مرزاصاحب پچھلے نبیوں سے افضل
خود مرزائی صاحبان اپنی تحریروں میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مرزاصاحب کی ظلی نبوت بہت سے ان انبیاء علیہم السلام کی نبوت سے افضل ہے۔ جنہیں بلاواسطہ نبوت ملی ہے۔ چنانچہ مرزاصاحب کے منجھلے بیٹے مرزابشیراحمد ایم۔اے قادیانی لکھتے ہیں:
’’اور یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ظلی یا بروزی نبوت گھٹیا قسم کی نبوت ہے۔ یہ محض ایک نفس کا دھوکہ ہے۔ جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ کیونکہ ظلی نبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان نبی کریمﷺ کی اتباع میں اس قدر غرق ہو جائے کہ ’’من توشدم تومن شدی‘‘ کے درجہ کو پالے۔ ایسی صورت میں وہ نبی کریمﷺ کے جمیع کمالات کو عکس کے رنگ میں اپنے اندر اترتا پائے گا۔ حتیٰ کہ ان دونوں میں قرب اتنا بڑھے گا کہ نبی کریمﷺ کی نبوت کی چادر بھی اس پر چڑھائی جائے گی۔ تب جاکر ظلی نبی کہلائے گا۔ پس جب ظل کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے اصل کی پوری تصویر ہو اور اس پر تمام انبیاء کا اتفاق ہے تو وہ نادان جو مسیح موعود کی ظلی نبوت کو ایک گھٹیا قسم کی نبوت سمجھتا یا اس کے معنی ناقص نبوت کے کرتا ہے۔ وہ ہوش میں آوے اور اپنے اسلام کی فکر کرے۔ کیونکہ اس نے اس نبو ت کی شان پر حملہ کیا ہے جو تمام نبوتوں کی سرتاج ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ لوگوں کو کیوں حضرت مسیح موعود کی نبوت پر ٹھوکر لگتی ہے اور کیوں بعض لوگ آپ کی نبوت کو ناقص نبوت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ آپ آنحضرت ﷺ کے بروز ہونے کی وجہ سے ظلی نبی تھے اور اس ظلی نبوت کا پایہ بہت بلند ہے۔ یہ ظاہر بات ہے کہ پہلے زمانوں میں جو نبی ہوتے تھے ان کے لئے یہ ضروری نہ تھا کہ ان میں وہ تمام کمالات رکھے جاویں جو نبی کریمﷺ میں رکھے گئے۔ بلکہ ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطاء ہوتے 1902تھے کسی کو بہت، کسی کو کم۔ مگر مسیح موعود کو تو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہوگیا کہ ظلی نبی کہلائے، پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا۔ بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۱۳، ریویو آف ریلیجنز ج۱۴ نمبر۳، مارچ واپریل ۱۹۱۵ئ)
آگے مرزاصاحب کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی افضل قرار دے کر لکھتے ہیں:
’’پس مسیح موعود کی ظلی نبوت کوئی گھٹیا نبوت نہیں۔ بلکہ خدا کی قسم اس نبوت نے جہاں آقا کے درجے کو بلند کیا ہے وہاں غلام کو بھی اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے جس تک انبیائے بنی اسرائیل کی پہنچ نہیں۔ مبارک وہ جو اس نکتہ کو سمجھے اور ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے اپنے آپ کو بچالے۔‘‘
(حوالہ بالا ص۱۱۴)
اور مرزاصاحب کے دوسرے صاحبزادے اور ان کے خلیفہ، دوئم مرزابشیرالدین محمود لکھتے ہیں: ’’پس ظلی اور بروزی نبوت کوئی گھٹیا قسم کی نبوت نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا مسیح موعود کس طرح ایک اسرائیل نبی کے مقابلہ میں یوں فرماتا کہ:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(القول الفصل ص۱۶)