اس کو پیشوا ماننے والی تمام جماعتیں ایک ہی مذہب میں داخل ہوں گی، خواہ وہ اسے نبی کا نام دیں، یا مسیح موعود، مہدی معہود اور مجدد کا، لیکن اس مختصر جواب کے ساتھ لاہوری جماعت کی پوری حقیقت واضح کردینا بھی مناسب ہوگا۔
واقعہ یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کے اعتبار سے ان دونوں جماعتوں میں عملاً کوئی فرق نہیں۔ بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی کی زندگی میں اور ان کے بعد ان کے خلیفہ اوّل حکیم نورالدین کے انتقال تک جماعت قادیان اور جماعت لاہور کوئی الگ جماعتیں نہ تھیں۔ اس پورے عرصہ میں مرزاغلام احمد قادیانی کے تمام متبعین خواہ مرزابشیرالدین ہوں یا محمد علی لاہوری، پوری آزادی کے 1929ساتھ مرزاغلام احمد قادیانی کو ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کہتے اور مانتے رہے۔ محمد علی لاہوری صاحب عرصۂ دراز تک مشہور قادیانی رسالے ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے ایڈیٹر رہے اور اس عرصہ میں انہوں نے بے شمار مضامین میں نہ صرف مرزاصاحب کے لئے ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کا لفظ استعمال کیا، بلکہ ان کے لئے نبوت ورسالت کے تمام لوازم کے قائل رہے، ان کے ایسے مضامین کو جمع کیا جائے تو ایک پوری کتاب بن سکتی ہے۔ تاہم یہاں محض نمونے کے طور پر ان کی چند تحریریں پیش کی جاتی ہیں:
۱۳؍مئی ۱۹۰۴ء کو گورداسپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک بیان دیا جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ جو شخص مرزاصاحب کی تکذیب کرے وہ ’’کذاب‘‘ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسے شخص کو اگر مرزاصاحب نے کذاب لکھا تو ٹھیک کہا۔ اس بیان میں وہ لکھتے ہیں: ’’مکذب مدعی نبوت کذاب ہوتا ہے۔ مرزاصاحب ملزم مدعی نبوت ہے، اس کے مرید اس کو دعویٰ میں سچا اور دشمن جھوٹا سمجھتے ہیں۔‘‘
(حلفیہ شہادت بعدالت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور مورخہ ۱۳؍مئی ۱۹۰۴ء منقول از ماہنامہ فرقان قادیان، ج۱ نمبر۱، ماہ جنوری ۱۹۴۲ء ص۱۵)
’’آنحضرتﷺ کے بعد خداوند تعالیٰ نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کر دئیے۔ مگر آپﷺ کے متبعین کامل کے لئے جو آپﷺ کے رنگ میں رنگین ہوکر آپﷺ کے اخلاق کاملہ سے نور حاصل کرتے ہیں، ان کے لئے یہ دروازہ بند نہیں ہوا۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز ج۴ ص۱۸۶، بحوالہ تبدیلی عقائد از محمد اسماعیل قادیانی ص۲۲)
’’جس شخص کو اﷲتعالیٰ نے اس زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے مامور اور نبی کر کے بھیجا ہے وہ بھی شہرت پسند نہیں، بلکہ ایک عرصہ دراز تک جب تک اﷲتعالیٰ 1930نے یہ حکم نہیں دیا کہ وہ لوگوں سے بیعت توبہ لیں۔ آپ کو کسی سے کچھ سروکار نہیں تھا اور سالہا سال تک گوشۂ خلوت سے باہر نہیں نکلے۔ یہی سنت قدیم سے انبیاء علیہم السلام کی چلی آئی ہے۔‘‘
(ریویو ج۵ ص۱۳۲)
’’مخالف خواہ کوئی ہی معنی کر لے، مگر ہم تو اسی پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے، صدیق بنا سکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کر سکتا ہے۔ مگر چاہیے مانگنے والا… ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا (یعنی مرزاغلام احمد صاحب) وہ صادق تھا۔ خدا کا برگزیدہ اور مقدس رسول تھا۔‘‘
(تقریر محمد علی الحکم مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۸ء بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان جنوری ۱۹۴۲ء ج۱ ص۱۱)
یہ اقتباسات تو محض بطور نمونہ محمد علی لاہوری صاحب بانی جماعت لاہور کی تحریروں سے پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ صرف انہی کا عقیدہ نہ تھا۔ بلکہ پوری جماعت لاہور نے اپنے ایک حلفیہ بیان میں انہی عقائد کا اقرار کیا ہے۔