(محمد پھر آئے ہیں ہم میں،معاذاﷲ)
جناب یحییٰ بختیار: اچھا، آپ اس کو آگے Elaborate (واضح ) کرتے ہیں؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، ہاں نہیں، Elaborate (واضح)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں ، کرلیجئے۔
مرزا ناصر احمد: Elaborate (واضح )یہ کررہے ہیں کہ جس وقت … یہ ایک تو جو نظم ہے، اس میں یہ شعر بھی موجود ہے:
’’غلام احمد مختار ہوکر
یہ رتبہ تو نے پایا ہے جہاں میں‘‘
882نبی اکرمﷺ کا غلام ہوکے ، جو بھی آپ کا مقام ہے وہ ہے۔
اسی نظم میں وہ ہے یہ شعر:
’’محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ چونکہ پوری بحث میں مرزاناصر نے عبارت نہیں پڑھی کہ یہ پوچھے جانے والی عبارت اس کتاب میں نہیں۔ تو ہمیں بھی کیسے معلوم ہو کہ کون سا حوالہ تھا جسے مرزاناصر کتاب کے چکر میں چھپا رہے ہیں۔ حوالہ کی عبارت ہوتی تو ہم اس عبارت کو مرزا کی جس کتاب میں ہوتی نکال لاتے۔ مطلق حوالہ کا انکار نہیں کیا۔ اس کتاب کے صفحات میں وہ عبارت نہیں یہ کہہ کر گول کر گئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’آگے سے بھی بڑھ کر‘‘ کا مفہوم غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے۔ انہوں نے ۱۳؍اگست ’’الفضل‘‘میں یہ مضمون لکھا کہ: ’’میرا ہرگز مطلب نہیں تھا جو میری طرف منسوب کیا جارہا ہے۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ حدیث کی رو سے امت محمدیہ میں ہر صدی کے سر پر مجدد آتے ہیں اور ان مجددین کا اپنا کچھ نہیں ہوتا اور نبی اکرمﷺ کا ہی نور جو ہے وہ ان کے وجودوں میں چمکتا ہے اور آپﷺ ہی کا ظہور ہے۔ تو میرا مطلب یہ کہنے کا تھا کہ جو اس سے قبل مجددین میں نبی اکرمﷺ کا ظہور ہوا تھا، مسیح موعود میں اس سے زیادہ ظہور ہوا۔‘‘
یہ اُنہوں نے اپنا بیان دیا۔ میں آگے ابھی ان کا … جواب ابھی نہیں ختم ہوا… انہوں نے پھر یہ لکھا ہے کہ: ’’لیکن اس سے بعض لوگوں کو غلط فہمی پیدا ہوئی اور مجھے بڑی سخت تنبیہ ہوئی اور میں نے جب اپنا کلام کتاب کی شکل میں ۱۹۱۱ء میں شائع کیا تو اس وقت لوگوں کی اس … جو میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ تم نے کیا حرکت کی ہے…‘‘
یہ ہے ان کا دیوان ۱۹۱۱ء کا، پہلی دفعہ یعنی پانچ سال کے بعد چھپا ہے: ’’…اس میں یہ شعر میں نے لوگوں کے ، جو میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے، اس کی وجہ سے نکال دیا۔ میں ان کو کہتارہا، میں قسمیں کھاتا رہا،(اسی میں ملحق ہے) کہ یہ میرا مطلب نہیں ہے۔ خدا کی قسمیں کھاکے کہتا ہوں کہ میرا مطلب یہ ہے کہ883 پہلے مجددین کے مقابلہ میں زیادہ بلند شان والا ظہور ہوا ہے۔ تم میری قسمیں … میں اوروں کو تو چھوڑتا ہوں، خود جماعت کے لوگ میری قسموں پر اعتبار نہیںکررہے اور میں قسمیں کھاکھاکے تھک گیا ہوں۔ ‘‘
اس کا تو جو شخص شاعر ہے، کہتا ہے کہ ’’میرا یہ مطلب ہے ۔‘‘ اس مطلب پر اعتراض نہیں ہوتا، کیونکہ وہ یہ کہتا ہے کہ پچھلے مجددین کی نسبت نبی اکرمﷺ کا اس صدی میں ظہور زیادہ شان والا ہے۔ مقابلہ مجددین سے ہے، آنحضرتﷺ سے نہیں۔ دوسرے یہ وہ کہتا ہے کہ مانتا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سے … وہی جو اس وقت سوال ہوا ہے… یہ غلط فہمی پیدا ہوجائے گی ، اور ’’انہوں نے مجھے شروع سے ہی تنگ کرنا شروع کردیا، اور ۱۹۱۱ء میں میں نے اپنی نظم سے یہ نکال دیا، اور ۱۹۰۶ء کے بعد کسی رسالے یا کسی اخبار یا کسی کتاب میں اپنے اس شعر کو میں نے شائع نہیں کروایا ۔‘‘ اور پھر ۳۸ سال کے بعد … سمجھے ناں… ۱۹۴۴ء میں ۱۳؍ اگست کے اخبار میں لکھتے ہیں کہ: ’’میں قسمیں کھاکھاکے تھک گیا ہوں اور تو نہیں، جماعت والے بھی میرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ میرا یہ مطلب نہیں۔‘‘
تو یہ نئے حوالے جو آئے تھے، یہ اس میں Add (اضافہ ) ہوجاتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اس پر ایک دو سوال ہیں آپ سے…
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! ایک اصول یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ یہاں کہتے ہیں، یا جو میں کہتا ہوں، یا جو اسمبلی کہتی ہے، جو قانون یہ پاس کرتی ہے، پھر ان کو یہ اختیار نہیں ہوتا… بعد میں… کہ ’’میرا مطلب کیا تھا۔‘‘ یہ پھر عدالت کو یا پھر کوئی اور ہی ادارہ ہوتا ہے۔ اکمل صاحب کے الفاظ جو انہوں نے کہے ہیں، وہ خواہ لاکھ کہیں کہ ’’میرا مطلب یہ نہیں تھا، وہ نہیں تھا‘‘ وہ جو ہے ، وہ پھر پبلک جج کرتی ہے کہ884 مطلب کیا تھا۔ ایک اصولاً میں کہہ رہا ہوں کہ Interpretation (صراحت) کا جو Right (حق )ہوتا ہے، وہ Author (مصنف) کو نہیں ہوتا۔
Mirza Nasir Ahmad: That is a legal question....
(مرزاناصر احمد: وہ ایک قانونی سوال ہے)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، میں وہی بتارہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: …ادب میں، شعروں میں نہیں-میری بات سن لیں پوری- شعر میں یہ نہیں چلتا۔ شعر میںہمارا محاورہ ہے: ’’صاحب البیت أدریٰ بما فیہ‘‘ جو کہنے والا ہے وہی مطلب بتائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ ٹھیک ہے۔ میں دوسری بات یہ کررہا تھا کہ جب سوال آپ کے سامنے آیا تھا، اس وقت یہ تھا کہ ’’قصیدہ مرزا غلام احمد صاحب کی موجودگی میں پڑھا گیا؟‘‘ آپ نے کہا: ’’نہیں‘‘
مرزا ناصر احمد: میں، میں اب بھی کہتاہوں:’’نہیں‘‘
جناب یحییٰ بختیار: پھر اس کے بعد سوال یہ آیا کہ ’’ان کی موجودگی میں یہ ’’البدر‘‘ میں چھپا؟‘‘…
مرزا ناصر احمد: ہم نے کہا:’’ہاں‘‘
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے… سبھی نے کہا:ایک نے نہیں کہا۔
مرزا ناصر احمد: اب میں کہتا ہوں’’ہاں‘‘
جناب یحییٰ بختیار: اب کہتے ہیں!
مرزا ناصر احمد: ۱۹۰۶ء میں چھپا، لیکن…
جناب یحییٰ بختیار: میں نے… آپ نے کہا کہ: ’’اگر ا885ن کو معلوم ہوتا اور ان کے سامنے ہوتا تو اس کو جماعت سے باہر نکال دیتے‘‘…
مرزا ناصر احمد: بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: چونکہ اگر… میرا سوال پورا ہونے دیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں ، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کا بھی یہ Impression (تأثر) تھا کہ بڑی غلط بات کی ہے، آپ کے خیال کے مطابق، مرزا صاحب کا بھی یہ Impression (تاثر) تھا کہ بڑی غلط بات ہے، ان کو جماعت سے نکال دیتے۔ پھر اس نے خود کہا کہ ’’نہیں جی، انہوں نے تو ’’جزاک اللہ ‘‘کہا‘‘ اور یہ ثابت ہوا۔ ان کی موجودگی میں چھپا۔ اتنا ہی سوال تھا کہ وہ بڑے خوش ہوگئے اس قصیدے کو سن کے، کہ جس میں ان کو کہا کہ ان کی شان محمدa سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ہم بتانا چاہتے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: جی، بات یہ ہے، یہ باتیں جو آپ کررہے ہیں ناں اب، یہ ’’البدر‘‘ میں بالکل نہیں چھپیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نہیں کہتا کہ یہ ’’البدر‘‘ میں چھپیں۔ میں نے اتنا ہی کہا کہ ’’البدر‘‘ میں یہ چھپا جب مرزا صاحب زندہ تھے، حیات تھے اور انہوں نے کوئی اس پر ایکشن نہیں لیا، کوئی ہمارے پاس ریکارڈ نہیں کہ انہوں نے اس کو Disapprove (ناپسند) کیا ہو۔ اس کے دوسری طرف ہمارے پاس یہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ اکمل صاحب کا قول ہے… کہ انہوں نے اس کو سراہا ’’جزاک اللہ‘‘ کہا اور خوش ہوئے۔
مرزا ناصر احمد: اور نتیجتاً ۱۹۱۱ء میں اپنی نظم میں سے نکال دیا!
جناب یحییٰ بختیار: وہ ٹھیک ہے۔ مرزا صاحب کی حیات کے بعد انہوں نے کردیا، پبلک کوبڑا غصہ آیا اس پر۔ مگر یہ Fact (حقیقت) ہے کہ مرزا صاحب نے اس کو Approve (پسند) کیا اور خوش ہوئے۔
مرزا ناصر احمد: ہماری، ہماری تاریخ میں، ہماری تاریخ نے یہ ریکارڈ ہی نہیں کیا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس نظم کو پڑھا۔
886جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا۔
مرزا ناصر احمد: یہ جو ہے ناں مُسبحِ…
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! ابھی میں اور کچھ نہیں پوچھنا چاہتا۔ ’’الفضل‘‘ آپ کا اخبار ہے۔ اس میں اکمل یہ کہتا ہے کہ ان کی موجودگی میں پڑھا اور انہوں نے اس کو پسند کیا۔ That is enough from my point of view. (میرے نقطۂ نظر سے یہ کافی ہے)
اگر ’’الفضل ‘‘میرا اخبار ہے یا جماعت اسلامی کا اخبار ہے، تب تو میں کہہ سکتا کہ ٹھیک ہے، غلط بات ہے۔
مرزا ناصر احمد: تو آپ کے اپنے اصول کے مطابق، جو آپ نے ابھی کہا ’’الفضل‘‘ میرا اخبار نہیں، ’’الفضل‘‘ خلیفہ… جماعت احمدیہ کے کسی خلیفہ کا اخبار نہیں۔