سب سے پہلے اس پوسٹ کو تفصیل سے پڑھیں پھر یہ پوسٹ سمجھ میں آئے گی
یہ محض " مریداں می پرانند " والی شاعری نہیں ہے ، بلکہ یہ اشعار ، شاعر نے خود مرزا قادیانی کو سنائے اور اسے لکھ کر پیش کیے ۔ مرزا قادیانی نے اس پر جزاک اللہ کہہ کر شاعر کو داد دی اور اس قطعہ کو اپنے ساتھ گھر لے گیا ۔ چنانچہ ملعون قاضی اکمل 22 اگست 1944 ء کے الفضل میں لکھتا ہے :
’’وہ اس نظم کا ایک حصہ ہے جو حضرت مسیح موعود کے حضور میں پڑھی گئی اور خوشخط لکھے ہوئے قطعے کی صورت میں پیش کی گئی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا ، حالانکہ مولوی محمد علی (امیر جماعت احمدیہ لاہور) اور ان کے رفقاء موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے۔ باوثوق کہا جاسکتا ہے کہ سن رہے تھے۔ اگر وہ اس سے بوجوہ مرورِ زمانہ انکار کردیں تو یہ نظم’’بدر‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس وقت ’’بدر‘‘ کی پوزیشن وہی تھی بلکہ کچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ’’الفضل‘‘ کی ہے۔ مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر’’بدر‘‘ سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلفانہ تعلقات تھے۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ناراضگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود کا شرف سماعت حاصل کرنے اور جزاک اللہ تعالیٰ کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی کو حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کرکے اپنی کمزوری ایمان اور قلتِ عرفان کا ثبوت دیتا۔‘‘(’’الفضل‘‘، ۲۲؍ ا گست ۱۹۴۴ء)
یہ محض " مریداں می پرانند " والی شاعری نہیں ہے ، بلکہ یہ اشعار ، شاعر نے خود مرزا قادیانی کو سنائے اور اسے لکھ کر پیش کیے ۔ مرزا قادیانی نے اس پر جزاک اللہ کہہ کر شاعر کو داد دی اور اس قطعہ کو اپنے ساتھ گھر لے گیا ۔ چنانچہ ملعون قاضی اکمل 22 اگست 1944 ء کے الفضل میں لکھتا ہے :
’’وہ اس نظم کا ایک حصہ ہے جو حضرت مسیح موعود کے حضور میں پڑھی گئی اور خوشخط لکھے ہوئے قطعے کی صورت میں پیش کی گئی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا ، حالانکہ مولوی محمد علی (امیر جماعت احمدیہ لاہور) اور ان کے رفقاء موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے۔ باوثوق کہا جاسکتا ہے کہ سن رہے تھے۔ اگر وہ اس سے بوجوہ مرورِ زمانہ انکار کردیں تو یہ نظم’’بدر‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس وقت ’’بدر‘‘ کی پوزیشن وہی تھی بلکہ کچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ’’الفضل‘‘ کی ہے۔ مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر’’بدر‘‘ سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلفانہ تعلقات تھے۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ناراضگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود کا شرف سماعت حاصل کرنے اور جزاک اللہ تعالیٰ کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی کو حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کرکے اپنی کمزوری ایمان اور قلتِ عرفان کا ثبوت دیتا۔‘‘(’’الفضل‘‘، ۲۲؍ ا گست ۱۹۴۴ء)

آخری تدوین
: