(محمد پھر اتر آئے ہم میں، پر پھر بحث)
جناب یحییٰ بختیار: اچھا مرزاصاحب!اس پر ایک اور بات مجھے یادآگئی۔ پیشتر اس کے کہ یہ مضمون ختم ہو۔ آپ نے اس دن فرمایا کہ جوقصیدہ مرزاصاحب کی تعریف میں اکمل صاحب نے لکھا783۔ میں نے کہاکہ یہ مرزاکی موجودگی میں…جو مجھے Instructions ملی تھیں اور مجھے کہاگیاتھا…کہ مرزاصاحب کی موجودگی میں سنایاگیا اور انہوںنے ’’جزاک اﷲ‘‘ کہا۔ تو آپ نے کہا’’نہیں، یہ بات غلط ہے۔ یہ اس کے سامنے کبھی نہیں سنایاگیا اوراس بات کی تردید ہو چکی ہے۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ دنیائے انصاف میں مرزاناصراحمد جیساضدی،مکار اورعیار شاید ہی کوئی ہو؟ یہ حوالہ ۳؍ جولائی ۱۹۵۲ء کا نہیں۔ نقل درنقل میں ۳؍جنوری ،۳؍جولائی ہوگیا۔ اس پر مرزاناصر چکر در چکر کاٹ کر لومڑی کی بھٹ میں گھسنے کے درپے ہے۔ مرزاناصراحمدتوحساب کتاب پر چلا گیا۔ تاہم قادیانیوں سے درخواست ہے کہ ۳؍جنوری ۱۹۵۲ء اخبارالفضل لاہور ص۳۔۴ پر ہے’’گو ہماری ہر جگہ مخالفت کی جاتی ہے لیکن ذراغور کرو……اور اپنی اکثریت کے زعم میں دوسروں سے بہ جبر اپنے مسلک کو منوانے کی کوشش کرتاہے…تم اس قسم کی باتیں انگریزوں اور ہندوؤں کے متعلق کیوں نہیں کہتے یہ محض اکثریت میں ہونے کانتیجہ ہے کہ تم ایسی باتیں کررہے ہو۔ لیکن غور کرو کیا ابوجہل کی بھی یہی دلیلیں نہیں تھیں…آخر آج جو دلیل تم دیتے ہو کیا وہی دلائل ابوجہل نہیں دیا کرتاتھا…جب محمد رسول اﷲﷺ نے مکہ فتح کیا اور اکثریت کاگھمنڈ کرنے والے لوگ آپﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو آپﷺ نے انہیں فرمایا بتاؤ اب تمہارے ساتھ کیاسلوک کیاجائے… میں بھی کہتاہوں کہ اس دن جب تمہارا اکثریت میں ہونے کاغرورٹوٹ جائے گا… تو خود اس وقت میں ہوں یا میراقائمقام تم سے بھی سلوک کیاجائے گا۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزاناصر احمد: جی، اور خود جو یہ لکھنے والے ہیں قاری اکمل صاحب…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی؟
مرزاناصر احمد: …ان کی طرف سے بھی تردید ہوجانے کے گواہ ہیں ہمارے پاس…
جناب یحییٰ بختیار: تو وہ انہوں نے تردید…
مرزاناصر احمد: …اور،اور…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،یعنی آپ نے کہاتردید ہوچکی ہے۔میں…
مرزاناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: …وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کیا ہوئی تردید؟توآپ نے کوئی نوٹ کیا ہوگا؟
مرزاناصر احمد: ہاں،ہاںٹھیک ہے۔ یہ،یہ مجھے یاد تھا کہ انہوں نے مجھے کہاتھا کہ وہ میرے پاس ہے حوالہ۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، جو توآپ نے کہاکہ …تو ان کے پاس ہوگا وہ۔ یہ ’’بدر‘‘ اخبار ہے جس میں وہ نظم چھپی ہے۔مگریہ بات جو میں نے کہی…
مرزاناصر احمد: ہاں،وہ تردید اورچیز ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں،وہ میں نے کہا،آپ نے کہاکہ تردید کی تھی کہ مرزاصاحب کی موجودگی میں یہ ہوااورمرزاصاحب…
مرزاناصر احمد: ہاں،یہ تردیدہوچکی ہے۔ یہ(اپنے وفد کے ایک رکن سے)کچھ نروس سے ہیں۔ یہ لے کے آئے ہوئے تھے۔ مجھے انہوں نے بتایاتھا کہ میں لے کے جارہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،میں نے تو…اس کے بعد مجھے پھر پوچھاگیا۔
784مرزاناصر احمد: اس کی تردید ہوئی’’الفضل‘‘۱۹؍اگست ۱۹۳۴ء میں۔
جناب یحییٰ بختیار: کس نے کی ہے؟
مرزاناصر احمد: خلیفہ ثانی نے،جو اتھارٹی تھے اپنے وقت میں۔
جناب یحییٰ بختیار: انہوں نے کہا کہ ان کی موجودگی میں نہیں ہوئی ہے؟
مرزاناصر احمد: انہوں نے کہا کہ یہ ساری ہے ہی غلط۔ انہوں نے یہ کہا: ’’اگر اس کامطلب یہ ہے کہ درجہ میں بڑے ہیں تویقینا کفر ہے۔‘‘ بڑی سخت تردید کی ہے۔ لیکن اگر مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں اشاعت دین زیادہ ہوئی تو یہ قرآن کریم کے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،مرزاصاحب!میرا سوال ہی مختلف تھا۔اسی واسطے… کیا یہ نظم مرزاصاحب کی موجودگی میں پڑھی گئی؟ آپ نے کہا’’نہیں‘‘…
مرزاناصر احمد: ہاں،ہاں،میں کہتاہوں…
جناب یحییٰ بختیار: …وہ تو دوسری بات ہو جاتی ہے کہ اس کا مطلب کیاہے۔ نظم کا۔ دیکھئے ناں جی…
مرزاناصر احمد: خلیفہ ثانی نے کہا کہ کفر ہے، جس معنی میں لیاجارہاہے ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،نہیں،میں وہ نہیں کہہ رہا۔ میراسوال…
مرزاناصر احمد: میں ویسے ہی بات کررہاہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی، وہ توٹھیک ہے۔توآپ…
مرزاناصر احمد: خلیفہ ثانی نے کہا یہ کفر ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ مطلب جو ہے،کفر ہے؟
مرزاناصر احمد: ہاں،وہی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اگر اس مطلب میں لفظی…
مرزاناصر احمد: ہاں،ہاں،یہ کفر ہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،میرا سوال یہ اورتھا۔
785مرزاناصر احمد: …اور میں یہ کہتاہوں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے سامنے یہ نظم پڑھی جاتی اور وہ اس کو سنتے تو اس شخص کو جماعت سے باہر نکال دیتے۱؎۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ فقیر راقم پہلے ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ء الفضل قادیان ج۳۲ نمبر۱۹۶ ص۴کے حوالہ سے پہلے عرض کر چکا ہے کہ ’’یہ نظم مرزا کی موجودگی میں پڑھی گئی۔مرزاخوشخط قطعہ گھر لے گیا۔ نظم سن کر ’’جزاک اﷲ‘‘کہا۔‘‘ اب مرزاناصرانکاری ہے تو سوائے قرآنی آیت ’’لعنت اﷲ علی الکاذبین‘‘ پڑھنے کے اورہم کیا کرسکتے ہیں؟دنیا میں انصاف نام کی کوئی چیز ہے تو اسے میں دہائی دیتاہوں کہ حوالہ پڑھ کر فیصلہ کریں مرزاناصرکتنا بڑاکذاب تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: تو پھر یہ انہی کی حیات میں’’البدر‘‘ میں شائع ہوا اور ان کو جماعت سے نہیں نکالاگیا۔
مرزاناصر احمد: ان کے علم میں نہیں آیاہوگا۔اب اس وقت ’’الفضل‘‘پچھلے دس سال…
جناب یحییٰ بختیار: ۱۹۰۳ میں،۱۹۰۶ء میں شائع ہوا۔ مرزاصاحب کا دو سال بعد…’’بدر‘‘ ہے۔ یہ ۲۵؍اکتوبر کے ’’البدر‘‘میں شائع ہواہے۔
مرزاناصر احمد: ’’بدر‘‘میں شامل …شائع ہواہے۔ اور ہم نے…اس کے بعد جو ’’بدر‘‘ کے سارے جو پرچے ہیں ناں،ان میں سے ہم نہیں گزرے۔اس تردید کی تلاش میں، اس کے لئے وقت چاہئے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو میں پھر آپ کی توجہ کے لئے…
یہ مجھے دکھادیجئے۔ میراخیال ہے…
(To Maulana Muhammad Zafar Ahmed Ansari) Ansari Sahib, if you don't mind, you read it, because I am tired.
(مرزاناصر سے)یہ ایک لمبامضمون ہے۔ اسی سلسلے میں ’’الفضل‘‘ میں، وہ آپ کو پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔
مرزاناصر احمد: یہ ’’الفضل‘‘ کا نمبرکیاہے؟پرچہ کون ساہے؟
ایک رکن: ’’الفضل‘‘ مورخہ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ئ۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۹۳۴ء کے بعد ۱۹۴۴ء کی بات ہے اورمیرے خیال میں اکمل صاحب کی طرف سے یہ کوئی…
مولانامحمدظفر احمدانصاری: اس میں اس کی سرخی ہے:’’کیامولوی محمد علی صاحب سراسرغلط اوربے بنیاد الزام واپس لیںگے؟ اخبار’’الفضل‘‘۱۳؍اگست ۱۹۴۴ء میں یہ وضاحت سے بتایاگیا ہے کہ جس شعر کے مفہوم کو مولوی محمدعلی صاحب نے بہ ایں الفاظ: ’’اندربیٹھ کر یہی سبق دیا جاتا تھا۔‘‘
786اوراسی کو پڑھ کر شاعر نے کہاتھا کہ ایک حضرت محمدمصطفیa دنیا میں آئے ہیں تو پہلے سے بڑھ کر شان میں آئے ہیں۔ (پیغام صلح نمبر۳۰،۲؍اگست ۱۹۴۴ئ) بگاڑ کر خلافت ثانیہ کی تعلیم وتربیت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اس نظم کا ایک حصہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضورمیں پڑھی گئی اورخوش خط لکھے ہوئے قطعہ کی صورت میں پیش کی گئی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہیں کیا…؟‘‘
مرزاناصر احمد: یہ جب پڑھ لیںگے تو کرلیںگے۔
مولانا ظفر احمد انصاری: ’’… حالانکہ…‘‘
مرزاناصر احمد: اچھا سنا دیجئے۔
مولانامحمدظفر احمدانصاری: ’’…حالانکہ مولوی محمدعلی صاحب اور اعوانہم موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتاہے، بوثوق کہا جاسکتاہے کہ سن رہے تھے۔ اگر وہ اس پر بوجہ مرورزمانہ انکار کریں تو یہ نظم’’بدر‘‘میں چھپی اورشائع ہوئی۔ اس وقت ’’بدر‘‘ کی پوزیشن وہی تھی، بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر تھی جو اس عہد میں جو ’’الفضل‘‘کی ہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر سے ان لوگوں کے محبانہ و بے تکلفانہ تعلقات تھے۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لیں اورخود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پرناراضی یا ناپسندیدگی کا اظہارکیا؟ اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شرف سماعت حاصل کرنے اور ’’جزاکم اﷲ تعالیٰ‘‘ کا صلہ پانے اور اس قطعہ کو اندرخود لے جانے کے بعد کسی کو حق ہی کیا پہنچتاتھا کہ اس پراعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان و قلت عرفان کاثبوت دیتا۔ اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت اس شعر کے وہی معنی سمجھے گئے جو ’’خطبہ الہامیہ‘‘ کی عبارت کے ہیں اورجو ’’الفضل‘‘میں مع ترجمہ شائع کئے جا چکے ہیں۔ اس کے بعد کسی غیر احمدی اخبار نے بھی کچھ نہیں لکھا اور شیخ رحمت اﷲ صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب، سید محمد حسین صاحب…‘‘
787مرزاناصر احمد: ’’خطبہ الہامیہ‘‘ کا اس میں کوئی حوالہ ہے؟صفحہ؟
مولانامحمدظفر احمدانصاری: …’’خواجہ کمال الدین صاحب، جب قادیان آتے تو حضرت مفتی صاحب کی ملاقات کے ساتھ ہی مجھ سے بھی ملتے رہتے۔بلکہ میرے کمرے میں بوجہ’’بدر‘‘ کے کاروبار کے آکر بیٹھ جاتے۔ خواجہ صاحب نے مجھے کہا کہ میں حضرت صاحب(مسیح موعود) کی نظم فارسی کو اردو کالباس پہنانا چاہتاہوں۔ آپ اس میں شریک ہوں۔ چنانچہ اسی وقت ہم نے
بدہ است چشم خود آب درختان محبت را
نظم کا ترجمہ اردو شعروں میں کیا۔ ابتدائی زمانہ تھا اور میری طبیعت بھی حاضر رہتی۔ کئی شعر فی البدیہہ ہوتے اورخواجہ صاحب احسنت و مرحبا کہہ کر لکھ لیتے۔ دیر جو ہوئی تومولوی محمد علی صاحب بھی تشریف لے آئے اورخواجہ صاحب سے شکوہ کیا کہ کام ضروری تھا اورآپ یہاں بیٹھے ہیں۔ پھر خود بھی تھوڑی دیر بیٹھ گئے؟ اس واقعہ کا ذکریہ بتانے کے لئے کیاگیا کہ گو میری ابتداء عمر تھی۔مگر یہ معزز اصحاب میرے پاس بیٹھنے اورآنے جانے سے احتراز نہیں کرتے تھے اور کچھ تکلف درمیان میں نہ تھا۔ اگر کوئی امر ناپسندیدہ ہوتا تو مجھے کہہ سکتے تھے مفتی صاحب سے کہہ کہ اس کی تردید یا کم از کم تشریح یا مجھے تنبیہہ کراسکتے تھے۔ خیر یہ تو ہوامیری نسبت،جہاں تک مجھ سے تعلق ہے۔ مگر یہ ثابت اور معلوم ہونے کے باوجود اس وقت برسرپیکار یہ لوگ تھے جو اب ’’پیغام صلح‘‘ سے متعلق ہیں اورحضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ کی عمر ۱۷ سال کی تھی۔ وہ ان پر ۳۸ سال کے بعد یہ الزام کیوں دیتے ہیں کہ آپ کی تعلیم کے نتیجے میں یہ شعر کہاگیا۔حالانکہ یہ شعر’’خطبہ الہامیہ‘‘کو پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں کہا گیا اور ان کو سنا بھی دیاگیا اور چھاپا بھی گیا۔ پس کا مولوی محمدعلی صاحب تسلیم کریںگے کہ الزام لگانے میں وہ حق بجانب نہیںہیں اورصفائی کے ساتھ اسے واپس لیںگے۔جس کے نیچے دراصل وہ خود آتے ہیں۔ یہ’’بینوا وتوجروا‘‘معمہ کوئی حدیث الا حد حل نہیں کرسکتااور نہ شیخ انعام الحق حل کرسکتے ہیں جو اسلام کے بارے788 میں اپنی عملی رائے دے کر اپنی حیثیت اوردرائت فہم واضح کر چکے ہیں اور نہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کا منصب ہے،کیونکہ وہ اس وقت طالب علم ہائی سکول کے تھے:
داستان اہل گل را بشنوید از عندلیب
زاغ و بوم آشفتہ تر گوئیند ایں افسانہ را
اکمل عفی اﷲ عنہ!
اور یہ نظم جو ہے، یہ نظم گویا یہ ہے… اب اکملؔآپ بولے…کہ:
امام اپنا عزیزو!اس زماں میں
غلام احمد ہوا دارالاماں میں
غلام احمد ہے عرش رب اکرم
مکاں اس کا ہے گویا لامکاں میں
غلام احمد رسول اﷲ ہے برحق
شرف پایا ہے نوع انس وجاں میں
غلام احمد مسیحا سے ہے افضل
بروز مصطفی ہو کر جہاں میں
غلام احمد کا خادم ہے جو دل سے
بلاشک جائے گا باغ جناں میں
تسلی دل کو ہو جاتی ہے حاصل
یہ ہے اعجاز احمد کی زباں میں
بھلا اس معجزے سے بڑھ کے کیاہو
خدا اس قوم کا مارا جہاں میں
قلم سے جو کام کر کے دکھایا
کہاں طاقت تھی یہ سیف و سناں میں
789محمد پھر اترآئے ہیں ہم میں
اورآگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکملؔ
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
غلام احمد مختار ہوکر
یہ رتبہ تو نے پایا ہے جہاں میں
تیری مدحت سرائی مجھ سے کیاہو
کہ سب کچھ لکھ دیا راز نہاں میں
خدا ہے تو، خدا تجھ سے ہے واﷲ
تیرا رتبہ نہیں آتا بیاں میں
"البدر۲۵؍ اکتوبر،۱۹۰۶۔"
مرزاناصر احمد: ہاں، پڑھ لیں اسے۔
Mr. Chairman: This file may be…This file of newspapers may be given to the witness, may be sent to him. The librarian may take this. If they can check up just now.
(جناب چیئرمین: اخبارات کی یہ فائل گواہ کو دینا لائبریرین(گواہ) کے پاس لے جائے۔ اگر وہ اسی وقت چیک کرسکتے ہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: I have to refer to some other questions from it. Sir,but the dates have been noted down.
(جناب یحییٰ بختیار: مجھے کئی دوسرے سوال کرنا ہیں جن کے بارے ۔ تاریخیں نوٹ کر رکھی ہیں)
مرزاناصر احمد: ہاں جی۔
جناب یحییٰ بختیار: Date آپ نے نوٹ کرلی ہے ناں جی اس کی؟
مرزاناصر احمد: ہاں، یہ دوبارہ پڑھ دیجئے Dates۔
میاں محمد عطاء اﷲ: یہ ’’الفضل‘‘جو ہے جس میں وہ تردید نکلی ہے یہ صحیح ہے۔
مرزاناصر احمد: ہاں ،ہاں۔
میاں محمد عطاء اﷲ: وہ ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ئ۔
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں،۱۹۴۴ئ۔
790میاں محمد عطاء اﷲ: اور جو نظم چھپی ہے وہ ’’البدر‘‘ کے اندر اور اس کی تاریخ ہے ۲۵؍ اکتوبر،۱۹۰۶ئ۔
مرزاناصر احمد: ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ۔
میاں محمد عطاء اﷲ: ہمارے پاس دونوں اصل موجود ہیں۔
مرزاناصر احمد: جی۔
میاں محمد عطاء اﷲ: آپ دیکھ لیں ان کو۔
مرزاناصر احمد: ہاں جی۔
Mr. Chairman: It may be given to the witness. And if he can say that.
(جناب چیئرمین: گواہ کو دے دیں۔ اگر وہ جواب دے سکے)
Mr. Yahya Bakhtiar: No, they have got their own records. I have to refer to some other passages from this.
(جناب یحییٰ بختیار: ان کے پاس اپنا ریکارڈ ہے۔ مجھے کئی اور حصوں کا حوالہ دینا ہے)
Mr. Chairman: I see. (جناب چیئرمین: میں سمجھ گیا)
Mr. Yahya Bakhtiar: But if they do not have it,and if they do not have the records,then,naturally…
(جناب یحییٰ بختیار: لیکن اگر ان کے پاس اپنا ریکارڈ نہ ہو تو پھر…)
جناب چیئرمین: ہاں!
Mr. Yahya Bakhtiar: نہیںno,if they do not have it…
(جناب یحییٰ بختیار: (مرزاناصر احمد سے) نہیں! اگر آپ کے پاس یہ نہ ہو…)
مرزاناصر احمد: نہیں، ہمارے پاس نہیں ہے یہ۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے پاس ۱۹۴۴ء کا ’’الفضل‘‘ نہیں ہوگا؟
مرزاناصر احمد: نہیں اور یہ ’’بدر‘‘بھی نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’بدر‘‘ میں توصرف نظم چھپی ہے۔ وہ تویہ آپ کو دکھا دیتے ہیں۔
مرزاناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
Mr. Chairman: It may be shown to the witness, in original. It may be shown to the witness. Why not? Is it not shown?
(جناب چیئرمین: گواہ کو دکھادیں۔کیوں گواہ کو نہیں دکھادیتے۔ ابھی(گواہ) کودیں)
791جناب یحییٰ بختیار: آپ دیکھ لیجئے۔
Mr. Chairman: Just it may be sent to the witness. The other may be also sent.
(جناب چیئرمین: ابھی صرف گواہ کو دے دیں)
میاں عطاء اﷲصاحب ان کو چھوڑ دیں ناں۔حکم دین کو دے دیں تو یہ پہنچ جائے گی۔
مرزاناصر احمد: یہ اخبار’’بدر‘‘ میں جس میں یہ نظم چھپی ہے۔ اس میں یہ نوٹ نہیں ہے یہاں…
Mr. Chairman: No.
مرزاناصر احمد: …صرف نظم ہے یہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: میں نے عرض کی …
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: …مرزاصاحب حیات تھے،۱۹۰۶ء میں،جب یہ چھپی۔
مرزاناصر احمد: ہاں۔ ویسے اس میں نوٹ نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،کچھ بھی نہیں ہے۔
مرزاناصر احمد: اس میں نوٹ یہ نہیں ہے…
جناب یحییٰ بختیار: مگر وہ Writer جو ہے…
مرزاناصر احمد: …وہ ۱۹۴۴ء کا؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزاناصر احمد: اس میں یہ ہے کہ وہ پڑھ کے سنے گئے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ، وہ مولوی محمدعلی صاحب نے کچھ اعتراض کیاتھا…
مرزاناصر احمد: ہاں،ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: …کچھ مرزاصاحب نے کچھ کہاتھا۔ کچھ مرزاصاحب بشیر الدین صاحب نے،تو پھر مولوی محمدعلی صاحب نے…
Mr. Chairman: No, the first question would be that the witness,after having seen''Badr"1906,will give his opinion whether it is correct or not.
(جناب چیئرمین: نہیں! پہلا سوال یہ ہے کہ گواہ ۱۹۰۶ء کے ’’البدر‘‘ کو دیکھنے کے بعد بتائیں کہ کیا یہ صحیح ہے؟)
792Mr. Yahya Bakhtiar: He has said that there is not note by the writer.
(جناب یحییٰ بختیار: اس (گواہ) نے کہا کہ اس میں کوئی نوٹ نہیں ہے)
Mr. Chairman: But it is correctly recorded?
جناب یحییٰ بختیار: ہاں!
Mr. Chairman: So, this note will come. And then that dated 1944 or 46. This the witness has replied that he will tell tomorrow.
(جناب چیئرمین: لیکن یہ اس طور پر لکھا ہوا ہے۔ چنانچہ یہ نوٹ ریکارڈ پر آئے گا اور پھر ۱۹۴۴ئ، ۱۹۴۶ء والا گواہ نے کہا کہ وہ کل جواب دے گا)
Mr. Yahya Bakhtiar: Then, he will....
Mr. Chairman: So far as 1906 is concerned, it is on the record that it was correctly recorded.
(جناب چیئرمین: جہاں تک ۱۹۰۶ء کا حوالہ ہے۔ (البدر کی نظم کا) یہ صحیح ریکارڈ ہوا ہے)
Mr. Chairman: No, no, explanation can come.
(جناب چیئرمین: کسی وضاحت کی ضرورت نہیں)
جناب یحییٰ بختیار: چیئرمین صاحب صحیح کہہ رہے ہیں۔
مرزاناصر احمد: جی ہاں، وہ تودیکھ لیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، آپ نے دیکھ لیا، تسلی کرلی اورآپ نے یہ فرمایا کہ جہاں تک ’’بدر‘‘ کا تعلق ہے، اس میں کوئی اس قسم کا نوٹ نہیں…
مرزاناصر احمد: ہاں،ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: …جو یہ کہے۔سوائے اس کے نظم چھپی ہے۔مگر یہ نوٹ نہیں کہ یہ مرزا صاحب کی موجودگی میں پڑھی گئی یا انہوں نے ’’جزاک اﷲ‘‘ کہا۔ کچھ ایسی بات نہیں ہے۔ باقی جو ہے۔ وہ آپ نے دیکھ لیا کہ وہ Controversy کو تفصیل سے بیان کر رہے ہیں…
Mr. Chairman: Yes.
جناب یحییٰ بختیار: اس کا جواب آپ کل دیںگے۔
Mr. Chairman: No, there are two points: one is publication of the poem in the 'Al- Badr'....
(جناب چیئرمین: دو باتیں ہیں۔ ایک نظم کی البدر میں شائع ہونے کے متعلق…)
793Mr. Yahya Bakhtiar: Those are not denied, Sir.
(جناب یحییٰ بختیار: اس سے انکار نہیں کیاگیا)
Mr. Chairman: That's not denied.
(جناب چیئرمین: ان سے انکار نہیں کیاگیا ہے۔ (مداخلت)
Mr. Yahya Bakhtiar: That's not denied.
(جناب یحییٰ بختیار: کیا ان کا اقرار نہیں کیاگیا؟)
Mr. Chairman: That is admitted.
(جناب چیئرمین: اس کا اقرار کیاگیا ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: They say that in the publication of Al- Badar....
(جناب یحییٰ بختیار: البدر کی اشاعت میں نظم بغیر کسی نوٹ کے شائع ہوئی…)
Mr. Chairman: Yes. (جناب چیئرمین: جی ہاں!)
Mr. Yahya Bakhtiar: ... The poem, is given without any comments or note.
Mr. Chairman: Without any comments.
Mr. Yahya Bakhtiar: And so far as the other is concerned....
Mr. Chairman: Yes.
Mr. Yahya Bakhtiar: .... They have seen it; they will give the reply tomorrow.
Mr. Chairman: Yes.
The Delegation is permitted to withdraw.
(جناب چیئرمین: وفد کو اجازت دے دی جائے)
جناب یحییٰ بختیار: وہ توآگیا ناں جی،قاضی اکمل کا بیان ہے جو اس…
مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی: اٹارنی جنرل صاحب کے توسط سے ایک بات عرض کرنی تھی۔ وہ یہ کہ ڈیلیگیشن نے آج بعض فتاویٰ کا ذکر کیاہے، Witness نے۔ تو وہ اوریجنل فتاویٰ…(مداخلت)دیکھئے ناں،ہم تمام اوریجنل بکس ان کو سپلائی کرتے ہیں تو وہ اوریجنل فتاویٰ…
Mr. Chairman: That we will discuss just afterwards.
794مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی: ان سے اوریجنل فتاویٰ طلب کئے جائیں۔
Mr. Chairman: That we will discuss.
مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی: انہوں نے کہا کہ اہل حدیث نے جو فتاویٰ دیئے ہیں…
Mr. Chairman: Just afterwards.
مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی: ان سے اوریجنل مانگے جائیں تاکہ وہ داخل کریں۔
جناب یحییٰ بختیار: میں پوچھ لیتاہوں،مولانا!میں پوچھ لیتاہوں۔
مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی: بغیر اوریجنل کے ان کا بیان مکمل نہیں ہوناچاہئے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،مولانا!میں پوچھ رہاہوں۔ مجھے مولانا نے پہلے ہی کہا تھا۔
مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی: جب ہم اوریجنل داخل کرتے ہیں…
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے،ٹھیک ہے۔
مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی: …وہ کیوں نہیں داخل کرتے ہیں؟
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، وہ پوچھ رہے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے مجھے کہا اور میں بھول گیا۔ وہ میں نے مرزا صاحب سے عرض کرنی تھی۔
(مرزا ناصر احمدسے) جو فتاویٰ کاذکرکیا آپ نے صبح کی نشست میں…
مرزاناصر احمد: جی، جی۔
جناب یحییٰ بختیار: …جب آج صبح کی نشست میں، یہ جو بریک سے پہلے کی نشست تھی۔آپ نے جوذکر کیا کہ یہ فتاویٰ بریلویوں،وہابیوں نے دیئے ہیں…
مرزاناصر احمد: ہاں، اس زمانے میں دیئے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو وہ جو کتابیں ہیں…اوریجنل سے ان کا یہ مطلب نہیں کہ جو انہوں نے پہلے لکھا تھا…جو کتابیں ہیں وہ آپ ذرا دکھادیں ان کو، جہاں سے آئی ہیں۔
مرزاناصر احمد: ٹھیک ہے۔
795جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزاناصر احمد: ٹھیک ہے۔وہ کل پیش کر دیںگے۔ یہاں رکھ دیںگے۔
جناب چیئرمین: کل آجائیں گی کتابیں۔
The witnes has promised to bring the books tomorrow…the original books.
مرزاناصر احمد: ہاں، اوریجنل بکس، وہ لائبریری میں دے دیںگے۔
Mr. Chairman: The Delegation is permitted to withdraw, tomorrow at 10: 00 a.m. دس بجے صبح جی!
(The delegation left the Chamber)
(وفد چلا گیا)
Mr. Chairman: Honourable members may kindly keeps sitting. (جناب چیئرمین: معزز اراکین!تشریف رکھیں براہ کرم)
نہیں،ہاں بندکردیںجی۔
مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی: ان کو تو چونکہ جانے سے پہلے بتاناتھا کہ وہ لے کے آئیں گے واپس۔
جناب چیئرمین: نہیں،نہیں۔
----------