مرزائی مذہب میں اقوال سلف کی حقیقت
دوسری بات یہ ہے کہ مرزائی صاحبان کو تو اپنے مذہب کے مطابق کسی بھی درجے میں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان بزرگوں کے اقوال سے استدلال کریں۔ کیونکہ کتنے ہی معاملات ایسے ہیں جن میں انہوں نے اجماع امت کو بھی درست قرار نہیں دیا۔ بلکہ اسے حجت شرعیہ ماننے سے ہی انکار کیا ہے۔ چنانچہ عقیدۂ نزول مسیح علیہ السلام کی تردید کرتے ہوئے مرزاغلام احمد صاحب لکھتے ہیں: ’’جب کہ پیش گوئیوں کے سمجھنے کے بارے میں خود انبیاء سے امکان غلطی ہے تو پھر امت کا کورانہ اتفاق یا اجماع کیا چیز ہے؟‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۱، خزائن ج۳ ص۱۷۲)
اور آگے لکھتے ہیں: ’’میں پھر دوبارہ کہتا ہوں کہ اس بارے میں عام خیال مسلمانوں کا، گو ان میں اولیاء بھی داخل ہوں، اجماع کے نام سے معصوم نہیں ہوسکتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۳، خزائن ج۳ ص۱۷۲)
اور جب اجماع کا یہ حال ہے تو سلف کے انفرادی اقوال کی حیثیت تو خود بخود واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’اور اقوال سلف وخلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں اور ان کے اختلاف کی حالت میں وہ گروہ حق پر ہوگا۔ جن کی رائے قرآن کریم کے مطابق ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۳۸، خزائن ج۳ ص۳۸۹)
2010’’الصلوٰۃ والسلام‘‘ درکار است، نہ کلام محی الدین ابن عربی وصدر الدین قونیوی وعبدالرزاق کاشی۔ مارا بہ نص کاراست نہ بعض، فتوحات مدنیہ از فتوحات مکیہ مستغنی ساختہ است۔
’’یہ باتیں خواہ شیخ کبیر یمنی نے کہی ہوں، یا شیخ اکبر شامی نے، ہمیں محمد عربیa کا کلام چاہئے، نہ کہ محی الدین ابن عربیؒ، صدرالدین قونیوی اور عبدالرزاق کاشی کا کلام ہمیں ’’نص‘‘ (یعنی قرآن وحدیث ) سے غرض ہے نہ کہ فص سے (یہ ابن عربیؒ کی فصوص الحکم کی طرف اشارہ ہے) فتوحات مدنیہ نے ہمیں فتوحات مکیہ سے مستغنی کردیا ہے۔‘‘
(مکتوبات حصہ اوّل دفتر اوّل مکتوب نمبر۱۰۰)
ان تین بنیادی باتوں کے بعد عقائد کے اس بنیادی مسئلے میں جو قران وحدیث اور اجماع امت کی رو سے کفر واسلام کا مسئلہ ہے۔ صوفیائے کرام کی کتابوں سے استدلال قطعی طور پر خارج از بحث ہے اور اگر بالفرض بعض صوفیاء سے اس قسم کی ’’شطحیات‘‘ ثابت بھی ہوں تو ان سے عقیدۂ ختم نبوت کی قطعیت اور استحکام میں ذرہ برابر کمی نہیں آتی۔
البتہ یہ درست ہے کہ جن صوفیائے کرامؒ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ غیرتشریعی نبوت کے باقی رہنے کے قائل ہیں۔ ان پر یہ ایک ایسا اتہام ہے جو محض ان کی اصطلاحات اور اسلوب بیان سے ناواقفیت کی بناء پر عائد کیاگیا ہے۔ یہاں ہم ان کے کلام کی صحیح صحیح تشریح کریں تو اس کے لئے طویل مضمون درکار ہوگا اور چونکہ ہماری مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں یہ عقیدہ ختم نبوت کا نہیں، بلکہ ان بزرگوں کا دفاع ہے۔ اس لئے یہ ہمارے موضوع سے خارج بھی ہے۔ لیکن یہاں ان حضرات کی بعض صریح عبارتیں نقل کی جاتی ہیں جن سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ پوری امت کی طرح ختم نبوت کے عقیدے پر مستحکم ایمان رکھتے ہیں۔