(مرزاقادیانی کے اقوال میں تضاد ہے)
جناب عبدالمنان عمر: ہاں، میں عرض کرتاہوں، میں نے گزارش یہ کیا ہے کہ جب ایک لفظ دو مختلف معنوں میں استعمال کیا جارہا ہو، اور دومختلف معنی متضاد بھی ہوں۔ جیسے ’’شیر‘‘ کے لفظی معنی، کل آپ نے بھی مثال بیان فرمائی کہ وہ شخص ایک معنوں میں شیر ہوگا بوجہ اپنی بہادری کے۔ مگر ایک معنی میں وہ شیر نہیں ہوگا بوجہ اپنی درندگی کے نہ ہونے کے۔ یہ دو باتیں بڑی واضح باتیں ہیں۔ یہی چیز مرزا صاحب کے اقوال میں ہے کہ لفظ ’’نبی‘‘ کی دو تشریحیں ہیں۔ دونوں متضاد تشریحیں ہیں۔ جب ایک تشریح کو مرزا صاحب مدنظر رکھتے ہیں تو اقرار کرتے ہیں۔ جب دوسری تشریح ان کے سامنے آتی ہے۔ تو انکار کرتے ہیں۔ یہ چیزیں ان کی ساری تحریرات میں موجود ہیں…
جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ…
جناب عبدالمنان عمر: …کیونکہ امت میں…مجھے گزارش کرنے دیں…
1738جناب یحییٰ بختیار: آپ کی توجہ میں ایک دو اور حوالوں کی طرف دلاتا ہوں…
جناب عبدالمنان عمر: جناب!مجھے گزارش کرنے دیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کر لیجئے۔
جناب عبدالمنان عمر: آپ کے…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی۔
جناب عبدالمنان عمر: تومیں گزارش یہ کر رہا تھا کہ لفظ ’’نبی‘‘ اور لفظ ’’محدث‘‘ امت کے اندر، مرزا صاحب کے نہیں صرف۔ امت کے اندر دو بالکل متضاد معنوں میں، استعمال ہوئے ہیں یہ لفظ۔ جس طرح میں نے ابھی ’’شیر‘‘ کی مثال دی ہے۔ اسی طرح ’’نبی‘‘ کا لفظ جو ہے۔ امت میں دو معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ ایک اس کے معنی وہی ہیں جو حقیقی ہیں اور دوسرے ہیں’’جس پر اظہار غیب ہو یعنی خدا تعالیٰ اس پر نزول کلام کرے۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ نے درست فرمایا۔ توپھر آپ کیوں اس بات سے احتجاج کرتے ہیں۔ Hesitate (ٹال مٹول) کرتے ہیں کہ وہ نبی نہیں تھے۔ وہ دوسرے معنی میں، جیسے ربوہ والے کہتے ہیں۔ آپ بھی کہہ دیا کریں۔ آپ کیوں اس پر Insist (اصرار) کرتے ہیں کہ ’’ہم اس کو کسی رنگ میں بھی نبی نہیں کہتے ہیں؟‘‘
جناب عبدالمنان عمر: اگر آپ مجھے جواب ختم کرنے دیں۔ پھر آپ جو ارشاد فرمائیں، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: تو میرا…کیونکہ بیچ میں گفتگو ہوتی ہے، یکے بعد دیگر حوالے پیش ہوتے ہیں…ان کا اعتراض بڑاموزوں تھا کہ جناب!اس کی تشریح ہو جانی چاہئے۔ اس بات کی، وہ ابھی تشریح ختم نہیں ہوتی کہ ایک اگلی بات آتی ہے۔