(مختصر سوانح مرزاقادیانی)
آپ ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۱؎۔ آپ کے والد صاحب کا نام مرزاغلام مرتضیٰ صاحب تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چند استادوں کے ذریعہ سے گھر پر ہی ہوئی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ مرزاناصر احمد کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی پیدائش ۱۹۳۵ء میں ہوئی۔ حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ عمر مرزا پر مستقل رسالہ ہے مولانا حبیب اﷲ امرتسری کا، وہ دیکھا جائے۔ جو احتساب قادیانیت کی جلد نمبر۳ ص۱۴۸سے۱۶۸ پر موجود ہے۔ مرزاقادیانی نے خود لکھا ہے: ۱…’’میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۴۶، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷ حاشیہ) ۲…’’میری عمر چونتیس پینتیس برس کی تھی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۵۹ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۹۲ حاشیہ)۳…’’مرزا کے والد کا انتقال ۱۸۷۴ء میں ہوا۔‘‘ (نزول المسیح ص۱۶، خزائن ج۱۸ ص۴۹۴،۴۹۵) پس ۱۸۷۴ء میں مرزا کی عمر چونتیس پینتیس سال تھی تو ان کی پیدائش وہی ۱۸۳۹ئ،۱۸۴۰ء بنتی ہے۔ اس پر مرزا اور مرزائیوں کے پچاس سے زائد حوالے موجود ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کی پیدائش ۱۸۳۹ئ، ۱۸۴۰ء میں ہوئی۔ مرزا کے مرنے تک ہر قادیانی یہی کہتا اور لکھتا رہا کہ مرزاقادیانی کی پیدائش ۱۸۳۹ئ، ۱۸۴۰ء میں ہوئی۔ ایک بھی پوری قادیانیت کی تاریخ میں مرزا کی زندگی کا حوالہ نہیں جس سے ثابت ہو کہ مرزا کی پیدائش ۱۸۳۵ء میں ہوئی۔ لیکن جونہی مرزا آنجہانی ہوا قادیانیوں نے جھوٹ پر ایکا کر کے جھوٹ کی دیوار تعمیر کر کے کہنا شروع کیا کہ ۱۸۳۵ء میں مرزا کی پیدائش ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے پیشگوئی کی تھی کہ: ’’میری عمر ۷۴سے۸۰ کے درمیان ہوگی۔‘‘ لیکن پیدائش ۱۸۳۹ء میں ہوئی اور مرزا کی وفات ۱۹۰۸ء میں تو مرزا کی عمر ۶۹سال بنتی ہے۔ مرزا کے مرنے کے بعد مرزا کی پیش گوئی کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے پوری قادیانیت نے جھوٹ پر اجماع کر لیا کہ مرزا ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا تاکہ کسی طرح اس کی اصل عمر ۷۴سال ہو جائے۔ فلعنۃ اﷲ علیٰ الکاذبین! مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ میں ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا۔ آج پوتا مرزاناصر کہتا ہے کہ نہیں آپ ۱۸۳۵ء میں پیداہوئے تھے۔ یہ ایک نیا عجوبہ ہے کہ نہ؟۔پھر ہم نے بارہا مناظروں میں چیلنج کیا کہ مرزا کی زندگی کے پورے قادیانی لٹریچر سے ایک حوالہ دکھا دو کہ مرزا یا کسی مرزائی نے لکھا ہو کہ مرزا ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا۔ آج تک تمام قادیانی مل کر بھی نہیں دیکھا سکے نہ قیامت تک دکھا سکتے ہیں۔ مرزا کے مرنے کے بعد اس ۱۸۳۹ء کو ۱۸۳۵ء بنانا پوری قادیانیت کے چہرہ پر جھوٹ کی سیاہی کی پالش کے لئے کافی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزاناصر احمد: آپ کے اساتذہ کے نام فضل الٰہی، فضل احمد اور گل محمد تھے۔ جن سے آپ نے فارسی، عربی اور دینیات، فقہ وغیرہ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور علم طب اپنے والد صاحب سے پڑھا۔ آپ شروع سے ہی اسلام کا درد رکھتے تھے اور دنیا سے کنارہ کش تھے۔ آپ کا ایک شعر ہے:
دگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستان محمدؐ
آپ نے عیسائیوں اور آریوں کے ساتھ ۱۸۷۶ء کے قریب اسلام کی طرف سے مناظرے اور مباحثے بھی کئے اور ۱۸۸۴ء میں اپنی شہرہ آفاق کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت کی۔ جو قرآن806 کریم کی آنحضرتa اور اسلام کی تائید میں ایک بے نظیر کتاب پائی گئی ہے۔ ۱۸۸۹ء میں آپ نے باذن الٰہی سلسلہ بیعت کا آغاز کیا۔ ۱۸۸۹ء اور ۱۸۹۱ء میں خداتعالیٰ سے الہام پاکر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ آپ کی تمام عمر اسلام کی خدمت میں گزری اور آپ نے ۸۰کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں جو عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ہیں اور ان تینوں زبانوں میں آپ کا منظوم کلام بھی ملتا ہے۔ آپ کا اور آپ کی جماعت کا واحد مقصد دنیا میں اسلام کی اشاعت وتبلیغ تھا اور ہے ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کی وفات ہوئی اور ملک کے اخباروں اور رسالوں نے آپ کی اسلامی خدمات کا پرزور الفاظ میں اعتراف کیا۔ آپ کی وفات کے وقت آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور اس وقت آپ کے خاندان کے افراد کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔ یہ مختصر سا بنایا ہے۔ اس کو تو ریکارڈ کرانا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، یہ ریکارڈ پر آجائے گا۔
(Pause)
مرزاناصر احمد: ایک کل یا پرسوں شام غالباً کل ہی تھا جب ابوالعطاء صاحب کی کتاب کے حوالے پر بات ہورہی تھی کہ خاتم النّبیین کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں۔ اس وقت آپ نے فرمایا تھا کہ یہ کتاب جو لکھی گئی ہے وہ مکرم سید ابوالاعلی مودودی صاحب کے قادیانی مسئلہ کا جواب ہے اور یہ کہ اس میں کوئی ایسا مضمون نہیں جس کا جواب یہ سمجھا جائے تو…
جناب یحییٰ بختیار: میں ایک غلط فہمی دور کر دوں یہ قادیانی مسئلے کا جواب نہیں۔ ختم نبوت کتابچے کا جواب ہے۔ دو علیحدہ علیحدہ کتابیں ہیں۔