مرزاغلام احمد صاحب کی تحریریں
مرزاغلام احمد قادیانی صاحب اپنے خطبہ الہامیہ میں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پورے کا پورا بذریعہ الہام نازل ہوا تھا۔ کہتے ہیں: 1910
’’واتخذت روحانیۃ نبینا خیر الرسل مظہراً من امتہ لتبلغ کمال ظہورہا وغلبۃ نورہا کما کان وعداﷲ فی الکتاب المبین فانا ذلک المظہر الموعود والنور المعہود فامن ولا تکن من الکافرین وان شئت فاقرأ قولہ تعالیٰ ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۷۸، خزائن ج۱۶ ص۲۶۷)
اور خیرالرسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا جیسا کہ خداتعالیٰ نے کتاب مبین میں وعدہ فرمایا تھا۔ پس میں وہی مظہر ہوں۔ پس ایمان لا اور کافروں سے مت ہو اور اگر چاہتا ہے تو اس خداتعالیٰ کے قول کو پڑھ ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ۰ الخ!
اور حقیقت الوحی میں مرزاصاحب لکھتے ہیں:
’’کافر کا لفظ مومن کے مقابلے پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل)ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکارکرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے۔ جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔ کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کر لینے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا۔ وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹،۱۸۰، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵،۱۸۶)
1911اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے۔کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔ کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیش گوئی موجود ہے۔‘‘
مزیدلکھتے ہیں:
’’خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا۔ اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمداً خداتعالیٰ کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مؤمن کیونکر ہوسکتا ہے اور اگر وہ مؤمن ہے تو میں بوجہ افتراء کرنے کے کافر ٹھہرا۔‘‘
(حوالہ بالا ص۱۶۳،۱۶۴، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷،۱۶۸)
ڈاکٹر عبدالحکیم خان کے نام اپنے خط میں مرزاصاحب لکھتے ہیں:
’’خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
(تذکرہ ص۶۰۷، طبع سوم)
نیز ’’معیار الاخیار‘‘ میں مرزاصاحب اپنا ایک الہام اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہ ہوگا اور صرف تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘
(اشتہار معیار الاخیار ص۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵)
1912نزول المسیح میں لکھتے ہیں: ’’جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا۔‘‘
(نزول المسیح حاشیہ ص۴، خزائن ج۱۸ ص۳۸۲)
اور اپنی کتاب الہدیٰ میں اپنے انکار کو سرکار دوعالمﷺ کے انکار کے مساوی قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بدبخت ہیں اور انس وجن میں ان سا کوئی بھی بدطالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا، دوسرا جو خاتم الخلفائ۔ (یعنی بزعم خود مرزاصاحب) پر ایمان نہ لایا۔‘‘
(الہدیٰ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۵۰)
اور انجام آتھم میں لکھتے ہیں:
’’اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، خدا کاامین اور خدا کی طرف سے آیا ہے، جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص۶۲)
نیز اخبار بدر مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ء میں لکھا ہے کہ:
’’بحضرت مسیح موعود سے ایک شخص نے سوال کیاکہ جو لوگ آپ کو کافر نہیں کہتے ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کیا حرج ہے؟‘‘
اس کا طویل جواب دیتے ہوئے آخر میں مرزاصاحب فرماتے ہیں:
’’اور ان کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا۔ تب میں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا۔ بشرطیکہ ان میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جائے اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مکذب نہ ہوں، ورنہ اﷲ1913تعالیٰ فرماتا ہے ان المنافقین فی الدرک الا سفل من النار یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے۔‘‘
(اخبار بدر مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ئ، منقول از مجموعہ فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۳۰۷)