• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(مرزاقادیانی کی کمینی خوشامد)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کی کمینی خوشامد)
اتنی بلندی سے وہ (مرزاغلام احمد) اس قدر ذلت کی گہرائی میں چلا جاتا ہے۔ کیا آپ کو کہیں بھی اس قسم کی (گھٹیا) خوشامد مل سکتی ہے؟ ایک نام نہاد نبی کا یہ کمینہ پن! کیا کوئی نبی ایسی فطرت کا مالک ہو سکتا ہے؟ میں کہوں گا کہ اس قسم کے خط لکھنے والے نبی کی نبوت کا انکار اگر کفر ہے تو پھر میں خود سب سے بڑا کافر ہوں۔
گر کفر این بود بخدا سخت کافرم
اب اس خط کو دیکھیں اور اس خط کے لکھنے والے کو دیکھیں۔ کوئی انسان ایک عام آدمی جسے اپنی عزت نفس کا ذرہ بھر بھی احساس ہے۔ جس کا اﷲ پر تھوڑا سا بھی یقین ہے، جس کو اپنے آپ پر تھوڑا سا بھی اعتماد ہے۔ کبھی اس قسم کی بات نہیں کرے گا۔ وہ نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہاں قائداعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ (اسمبلی ہال کے اندر لگی ہوئی قائداعظم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ۲؍جون ۱۹۴۷ء کو کیا ہوا؟ آپ سب کو معلوم ہے۔ اس کا ذکر کیمبل جانسن کی کتاب میں موجود ہے۔ مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم نے اس بات کی رپوٹ کرنا تھی کہ انہیں ۳؍جون والا پلان قابل قبول ہے یا نہیں۔ کیا مسلم لیگ کو وہ پاکستان منظور تھا جسے وہ (برٹش گورنمنٹ) مسلمانوں کو دے رہے تھے۔ کیمبل جانسن لکھتا ہے کہ وائسرائے مسٹر جناح کے لئے سارا دن انتظار کرتا رہا۔ مسٹر جناح آدھی رات سے صرف ایک منٹ پہلے وہاں پہنچے، وائسرائے نے پوچھا۔ مسٹر جناح آپ کا کیا جواب ہے۔ مسٹر جناح کا جواب تھا ’’میں اس کو مانتا تو نہیں۔ مگر قبول کرتا ہوں۔‘‘ (ان دونوں میں) فرق کیا ہے۔ وائسرائے نے کہا۔ مسٹر جناح کا جواب بالکل سیدھا سادہ تھا۔ ’’میں اس پلان کو پسند نہیں کرتا۔ اس لئے میں اس کو نہیں مانتا۔ مگر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ آپ نے میرا پنجاب تقسیم کر دیا ہے۔ آپ نے میرا بنگال تقسیم کر دیا ہے۔ تو پھر میں خوش کیسے ہو سکتا ہوں۔ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اسے قبول کر رہا ہوں۔ میں پارٹی کا صرف سربراہ ہوں۔ اس بات کا فیصلہ مسلم لیگ کونسل نے کرنا ہے۔ جس میں دو ہفتے لگیں گے۔ اس لئے میں مسلم لیگ کونسل کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ معلوم نہیں کونسل منظور کرے گی یا نہیں۔ تاہم میں انہیں منظور کرنے کا مشورہ دوں گا۔ کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں۔ لارڈ مونٹ بیٹن بڑے غصہ میں تھا۔ اس نے کہا میں یہ بات نہیں مان سکتا۔ کل اس کا اعلان ہونا ہے۔ کانگریس اپنی کونسل یا کمیٹی کی طرف سے پلان منظور کر چکی ہے۔ تو پھر آپ کیسے منظور نہیں کر سکتے۔‘‘ مسٹر جناح نے جواب دیا۔ ’’میری جماعت ایک سیاسی جماعت ہے۔ جس کی بنیاد سیاسی اصولوں پر قائم ہے۔ اپنے عوام کی منظوری حاصل کرنے کے لئے مجھے ان کے پاس جانا ہوگا۔‘‘ اس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا۔ ’’تو پھر مسٹر جناح اگر آپ مسلم لیگ کی طرف سے مجھے یقین دہانی نہیں کرا سکتے تو آپ کو پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھونا ہوں گے۔‘‘ مسٹر جناح کا کیا جواب تھا؟ یہ ستر سال کی عمر کا وہ بوڑھا شخص تھا جس نے اپنی زندگی دشت سیاست میں گزاری تھی۔ وہ مجوزہ ملک (پاکستان) کا سربراہ بننے والا تھا۔ وہ اس ملک کا مالک یا حاکم بننے والا تھا۔ اس کا اﷲ پر بھروسہ اور ایمان تھا۔ اس نے کوئی کمزوری نہ دکھائی اور (باوقار طریقہ سے) جواباً کہا۔ ’’جو ہو، سو ہو، کچھ بھی ہو۔‘‘ اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ یہ ایک ایسے شخص کا جواب تھا۔ جس میں ایمان موجود تھا۔ جو اﷲ پر یقین رکھتا تھا وائسراے کو اس کے پیچھے بھاگنا پڑا تاکہ اس سے واپس آجانے کی درخواست کرے۔ وائسرائے نے کہا۔ ’’مسٹر جناح مسلم لیگ کی طرف سے میں کل صبح یقین دہانی کرادوں گا کہ وہ (پلان کو) منظور کر لے گی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ آپ کا مشورہ ضرور مان لے گی۔ آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ آپ نے اس کو منظور کر لیا ہے۔‘‘ مسٹر جناح نے کہا۔ ’’ہاں! ٹھیک ہے۔ میں یہ کہہ دوں گا۔‘‘ اور اس طرح پاکستان معرض وجود میں آیا۔ قائداعظم پاکستان گنوا سکتے تھے۔ انہیں یہ سوچ آسکتی تھی کہ ملک جارہا ہے۔ میں قوم کی طرف سے منظوری کا اظہار کروں۔ لیکن ایسا نہیں تھا وہ شخص یقین کامل کا مالک تھا۔ ہمیں اس شخص (قائداعظم) کا موازنہ اس شخص (مرزاغلام احمد) سے نہیں کرنا چاہئے۔ جونبی ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر اس قسم کے خط لکھ کر دنیاوی قوت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ مرزاغلام احمد کے رویہ کی وجہ سے مجھے مایوسی ہوئی۔ مجھے جذبات کی رو میں نہیں بہہ جانا چاہئے تھا۔ علامہ اقبال نے کہا ؎
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اس کا بالکل یہی مطلب ہے۔
جناب والا! اب میں دوسرے پیراگراف کی طرف آتا ہوں۔ وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے: ’’سرکار دولت مدار کو ایسے خاندان کی نسبت جس کے پچاس برس کے متواتر تجربے سے وفادار اور جانثار ثابت کر چکی ہے… اس خود کاشتہ پودے سے نہایت ضروری احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت افسران کو ارشاد فرمائیں کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور خدمات کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو خاص عنایت کی نظر سے دیکھیں۔‘‘
(درخواست بحضور برٹش گورنمنٹ ملحقہ کتاب البریہ ، مندرجہ خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)
وہ (مرزاغلام احمد) بڑے ادب کے ساتھ لیفٹیننٹ گورنر بہادر کو التجا کرتا ہے کہ اس کا خاندان پچاس سالوں سے آزمایا جاتا رہا ہے اور بلا کم وکاست گورنمنٹ کا پورا پورا وفادار ثابت ہوچکا ہے۔ اس لئے گورنمنٹ اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کرے۔ لیفٹیننٹ گورنر بہادر اس پر اور اس کے پیروکاروں (جماعت) پر مزید کرم نوازی کرے۔ انہیں پورا تحفظ دے اور اس کے خاندان کی وفاداری کے پیش نظر جو کہ گورنمنٹ کے مفاد کی خاطر کی جاتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ اور اس کی جماعت کے ساتھ ترجیحانہ سلوک کرے۔
 
Top