مرزائی کفر پر کفر
مرزائی ابوالعطاء جالندھری نے اس حدیث کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آئیں گے تو محل میں تو جگہ خالی نہ ہوگی وہ کہاں ہوں گے۔
2399افسوس ہے کہ مرزائی گندی باتوں سے اور خاص کر پیغمبروں کے بارے میں غلط بیانیوں سے باز نہیں آتے۔ پہلے تو آپ ویسے ہی اس کا جواب سن لیں۔ جب مرزاجی آئیں گے اور کسی اینٹ کی جگہ خالی نہ ہوگی۔ یہ مرزاجی کہاں لگنے کی کوشش کریں گے؟ یہ ایسی ہی بات ہوئی جیسے ایک میراثی نے بات بنائی تھی کہ جب انبیاء سب باری باری خدا کے سامنے سے گزر جائیں اور مرزاجی کی باری آئے گی تو اس پر اعتراض ہوگا کہ تمہارا تو نام فہرست میں نہیں۔ تم کدھر سے نبیوں میں رہے تو فوراً شیطان ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے گا کہ یا الٰہی آپ نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ میں نے صرف یہ ایک بھیجا تھا۔ اس کو تو داخل کر لو۔
مرزائیو! پیغمبروں کا مذاق اڑا کر پھر مذاق سے خفاء نہ ہوں۔ اب تحقیقی جواب سن لو۔ یہ صرف مثال ختم نبوت کے محل کی ہے اور امت کو سمجھانے کے لئے۔ اس سے پیغمبر اینٹ کی طرح بے حس وحرکت اور بے جان ثابت نہیں ہوتے۔ نبوت کا محل حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت سرور عالم ﷺ کے ذریعے مکمل ہوچکا ہے۔ وہ تعداد پوری ہوچکی ہے۔ اب آخری نبی کی عزت نوازی کے لئے جس پرانے پیغمبر کو لے آئے۔ پیغمبر آخر الزمان کی عزت افزائی کے لئے ان کو زندہ رکھ کر پھر آپ ﷺ کی امت کی امداد کرائے۔ وہ صاحب اختیار ہے۔ مرزائی کون ہوتے ہیں جو اس میں دخل دیں۔ اس کی بحث علیحدہ مسئلہ حیات عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام میں مفصل دیکھئے: ’’عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ یا ایہا الناس انہ لم یبق من النبوۃ الا المبشرات (رواہ البخاری ج۲ ص۱۰۳۵، کتاب التعبیر)‘‘ {حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ سرور عالم ﷺ نے فرمایا۔ اے لوگو! (سن لو) بات یہ ہے کہ نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔}
2400ایک روایت میں ہے کہ سرور عالم ﷺ سے پوچھا گیا مبشرات کیا ہیں۔ آپ نے فرمایا:
(اچھے خواب جو مسلمان دیکھے یا دوسرا اس کے لئے دیکھے)
ایک روایت میں ہے کہ مبشرات نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔ بہرحال نبوت کے اجزاء کو اﷲتعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ نبوت، شرف ہم کلامی، اسرار الٰہیہ تقدیر اور اسباب، مخلوق اور خالق کا تعلق، نبوت کا واسطہ یہ اور اس قسم کے مباحث…
ہماری عقول اور افہام سے بہت بلند ہیں۔ ان سب کو راز میں رکھا گیا دو اجزاء ظاہر کئے گئے۔ اچھی اور سچی خوابیں۔ کون ہے جو ان غیبی امور کے بارے میں خواب کی اطلاعات کی حقیقت بیان کر سکے؟ دوسرا جز مکالمات الٰہیہ ہے۔ نہ رب العزت جل وعلا کی ذات ہمارے احاطۂ علم میں ہے اور نہ اس کی صفات اور خاص کر مکالمہ الٰہیہ، آخر یہ مکالمہ کس طرح ہوتا ہے۔ بالمشافہ رب العزت جل وعلا سے، ملائکہ کے توسط سے۔ دل میں القاء سے۔ پردے کے پیچھے سے، یا غیب کی آوازیں سنائی دینے سے، پھر ہر ایک کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ مقام قرب اور مقام معیّت کی باتیں ہیں۔ بہرحال یہ اجزاء نبوت ہیں۔ جزیات نبوت نہیں ہیں۔ نبی جس قسم کا ہو، چاہے صاحب کتاب وصاحب شریعت ہو۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام وغیرہ۔ چاہے بغیر شریعت وکتاب ہو جیسے ہارون علیہ السلام اور سارے انبیاء بنی اسرائیل۔ یہ اصلاح خلق کے لئے مامور ہوتے ہیں۔ ان سے مکالمہ ہوتا ہے۔ ان کو مبعوث کیا جاتا ہے اور نبوت کامنصب عطاء ہوتا ہے۔ ان پر وہ وحی آتی ہے جو فرشتہ پیغمبروں پر لاتا ہے۔ یہ شریعت کے اجراء کے لئے مامور ہوتے ہیں۔ ان کی وحی میں شریعت کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے عہدۂ نبوت پر فائز ہوتے ہیں۔ ان دونوں نبوتوں کو اولیاء کرام تشریعی نبوت کہہ دیتے ہیں اور دونوں کو بند اور ختم بتاتے ہیں۔
عام اہل علم کلام، علم شریعت والے پہلی کو نبوت تشریعی اور دوسری کو نبوت غیر تشریعی کہتے ہیں، اور ’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین ‘‘ کے بعد دونوں کو ختم بتاتے ہیں۔ اولیائے کرام میں سے بعض کو شرف مکالمہ نصیب ہوتا ہے۔ لیکن نبی اور نبوت کے 2401نام کو غیرنبی کے لئے استعمال کرنے کو وہ کفر سمجھتے ہیں۔ وہ بھی صرف مکالمات کو نبوت غیرتشریعی کہہ دیتے ہیں۔ جس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ جس ذات مبارک کو نبی کانام دیتا ہے اور منصب نبوت سے سرفراز کر کے اصلاح خلق کے لئے پرانے یا نئے احکام وحی کر کے بھیجتا ہے۔ یہ وہ نبوت نہیں ہے۔ اس سے دھوکہ دیا جاتا ہے کہ شیخ اکبر وغیرہ تشریعی نبوت کی بقاء اور اجراء کے قائل ہیں۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ارباب علم وکلام وشریعت جن دونبوتوں کو علیحدہ ذکر کر کے ختم بتاتے ہیں تو بعض اولیاء ان دونوں کو نبوت تشریعی کہہ کر ختم بتادیتے ہیں۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہو جاتا ہے۔ مطلب بالکل صاف ہے کہ انسان کے کسی جزو مثلاً پاؤں کو انسان نہیں کہتے۔ مجموعہ اجزاء کو انسان کہتے ہیں۔ مگر حیوان کے جزئیات کو حیوان کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً گھوڑا، گدھا، بلی وغیرہ سب کو حیوان کہہ سکتے ہیں۔ یہ جزیات ہیں لیکن گھوڑے کے سر کو گھوڑا نہیں کہہ سکتا، مجموعہ اعضاء کو کہیں گے۔ اب انبیاء علیہم السلام کی نبوت کے چھیالیس اجزاء جمع ہوں تو کوئی نبی بنتا ہے۔مگر ان اجزاء کا جمع ہونا اور منصب نبوت ملنا محض موہبت اور فضل خداوندی ہے۔ حدیث بہرحال بخاری کی ہے اور ختم نبوت کی صاف دلیل ہے۔ یہی تفسیر ہوگئی اس پہلی آیت کی۔ مرزاغلام احمد کے ایک پیرو مرزائی ابوالعطاء نے لکھا ہے کہ دیکھو پانی کا ایک قطرہ دریا کا جزو ہے۔ لیکن دونوں کو پانی کہتے ہیں۔ یہ سراسر دھوکہ ہے اور جزو اور جزئی میں امتیاز نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ قطرہ بھی پانی ہے اور دریابھی۔
قطرات پانی کے اجزاء نہیں ہیں۔ پانی کے اجزاء ہائیڈروجن اور آکسیجن ہیں۔ کیا کوئی شخص ان دو اجزاء میں سے کسی ایک کو پانی کہہ سکتا ہے؟ جیسے چھوٹا گدھا اور بڑا گدھا دونوں حیوان کے جزئیات ہیں۔ دونوں کو حیوان کہہ سکتے ہیں۔ مگر گدھے کے کسی جزو کو گدھا نہیں کہہ سکتے۔ ابوالعطاء مرزائی باتیں بنا کر قرآن اور حدیث کا مقابلہ کرتا ہے۔