محمدی بیگم سے نکاح
مرزاصاحب کی چچازاد بہن کی ایک لڑکی تھی جس کا نام محمدی بیگم تھا۔ والد اس لڑکی کا اپنے کسی ضروری کام کے لئے مرزاصاحب کے پاس آیا۔ پہلے تو مرزاصاحب نے شخص مذکورہ کو حیلوں بہانوں سے ٹالنے کی کوشش کی۔ مگر جب وہ کسی طرح بھی نہ ٹلا اور اس کا اصرار بڑھا تو مرزا صاحب نے الہام الٰہی کا نام لے کر ایک عدد پیش گوئی کر دی کہ:
’’خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو الہام ہوا ہے کہ تمہارا یہ کام اس شرط پر ہوسکتا ہے کہ اپنی بڑی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دو۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶ ملخص، خزائن ج۵ ص ایضاً)
وہ شخص غیرت کا پتلا تھا۔ یہ بات سن کرواپس چلا گیا۔ مرزاصاحب نے بعدازاں ہر چند کوشش کی، نرمی، سختی، دھمکیاں، لالچ، غرض ہر طریقہ کو استعمال کیا، مگر وہ شخص کسی طرح بھی رام نہ ہوسکا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مرزاصاحب نے چیلنج کر دیا کہ: 1961’’میں اس پیش گوئی کو اپنے صدق وکذب کے لئے معیار قرار دیتا ہوں اور یہ خدا سے خبر پانے کے بعد کہہ رہا ہوں۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
اور فرمایا کہ:
’’ہر روک دور کرنے کے بعد اس لڑکی کو خداتعالیٰ اس عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۸)
آخرکار مرزاصاحب کی ہزار کوششوں کے باوجود محمدی بیگم کا نکاح ان سے نہ ہوسکا اور سلطان محمد نامی ایک صاحب سے اس کی شادی ہوگئی۔ اس موقع پر مرزاصاحب نے پھر پیش گوئی کی کہ:
’’نفس پیش گوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
آگے اپنا الہام ان الفاظ میں بیان کیا: ’’میں اس عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے دوں گا اور میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
اور ایک موقع پر یہ دعا کی کہ:
’’اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا، یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور سے ظاہر فرما جو خلق اﷲ پر حجت ہو… اور اگر اے خداوند! یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۶)
لیکن محمدی بیگم بدستور اپنے شوہر کے گھر میں رہی اور مرزاصاحب کے نکاح میں نہ آنا تھا۔ نہ آئی اور ’’مرزا صاحب ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ہیضہ کے مرض میں مبتلا ہوکر انتقال کر گئے۔‘‘
(حیات ناصر ص۱۴)
1962اس کے بعد کیا ہوا؟ مرزاصاحب کے منجھلے صاحبزادے مرزابشیراحمد ایم۔اے رقمطراز ہیں:
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم! بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت (مرزا) صاحب جالندھر جاکر قریباً ایک ماہ ٹھہرے تھے اور ان دنوں میں محمدی بیگم کے ایک حقیقی ماموں نے محمدی بیگم کا حضرت صاحب سے رشتہ کرا دینے کی کوشش کی تھی۔ مگر کامیاب نہیں ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب محمدی بیگم کا والد مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری زندہ تھا اور ابھی محمدی بیگم کا مرزاسلطان محمد سے رشتہ نہیں ہوا تھا۔ محمدی بیگم کا یہ ماموں جالندھر اور ہوشیار پور کے درمیان یکے (تانگے) میں آیا جایا کرتا تھا اور وہ حضرت صاحب (مرزاقادیانی) سے کچھ انعام کا بھی خواہاں تھا اور چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے یہ شخص اس معاملہ میں بدنیت تھا اور حضرت صاحب سے فقط کچھ روپیہ اڑانا چاہتا تھا۔ کیونکہ بعد میں یہی شخص اور اس کے دوسرے ساتھی اس لڑکی کے دوسری جگہ بیاہے جانے کا موجب ہوئے۔‘‘
(سیرت المہدی ج۱ ص۱۹۲،۱۹۳، روایت نمبر۱۷۹)
حالانکہ جناب مرزاصاحب خود تحریر کرتے ہیں کہ: ’’ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کتوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیش گوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے، اپنے مکر سے، اپنے فریب سے ان کے پورا ہونے کی کوشش کرے اور کراوے۔‘‘
(سراج منیر ص۲۳، خزائن ج۱۲ ص۲۷)
اور محمدی بیگم اپنے خاوند مرزاسلطان محمد کے گھر تقریباً چالیس سال بخیر وخوبی آباد رہی اور 1963اب لاہور میں اپنے جواں سال ہونہار مسلمان بیٹوں کے ہاں ۱۹؍نومبر ۱۹۶۶ء کو انتقال فرما گئیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
(ہفتہ وار الاعتصام لاہور اشاعت ۲۵؍نومبر ۱۹۶۶ئ)