(مدعی مسلمان، حقیقی مسلمان؟)
جناب یحییٰ بختیار: ایک تو جہاں وہ مرزاصاحب کہتے ہیں کہ مسلمان… جیسے میں نے کل کہا اور ایک دو حوالے دئیے… جہاں وہ مسلمان کہتے ہیں تو اس سے مطلب کیا ہے؟ اور پھر یہاں ’’کہیں کہیں بطور ازالہ کے غیراحمدی کے متعلق ایسے الفاظ بھی لکھ دئیے ہیں کہ وہ لوگ جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں تاجہاں کہیں بھی مسلمان کا لفظ ہو اس سے مدعی اسلام سمجھا جاوے نہ کہ حقیقی مسلمان۔‘‘
تو میں سوال یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ جب مرزاصاحب یا آپ کی جماعت کے رہنما جو مسلمانوںکا ذکر کرتے ہیں اور اس سوال پر چونکہ اس مضمون پر کافی سوال میرے پاس آچکے ہیں۔ اس لئے میں چاہتا تھا کہ اس کی پوری وضاحت ہو جائے جیسے ابھی لندن کا ریزولیوشن ہے۔ انگلینڈ میں جو مسلمان ہیں ان کو کہا Non- Ahmade Pakistanies (غیراحمدی پاکستانی) اور اپنے کو کہا احمدی مسلمان، میں ریزولیوشن کی بات کر رہا ہوں۔ ریزولیوشن غلط ہو اور بات ہے جو آیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے جو Impression (تأثر) پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ کہتے ہیں: ’’مسلمان ایسے کر رہے ہیں۔‘‘ تو جب اپنی طرف آپ کا مطلب ہوتا ہے احمدیوں کی طرف تو حقیقی مسلمان مطلب ہوتا ہے باقیوں کے متعلق آپ کا مطلب ہوتا ہے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ Pretenders (حیلہ ساز) یہ وہ کفر والی بات نہیں آتی یہاں اس میں کہ کتنی ڈگری کا کافر ہے یا اس دائرے میں ہے یہ بالکل یعنی یہ Impression (تأثر) ہے کہ جو غیراحمدی ہیں وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اصل میں مسلمان نہیں تو یہ آپ ذرا Clarify (واضح) کر دیں۔
820مرزاناصر احمد: جو میں سمجھتا ہوں سوال وہ یہ ہے کہ یہاں بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک گروہ کو حقیقی مسلمان کہا اور دوسرے گروہ کے متعلق کہا کہ میرے نزدیک وہ مسلمان تو ہیں لیکن حقیقی مسلمان نہیں تو یہ کیا فرق ہے؟ اس کا جواب محضرنامے میں آچکا ہے۔ لیکن چونکہ سوال دوہرایا گیا ہے اس لئے میں اس کا جواب دوہرانا چاہتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے حقیقی مسلمان جو کہا اس کی تعریف کیا ہے؟ یہ محضرنامے کے ص۲۳ پر یہ تحریر ہے: ’’ہمارے نزدیک یہ فتاویٰ سارے جو اس کے تھے ظاہر پر مبنی ہیں۱؎ اور فی ذاتہا ان کو جنت کا پروانہ یا جہنم کا وارنٹ قرار نہیں دیا جاسکتا جہاں تک…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ صفحہ ۲۶۲ کہا آپ نے؟
مرزاناصر احمد: یہ صفحہ ۲۳ محضرنامے کا اس میں ایک اقتباس بانی سلسلہ کا جس سے پتہ لگتا ہے آپ کے نزدیک حقیقی مسلمان سے کیا مراد ہے۔ جہاں تک حقیقت اسلام کا تعلق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں ہم حقیقی مسلمان… جو یہاں لفظ استعمال ہوا ہے… حقیقی مسلمان کی تعریف درج کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک حقیقی مسلمان کی تعریف یہ ہے۔
’’اصلاحی معنی اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی یہ کہ ’’بلیٰ من اسلم وجہہ ﷲ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ ولا خوف علیہم ولاہم یحزنون‘‘ یعنی مسلمان وہ ہے جو خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے، یعنی اپنے وجود کو اﷲتعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خداتعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کو تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگادیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خداتعالیٰ کا ہو جاوے اعتقادی طور پرا س طرح سے ا820پنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خداتعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصتاً ﷲ حقیقی نیکیاں جوہر ایک قوت سے متعلق اور ہر ایک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجالاوے۔ مگر ایسے ذوق وشوق وحضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہاہے اب آیات ممدوحہ بالا پر ایک نظر غور ڈالنے سے ہر ایک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہوسکتی ہے کہ جب اس کا وجود مع اپنے تمام باطنی وظاہری قویٰ کے محض خداتعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اس معطی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ ایک اخبار کے متعلق کہا کہ وہ جوانوں کا اعلان تھا۔ ٭…دوسرے اخبار کے متعلق کہا کہ وہ ایڈیٹر کی بات تھی۔ ٭…اب مرزاقادیانی کے الہام کے بارہ میں کہتے کہ وہ ظاہر پر مبنی تھا۔ ٭…گویا حقیقت پر مبنی نہ تھا۔ قادیانی حضرات مرزاناصر احمد کی اس وقت کی قلبی کیفیت کا اندازہ لگائیں کہ کیا درگت بن رہی ہوگی۔ مجھے تو اب اس کو پڑھ کر ترس آرہا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کاملہ کی ساری شکل دکھائی جاوے۔ یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حلم اور اس کا علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور اس کا سرور اور جو کچھ اس کے سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک بااعتبار ظاہر وباطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیات اور اس کے دل سے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خداتعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں۔ غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا ہوگیا ہے اور تمام اعضاء اور قویٰ الٰہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا جوارح الحق ہیں اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ822 بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہورہی ہے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے دو پر قسم ہے ایک یہ کہ خداتعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جائے اور اس عبادت اور محبت اور خوف ورجا میں کوئی شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے اداب احکام اور اوامر اور حدود اور آسمان فضا وقدر کے امور یہ دل وجان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدروں کو باراوت کام سرپر اٹھالیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اس کی ملکوت اور سلطنت کے علوئے مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء کو پہچاننے کے لئے ایک قوی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں۔ دوسری قسم اﷲتعالیٰ کی راہ میں…‘‘
مولانا غلام غوث ہزاروی: جناب صدر صاحب یہ محضر نامے میں تین صفحے ہم پڑھ چکے ہیں۔ یہ تین صفحے سنانا تو بہت وقت لگے گا یہ محضر نامہ میں ہم پڑھ چکے ہیں۔ اسلام کی تعریف مرزاصاحب نے اپنا تقدس ظاہر کرنے کے لئے…
جناب چیئرمین: یہ محضر نامے میں ہے۔
اراکین: جی ہاں۔
Mr. Chairman: Then it need not be repeated. It can be referred page so and so of Mahzar- Nama yes, it need not be repeated.
(جناب چیئرمین: دہرائیے مت۔ صرف محضرنامہ کا حوالہ کافی ہوگا)
(Interruptions)
جناب یحییٰ بختیار: اگر آپ Emphasize کرنا چاہتے ہیں۔
823مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں میں نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف ایک بات کی وضاحت چاہتا ہوں۔ ممکن ہے میں نے غلط سمجھا ہو میں اپنے آپ کی تصحیح کروانا چاہتا ہوں۔ پہلے دن یہ تسلیم کیاگیا تھا کہ اگر سوال دہرایا جائے گا تو جواب بھی دوہرایا جائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں…
مرزاناصر احمد: تو چونکہ سوال دہرایا گیا ہے حقیقی مسلمان کے متعلق…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں سوال تو ابھی تک نہیں دہرایا گیا یہ تو ایک Reference (حوالہ) ہے مرزابشیرا حمد صاحب کا…
مرزاناصر احمد: اور اس سے پوچھا گیا کہ حقیقی…
جناب یحییٰ بختیار: اور اس میں ایک لفظ حقیقی آگیا تھا۔
مرزاناصر احمد: ہاں، حقیقی مسلمان کون ہے اور دوسرا کون ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ محضر نامے میں آپ تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔
مرزاناصر احمد: تو حقیقی اسلام کے متعلق میں نے یہ سنائی ہے بات، ویسے میں آگے چھوڑ دیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں اگر آپ سمجھتے ہیںکہ بہت ضروری ہے۔ ریکارڈ پر آچکا ہے اس واسطے…
مرزاناصر احمد: الیٰ آخر یعنی اس کو آخر تک پڑھ لیا جائے تو بتامیں یہ رہا تھا… جو کچھ سن لیا اس سے بات واضح ہو جاتی ہے۔ (Pause)
جہاں سے یہ سوال جس پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ مدعی اسلام اور حقیقی مسلمان میں کیا فرق ہے؟ یہی سوال بنا تھا تو میں نے بتایا کہ آپ کے نزدیک حقیقی یہ شخص… جس اقتباس کے دو ایک صفحے میں نے پڑھے ہیں اور کچھ رہ گئے ہیں۔ لیکن جو مطلب ہے وہ واضح ہو جاتا ہے اس لئے میں824 نے وقت بچانے کے لئے چھوڑ دیا تو حقیقی مسلمان سے وہ مراد ہے اور جو ویسا نہیں وہ مدعی اسلام ہے اور یہاں سے وہ مفہوم نہیں نکلتا ایک جو قابل اعتراض ہو۔ یہ فیصلہ ہم پہلے کافی تبادلہ خیال کے بعد کر چکے ہیں کہ وہ گروہ ہے مسلمانوں کا جو انتہائی طور پر مخلص اور خدا کے مقرب ہیں اور ایک وہ ہے جو ان کے حدود سے نکلنے کے بعد جو وہ حد اسلام سے ہی خارج کر دیتی ہے اس کے درمیان ہزاروں قسم کے نیم مخلص، درمیانے درجے کے اور ادنیٰ درجے کے ہیں وہ بات واضح ہو چکی ہے وہی یہاں…
جناب یحییٰ بختیار: میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک بیچارہ سادہ پٹھان تھا میری طرح میں بھی پٹھان ہوں ایک مولوی سے اس نے پوچھا کہ مولوی صاحب جنت میں جانے کا طریقہ کیا ہے؟ اس نے پہلے تو کہا کہ بھئی نماز پڑھو، روزے رکھو، حج جاؤ۔ یہ سب باتیں ہیں اﷲ اور رسول پر ایمان لاؤ تو اس نے کہا اگر یہ سب کچھ ہو گیا تو میں جنت میں پہنچ جاؤں گا؟ کہتے ہیں نہیں پل صراط ہوگا، تلوار سے تیز، بال سے باریک تو اس نے کہا کہ پھر صاف بات کیوں نہیں کہتے کہ کوئی راستہ ہی نہیں جانے کا، تو آپ سے یہ عرض کروں گا…
مرزاناصر احمد: نہ میں یہ نہیں کہتا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں۔ میں ملاّ اور پٹھان کی بات کرتا ہوں آپ نے حقیقی مسلمان کی Definition (تعریف) کی ہے۔ اس کے مطابق آپ کو کتنے مسلمان اس دنیا میں نظر آئے ہیں؟
مرزاناصر احمد: میں نے جو حقیقی مسلمان کی تعریف بتائی ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں میں یہ نہیں کہتا…
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں میرا جواب سن لیں اس سے میں نے یہ نتیجہ نہیں نکالا کہ جو اس قسم کے مسلمان نہیں وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں میں اس کی بات نہیں کر رہا…
مرزاناصر احمد: میں سمجھا نہیں۔