ماریشس سپریم کورٹ میں سب سے بڑا مقدمہ
’’مسجد روزہل کے مقدمہ‘‘ کو تاریخ ماریشس کا سب سے بڑا مقدمہ کہا جاتا ہے کیونکہ پورے دو سال تک سپریم کورٹ نے بیانات لئے، شہادتیں سنیں اور پہلی مرتبہ یہ فیصلہ دیا کہ: ’’مسلمان الگ امت ہیں اور قادیانی الگ۔‘‘
1983یہ مقدمہ لڑنے کے لئے مسلمانوں اور قادیانیوں دونوں نے دوسرے ممالک سے مشہور وکلاء منگوائے۔ قادیانیوں سے مسجد واپس لینے کے سلسلے میں روزہل کے جن مسلمانوں نے کام کیا۔ ان میں محمود اسحاق جی، اسماعیل حسن جی، ابراہیم حسن جی قابل ذکر ہیں۔ یہ لوگ وہاں کے تجارتی حلقوں میں بڑا مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے جو مقدمہ دائر کیا اس کی بنیاد یہ تھی۔
دعویٰ
روزہل کی مسجد جہاں مسلمانوں کے حنفی (سنی) فرقہ کے لوگ نماز پڑھتے تھے۔ یہ مسجد انہوں نے تعمیر کروائی تھی اور مسلسل قابض چلے آرہے تھے۔ اس پر قادیانیوں نے قبضہ کر لیا ہے جن کا تعلق امت اسلامیہ سے نہیں ہے، قادیانی ہم مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے، ہمارے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ان کو مسجد سے باہر نکالا جائے۔چنانچہ ۲۶؍فروری ۱۹۱۹ء کو یہ مقدمہ دائر ہوا۔ قادیانیوں کے خلاف ۲۱شہادتیں پیش کی گئیں۔ ان شہادتوں میں مولانا عبداﷲ رشید نواب کی شہادت خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ آپ نے عدالت عالیہ میں نہایت جرأت وبے باکی سے قادیانیوں کو بے نقاب کیا اور سینکڑوں کتب، اخبارات، رسائل وجرائد پیش کر کے عدالت کو یہ باور کرانے کی یہ کامیاب کوشش کی کہ قادیانی اور مسلمان الگ الگ امتیں ہیں۔ مرزاغلام احمد کی کتب اور حوالے مولانا رشید نے پیش کئے۔
قادیانیوں کی طرف سے مولوی غلام محمد بی۔اے نے وکلاء کی مدد کی اور جواب دعویٰ تیار کیا۔ مولوی غلام محمد اس مقصد کے لئے خاص طور سے قادیان گیا تھا۔ مسلمانوں کے وکلاء میں مسٹر رولرڈ کے سی۔ای سویزا کے سی۔ای اسنوف اور ای نیاریک تھے۔ جب کہ قادیانیوں کا وکیل مسٹر آرپزانی تھا۔
عدالت عالیہ کی کارروائی کے دوران ہزاروں مسلمان موجود ہوتے اور ملک میں پہلی مرتبہ یہ علم ہوا کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کے بھیس میں اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔ 1984چنانچہ ۱۹؍نومبر ۱۹۲۰ء کو چیف جج سرائے ہرچیزوڈر نے یوں فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
فیصلہ
’’عدالت عالیہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مدعا علیہ (قادیانی) کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ روزہل مسجد میں اپنی پسند کے امام کے پیچھے نماز ادا کریں، اس مسجد میں صرف مدعی (مسلمان) ہی نماز ادا کر سکیں گے، اپنے اعتقادات کی روشنی میں۔‘‘اسی عدالت کے ایک دوسرے جج جناب ٹی،ای روزلی نے بھی اس فیصلہ سے اتفاق کیا۔
----------