(مرزاقادیانی کا کہنا کہ کچھ قادیانی تباہ ہوں گے، کچھ باقی رہیں گے)
595مرزاناصر احمد: یہ۲۶؍جنوری ۱۹۱۶ء کے متعلق ایک وہ تھا سوال،جسے نوٹ کر لیا تھا۔ جو کل شام کو رہ گیاتھا توآج صبح بھی یہ سوال ہو چکا ہے کہ ۲۶؍جنوری کے ’’الفضل‘‘میں لکھا ہے ’’امت‘‘ کا لفظ احمدیوں کے متعلق۔ یہ اس کا جواب ہے۔ یہ حوالہ میں پہلے پڑھ دیتاہوں ’’الفضل‘‘ ۲۶؍جنوری ۱۹۱۶ء میں وہ پڑھا گیا یہاں ایک حوالہ۔ اس سلسلے میں جو حوالہ پورا ہے وہ یہ ہے ، اورفرمایا: ’’کہ پہلا مسیح صرف مسیح تھا اس لئے اس کی امت گمراہ ہوئی اور موسوی سلسلے کا خاتمہ ہوا۔ اگر میں بھی صرف مسیح ہوتا تو ایسا ہی ہوتا۔ لیکن میں مہدی اورمحمدﷺ کا بروز بھی ہوں… اس لئے میری امت کے دوحصے ہوںگے۔ ایک وہ جو مسیحیت کا رنگ اختیارکریںگے اورتباہ ہو جائیں گے۔ دوسرے وہ جو مہدویت کا رنگ اختیار کریںگے اوریہ قیامت تک رہیںگے۔‘‘
یہ تو حضرت خلیفہ اول کی زبانی بات ہے۔ یہ لکھنے والے جو ہیں، خلفاء میں سے نہیں ہیں، ایک اورصاحب ہیں لکھ رہے ۔اسی کے آگے، اسی پیراگراف کے اگلے حصے میں لکھا ہے: ’’ہماری جماعت کی دوپارٹیاں ہوجائیںگی…‘‘
’’ہماری جماعت کی‘‘امت کی نہیں۔ تو وہ ایک لکھنے والا وہاں’’امت‘‘ لکھ گیا۔ اس کے علاوہ’’امت‘‘ کے معنی عربی میں جماعت کے بھی ہیں۔ چنانچہ (عربی)
اﷲ تعالیٰ فرماتاہے امت مسلمہ کو کہ: ’’تم میں سے ایک امت ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف بلائے۔‘‘
596اس کا ترجمہ حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے یہ کیا ہے…’’امت‘‘ کے معنی:’’تم میں کچھ لوگ توایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں…‘‘
’’لوگ‘‘ ۔’’امت‘‘ کے معنی یہاں’’لوگ‘‘ کیاگیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی کا ترجمہ یہ ہے: ’’باید کہ باشد از شماگرو ہے‘‘ انہوں نے ’’گروہ‘‘ ترجمہ اس کا کیا ہے’’امت ‘‘ کا۔
مولانا واحد العاشقی کا ترجمہ ہے: ’’ہرآئینہ باید کہ باشد از شماگرو ہے‘‘
انہوں نے بھی ’’گروہ‘‘ترجمہ کیاہے۔تو اس ’’الفضل‘‘ کے اس مضمون میں جو لفظ ’’امت‘‘ لکھاگیا۔ اس کے ساتھ اسی پیرے کے آخر میں جماعت لکھاگیا اورقرآن کریم نے ’’امت‘‘ کو بمعنی ’’گروہ‘‘ کے بھی استعمال کیا ہے۔ لوگو ں کا،لوگ جب اکٹھے ہو جائیں، تو اس کا بھی استعمال کیاگیا ہے۔ اس لئے وہ ’’امت‘‘ اس معنی میں استعمال نہیں ہوا جس سے غلط فہمی کا کوئی امکان ہو سکے۔
یہ ’’اتمام حجت‘‘ کے متعلق صبح ڈکشنری بھی منگوائی گئی تھی۔ یہ ’’اتمام حجت‘‘ کے متعلق قرآن کریم اورلغت نے جو ’’اتمام حجت‘‘ کے معنی کئے ہیں:
لغت میں …’’مفردات راغب‘‘ میں، جو قرآن کریم کے عربی الفاظ کی ایک مستند لغت ہے۔ اس میں ’’جحدوا بھا واستیقنت ہا انفسھم‘‘ کے معنی اب میں بتارہا ہوں۔ ’’جحدوا‘‘ کے معنی ’’نفی ما فی القلب اثبات واثبات ما فی القلب نفسہ‘‘ کہ جو دل میں ہو اس کا… جو دل میں ہو۔ یعنی آدمی سمجھتا ہو کہ بات یوں ہے، اس کا انکار597 کرنا اورجودل میں بات نہ ہو اس کا اقرار کرلینا۔ یہ دل سے تعلق رکھتاہے۔ یہ ’’مفردات راغب‘‘ میں ہے۔
اسی طرح سورۃ ’’انعام‘‘ میں ہے
یہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس کی قوم کے خلاف حجت عطاء کی تھی۔ اس حجت کا دوسری جگہ یوں ذکرفرمایا کہ بتوں کے ٹوٹنے پر قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے آکے جب بحث کی توآپ نے فرمایا کہ ان بتوں سے پوچھو۔ جن کو تم خدا سمجھتے ہو۔ انہی سے پوچھ لو۔ اوراس طرح وہ شرمسار ہوگئے اور انہوں نے شکست کوتسلیم کرلیا۔
سورہ ’’انبیائ‘‘ میں ہے
بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی، جس معنی کو میں نے Explain (واضح) کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، وہ معنی آپ لکھتے ہیں: ’’میں یہ کہتاہوں…میں یہ کہتاہوں…کہ چونکہ مسیح موعود میں ہوں اور خدا نے عام طور پر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمام حجت ہوچکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پاچکا ہے، وہ قابل مواخذہ ہوگا‘‘
اور اس کے بعد آپ لکھتے ہیں، یہی In continuation (تسلسل میں) بیچ میں دوسرا مضمون آگیا۔ اس کو میں چھوڑ رہاہوں: ’’اور598 اتمام حجت کا علم محض اﷲ تعالیٰ کو ہے۔ ہاں عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ چونکہ لوگ مختلف استعداد اورمختلف فہم پر مجبول ہیں اس لئے اتمام حجت بھی صرف ایک ہی طرف سے نہیں ہوگا۔ پس جو لوگ بوجہ عملی استعداد کے خدا کی براہین اورنشانوں اوردین کی خوبیوں کو بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اورشناخت کرسکتے ہیں وہ اگر خدا کے رسول سے انکار کریں تو وہ کفر کے اول درجہ پر ہوںگے اور جو لوگ اس قدر فہم اور علم نہیں رکھتے، مگرخدا کے نزدیک ان پر بھی ان کے فہم کے مطابق حجت پوری ہوچکی ہے…خدا کے نزدیک…ان سے بھی رسول کے انکار کا مواخذہ ہوگا۔ مگر بہ نسبت پہلے منکرین کے کم۔ بہرحال کسی کے کفر اوراس پر اتمام حجت کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ اس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے۔ ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اورخدا کے نزدیک جو منکر ٹھہر چکا ہے وہ مواخذہ کے لائق ہوگا۔ اور ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ ہم اس کے اوپر…‘‘
یہ ہے ’’حقیقت الوحی‘‘صفحہ ۱۸۵، ۱۸۴۔
’’اتمام حجت ‘‘ ازروئے لغت:’’دلالت‘‘۔ یہ ازروئے لغت…’’مفردات‘‘ میں ہے کہ:’’حجت ایسی واضح دلالت کو کہتے ہیں جو راہ حق کو بالکل واضح کر دے اور دو متضاد باتوں میں سے ایک کی صحت کی مقتضی ہو۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے: (عربی )کل…کہ’’ کامل حجت اﷲ ہی کے لئے ہے۔نیز فرمایا کہ لوگوں کے لئے تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ہو بجز ظالموں کے۔ اس میں اﷲ تعالیٰ نے ظالموںکی حجت کوحجت شمار نہیں کیا۔‘‘
599’’حجت‘‘ کے معنی ’’لسان العرب‘‘ میں…جو ایک اورعربی کی بڑی لغت ہے… یوں ہیں:’’حجت ‘‘کے معنی ’’برہان‘‘ کے ہیں یہ بھی کہاگیا حجت وہ ہوتی ہے جس سے دشمن کو مغلوب کرلیاجائے۔‘‘ یعنی وہ مان لے کہ میں شکست کھاگیا ہوں۔ یعنی جو تم بات کررہے ہو، وہ درست ہے۔
امام الازہری کہتے ہیں کہ :’’حجت وہ دلیل و طریق ہے جس سے خصومت کے وقت ظفر وغلبہ حاصل ہو جائے۔‘‘
اور یہ ’’محیط المحیط ‘‘یہ ہے۔ ’’لغات القرآن‘‘از پرویز: ’’حجت:دلیل‘‘ ’’محیط‘‘میں ہے کہ: ’’دلیل کو بیّنہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے بات واضح اورصاف ہو جاتی ہے اور حجت اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے فریق مقابل پر فتح حاصل ہو جاتی ہے۔‘‘
وہی کہ وہ اعلان کر دیتاہے کہ جو بات تم کہہ رہے ہو وہ ٹھیک ہے اوروہ اپنی شکست کا اعلان کر دیتا ہے۔اور’’اتمام حجت‘‘ …’’اتمام حجت‘‘ بولتے ہیں ناں ہم عام طور پر…’’اتمام ‘‘ کا معنی ’’مفردات‘‘میں ہے
600’’اتمہ‘‘وہاں ہے’’اتمام حجت‘‘ میں، ایک دوسرا مصدر استعمال کیاگیا ہے۔ جس کا فعل بنتا ہے ’’اتمہ‘‘ اوراس کے معنی ہیں کہ: ’’دلیل کو اس انتہاء تک پہنچا دینا، ’’اتمام‘‘ کے معنی حجت کو اس انتہاتک پہنچادینا کہ اس کے بعد اس چیز کی حقانیت کے لئے کسی اورچیز کی ضرورت نہ رہے۔‘‘
ہاں ، ایک ہے ’’کلمۃ الفصل‘‘ وہ جو جس کی معذرت میں نے کی تھی۔ ایک بات تو یہ ہے کہ جو سوال تھایہاں کیاگیا۔ اس میں مصنف کا نام غلط لکھاہواتھا۔ یہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب ، جو ہماری جماعت کے دوسرے خلیفہ ہیں،ان کی کتاب نہیں ہے۔ جو سوال کیاگیا تھا اس میں یہ بتایاگیا تھا کہ اس کے لکھنے والے جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ ہیں…
جناب یحییٰ بختیار: ان کی Compilation ہے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، ان کی compilation نہیں ہے۔ یہی میں بتارہا ہوں۔ انہوں نے نہیں لکھی۔
جناب یحییٰ بختیار: تقریباً ان کو اکٹھاکیاگیاہے۔
مرزاناصر احمد: نہ، نہ،نہ، وہ بھی نہیں۔ اس کے لکھنے والے ہیں مرزا بشیر احمد۔ مرزا بشیر الدین محمود احمد، جو جماعت کاخلیفہ ثانی ہیں۔ وہ نہیں ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو میں نے علیحدہ کہا۔ وہ تو مرزا صاحب! میں نے کہا ’’صاحبزادہ بشیراحمد‘‘وہ تو میں نے کہاان کا قول ہے۔
مرزاناصر احمد: یہ ’’کلمۃ الفصل‘‘کی…
601جناب یحییٰ بختیار: نہیں، ایک اورحوالہ جو میں نے دیا…
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں، وہ اورحوالہ ہے۔ یہی میں کہہ رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مجھے کوئی Confusion (ابہام)نہیں ہے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، وہ تومیں صرف بتارہاہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، ممکن ہے وہ…
مرزاناصر احمد: میں صرف اتنا بتارہاہوں کہ یہ خلیفہ المسیح الثانی کی کتاب نہیں۔ حضرت مرزا بشیراحمدصاحب کی کتاب ہے۔ یہ وضاحت میں کر رہا ہوں،بس۔
یہاں آپ یہ لکھتے ہیں ،یہ سارا مضمون ہے اس کا۔ جہاں سے یہ پیرا شروع ہوا ہے۔ جہاں سے حوالہ لیاگیا تھا۔ اس پیرا سے جہاں سے وہ شروع ہوتاہے۔ اس سے میں شروع کرتاہوں:’’اس جگہ یہ یاد رہے کہ کفر دوقسم کا ہوتا ہے۔ ایک ظاہری کفر ایک باطنی کفر…‘‘ یہ دراصل فلسفیانہ بحث ہے ایک اورتصنیف پر۔
جناب یحییٰ بختیار: ایک اورکیٹیگری آگئی؟
مرزاناصر احمد: ہاں، ایک اورکیٹیگری ہے جو ہماری پہلی بحث میں نہیں آتی: ’’…ایک ظاہری کفر اورایک باطنی کفر۔ظاہر کفر تویہ ہے کہ انسان کسی نبی کا کھلے طور پر انکار کردے…‘‘ یعنی کہہ دے کہ میں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا،نبی، یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا۔ یہ کھلے طورپر انکار جیسے ہوتے ہیں دنیا میں، تو وہ ظاہری کفر ہے: ’’…اور اس کو مامور یہ ہدایت خلق اﷲ نہ مانے،جس طرح پر کہ یہود نے مسیح ناصری کا انکار کیا۔‘‘
602اب یہاں بھی میں اپنی طرف سے یہ بات کہنے لگاہوں کہ لکھتے ہوئے توآدمی ان باریکیوں میں ہر جگہ نہیں جاتا…’’جس طرح پر کہ یہود نے مسیح ناصری کا انکارکیا‘‘ حالانکہ یہود نے مسیح ناصری کا انکار نہیں کیا تھا۔ یہود میں سے جو منکر تھے وہ ’’یہود‘‘ کے نام سے پکارے گئے اور جنہوں نے قبول کرلیا،یہود میں سے ایمان لے آئے، وہ کرسچین،انہوں نے ان کو مان لیا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی باریکیوں پر جائیں تو کوئی ایک صفحہ بھی کسی کتاب کا اب ایسا نہیں رہتا جو قابل اعتراض نہ بن جائے:’’…جس طرح پر کہ یہود نے مسیح ناصری کا انکار کیا یا جس طرح نصاریٰ نے نبی کریمa کو خدا کی طرف سے نہ مانا…‘‘
حالانکہ ہزاروں اس وقت بھی ہوگئے اوربعد میں بھی ہوتے رہے: ’’…اور باطنی کفریہ ہے کہ ظاہری طورپر تو کسی نبی پر ایمان لانے کااصرار کیا جائے اوراس کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مامورسمجھاجائے۔ لیکن حقیقت میں انسان اس نبی کی تعلیم سے بہت دور…‘‘ اب وہ گناہ والاکفر آگیا ہے کہ کوئی…
جناب یحییٰ بختیار: یہ تومنافق ہوگیا۔
مرزاناصر احمد: نہیں گناہ…منافق بھی اورہے۔ منافق وہ ہے جو دل سے تسلیم کرتا ہے کہ یہ نبی جو ہے سچا نہیں اوراعلان کرتاہے کہ ’’میں ایمان لاتاہوں‘‘ لیکن یہ وہ گناہ گار ہے جو مثلاً نماز میں کوئی سستی کرجاتاہے یا کوئی روزوں میں سستی کرجاتاہے۔ تو عملاً اپنی عملی زندگی میں تعلیم سے دور ہو جاتاہے۔تو اس بحث میں وہ حوالہ آیا ہے جو یہاں پیش کیاگیا تھا اور یہ جو پہلی اس کی ابتدائی اٹھان جو ہے، اس کا…وہ بتاتاہے کہ یہاں وہ مراد نہیں لی گئی جو غلطی سے، غلط فہمی کی بناء پر، جس کی وجہ سے یہاں اعتراض کردیاگیاتھا۔
603جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! ایک توجوآپ نے فرمایا کہ ’’امت‘‘ کا مطلب جو ہے، گروہ کے بھی ہیں۔ پارٹی کے بھی ہیں۔ گروپ کے بھی ہیں۔ کسی طبقے کے بھی ہوسکتے ہیں۔
مرزاناصر احمد: لوگ۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں لوگ۔ تواب ہماری جومشکل ہے۔ اس میں کچھ اضافہ ہی ہوگیا ہے جب آپ کہتے ہیں کہ ’’امت محمدیہ‘‘ محمدیہ گروہ، گروپ، پارٹی۔ یہ تو وہی ہیں جو مسلمان ہیں۔
مرزاناصر احمد: ملت اسلامیہ۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی، ملت اسلامیہ۔
مرزاناصر احمد: امت محمدیہ۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ بڑاسرکل جو آپ نے کہاناں کہ جس میں…
مرزاناصر احمد: جس میں گناہ گار بھی ہیں…
جناب یحییٰ بختیار: …کافر بھی ہیں…
مرزاناصر احمد: ہاں، اوردرمیانے درجے کا بھی، سارے ہی ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: و ہ کافر جو ہیں وہ نکال کر باقی جوتھوڑا بہت کفر کرتے ہیں۔ وہ بھی اور…مگرمسلمان ہر حالت میں ہیں وہ؟
مرزاناصر احمد: ہاں، مسلمان ہرحالت میں ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: مسلمان ہیں۔ تو اب یہ جو’’دائرہ اسلام‘‘ ہے۔ یہ بھی ایک گروپ ہوگا؟
مرزاناصر احمد: میں نے اسی واسطے دوسرے دن ایک اورتمثیل لی تھی۔ مجھے شبہ تھا کہ شاید…
604جناب یحییٰ بختیار: اب مجھے ’’دائرہ اسلام‘‘ بڑاگروپ معلوم ہوتاہے اور ’’ملت اسلامیہ‘‘…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں، وہ ’’دائرہ اسلام‘‘ چھوٹا گروپ ہے۔ اس کی وجہ میں بتاتا ہوں۔ یہ جب ہم نے…یہ میں نے…معاف کریں۔ جب میں نے یہ عرض کی توبنیاد رکھی اس قول پر…’’مفردات راغب‘‘ جو قرآن کریم کی لغت ہے۔ انہوں نے ’’اسلام‘‘ کے معنی کرتے ہوئے کہا کہ اسلام دو قسم کا ہے۔ ایک اسلام ہے ایمان …بالا، فوق الایمان۔ اور ایک اسلام ہے ایمان سے نیچے یا دون الاسلام۔ دو قسم کا اسلام ہے۔ تو دائرہ اسلام جو ہماری…جو یہاں آپ کے سوالات اور میرے جوابات ہیں آیاکیونکہ ہماری بحث تو…میری طرف سے بہت زیادتی ہوگی کیونکہ میں تویہاں بطور Witness (گواہ) کے ہوں…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں جی،یہ تومسئلہ ایسا ہے…
مرزاناصر احمد: بہر حال، سوال وجواب میں جو چیز آئی، وہ ’’مافوق الایمان‘‘ کے متعلق ہم نے کہا، میں نے کہا کہ ’’دائرہ اسلام‘‘ ہے…جو ایمان سے بالاچیز ہے…تو وہ درجہ اندر کا ہے۔ چھوٹاسرکل دائرہ اسلام کا،وہ بڑا نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اس سے خارج ہوکے بھی مسلمان رہ سکتے ہیں؟
مرزاناصر احمد: ہاں، بڑادرجہ جو ہے وہ ’’ملت اسلامیہ ‘‘کاسرکل ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، وہ میں سمجھ گیا، وہ میں سمجھ گیا۔ اب میں ’’اتمام حجت‘‘ پر کچھ مزید وضاحت کی ضرورت سمجھتاہوں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ چیز ہے جو دل سے تعلق رکھتی ہے۔ دل میں ایک چیز ہو، مگر انسان انکار کرے…
605مرزاناصر احمد: نہیں، اتمام حجت ہوایا نہیں ہوا۔ اس شخص کے متعلق جو خود تسلیم نہیں کرتا کہ مجھ پر اتمام حجت ہوگیا۔ یہ دل سے تعلق رکھتاہے اور انسان کا کام نہیں کہ اس کے اوپر حکم لگائے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزاصاحب!میں ایک اورچیز کی طرف آرہاتھا…
مرزاناصر احمد: اچھا!معاف کیجئے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،آپ نے کل بھی فرمایاتھا اورآج صبح بھی فرمایا کہ ’’اتمام حجت‘‘کا یہ مطلب ہے کہ اس کو ایک چیز سمجھ آجائے، پوری دلیل اس کے سامنے ہو جائے اور وہ انکار کرے۔ سمجھ جائے، Convinced (قائل) ہو اورانکار کرے۔
مرزاناصر احمد: ایک، ایک کیٹیگری…
جناب یحییٰ بختیار: ایک Accept (قبول کرنا)ہاں، ہاں۔
مرزاناصر احمد: ہاں،ایک قسم یہ ہے کہ سمجھ گیا ہے اورکہتاہے ’’میں سمجھ توگیا ہوں‘‘ اعلان کرتاہے: ’’میں سمجھ گیاہوں، مگر مانوں گا نہیں‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ہاں،ہاں،’’میں انکارکرتاہوں‘‘
مرزاناصر احمد: ’’سمعنا وعصینا‘‘قرآن کریم کہتاہے…
جناب یحییٰ بختیار: یہ جو ہے، یہ اس کیٹیگری میں ہے جو مسلمان نہیں ہوسکتا؟
مرزاناصر احمد: ہاں جی رہ ہی نہیں سکتا۔ آپ ہی انکار کردیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں تواس پر آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ اعلان کا ہونا ضروری ہے۔
مرزاناصر احمد: اس کی طرف سے۔
606جناب یحییٰ بختیار: ہاں اس کی طرف سے۔ ابھی یہ اعلان مزید Definition (تعریف) ہوگی کہ فرض کرو کہ کسی عالم نے مرزاغلام احمد صاحب کی باتیں سنیں اور وہ Convince (قائل)ہوگیا…میں ایک مثال دے رہاہوں۔وہ Convince (قائل) ہوگیا ہے۔ مرزاصاحب کے نقطہ نظر سے، اوروہ اعلان کرتا ہے کہ ’’نہیں، مرزاصاحب سچے نبی نہیں‘‘ تویہ اعلان…
مرزاناصر احمد: نہ،نہیں،پھر وہ رہ گیا ایک حصہ، ایک حصہ رہ گیا۔ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’میں یہ توسمجھ گیا ہوں کہ یہ سچے ہیں، مگر میں ایمان نہیں لاتا‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ہاں ایسے ہی، ایسے ہی۔
مرزاناصر احمد: ہاں، وہ ایک حصہ رہ گیا تھاناں۔
جناب یحییٰ بختیار: پھرتو Simple (سادہ)ہے جی۔
Then there is no complication. پھر میں یہ پوچھوںگاکہ جو یہ کیٹگری ہے کہ اتمام حجت کے بعد جو مرزاصاحب کو نہ مانے اور خدا کا رسول نہ مانے،وہ خدا اور رسولa کو نہ ماننے کے برابرکافر ہے۔ اتمام حجت کے بعد۔ اس طرح آپ نے Define (تعریف)کیا؟
مرزاناصر احمد: جس نے خودکہا کہ ’’مجھ پر اتمام حجت ہوبھی گیا اور میں نہیں مانتا؟‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ’’میں نہیں مانتا‘‘ یہ اس کیٹیگری میں ہے، جو کہتا ہے، وہ بالکل ہی کافر، سوفیصدی کافر ہے؟
مرزاناصر احمد: ہاں، وہ کافر ہے،دائرہ اسلام سے خارج۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، دائرہ اسلام سے خارج ہے، کیونکہ وہ تو…؟
مرزاناصر احمد: نہیں،یعنی وہ تو اسلام ہی سے خارج ہے۔ غیر مسلم ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو مسلمان ہی نہیں رہا جی؟
607مرزاناصر احمد: ہاں، غیر مسلم ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: میں ا س کا کہتاہوں کہ وہ سوفیصدی کافر؟
مرزاناصر احمد: غیر مسلم کہہ لیں۔
جناب یحییٰ بختیار: مسلمان نہیں رہا وہ؟
مرزاناصر احمد: ہاں، غیرمسلم۔
جناب یحییٰ بختیار: اب،آپ کے اندازے کے مطابق، کتنے لوگوں نے ایسا اعلان کیا؟
مرزاناصر احمد: اس میں اندازے کا تو سوال ہی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی علم کیا ہو گا؟
مرزاناصر احمد: ان کے اپنے علم کے مطابق کہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں! میں علم کا کہہ رہا ہوں۔ علم کے مطابق۔
مرزاناصر احمد: میرے علم میں یہ تو ہے ۔نہیں، میرے علم میںیہ توہے، میں نے خود سنا ہے کہ ’’اگر اﷲ بھی آجائے اورکہے کہ بانی سلسلہ سچے ہیں۔ تب بھی ہم نہیں مانیںگے۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو ایک اورچیز ہے۔
مرزاناصر احمد: نہیں،ہاں، وہ ’’اگر‘‘ کے ساتھ۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ ’’اگر‘‘ کے ساتھ ہے اورساتھ ہی وہ یہ نہیں کہتے کہ میں Convince (قائل)ہوگیاہوں۔
مرزاناصر احمد: میرے علم میں اس وقت…میرے علم اورمیرے حافظہ میں… Combine (اکٹھا) بریکٹ کردیں، علم اورحافظہ …کوئی آدمی نہیں۔