مدراس ہائیکورٹ وغیرہ کے فیصلے کا جواب
مرزائیوں کی طرف سے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ بڑے زور وشور سے دیا جاتا ہے۔ فاضل جج نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:
’’مدعا علیہ کی طرف سے اپنے حق میں چند نظائر قانونی کا بھی حوالہ دیاگیا تھا۔ ان میں سے پٹنہ اور پنجاب ہائیکورٹ کے فیصلہ جات کو عدالت عالیہ چیف کورٹ نے پہلے واقعات مقدمہ ہذا پر حاوی نہیں سمجھا اور مدراس ہائیکورٹ کے فیصلے کو عدالت معلّٰے اجلاس خاص نے قابل پیروی 1979قرار نہیں دیا۔ باقی رہا عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور کا فیصلہ بمقدمہ مسمات جندوڈی بنام کریم بخش اس کی کیفیت یہ ہے کہ یہ فیصلہ جناب مہتہ اودھو داس صاحب جج چیف کورٹ کے اجلاس سے صادر ہوا تھا اور اس مقدمے کا صاحب موصوف نے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ پر ہی انحصار رکھتے ہوئے فیصلہ فرمایا تھا اور خود ان اختلافی مسائل پر جو فیصلہ مذکور میں درج تھے کوئی محاکمہ نہیں فرمایا تھا۔ مقدمہ چونکہ بہت عرصہ سے دائر تھا اس لئے صاحب موصوف نے اسے زیادہ عرصہ معرض تعویق میں رکھنا پسند نہ فرما کر باتباع فیصلہ مذکور اسے طے فرمادیا۔ دربار معلّٰے نے چونکہ اس فیصلہ کو قابل پابندی قرار نہیں دیا۔ جس فیصلہ کی بناء پر کہ وہ فیصلہ صادر ہوا، اس لئے فیصلہ زیربحث بھی قابل پابندی نہیں رہتا۔‘‘
فریقین میں سے مختار مدعیہ حاضر ہے اسے حکم سنایا گیا۔ مدعا علیہ کارروائی مقدمہ ہذا ختم ہونے کے بعد جب کہ مقدمہ زیرغور تھا فوت ہوگیا ہے۔ اس کے خلاف یہ حکم زیر آرڈر ۲۲رول ۶ ضابطہ دیوانی تصور ہوگا۔ پرچہ ڈگری مرتب کیا جاوے اور مثل داخل دفتر ہو۔
مورخہ ۷؍فروری ۱۹۳۵ء بمطابق ۳؍ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ
بمقام بہاول پور
دستخط: محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول نگر
ریاست بہاول پور (بحروف انگریزی)
----------