(مرزاغلام احمدقادیانی کی عبارتوں کے اقتباسات)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں سنا دیجئے۔
مرزا ناصر احمد: اور یہ ذرا دو چار منٹ لگیں گے، تشریف رکھیں: ’اس زمانے میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے، یعنی جہاد صغیر سے جہاد کبیر کی شکل…‘‘
اس کے بعد آخری فقرہ آپ کا یہ ہے: ’’جب تک یہی جہاد ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کردے…‘‘ اور یہ ’’ضمیمہ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں عربی کی عبارت ہے، بڑی واضح ہے۔‘‘ (اس میں کوئی شک نہیں کہ شرائط جہاد، وجوہ جہاد اس زمانے میں اور ان ملکوں میں، معدوم ہیں)
’’فاالیوم …‘‘ اس لئے کیونکہ شرائط جہاد معدوم ہیں اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ حرام ہے کہ وہ دین کی جنگ، جہاد کریں۔ وہ جو میں نے آپ کو بات کہی تھی نا، آنحضرت کی زندگی میں اور رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ نزول مسیح کے وقت جہاد کی شرائط جو ہیں وہ نہیں پائی جائیں گی: 1112یہ وہ زمانہ ہے جس میں کوئی حکومت مسلمانوں پر مسلمان ہونے کی وجہ سے… ویسے تو بڑی ظالم حکومتیں تھیں … لیکن یہ وہ زمانہ ہے جس میں کوئی ملک ایسا نہیں جس میں مسلمان پر اس کے اسلام کی وجہ سے ظلم کیا جاتا ہو۔اور نہ کوئی حاکم پایا جاتا ہے جو اسلام، جو اس کا دین ہے، اس کی وجہ سے اس کے خلاف کچھ احکام جاری کر رہا ہو۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شرائط کے نہ پورا ہونے کی وجہ سے اس زمانے میں اپنے حکم کو دوسرا رنگ دیا ہے۔
اس زمانے میں … بڑی واضح ہے یہ عبارت… حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اس زمانے کے متعلق پھر آپ ایک نظم میں لکھتے ہیں:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’فرما چکا ہے سید کونین مصطفی
عیسیٰ مسیح ہی جگہوں کا کر دے گا التوا‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــعیسیٰ مسیح ہی جگہوں کا کر دے گا التوا‘‘
ویسے وہ ’’حرام‘‘ کا لفظ وہ پہلے میں ہے، اور بڑی وضاحت سے وہ ’’حرام‘‘ کے معنی ہمیں بتا رہا ہے۔ پھر آپ اپنی ایک دوسری کتاب میں تحریر فرماتے ہیں: صحیح بخاری کی …
’’بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے۔ صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے: یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کردے گا۔ تو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں، دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی ذہن کو ترقی دیں اور دردمندوں 1113کا ہمدرد بنیں، زمین پر صلح پھیلا دیں کہ اس سے ان کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے…‘‘
وہ مثال دی ہے۔ یہ ہے جہاد پر آپ کی کتاب: ’’…قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو۔ نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو اور یہ مت خیال کرو کہ ابتداً میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا تھا۔ کیونکہ وہ تلوار دین کے پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گی تھی، بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی۔ مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔‘‘
ظاہر ہے یہاں ’’مخالف‘‘ عیسائی وغیرہ ہیں جو اعتراض کرتے ہیں: خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے: ’’یعنی دین اسلام میں جبر نہیں۔ تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا اور جبر کے کون سے سامان تھے۔ کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے، باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں کا مقابلہ کریں اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو لاکھ دشمنوں کو شکست دے دیں اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے 1114بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سر کٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہر کردیں اور خدا کی توحید کو پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچتے ہیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا دیں اور پھر ہر ایک قسم کی صعوبتیں اٹھا کر چین تک پہنچیں، نہ جنگ کے طور پر بلکہ درویشانہ طور پر اس ملک میں پہنچ کر دعوت اسلام کریں، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ ان کے بابرکت واسطے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہوجائیں اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں۔ بہت سے حصہ آریہ ورتھ کو اسلام سے مشرف کردیں اور یورپ کی حدود تک لا الہ الا اللہ کی آواز پہنچا دیں۔ تم ایماناً کہو، کیا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں، جن کا دل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے۔ بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے۔‘‘ (پیغام صلح)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’مسیح دنیا میں آیا تاکہ دین کے نام سے تلوار اٹھانے کے خیال کو دور کرے اور اپنے حجج اور براہین سے ثابت کردکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت کے لئے تلوار کی مدد کا ہرگز محتاج نہیں بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اس کے حقائق و معارف و حجج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں۔ اس لئے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ 1115اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں۔ اگر کسی کو…‘‘
آگے آپ نے فرمایا: ’’اب تلوار کے ذریعے اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے سخت شرمندہ ہوں گے۔‘‘ ’’یہ ملفوظات‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی جبر و قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کا انتظار کرنا سراسر لغو اور بیہودہ ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’جبکہ یہ سنت اللہ کہ یعنی تلوار سے ظالم اور منکروں کو ہلاک کرنا … قدیم سے یہ سنت اللہ ہے، یعنی تلوار سے ظالم، منکروں کو ہلاک کرنا، قدیم سے چلی آتی ہے تو قرآن شریف پر کیوں خصوصیت کے ساتھ اعتراض کیا جاتا ہے۔ کیا موسیٰ کے زمانے میں خدا کوئی اور تھا اور اسلام کے زمانے میں کوئی اور ہوگیا۔ یا خدا تعالیٰ کو اس وقت لڑائیاں پیاری لگتی تھیں اور اب بری دکھائی دیتی ہیں۔ اسلام نے صرف ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم فرمایا ہے جو اول آپ پر تلوار اٹھائیں اور ان ہی کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ کو قتل کریں۔ یہ حکم ہرگز نہیں دیا کہ تم ایک کافر بادشاہ کے تحت 1116میں ہو اور اس کے عدل و انصاف سے فائدہ اٹھا کر اسی پر باغیانہ حملہ کرو۔ قرآن کی رو سے یہ بدمعاشوں کا طریق ہے نہ کہ نیکوں کا۔ لیکن تورات نے یہ فرق کسی جگہ نہیں کھول کر بیان فرمایا۔ اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف اپنے جلالی اور جمالی احکام میں اس خط مستقیم، عدل اور انصاف، رحم اور احسان پر چلتا ہے جس کی نظیر دنیا میں کسی کتاب میں موجود نہیں۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں:’’کہ ان لوگوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے مؤمنوں پر کہ ان سے لڑائی کریں جو جبراً، اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں اور مؤمنوں کو ان کی عبادات سے روکتے ہیں…‘‘ یہ لمبی عبارت ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں اس کا ترجمہ کردیتا ہوں اور بد ایک اور … ہاں، یہ ترجمہ ہے۔ لیکن یہ ترجمہ اس کے ساتھ میں نے کیا، کروایا ہوا ہے۔ لیکن ویسے بھی کرسکتا تھا یہ رکھا بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاد کے متعلق جو فرمایا بڑا واضح ہے۔ یہاں شرائط کا حکم کس معنوں میں ہے، وہ میں نے پڑھ دیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں وہ آپ نے سنا دیا ایک بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس پر مرزا صاحب ! کوئی سوال ہی نہیں آیا۔ آپ کے سامنے، نہ کوئی Dispute (تنازع) ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے کوئی پھیلانا چاہتا ہے۔ یہ غلط Conception (تصور) ہے۔ سب مسلمان جانتے ہیں، سب مانتے ہیں کہ اسلام میں Defensive war (دفاعی جنگ) ہے۔
1117مرزا ناصر احمد: ہاں، یعنی …
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے بڑا Emphasize (تاکید) کیا کہ تلوار کے زور سے پھیلا۔ میں اس کی بات ہی نہیں کرتا۔
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ بات عیسائی کہتے ہوں گے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: کوئی مسلمان عالم جو ہے وہ جانتا ہے کہ تلوار کے زور سے اسلام کبھی نہیں پھیلایا جا سکتا۔
مرزا ناصر احمد: الاّ ماشاء اللہ!
جناب یحییٰ بختیار: کوئی Compulsion (مجبوری) نہیں ہے۔ اس پر تو کوئی Dispute (تنازع) نہیں ہے۔ Dispute (تنازع) تو اس بات کا ہے کہ جب جہاد لازم ہو، شرائط موجود ہوں، آپ فرماتے ہیں کہ مہدی کے زمانے میں وہ نہیں ہوگا کیونکہ مہدی کی موجودگی میں شرائط ختم ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی وجہ آپ نے بتائی ہے۔
مرزا ناصر احمد: …آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ … ایسا نہیں ہوں گی۔
جناب یحییٰ بختیار: وہی میں کہہ رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، نہیں، کہاں، کہیں ہوئیں؟