(مجھے مانو، ورنہ ولد الحرام، مرزاقادیانی کا اعلان)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، ان کا یہ مطلب ہے کہ دھمکی دے رہے ہیں کہ ’’مجھے مان لو ورنہ ولد الحرام ہو جاؤ گے۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: یعنی سختی کی ہے۔ یہ صحیح بات ہے۔ ایک شخص صداقت کو پیش کرتا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: ’’ اور جو نہیں مانتا وہ حرامی ہے، ہو جائے گا۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: اور دوسری میں نے عرض کی تھی کہ پہلا یہ تھا کہ ’’یقبلنی‘‘ یہ مضارع کا صیغہ ہے۔ یعنی ’’مجھے قبول کرلے گا۔‘‘ یہ نہیں کہ ’’جو مجھے قبول کر چکا ہے۔‘‘ ایک یہ غلطی ہے اس ترجمے میں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’آپ کو قبول کرنے‘‘ سے کیا مراد ہے؟
مولانا ظفر احمدانصاری: جناب مضارع کا صیغہ جو ہے وہ حال کے لئے بھی آتا ہے۔ مستقبل کے لئے بھی آتا ہے۔ آپ صرف حال کی بات کہہ رہے ہیں۔
1815جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، تو یہاں مستقبل مراد ہے۔ جی ہاں، بالکل آپ نے صحیح فرمایا۔
مولاناظفراحمدانصاری: نہیں، یہاں حال مراد ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ آپ کو کیا حق ہے یہ کہنے کا کہ یہاں حال ہے؟
مولاناظفر احمد انصاری: نہیں، وہ جیسے مجھے حق نہیں ہے، آپ کو بھی حق نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ آپ، آپ صرف مستقبل کی بات بتا رہے ہیں، یہ غلط ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: میں نے تو عقل کی بات بتائی آپ کو کہ یہاں مضارع کا صیغہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: جو یہ کہتے ہیں بات وہ عقل کی ہے؟ بس۔ آپ دیکھیں ناں…
جناب عبدالمنان عمر: یہ مضارع کا صیغہ ہے اور مرزاصاحب کہتے ہیں کہ ’’ مجھے قبول کر لیںگے۔‘‘ یہ اس وقت تو چند سو آدمی تھے۔ وہ میں نے اپنی دلیل رکھی تھی آپ کے سامنے کہ یہاں مضارع یا وہ حصہ مراد ہوگا جو مستقبل سے تعلق رکھتا ہے اور اگلی بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ’’دعوتی‘‘ سے مراد جو ہے وہ اس جگہ ’’دعوت الیٰ الاسلام‘‘ ہے۔کیونکہ آپ کس طرف بلاتے تھے لوگوں کو؟ آپ کی دعوت کیا تھی؟ ’’دعوت‘‘ کے معنی ہیں بلانا لوگوں کو۔کدھر بلاتے تھے ’’میںاسلام کی طرف بلاتا ہوں، میں محمد رسو ل اﷲa کی طرف بلاتاہوں، میں قرآن کی طرف بلاتاہوں۔‘‘ تو جو شخص قرآن کی طرف نہیں آتا، جو شخص اسلام کی طرف نہیں آتا، جو محمد رسول اﷲa کی طرف نہیں آتا،ظاہر ہے وہ شخص کوئی اچھے اخلاق کا آدمی نہیں ہے۔ باقی مخالفوں میں سے، پھر میں کہوں گا’’لیس کلّا علم مناہذا…‘‘
1816جناب یحییٰ بختیار: یہ دیکھیں،دیکھیں، صاحبزادہ صاحب!…
Madam Chairman: That's all.This a question of argument. The question was…
(محترمہ چیئرمین: یہ کافی ہے۔ یہ تو بحث کا سوال ہے…)