(
لہ خسف القمر المنیر وان لی
…)
مرزا ناصر احمد: ہاں جی، اور ہیں۔
ایک سوال یہ کیا گیا تھا کہ:’’ لہ خسف القمر المنیر وان لی خسف القمران المشرکان أتنکرو ‘‘ اس کے… یعنی چاند اور سورج کے گرہن ہونے کے دو (۲) نشانوں کا ذکر ہے، لیکن ا898س میں Confusion (ابہام) پیدا کرنے والی بات ہے۔ وہ صرف عدد کی ہے۔لیکن ایک ہے معجزہ اور ایک ہے نبی اکرمﷺ کی پیشین گوئی۔ وہ بھی آنحضرتﷺ کی ہے۔ لیکن معجزہ اور چیز ہے، اپنی اہمیت کے لحاظ سے اور آنحضرتﷺ کی پیش گوئی، آئندہ کے متعلق، یہ بالکل اور چیز ہے۔ یہ جو ہے چاند اور سورج کا گرہن ہونا، یہ آنحضرتﷺ کی ایک زبردست پیشین گوئی کا پورا ہونا ہے۔ لیکن چاند، شقِ قمر کا جو معجزہ ہے، وہ تو اتنا زبردست ہے کہ اس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں لاسکتا۔ لیکن مسلمانوں میں سے بعض نے اس کا انکار کردیا۔ آج کل کے جو مفسرین ہیں کہ نہیں، اس معنی میں نہیں تھا، تو یہاں…
جناب یحییٰ بختیار: یہ تو شعر نہیں ہے، مرزا صاحب! جو کہ خود ہی آکر کہے کہ اس کا مطلب کیا ہے، یہ تو شعر نہیں ہے۔
مرزا ناصر احمد: یہ، یہ حدیث ہے، جس کا ذکر اپنے، آپ کے شعر میں ہے۔ یہ جو میں نے پڑھا ہے، وہ شعر ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: میں اس واسطے Clarify ( واضح) کررہا تھا۔
مرزا ناصر احمد: جی! (اپنے وفد کے ایک رکن سے) وہ کہاں ہے؟
إن لسماء الدنیا آیتین (اٹارنی جنرل سے) یہ دارقطنی کی حدیث ہے:
’’إن لسماء الدنیا آیتین لم تکن منذ خلق السموات والأرض۱؎‘‘
اس شعر میں ایک پیشین گوئی کا ذکر ہے، وہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے، اور ایک معجزے کا ذکر ہے،اور وہ دونوں حضور نبی اکرمﷺ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک معجزہ آپ نے شق القمر کا دکھایا اور ایک پیشین گوئی چاند اور سورج گرہن ہونے کی کی، تو اپنا تو یہاں کچھ بھی نہیں۔ آپ یہاں فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے شقِ قمر کا ایک عظیم معجزہ دکھایا اور آپ نے ایک پیش گوئی میرے متعلق کی جن میں چاند اور سورج کے گرہن ہونے کا ذکر 899ہے۔ اب شق قمر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ جھوٹ پر جھوٹ بول رہاہے مرزا ناصر، یہ حدیث نہیں بلکہ امام جعفر کی طرف منسوب ایک قول ہے جس کی سند بھی صحیح نہیں۔ لیکن اسے مرزا ناصر نے حدیث بنا دیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب دنیا کو- اس کی تفصیل میں نہیں جاتا، اس پر بڑی بحثیں ہوچکی ہیں، بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جب دنیا نے چاند کو دو ٹکڑوں میں دیکھا۔ دنیا نے چاند کو آنحضرتﷺ کے اس معجزہ کے نتیجہ میں دو ٹکڑوں میں دیکھا۔ اتنا زبردست یہ معجزہ ہے اور اس شعر میں دوسری چیز آپ نے یہ فرمائی کہ آنحضرتﷺ نے اپنے آخر الغلمان کے لئے، اپنے ماضی کے لئے یہ ایک نشان بتایا کہ اس کے زمانہ میں فلاں فلاں دن جو ہیں اس میں چاند اور سورج گرہن ہوگا۔ تو چاند کا اور سورج کا گرہن ہونا خود معجزہ نہیں، نہ پیشین گوئی ہے۔ لیکن معیّنہ دنوں اور خاص زمانہ میں پیشین گوئی کے مطابق گرہن ہونا ، وہ پیشین گوئی کا پورا ہونا ہے اور شقِ قمر اس کے مقابلہ میں معجزہ ہے، زبردست معجزہ ہے۔ اس سے ہمیں تو سمجھ نہیں آئی کہ کیا چیز سمجھ میں نہیں آئی سوال کرنے والوں کو؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اس سے صرف یہ بتانا چاہتے تھے مرزا صاحب! کیونکہ ایک چیز جو ہوتی ہے ناں، مرزا صاحب ایک حوالہ بذات خود ہیں، بعض دفعہ Misunderstanding (غلط فہمی) بھی توپیدا کردیتا ہے، مگر کئی حوالے جب اکٹھے پڑھ لیتے ہیں، جیسے کسی آدمی کو آپ ایک زخم پہنچا دیں تو Minor Injury (معمولی چوٹ) ہوجائے گی، اسی طرح کے سو زخم لگادیں آپ تو مرجاتا ہے آدمی۔ اب بذات خود چھوٹی چھوٹی Injuries (چوٹیں) ہیں۔ تو جب مرزا صاحب ہم دیکھتے ہیں کہ: ’’پہلے سے بھی بڑھ کر اپنی شان میں‘‘اور پھر کہتے ہیں: ’’ان کے لئے ایک اور میرے لئے چودہویں کا چاند۔‘‘