• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں( دسویں پیش گوئی … مرزاغلام احمد کی طاعون کی پیش گوئی)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں( دسویں پیش گوئی … مرزاغلام احمد کی طاعون کی پیش گوئی)
جس سے اس کا اپنا گھر بھی محفوظ نہ رہا
انیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں طاعون کی وبا پھیل گئی۔ جس سے لوگوں میں خوف وہراس کا پایا جانا ایک فطری امر تھا۔ اس وباء میں بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جب مرزاغلام احمد قادیانی کو ان حالات کا علم ہوا کہ ملک کے مختلف حصے طاعون کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں تو اس نے دعویٰ کیا کہ میں نے طاعون کے آنے کی پہلی سے خبر دے رکھی تھی۔ سو یہ طاعون خود بخود نہیں آیا۔ بلکہ میں نے اس کے آنے کی دعا کی تھی۔ جو آسمانوں میں سنی گئی اور مبارک خدا نے پورے ملک میں طاعون پھیلا دیا۔ اب اس طاعون سے سارے لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ سوائے ان کے جو میری نبوت کو مانیں گے۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے کہ قادیان کے سوا کوئی جگہ محفوظ نہ ہوگی اور جب تک میری رسالت کو تسلیم نہ کر لیں ان سے طاعون کا عذاب ختم نہیں کیا جائے گا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا کہ: ’’براہین احمدیہ کے آخری اوراق کو دیکھا تو ان میں یہ الہام درج تھا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا اور دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ پر خدا اس کو قبول کرے گا اور زور دار حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ اس الہام میں ایک پیش گوئی تھی جو اس وقت طاعون پر صادق آرہی ہے اور زوردار حملوں سے طاعون مراد ہے۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۷ ص۵۲۲)
یعنی مرزاغلام احمد قادیانی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو اس وقت اسے کسی نے نہ مانا اس پر خدا کی غیرت کو جوش آیا اور اس نے کئی سالوں پہلے والا الہام کو حقیقت بنادیا۔ مرزابشیراحمد کا کہنا ہے کہ: ’’خدا کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات اس قسم کی بیماریوں کو بھی اپنے مرسلین کی صداقت کا نشان قرار دیتا ہے اور (بیماریوں) کے ذریعہ سے اپنی قائم کردہ سلسلوں کو ترقی دیتا ہے۔‘‘
(سلسلہ احمدیہ ص۱۲۰)
مرزاغلام احمد قادیانی کا کہنا ہے کہ یہ طاعون خودبخود نہیں آیا۔ بلکہ درحقیقت اس نے خود طاعون پھیلنے کی دعا کی تھی۔ مرزاقادیانی نے لکھا ۔ سو وہ دعا قبول ہوکر ملک میں طاعون پھیل گئی۔ (حقیقت الوحی ص۲۲۴، خزائن ج۲۲ ص۲۳۵)
مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ دعا کیوں کی تھی۔ اس کا جواب درج ذیل تحریر میں موجود ہے۔ ’’طاعون ہماری جماعت کو بڑھاتی جاتی ہے اور ہماری مخالفوں کو نابود کرتی جاتی ہے۔ ہر مہینہ میں کم ازکم پانچ آدمی اور کبھی ہزار دو ہزار آدمی بذریعہ طاعون ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے۔ اگر دس پندرہ سال تک ملک میں ایسی ہی طاعون رہی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ تمام ملک جماعت سے بھر جائے گا۔ پس مبارک خدا ہے جس نے دنیا میں طاعون کو بھیجا۔ تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم بڑھیں اور پھولیں اور ہمارے دشمن نیست ونابود ہوں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۳ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰)
پھر مرزاقادیانی کا یہ اعلان بھی تھا کہ جب تک مرزاقادیانی کو خدا کا رسول نہیں مانا جائے گا۔ یہ طاعون دور نہیں ہوگا۔ مرزاقادیانی نے لکھا: ’’جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دور نہیں ہوگی۔‘‘ (دافع البلاء ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۲۵)
’’یہ طاعون اس حالت میں فرو ہوگی۔ جب لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیں گے۔‘‘
(دافع البلاء ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۲۸)
یعنی طاعون کے آنے پر مسلمان خوف کے مارے قادیانی ہو جائیں گے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر سیدھے قادیان چلے آئیں گے۔ کیونکہ قادیان کے طاعون سے محفوظ رہنے کی پیش گوئی تھی اور خدا نے کہا تھا کہ وہ قادیان کو طاعون سے محفوظ رکھے گا۔ مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ تاتم سمجھو قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔‘‘ (دافع البلاء ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۲۶)
مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا کہ قادیان کبھی بھی طاعون کی لپیٹ میں نہیں آئے گا؟ اس نے لکھا: ’’بہرحال جب تک کہ طاعون دنیا مین رہے گو ستر برس تک رہے۔ قادیان اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰)
مرزاغلام احمد قادیانی نے اعلان کیا کہ یہ بات اسے خدا نے بتائی ہے اور اس پر خداتعالیٰ کی وحی اتری ہے اور یہ خدا کا وعدہ ہے اور خدا اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور یہ گاؤں اب خدا کی حفاظت کے پہرے میں ہے۔ اس نے لکھا: ’’خدا نے اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۰۳)
مرزاقادیانی کا کہنا ہے کہ اسے خدا نے یہ وحی بھیجی ہے۔ ’’ماکان اﷲ لیعذبہم وانت فیہم انہ اوی القریۃ لو لا الاکرام لہلک المقام‘‘ خدا ایسا نہیں ہے کہ قادیان کے لوگوں کو عذاب دے۔ حالانکہ تو ان میں رہتا ہے اور وہ اس گاؤں کو طاعون کی دستبراور اس کی تباہی سے بچا لے گا۔ اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا اور تیرا اکرام مدنظر نہ ہوتا تو میں اس گاؤں (قادیان) کو ہلاک کر دیتا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۰۳)
مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ جو مرزائی مرزاقادیانی کی چاردیواری میں آئیں گے وہ طاعون سے بچ جائیں گے۔ مرزاقادیانی نے اس کے لئے خدا کی یہ وحی سنائی۔
’’وہ خدا زمین وآسمان کا خدا ہے۔ جس کے علم اور تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں۔ اس نے مجھ پر وحی نازل کی کہ میں ہر ایک ایسے شخص کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو اس گھر کی چاردیوار میں داخل ہوگا۔‘‘ (کشتی نوح ص۲، خزائن ج۱۹ ص۲)
پھر مرزاغلام احمد قادیانی نے اس طاعون کو مخالفین کے لئے عذاب اور خود اپنے لئے رحمت قرار دیا۔ اس نے لکھا کہ: ’’ہمارے لئے طاعون رحمت ہے اور ہمارے مخالفین کے لئے زحمت اور عذاب ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱، خزائن ج۲۲ ص۵۶۹ حاشیہ)
مرزاغلام احمد قادیانی کے مذکورہ بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ طاعون مرزاقادیانی کے کہنے پر آیا تھا اور اس نے اس لئے طاعون منگوایا کہ دنیا نے ایک نذیر (یعنی مرزاقادیانی) کو قبول نہ کیا تھا۔ سو اب یہ طاعون جہاں جہاں جائے گا۔ مرزاقادیانی کے لئے رحمت ہوگا اور ان کے مخالفین کے لئے زحمت بنے گا۔ اب سب کی خیراسی میں ہے کہ وہ قادیان چلے آئیں اور مرزاقادیانی کے اپنے گھر میں پناہ لے لیں۔ ورنہ عمریں گذر جائیں گی۔ طاعون جانے کا نام نہیں لے گا اور سب کی جان لے کر چھوڑے گا۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی پیش گوئی تھی کہ قادیان اور اس کا گھر طاعون سے بچا رہے گا۔ آئیے دیکھیں کہ اس کی اس پیش گوئی کا کیا حشر ہوا اور وہ کس طرح جھوٹی نکلی۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے گویہ پیش گوئی کر دی۔ لیکن اسے پھر خوف ہوا کہ کہیں یہ رحمت ہمارے گھر پر زور دار حملہ نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے دوائیاں لے کر روزانہ گھر کی صفائی شروع کر دی۔ قادیانی ڈاکٹر محمد اسماعیل کہتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود کو… خصوصاً طاعون کے ایام میں صفائی کا اتنا خیال رہتا تھا کہ فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جاکر ڈالتے تھے۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۵۹، روایت نمبر۳۷۹)
مرزاقادیانی کا بیٹا بشیر احمد کہتا ہے: ’’بعض اوقات حضرت گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے تاکہ ضرر رساں جراثیم مر جائیں اور آپ نے ایک بڑی آہنی انگیٹھی منگوائی ہوئی تھی۔ جسے کوئلہ ڈال کر اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور اس وقت دروازے بند کر دئیے جاتے تھے۔‘‘ (سیرۃ الہدی ج۲ ص۵۹، بروایت نمبر۳۷۹)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ طاعون مرزاقادیانی کے حق میں رحمت تھا اور خود انہوں نے خدا سے مانگ رکھا تھا۔ تو پھر اس رحمت کو فینائل لے کر ختم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر جب کہ خدا نے بتا بھی دیا تھا کہ اس طاعون سے قادیان اور مرزاقادیانی کا گھر پوری طرح بچا رہے گا۔ پھر دوائیں ڈالنا اور ایندھن جلوانا اور گندھک رکھنا یہ سب کن باتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ مرزاقادیانی کو اپنے خدا پر ہی یقین نہ ہو کہ کہیں وہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اس کی پیش گوئی پوری نہ کرے اور خدا کی یہ رحمت سیدھی اس کے گھر چلی آئے۔ یا پھر مرزاقادیانی کو اپنی باتوں پر خود بھی اعتبار نہ تھا اور وہ جانتے تھے کہ یہ سب باتیں بناوٹی ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کو اس رحمت بی بی (طاعون) کا اتنا خوف پیدا ہوا کہ انہوں نے گھر میں گوشت کھانا تک چھوڑ دیا۔
صاحبزادہ بشیر احمد کہتے ہیں۔ ’’جب طاعون کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے اس (بٹیر) کا گوشت کھانا چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپ فرماتے تھے کہ اس میں طاعونی مادہ زیادہ ہے۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج۱ ص۵۰، بروایت نمبر۵۶)
آپ ہی سوچیں کہ جب خدا نے مرزاقادیانی کو بشارت سنادی تھی اور مرزاقادیانی خود اسے اپنے حق میں رحمت قرار دے چکے تھے تو اب موصوف پر اس رحمت کا اتنا خوف کیوں مسلط ہورہا تھا؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کے اپنے دل میں چور تھا اور انہیں ہر وقت فکر رہتی تھی کہ کہیں یہ رحمت بی بی انہیں اپنی بانہوں میں نہ لے لے۔ مرزاقادیانی کے خوف کا یہ عالم تھا کہ: ’’اگر کسی کارڈ کو بھی جو وبا والے شہر سے آتا چھوتے تو ہاتھ ضرور دھو لیتے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ئ)
مرزاقادیانی نے خدا سے طاعون منگوالیا تو لیکن اب وہ خود ان کے قابو میں نہیں آرہا تھا اور آہستہ آہستہ یہ طاعون قادیان کے قریب ہو گیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے حکیم دوستوں کی مدد سے طاعون سے بچاؤ کی دوا تیار کرنی شروع کر دی۔ قادیان کے مفتی محمد صادق نے اپنی ایک تقریر میں اس کا ذکر کیا۔ جو الفضل قادیان میں شائع ہوئی۔ اس کا یہ حصہ دیکھئے۔
’’جب ہندوستان میں پیش گوئی کے مطابق طاعون کا مرض پھیلا اور اس کے کیس ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود نے اس کے لئے ایک دوا تیار کی۔ جس میں کونین، جدوار، کافور، کستوری، مروارید اور بہت سی قیمتی ادویہ ڈالی گئیں اور کھرل کر کے چھوٹی چھوٹی گولیاں بنالی گئیں۔ میں نے دیکھا کہ بعض مخالف ہندو بھی آکر مانگتے تو آپ مٹھی بھر ان کو خندہ پیشانی کے ساتھ عطا کر دیتے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۴۶ئ)
مرزاقادیانی نے طاعون مخالفین کی ہلاکت کے لئے منگوایا تھا۔ ان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ ان کی پیش گوئی پوری ہورہی ہے۔ مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہورہا تھا۔ خود مرزاقادیانی کو اپنی فکر پڑی تھی اور مخالفین کو بھی بچانے کی فکر میں مبتلا ہوگئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ تعلّی اور دعوے کہاں گئے؟ کیا یہ خدا پر افتراء نہیں تھا؟ یہ بات خدا کی نہیں تھی۔ اس لئے قادیان میں رحمت بی بی (یعنی طاعون) نے قدم رکھ لیا۔ مرزابشیر احمد اعتراف کرتا ہے کہ قادیان میں سخت طاعون آیا تھا اور مرزاغلام احمد قادیانی کے پڑوسیوں کی موتیں بھی ہوئیں تھیں۔ اس نے لکھا: ’’قادیان میں طاعون آئی اور بعض اوقات کافی سخت حملے بھی ہوئے۔ مگر اپنے وعدہ کے مطابق خدا نے اسے اس تباہ کن ویرانی سے بچایا جو اس زمانہ مین دوسرے دیہات میں نظر آرہی تھی۔ پھر خدا نے حضرت مسیح موعود کے مکان کے اردگرد بھی طاعون کی تباہی دکھائی اور آپ کے پڑوسیوں میں کئی موتیں ہوئیں۔‘‘ (سلسلہ احمدیہ ص۱۲۲، مطبوعہ قادیان ۱۹۳۹ئ)
قادیانی اخبار الحکم نے مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء کی اشاعت میں لکھا: ’’’اﷲتعالیٰ کے امر ومنشاء کے ماتحت قادیان میں طاعون مارچ کی اخیر تاریخوں میں پھوٹ پڑا۔ ۴اور۶ کے درمیان روزانہ موتوں کی اوسط ہے۔
ان دنوں اخبار اہل حدیث امرتسر نے ۲۲؍اپریل ۱۹۰۴ء کی اشاعت میں بھی یہ خبر دی تھی کہ: ’’قادیان میں آج کل سخت طاعون ہے۔ مرزاقادیانی اور مولوی نوردین کے تمام مرید قادیان سے بھاگ گئے ہیں۔ مولوی نوردین کا خیمہ قادیان سے باہر ہے۔‘‘
یہ نہ سمجھئے کہ یہ اخبار مخالفین کے ہیں۔ خود مرزاقادیانی کے اپنے اخبار بدر قادیان کے ایڈیٹر نے لکھا: ’’قادیان میں جو طاعون کی چند وارداتیں ہوئی ہیں۔ ہم افسوس سے بیان کرتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ اس نشان سے ہمارے منکر اور مکذب کوئی فائدہ اٹھاتے اور خدا کے کلام کی قدر اور عظمت اور جلال ان پر کھلتی۔ انہوں نے پھر سخت ٹھوکر کھائی۔‘‘
(اخبار بدر قادیان مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ئ)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قادیان میں طاعون داخل ہوچکا تھا اور مرزاقادیانی کی رحمت بی بی بہت سے قادیانیوں کا شکار کر چکی تھی۔ بجائے اس کے کہ قادیانی اس سے عبرت حاصل کرتے اور مرزاقادیانی پر دو بول پڑھتے الٹا مخالفوں پر برسنے لگے کہ انہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے تھی۔ ان بھلے مانسوں سے کوئی پوچھے کہ قادیان میں طاعون کے نہ آنے کی پیش گوئی مرزاقادیانی کی تھی یا ان کے مخالفین کی؟ کچھ دنوں بعد جب طاعون کی شدت میں کمی آئی تو مرزاقادیانی نے لکھا: ’’آج کل ہر جگہ مرض طاعون زوروں پر ہے۔ اس لئے اگرچہ قادیان میں نسبتاً آرام ہے۔‘‘ (اخبار بدر قادیان مورخہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۲ئ)
مرزاقادیانی کے اس اعتراف سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے خدا کی یہ بات غلط ہوئی کہ قادیان طاعون سے محفوظ رہے گا۔ اگریہ بات اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہوتی تو قادیان کبھی طاعون کا شکار نہ ہوتا۔ اﷲ کی بات سچی ہوتی ہے اور وہ اپنے مقبولوں کو کبھی بے عزت نہیں کیا کرتا۔
مرزاقادیانی نے باربار لکھا کہ انہیں خدا نے بذریعہ وحی بتایا ہے کہ قادیان چونکہ اس کے نبی کی تخت گاہ ہے۔ اس لئے وہ محفوظ رہے گا۔ مگر مرزاقادیانی کا یہ نادان مرید کس طرح دجل وفریب دیتا ہے۔ اسے ملاحظہ کیجئے اس نے لکھا: ’’قادیان میں طاعون حضرت مسیح کے الہام کے ماتحت برابر کام کر رہی ہے۔‘‘ (اخبار بدر قادیان مورخہ ۱۶؍مئی ۱۹۰۳ئ)
حالانکہ لکھنا یہ چاہئے تھا کہ مرزاقادیانی کی پیش گوئی کے مطابق قادیان میں طاعون کا نام ونشان نہیں ہے۔ مگر لکھا یہ جارہا ہے کہ قادیان میں طاعون اس لئے اپنا کام کر رہا ہے کہ مرزاقادیانی نے قادیان میں طاعون کے آنے کی پیش گوئی کی تھی۔ کیا یہ کھلا جھوٹ نہیں؟ افسوس کہ مرزاقادیانی اس پر کچھ نہ بولے اور اپنے مرید کی اس غلط بیانی اور دجل کی داد دیتے رہے۔ کیونکہ اس میں ان کا اپنا ہی بھلا تھا۔
پھر مرزاغلام احمد قادیانی نے کہا تھا کہ جو قادیان میں آئے گا وہ طاعون سے بچا رہے گا اور اب نوبت یہاں تک آگئی کہ خود مرزاقادیانی قادیان چھوڑ کر بھاگ آئے اور اس نے ایک کھلے باغ میں پناہ لے لی۔ یہاں سے اس نے ایک سیٹھ کے نام خط لکھا کہ: ’’میں اس وقت تک مع اپنی جماعت کے باغ میں ہوں۔ اگرچہ اب قادیان میں طاعون نہیں ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ جو زلزلہ کی نسبت مجھے اطلاع دی گئی ہے۔ اس کی نسبت میں توجہ کر رہا ہوں۔ اگر معلوم ہوا کہ وہ واقعہ جلد اترنے والا ہے تو اس واقعہ کے ظہور کے بعد قادیان واپس چلے جائیں گے۔ بہرحال دس یا پندرہ جون تک میں اسی باغ میں ہوں۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ ص۳۹)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قادیان سے طاعون کے ختم ہونے کے باوجود مرزاقادیانی قادیان واپس جانے سے ڈرتے تھے کہ کہیں کسی کونے میں ’’رحمت بی بی‘‘ بیٹھی نہ ہو اور وہ ہلکا پھلکا حملہ ہی نہ کر دے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے کئی مریدوں نے محسوس کیا کہ مرزاقادیانی طاعون کے خوف سے قادیان سے بھاگ گئے ہیں۔ جب مرزابشیرالدین محمود کو پتہ چلا تو اس نے کہا کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے بے وقوف ہیں۔ مرزابشیرالدین کہتا ہے کہ: ’’کئی بے وقوف کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود طاعون سے ڈر کر باغ میں چلے گئے اور تعجب ہے کہ بعض احمدیوں کے منہ سے بھی یہ بات سنی ہے۔ حالانکہ طاعون کے ڈر سے حضرت نے کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ اس وقت چونکہ زلازل سے متعلق آپ کو کثرت سے الہامات ہورہے تھے۔ اس لئے… الخ!‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۱؍مئی ۱۹۳۳ئ)
مرزاقادیانی نے خدا سے طاعون کا یہ عذاب اس لئے مانگا تھا کہ مرزاقادیانی کی جماعت ترقی کرے اور ان کے مخالفین نیست ونابود ہو جائیں۔ مگر حالت یہ ہوگئی کہ مرزاقادیانی کے معتقدین یکے بعد دیگرے نیست ونابود ہورہے تھے۔ لاہور کے پیر بخش پنشنر پوسٹ ماسٹر نے مرزاقادیانی کے ان خصوصی مریدوں کے نام لکھے ہیں جو طاعون سے مرے تھے۔ لکھتے ہیں:
’’بڑے بڑے مرزائی طاعون سے ہلاک ہوئے۔ مثلاً مولوی برہان الدین جہلمی، محمد افضل ایڈیٹر البدر، اور اس کا لڑکا، مولوی عبدالکریم سیالکوٹی، مولوی محمد یوسف سنوری، عبداﷲ سنوری کا بیٹا، ڈاکٹر بوڑے خان، قاضی ضیاء الدین، ملاں جمال الدین سیدوالہ، حکیم فضل الٰہی، مرزافضل بیگ وکیل، مولوی محمد علی ساکن زیرہ، مولوی نوراحمد ساکن لودھی ننگل، ڈنگہ کا حافظ…
(تردید نبوت قادیانی ص۹۶، مطبوعہ جنوری ۱۹۲۵ئ)
مرزاقادیانی اپنے مریدوں کی موت سے بہت پریشان تھا۔ چنانچہ اس خوف سے کہ کہیں اس کی جماعت کی ترقی معکوس میں نہ ہو۔ یہ فتویٰ جاری کر دیا کہ قادیانی میت کو نہ غسل دیا جائے، نہ کفن پہنایا جائے۔ چار آدمی اس کا جنازہ لے کر چلیں اور سوگز کے فاصلے سے اس کی نماز جنازہ ادا کر کے اسے دفن کر دیا جائے۔ فتویٰ ملاحظہ کیجئے۔
’’جو خدانخواستہ اس بیماری میں مر جائے… ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کپڑا پہنانے کی ضرورت ہے… چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہر کا اثر زیادہ ترقی پکڑتا ہے۔ اس واسطے سب اس کے گرد جمع نہ ہوں۔ حسب ضرورت دو تین آدمی اس کی چارپائی کو اٹھائیں اور باقی سب دور کھڑے ہو کر مثلاً ایک سوگز کے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں۔‘‘
(مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۲۱؍مارچ ۱۹۱۵ئ)
سوقادیان میں مرزاقادیانی کے مریدوں کے جنازہ اٹھ رہے تھے اور قادیانی عوام سوالیہ نظروں سے مرزاقادیانی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسری طرف مخالفین یہ اعتراض کر رہے تھے کہ خدا کا وہ وعدہ کہاں گیا۔ جس میں قادیان کو اور قادیانیوں کو طاعون سے بچانے کی بشارت سنائی گئی تھی؟ مرزاقادیانی کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ کیونکہ میت ان کے سامنے تھی۔ جنازے اٹھ رہے تھے۔ گھروں میںکہرام مچا ہوا تھا۔ مرزاقادیانی نے مخالفین کے اعتراض کے جواب میں جو مؤقف پیش کیا پہلے اسے ملاحظہ کیجئے۔
’’اگر خدانخواستہ کوئی شخص ہماری جماعت سے اس مرض سے وفات پاجائے تو گو وہ ذلت کی موت ہوئی۔ لیکن ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اﷲ کا ہماری جماعت سے وعدہ ہے کہ وہ متقی کو اس سے بچائے گا۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۷ ص۴۹۲)
مرزاقادیانی نے تسلیم کیا کہ طاعون کی موت ذلت کی موت ہے۔ مگر چونکہ قادیانی اس کا شکار ہور ہے تھے۔ اس لئے اس کی یہ تاویل کرلی کہ خدا نے سب قادیانیوں کو بچانے کا وعدہ نہیں کیا۔ صرف متقیوں کو بچانے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن جب اس سے بھی کام نہ بنا تو اب صاف کہہ دیا کہ جو قادیانی اس ذلت کی موت مرتا ہے وہ تو مرزاقادیانی کی جماعت میں سے ہی نہیں۔ اس لئے ان پر اعتراض کہاں رہا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں: ’’اگر ہماری جماعت کا کوئی شخص طاعون سے مرجائے اور اس وجہ سے ہماری جماعت کو ملزم گردانا جائے تو ہم کہیں گے کہ یہ محض دھوکہ اور مغالطہ ہے۔ کیونکہ طاعون ثابت کرتی ہے کہ وہ فی الحقیقت جماعت سے الگ تھا۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ حصہ ۶ ص۳۵۸)
لیجئے! قصہ تمام شد!! مرزاقادیانی کا یہ بیان قادیانی عوام پر بجلی بن کر گرا۔ ایک طرف تو ان کے گھر ماتم کدہ بنے ہوئے تھے۔ اس حالت میں مرزاقادیانی پر لازم تھا کہ مرنے والے قادیانی کے گھر جاتے اور ان سے تعزیت کرتے۔ انہیں تسلی دیتے۔ مرزاقادیانی نے سرے سے ہی ان مرنے والے قادیانیوں کو جماعت سے الگ قرار دے دیا۔ آپ ہی سوچیں کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی مرزاقادیانی کو دے دی تھی اور وہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے مرزاقادیانی کا گھر پال رہے تھے۔ اگر وہ اس حادثہ کا شکار ہوگئے تو محض اپنے جھوٹ کو بچانے کے لئے ان غریب قادیانیوں کو جماعت سے خارج بتانا کیا ظلم وزیادتی نہیں ہے؟ اور کیا یہ ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی کرنا نہیں؟ کیا یہ ان دکھی گھر والوں پر حملہ نہیں؟
مرزاغلام احمد قادیانی کے اس اعلان سے کہ وہ قادیانی جماعت سے نہ تھے۔ کئی قادیانی اکھڑنے لگے اور مرزاقادیانی کے چندوں کا سلسلہ کم ہونے لگا۔ جب مرزاقادیانی کو معلوم ہوا کہ ان کے اس بیان سے کئی قادیانی جماعت سے نکل کر مخالفین کی صف میں جارہے ہیں تو اس نے ایک نیا اعلان جاری کیا کہ جو قادیانی طاعون کی موت کا شکار ہوں وہ تو شہید کہلائیں گے اور ان کی شہادت کو حضورﷺ کے صحابہ کرامe کی شہادت کے مثل بتانے تک سے دریغ نہ کیا۔ مرزاقادیانی نے لکھا: ’’بعض نادان کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے بعض لوگ بھی طاعون سے ہلاک ہوئے ہیں… ہم ایسے متعصبوں کو یہ جواب دیتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بعض لوگوں کا طاعون سے فوت ہونا بھی ایسا ہے جیسا کہ آنحضرتﷺ کے بعض صحابہe لڑائیوں میں شہید ہوتے تھے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱، خزائن ج۲۲ ص۵۶۸)
قادیانی عوام مرزاقادیانی کی یہ دورنگی چال دیکھیں کہ پہلے تو یہ کہہ کہہ کر قادیانیوں کو تسلی دی گئی کہ طاعون قادیانیوں کے حق میں خدا کی رحمت ہے اور اس سے سلسلہ کی ترقی ہوگی۔ جب کہ مخالفین تباہ ہوںگے۔ مگر جب طاعون سے خود قادیانی فوت ہونے لگے تو مرزاقادیانی نے اپنی بات کی لاج رکھنے کے لئے یہ کہا کہ وہ متقی نہ تھے۔ جب اس سے بھی کام نہ بنا تو صاف کہہ دیا کہ وہ جماعت سے خارج تھے۔ اس لئے وہ طاعون کا شکار ہوئے۔ مگر جب چندوں میں کمی ہونے لگی اور قادیانی مرزاقادیانی سے علیحدہ ہونے لگے تو جھٹ بات بدل دی اور کہا کہ یہ نہ صرف شہید ہیں بلکہ صحابہe کی مثل ہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
کیا اس دو چہرے والے آدمی سے جس کو حدیث میں منافق کہا گیا ہے۔ کچھ بھی خیر کی توقع ہوسکتی ہے؟ بڑا ہی بدنصیب ہے وہ شخص جو ان حقائق کے دیکھنے کے بعد بھی مرزاقادیانی کو خدا کا نبی اور اس کا رسول مانے۔ العیاذ باﷲ تعالیٰ!
ہماری مذکورہ گذارشات کا حاصل یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ’’قادیان‘‘ کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی کہ خدا تعالیٰ اسے محفوظ رکھے گا وہ پیش گوئی غلط نکلی اور قادیان میں طاعون پھیلا۔ پھر کئی قادیانی اس کا شکار ہوئے اور مرزاقادیانی نے خود قادیان سے بھاگنے میں عافیت سمجھی اور ایک باغ میں جاکر چھپ گئے۔
رہا یہ سوال کہ کیا مرزاقادیانی کا اپنا گھر جسے انہوں نے ’’کشتی نوح‘‘ قرار دیا تھا اور اس کی تعمیر کے لئے چندہ بھی کیا تھا۔ اس طاعون سے محفوظ رہا؟ مرزاقادیانی کے خطوط بتاتے ہیں کہ نہیں۔ اگر ان کا گھر محفوظ ہوتا تو وہ گھر چھوڑ کر کبھی باہر نہ جاتے اور نہ اپنے گھر میں دوائیں ڈال ڈال کر اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کی فکر کرتے۔ مرزاقادیانی کا یہ بیان قادیانیوں کے لئے مقام عبرت ہے کہ: ’’طاعون کے دنوں میں جب کہ قادیان میں طاعون کا زور تھا۔ میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوگیا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا۔ جس سے لڑکا بالکل بے ہوش ہوگیا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص۸۷)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرزاقادیانی کے گھر میں یہ طاعون داخل ہوا تھا۔ مرزاقادیانی کا اعتراف ملاحظہ کیجئے۔ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء کو نواب محمد علی خان کے نام لکھے گئے خط کا یہ حصہ دیکھئے۔ ’’بڑی غوثاں (نوکرانی کا نام) کو تپ ہوگیا تھا۔ اس کو گھر سے نکال دیا ہے۔ لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے۔ ماسٹر محمد دین کو تپ ہوگیا اور گلٹی نکل آئی۔ اس کو بھی باہر نکال دیاہے۔ میں تو دن رات دعا کر رہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعا کی گئی کہ بعض اوقات ایسا بیمار ہوگیا کہ یہ وہم گذرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اور خطرناک آثار ظاہر ہوگئے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ ص۱۱۵)
لاہور کے پیربخش پنشنر پوسٹ ماسٹر لکھتے ہیں: ’’خاص مرزاقادیانی کے گھر میں عبدالکریم اور پیراں دتہ طاعون سے ہلاک ہوئے۔‘‘ (تردید قادیانی ص۹۶)
مرزاقادیانی کے خدا نے بذریعہ وحی بتایا تھا کہ اس کی چاردیواری طاعون سے محفوظ رہے گی۔ لیکن مرزاقادیانی کی چاردیواری بھی محفوظ نہ رہی۔ اگر نہیں واقعی اس وحی پر یقین ہوتا تو وہ اپنے نوکر اور نوکرانی کو کبھی گھر سے باہر نہ نکالتا۔ ان دونوں کا طاعون کی لپٹ میں آنا اور مرزاقادیانی کا گھبرا کر دونوں کو نکال دینا واضح کرتا ہے کہ مرزاقادیانی کی یہ رحمت بی بی (طاعون) اس کے گھر قدم رنجہ فرما چکی تھی۔ معلوم نہیں مرزاقادیانی نے گھر بلائے مہمان کو باربار نکالنے کی کوشش کیوں کی اور وہ کیوں فینائل ڈال کر اسے ختم کرنے کی سازشیں کرتے رہے؟
مرزاقادیانی کا یہ خوف اور ان کی یہ احتیاط اور بچاؤ کی متعدد ترکیبیں ثابت کرتی ہیں کہ مرزاقادیانی اپنی پیش گوئی میں جھوٹے تھے اور انہوں نے جھوٹ بول کر اپنے لئے لعنت کا داغ خریدا۔ یہ الفاظ ان کے ہیں اور ہم انہی کے الفاظ انہی کی نذر کرتے ہیں۔
’’خدا پر جھوٹ باندھنا لعنت کا داغ خریدنا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۱۸، تریاق القلوب ص۱۱۹، خزائن ج۱۵ ص۴۰۹)
آپ ہی فیصلہ کریں کہ جو خدا پر جھوٹ باندھ کر لعنت کا داغ خریدتا ہے تو کیا یہ داغ اسے نہیں ملے گا۔ جو اس جھوٹ کو نہ صرف یہ کہ مانتا ہے۔ بلکہ اس جھوٹے کو خدا کا مامور قرار دینے سے بھی باز نہیں آتا۔ قادیانی عوام سوچیں کہ لعنت کا داغ خریدنا عقلمندی ہے؟
زلزلہ
’’زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ ص۹۳، خزائن ج۲۱ ص۲۵۳)
مرزاقادیانی کے اس بیان پر قادیانیوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب بات کسی کنارے لگی ہے۔ اگر یہ زلزلہ مرزاقادیانی کی زندگی میں نہ آیا اور مخالفین کو دھکا نہیں لگا تو پھر قادیانیوں کی خیر نہیں۔ زلزلہ کا نہ آنا نہ صرف یہ کہ قادیانیوں کے لئے قیامت کا نمونہ ہوگا۔ بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی کا پرلے درجے کا جھوٹا ہونا اور اﷲ پر جھوٹ باندھنا بھی سب پر کھل جائے گا۔ مرزاقادیانی اور ان کے اصحاب زلزلہ آنے کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ لیکن زلزلہ کو نہ آنا تھا نہ وہ آیا۔
مرزاغلام احمد قادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ۱۹۰۵ئ) میں لکھنی شروع کی اور اس کا ضمیمہ اس کے بھی بعد لکھا۔ یہ کتاب مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۰۸ء کو (یعنی مرزاقادیانی کے فوت ہونے کے تقریباً پانچ مہینے کے بعد) شائع ہوئی۔ آپ کسی بھی قادیانی سے دریافت کریں کہ کیا مرزاقادیانی کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی تھی؟ کیا (براہین احمدیہ حصہ پنجم) کی مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد مرزاقادیانی کی زندگی میں یہ زلزلہ آیا تھا؟ اگر نہیں آیا اور یقینا نہیں آیا تو آپ ہی بتائیں کہ مرزاقادیانی پر آنے والی زلزلہ کی باربار وحی اختراعی یا شیطانی نہیں تو اور کیا تھی؟ اگر یہ بات رحمانی ہوتی تو خداتعالیٰ کی یہ بات ضرور پوری ہوتی اﷲتعالیٰ اپنی بات ہمیشہ پوری کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی کی یہ بات اس لئے پوری نہیں ہوئی کہ وہ مفتری اور کذاب تھا۔ سو خداتعالیٰ نے اسی دنیا میں اسے ذلیل ورسوا کردیا۔
ہم قادیانی عوام سے گذارش کریں گے کہ وہ مرزاغلام احمد قادیانی کی اس عبارت کو پھر سے پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ مرزاغلام احمد قادیانی اپنی بات میں سچا تھا یا یہ جھوٹ کا کاروبار تھا۔ جو اس نے چلا رکھا تھا۔ مرزاقادیانی نے لکھا: ’’آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیش گوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں۔ اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۲، خزائن ج۲۱ ص۲۵۳)
مرزاقادیانی کے دعویٰ کے مطابق ان کی زندگی میں زلزلہ نہیں آیا اور مرزاقادیانی بقلم خود کذاب ٹھہرے اور انہوں نے یہ فیصلہ دے دیا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں۔ اب بھی اگر قادیانی عوام مرزاقادیانی کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مانیں تو یہ ان کی بدبختی اور بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار!
 
Top