(محدث اور ایک عالم میں کیا فرق ہے)
جناب یحییٰ بختیار: ابھی یہ آپ نے کہا تھا کہ جو محدّث ہوتا ہے اور وہ جو قرآن شریف کی تشریح اور تفسیر کرتا ہے، اُس کا کیا Status (مقام) ہے، کیا پوزیشن ہوتی ہے، ایک عام عالم کے مقابلے میں؟
جناب عبدالمنان عمر: ایک عام۔۔۔۔۔۔؟
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ عالم کے مقابلے میں؟
جناب عبدالمنان عمر: یہ جو قرآن کی تشریح کرتا ہے، ایک عالم ربانی بھی قرآن مجید کی تفسیر کرسکتا ہے، اور ایک مجدّد بھی کرسکتا ہے، اور ایک محدّث بھی کرسکتا ہے، ایک ولی اللہ بھی کرسکتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ Binding (لازمی) تو نہیں ہوتا کوئی اس میں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: کہ یہ زیادہ Binding (لازمی) ہے کم ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، جی نہیں! یہ اتنا ہی ہے جتنا کہ ایک اعلیٰ درجے کے وکیل ہوں، ان کی بات کو ہم زیادہ وقعت دیں گے۔ میرے جیسا ناقص آدمی، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: میرا سوال، جو میں نے پوچھا آپ سے کہا، پوزیشن یہ ہوتی ہے کہ اب یہ ایک وکیل ہے… یہ اسمبلی ہے، یہ قانون بناتی ہے۔ قانون پاس کردیا انہوں نے۔ اس کے بعد کوئی میرے پاس آتا ہے کہ اس قانون کا کیا مطلب ہے؟ میں اس کی تشریح کر دوں گا، تفسیر کر دوں گا۔ کوئی معنی نہیں رکھتی وہ تو۔
1693جناب عبدالمنان عمر: قانون نہیں بنے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں! اس کا مطلب نہیں بدل گیا قانون کا۔
جناب عبدلمنان عمر: جی ہاں! بالکل نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: مگر جب وہ عدالت میں جاتا ہے اور جج اس پر وہاں فیصلہ کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہے، تو مطلب جو ہے اس اسمبلی کو بھی ماننا پڑتا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اگر ان کو پسند نہیں، ان کا ارادہ یہ نہیں تھا، تو پھر اور قانون بنائیں گے۔ مگر جہاں تک جج کا وہ قول ہے، وہ Binding (لازمی) ہو جاتا ہے کہ ان الفاظ کے یہ معنی لیا۔ تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ محدث ایک تفسیر کرتا ہے کہ…
جناب عبدالمنان عمر: کوئی قرآن مجید کی آیت کے کوئی معنی کرتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں! ’’خاتم النّبیین‘‘ کا یہ مطلب ہے…
جناب عبدالمنان عمر: کوئی معنی کر دے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ پھر Binding (لازمی) ہو جاتا ہے یا نہیں ہوتا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں عرض کرتا ہوں کہ Binding (لازمی) نہیں ہوتا۔ اِس کی میں دو مثالیں عرض کروں گا۔ مولوی محمد علی صاحب مرزا کے مرید تھے۔ مرزا صاحب نے حضرت مسیح کی پیدائش کے متعلق قرآنِ مجید کی روشنی میں یہ سمجھا کہ حضرت مسیح کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی۔ نہیں، مرزا صاحب نے یہ لکھا ہے کہ: ’’مسیح کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی۔‘‘ اور قرآن مجید سے انہوں نے یہ سمجھا۔ مولانا محمد علی اُن کے مرید ہیں۔ اُنہوں نے اپنی تفسیر ۔۔۔۔۔۔۔یہاں میرے پاس موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ٹھیک ہے، میں نے دیکھا ہوا ہے۔
1694جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ اپنی تفسیر میں اُنہوں نے کہا کہ اُن کا باپ ہے۔ اب دیکھئے، وہ ان کو محدّث مانتے ہیں، ان کو مجدّد مانتے ہیں، اُن کو ولی اللہ مانتے ہیں، مگر Differ کرتے ہیں اُن کی تفسیر کے ساتھ۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ نے صبح فرمایا کہ آپ کو ایک Offer (پیشکش) ہوئی تھی کہ آپ چلے جائیں، تبلیغ کریں، کچھ پیسے بھی دے رہے تھے، مگر وہ تفسیر جو مرزا صاحب نے کی، وہ نہ کریں آپ۔ انہوں نے کہا: ’’ہم یہ نہیں مانیں گے۔‘‘ اس لئے میں پوچھ رہا ہوں کہ آپ اِس کو Binding (لازمی) سمجھتے تھے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، ہمارے نزدیک وہ جیسے آپ ایک تشریح کریں تو میرے نزدیک وہ اتنی قابلِ قدر ہوگی کہ میں کہوں گا: ’’جناب! میں اُن کی بات کو مقدم کرتا ہوں۔‘‘ اور ایک معمولی سا آدمی میرے خیال میں وکیل کہے گا: ’’نہیں جناب! یہ کوئی ضروری نہیں۔‘‘ ہمارے نزدیک مرزا صاحب کی وحی جو ہے یا مرزا صاحب کی جو تشریح ہے یا تفسیر ہے، وہ اِس رنگ میں Binding (لازمی) نہیں ہے کہ: ’’آپ اُس کے خلاف نہیں جاسکتے۔ میں نے اُس کی عملی مثال دی ہے۔ ایک اور مثال دیتا ہوں۔ یہ تو وحی نہیں ہے، میں وحی کی مثال دیتا ہوں۔ مرزا صاحب کو ایک دفعہ یہ بتایا گیا: ’’آج عید ہے۔‘‘ اِلہام ہوا کہ: ’’آج عید ہے۔‘‘ آگے کیا ہے؟ ’’چاہے کرو، چاہے نہ کرو۔‘‘ دیکھئے Binding (لازمی) نہیں رہا۔ تو کبھی بھی مرزا صاحب نے اپنی وحی کو، اپنی تفسیر کو، اپنی توضیحات کو اِس رنگ میں نہیں پیش کیا کہ وہ قرآنِ مجید کی طرح غیرمبدل ہے اور وہ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نے وہ نہیں کہا۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ وہ اتنی Binding (لازمی) بھی نہیں ہے، Binding (لازمی) بھی اِس قسم کی نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: میں، اُس کی جو تشریح کی، جو تفسیر اُن کی ہے، میں وہ کی بات کر رہا ہوں۔ کیا اُس کو آپ Hinding (لازمی) سمجھتے ہیں یا نہیں؟
1695جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔ میں نے تو دو مثالیں عرض کی ہیں کہ ہم Binding (لازمی) نہیں سمجھتے۔
جناب یحییٰ بختیار: ابھی دیکھیں ناں کہ آنحضرت (ﷺ) قرآن کی کسی آیت کا مطلب سمجھا گئے ہیں، ہمارے پاس حدیث موجود ہے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: بالکل ہم Binding (لازمی)۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ وہ Binding (لازمی) ہوجاتی ہے اگر صحیح ہو۔
جناب عبدالمنان عمر: بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: تو یہ میں کہتا ہوں کہ ایسا Status (رُتبہ) تو آپ نہیں دیتے مرزا صاحب کی اُس کو؟
جناب عبدالمنان عمر: بالکل ایسا Status (رُتبہ) نہیں مل سکتا۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھاجی، اب یہ آپ بتائیے کہ اسلام میں یہ قرآن کی تفسیر کی ہمیں اِجازت دی گئی ہے۔ آنحضرت (ﷺ) کی وفات کے بعد، اس پر ہمیں کسی ایک شخص کی تفسیر Binding (لازمی) نہیں ہوسکتی۔ میں یہ آپ سے پوائنٹ لینا چاہتا تھا۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، بالکل صحیح موقف ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اور یہ جو ربوہ والے ہیں، اُن کا کیا ہے؟ وہ Binding (لازمی) ہے یا نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں ناں جی، آپ کے اِختلافات ان سے ہیں ناں۔ اگر میں کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: بات یہ ہے کہ اُن کی اِس قدر متضاد۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ۔۔۔۔۔۔
1696جناب عبدالمنان عمر: میں وجہ ایک عرض کردوں۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ یہ نہیں کہ میں آپ کو آپس میں کوئی لڑانے کی بات کر رہا ہوں۔ ہماری کوشش یہ رہی ہے کہ ان سے بھی ہم نے کچھ سوال پوچھے۔ انہوں نے کہا کہ: ’’ہم اس بارے میں نہیں پوچھنا چاہتے۔‘‘ مگر وہ ایسی بات تھی کہ ضرورت نہیں پڑی۔ جو باتیں تھیں وہ بتاتے تھے۔ تو ہم اس واسطے پوچھتے ہیں تاکہ Differences (اِختلافات) جو ہیں وہ Clear (واضح) ہوجائیں کہ آخر یہ Diffrence (اِختلاف) کس بات کا تھا؟ ابھی آپ کہتے ہیں کہ یہ ایک مجازی طور پر نبی تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: ’’مجازی طور پر نبی‘‘ کہنے کا مطلب ہے غیرنبی تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: غیرنبی تھے۔ ’’مجازی‘‘ اس واسطے کہہ رہا ہوں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: اور بروزی سمجھیں یا کوئی سمجھیں، مگر اصلی نبی یا حقیقی نبی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؟
جناب عبدالمنان عمر: بالکل نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: آپ کا جو میں مطلب سمجھا ہوں وہ غالباً یہ ہے کہ پھر ہمارے اور اُن کے موقف میں فرق کیا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: جی ہاں۔
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں کہ کیا فرق ہے۔ پہلا فرق بڑا نمایاں فرق، جس میں دراصل ہمارا اُن لوگوں کے ساتھ بڑا بھاری اِختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کا جو بھی Status (رُتبہ) ہو، نبوّت کی جو بھی تشریح کی جائے، نبوّت کے جو بھی معنی کئے جائیں، مرزا صاحب کے اُس مقام کو نہ ماننے کی وجہ سے ہمارے نزدیک کوئی شخص 1697کافر نہیں ہوجاتا۔ مگر اُن کا نقطئہ نگاہ جو اُنہوں نے ۱۹۱۵ء اور ۱۹۱۴ء میں پیش کیا، وہ یہ تھا کہ وہ کافر ہیں۔ یہ ہمارا…
جناب یحییٰ بختیار: وہ کافر بھی تو اُس قسم کے ہیں جو۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، یہ میں نے جو موقف اُن کا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اُنہوں نے بھی یہی کہا۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، بالکل نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: جسے ’’کافر‘‘ آپ کہتے ہیں، وہ بھی سیکنڈ کیٹگری ’’گنہگار‘‘ کہتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: بالکل نہیں، میرا دعویٰ ہے کہ وہ ۱۹۱۴ئ، ۱۹۱۵ء اور ۱۹۱۷ء کی تحریرات میں مجھے ایک لفظ ایسا دِکھائیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میرے پاس موجود ہے۔ ’’کافر ہے۔ پکا کافر ہے‘‘ وہ یہ کہتے رہے ہیں۔ مگر جو ناصر احمد کا کہتے ہیں، وہ کہتے ہیں دو قسم کے ہیں۔ اُنہوں نے اور الفاظ اِستعمال کئے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، جناب! اُنہوں نے لکھا ہے کہ: ’’دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ہاں اُنہوں نے پھر اس کی تفسیر ایسے دی ہے کہ دائرۂ اسلام کے علاوہ ایک اُمت کا بھی دائرہ ہے۔ اسلام کے دائرے سے خارج مگر اُمت کے دائرے میں رہتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ کون سا دائرہ ہے؟ یہ ہماری فہم سے بالا ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہم نے پہلی دفعہ سنا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کہ اسلام کا بھی ایک دائرہ ہے، پھر ایک اُمت کا بھی دائرہ ہے۔ کم سے کم میرے دِماغ میں تو نہیں آتا۔
1698جناب یحییٰ بختیار: میں نے یہ بھی کہا، اُمت جو ہے، نہیں جی، اُنہوں نے کہا ایک ملت…
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کا دائرہ ہے، ایک اسلام کا دائرہ ہے۔ جناب! ہماری عقل میں تو نہیں آتا۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے! اُمت ہے، کہتے ہیں، وہ اُمت ہے۔۔۔۔۔۔۔