مرزاصاحب کے درجہ بدرجہ دعوے
بعض مرتبہ مرزائی صاحبان مسلمانوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی کے ابتدائی دور کی عبارتیں پیش کرتے ہیں۔ جن میں انہوں نے علی الاطلاق دعوائے نبوت کو کفر قرار دیا ہے۔ لیکن خود مرزاقادیانی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ مجدد، محدث، مسیح موعود اور مہدی کے مراتب سے ’’ترقی‘‘ کرتے ہوئے درجہ بدرجہ نبوت کے منصب تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے اپنے دعوؤں کی جو تاریخ بیان کی ہے، اسے ہم پوری تفصیل کے ساتھ انہی کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی عبارت کو پورے سباق میں دیکھ کر ان کا پورا مفہوم واضح ہو سکے۔ کسی نے مرزاصاحب سے سوال کیا تھا کہ آپ کی عبارتوں میں یہ تناقض نظر آتا ہے کہ کہیں آپ اپنے آپ کو ’’غیرنبی‘‘ لکھتے ہیں اور کہیں اپنے آپ کو ’’مسیح سے تمام شان میں بڑھ کر‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مرزاصاحب (حقیقت الوحی) میں لکھتے ہیں: ’’اس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہوں، اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خداتعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسولﷺنے دی تھی۔ مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا 1891اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے، اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا۔ بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا۔ لیکن بعد اس کے اس بارے میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین وآسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہوگئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں۔ ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا… جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا۔ اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے؟ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا، مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدے پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔ مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی… میں اس کی پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں… میں تو خداتعالیٰ کی وحی کی پیروی کرنے والا ہوں، جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۴۹،۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)
مرزاصاحب کی یہ عبارت اپنے مدعا پر اس قدر صریح ہے کہ کسی مزید تشریح کی حاجت نہیں، اس عبارت کے بعد اگر کوئی شخص ان کی اس زمانے کی عبارتیں پیش کرتا ہے۔ جب وہ 1892دعوائے نبوت کی نفی کرتے تھے۔ (بزعم خویش) انہیں اپنے نبی ہونے کا علم نہیں ہوا تھا تو اسے دجل وفریب کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟